منگتے میرے عہد کے
خان صاحب کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا فن خوب جانتے ہیں
گل نیلے اور کاغذ کی سیزر بیچ سکتا ہے
یہ سبی میں جا کر گیزر بیچ سکتا ہے
بڑا تجربہ ہے اسے سیلز مینی کا
بحر منجمد میں جا کر ڈیپ فریزر بیچ سکتا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم محترم جناب عمران خان صاحب مندرجہ بالا خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو وہ خبر پڑھ لی جائے جس میں بتایا گیا ہے کہ 15 اپریل کو فیصل ایدھی وزیراعظم عمران خان سے ملے تھے اور انہیں ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک کروڑ روپے کا چیک دیا تھا۔ سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے وزیراعظم کو یہ چیک کورونا وائرس ریلیف فنڈ کےلیے دیا گیا تھا۔
ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ایسا خیراتی ادارہ جسے دنیا بھر کے لوگ اپنی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات دیتے ہیں، وہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں پیسے جمع کروائے۔ ( یہ بات شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں اس سلسلے میں علمائے اکرم سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک خیراتی ادارہ اپنی خیرات میں سے حکومت کو خیرات دے سکتا ہے یا نہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگوں سے اکھٹی کی ہوئی رقم تھی، فیصل ایدھی کی ذاتی رقم نہیں۔ کیونکہ اگر لوگوں نے اپنے صدقات اور زکوٰۃ وزیراعظم کو ہی دینے ہوتے، وہ ایدھی فاونڈیشن کو کیوں دیتے، شاید لوگوں کو حکومت پر اعتبار نہیں تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے حکومت کے خیراتی نظام کے بجائے نجی خیراتی ادارے کا انتخاب کیا) خان صاحب کو بہرحال یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا فن جانتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ اگر ہم پی ٹی آئی کے دو سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے خان صاحب ملک کے وسیع تر مفاد میں اس سے پہلے بھی یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں وہ ملک کے بڑے اینکرز سے مل کر لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے اشرافیہ سے غریب عوام کےلیے 55 کروڑ روپے نکلوانے میں کامیاب رہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے یہ کارنامہ ایک ایسے وقت میں انجام دیا جب دنیا بھر کی حکومتیں اپنے عوام و خواص پر خرچ کررہی ہیں۔
خان صاحب ملکی تاریخ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو یقینی بنایا۔ اگرچہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا ملک کے وسیع تر مفاد میں کھل کر اظہار نہ کیا جاسکا۔ (اس کی تفصیلات اپنے بلاگ ''لوٹی ہوئی دولت'' کی واپسی میں لکھ چکا ہوں)۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: لوٹی ہوئی دولت کی واپسی؟
لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ قوم منتظر ہے کہ کب وزیراعظم آٹا چینی بحران کے ذمے داروں سے کروڑوں روپے وصول کریں گے۔ قوم منتظر ہے کہ کب نیب وزیراعظم کے اردگرد موجود لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو عملی شکل دے گی۔
قوم منتظر ہے کہ کب بجلی اسیکنڈل میں ملوث لوگوں سے وصولیاں ہوں گی۔
قوم منتظر ہے کہ کب اپوزیشن کے وہ تمام لوگ جن کے کرپٹ ہونے کے بارے میں خان صاحب بیتے برسوں میں قوم کو آگاہ کرتے رہے، کب ان سے قوم کے خون پسینے کی کمائی کو واپس لے کر قوم کے قدموں میں نچھاور کریں گے۔ یا پھر اب جبکہ اقتدار کی ہما ان کے سر پر بیٹھ چکی ہے، اب بھی خان صاحب دعوے اور اعلانات ہی کرتے رہیں گے، اور خاتون اول ان کو بتائیں گی کہ جناب آپ وزیراعظم ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب! یہ ملک چندوں سے نہیں چلنے والا، اس کےلیے آپ براہِ کرم چندہ نہیں ڈنڈا لے کر کرپٹ لوگوں کا پیچھا کیجئے۔ یقینی بات ہے کہ پھر آپ ایدھی کو دیں گے، لیں گے نہیں۔ بصورت دیگر یہ نہ ہو آپ کی حکومت کے پانچ سال مانگتے مانگتے گزر جائیں۔ اور اگر آپ نے یہ بظاہر ناممکن کام ممکن کرلیا تو آپ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگ کہیں کہ
کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تاقیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہنا کہ خان مر گیا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ سبی میں جا کر گیزر بیچ سکتا ہے
بڑا تجربہ ہے اسے سیلز مینی کا
بحر منجمد میں جا کر ڈیپ فریزر بیچ سکتا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم محترم جناب عمران خان صاحب مندرجہ بالا خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو وہ خبر پڑھ لی جائے جس میں بتایا گیا ہے کہ 15 اپریل کو فیصل ایدھی وزیراعظم عمران خان سے ملے تھے اور انہیں ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک کروڑ روپے کا چیک دیا تھا۔ سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے وزیراعظم کو یہ چیک کورونا وائرس ریلیف فنڈ کےلیے دیا گیا تھا۔
ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ایسا خیراتی ادارہ جسے دنیا بھر کے لوگ اپنی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات دیتے ہیں، وہ وزیراعظم کے ریلیف فنڈ میں پیسے جمع کروائے۔ ( یہ بات شرعی لحاظ سے درست ہے یا نہیں اس سلسلے میں علمائے اکرم سے مشاورت کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک خیراتی ادارہ اپنی خیرات میں سے حکومت کو خیرات دے سکتا ہے یا نہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگوں سے اکھٹی کی ہوئی رقم تھی، فیصل ایدھی کی ذاتی رقم نہیں۔ کیونکہ اگر لوگوں نے اپنے صدقات اور زکوٰۃ وزیراعظم کو ہی دینے ہوتے، وہ ایدھی فاونڈیشن کو کیوں دیتے، شاید لوگوں کو حکومت پر اعتبار نہیں تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے حکومت کے خیراتی نظام کے بجائے نجی خیراتی ادارے کا انتخاب کیا) خان صاحب کو بہرحال یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا فن جانتے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ اگر ہم پی ٹی آئی کے دو سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے خان صاحب ملک کے وسیع تر مفاد میں اس سے پہلے بھی یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں وہ ملک کے بڑے اینکرز سے مل کر لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے اشرافیہ سے غریب عوام کےلیے 55 کروڑ روپے نکلوانے میں کامیاب رہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نے یہ کارنامہ ایک ایسے وقت میں انجام دیا جب دنیا بھر کی حکومتیں اپنے عوام و خواص پر خرچ کررہی ہیں۔
خان صاحب ملکی تاریخ کے واحد وزیراعظم ہیں جنہوں نے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو یقینی بنایا۔ اگرچہ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا ملک کے وسیع تر مفاد میں کھل کر اظہار نہ کیا جاسکا۔ (اس کی تفصیلات اپنے بلاگ ''لوٹی ہوئی دولت'' کی واپسی میں لکھ چکا ہوں)۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: لوٹی ہوئی دولت کی واپسی؟
لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ قوم منتظر ہے کہ کب وزیراعظم آٹا چینی بحران کے ذمے داروں سے کروڑوں روپے وصول کریں گے۔ قوم منتظر ہے کہ کب نیب وزیراعظم کے اردگرد موجود لوگوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کو عملی شکل دے گی۔
قوم منتظر ہے کہ کب بجلی اسیکنڈل میں ملوث لوگوں سے وصولیاں ہوں گی۔
قوم منتظر ہے کہ کب اپوزیشن کے وہ تمام لوگ جن کے کرپٹ ہونے کے بارے میں خان صاحب بیتے برسوں میں قوم کو آگاہ کرتے رہے، کب ان سے قوم کے خون پسینے کی کمائی کو واپس لے کر قوم کے قدموں میں نچھاور کریں گے۔ یا پھر اب جبکہ اقتدار کی ہما ان کے سر پر بیٹھ چکی ہے، اب بھی خان صاحب دعوے اور اعلانات ہی کرتے رہیں گے، اور خاتون اول ان کو بتائیں گی کہ جناب آپ وزیراعظم ہیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب! یہ ملک چندوں سے نہیں چلنے والا، اس کےلیے آپ براہِ کرم چندہ نہیں ڈنڈا لے کر کرپٹ لوگوں کا پیچھا کیجئے۔ یقینی بات ہے کہ پھر آپ ایدھی کو دیں گے، لیں گے نہیں۔ بصورت دیگر یہ نہ ہو آپ کی حکومت کے پانچ سال مانگتے مانگتے گزر جائیں۔ اور اگر آپ نے یہ بظاہر ناممکن کام ممکن کرلیا تو آپ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگ کہیں کہ
کتنے قطروں کو سمندر کر گیا
کام پورا کر کے اپنے گھر گیا
تاقیامت وہ رہے گا جاوداں
کوئی نہ کہنا کہ خان مر گیا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔