’’اختلاف برائے اختلاف‘‘
پرانے وقتوں میں اس معاملے کو اخلاقیات کے حوالے سے حل کرنے کا روّیہ غالب نظر آتا ہے
اختلاف کی ضرورت اور اہمیت سے تو انکارممکن نہیں کہ دنیا کی ساری ترقی کا دارومدار کسی نہ کسی طرح اختلاف ہی کا مرہونِ منت ہے کہ اگر کسی بات کے غلط یا تصحیح طلب حصے سے اختلاف نہ کیا جائے تو وہ راسخ ہوکر سچ کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔اُستاد کی عزت اور احترام اپنی جگہ لیکن اگر شاگرد میں اختلاف رائے کی ہمت، حوصلہ ، دانش اور صلاحیت نہ ہوتو صدیوں تک زمین چپٹی اور سورج کو اُس کے گرد گھومنے کا کام ہی سونپا جاسکتا ہے ۔ہیگل اور کال مارکس کے فلسفے میں اسی اختلاف کی موجودگی اور کسی تھیسس اوراُس کے اینٹی تھیسس کے باہمی تعامل سے ایک نئے تھیسس کی پیدائش کی وضاحت کی گئی ہے ۔
پرانے وقتوں میں اس معاملے کو اخلاقیات کے حوالے سے حل کرنے کا روّیہ غالب نظر آتا ہے اور سعدیؔ جیسا دانا اور جہاں دیدہ شخص بھی بظاہر'' خطائے بزرگاں گرفتن خطا است''یعنی بزرگوں کی غلطی کی نشاندہی بھی غلطی ہے کا پرچار کرتا نظر آتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا اور اس بات کو سمجھا جائے تو اخلاقیات کی حد تک تو اس کی کچھ نہ کچھ گنجائش نکالی جاسکتی ہے مگر اسے پوری اور عملی زندگی پر لاگو کرنے کا مطلب اس حقیقت سے انکار کرنا ہے کہ رب کریم نے زمین و آسمان ، چرند پرند ، موسموں کی تبدیلیوں ، ستاروں اور مختلف چیزوں او ر مخلوقات کی مثالیں دے دے کر بار بار ہمیں غور اور تفکرّ کرنے کی دعوت اسی لیے دی ہے کہ ہم ہمالیہ پہاڑ سے لے کر کورونا کے وائرس تک ہر چیز کی غائت اور نوعیت کوسمجھنے کی کوشش کریں اور اس کوشش میں اگر ہمیں اپنے بزرگوں سے اختلاف بھی کرنا پڑے تو ضرور کریں مگر یہ کام تمیز اور سلیقے سے ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے بعد آنے والوں نے بالکل اسی طرح ہماری غلطیوں کو بھی اُجاگر اور درست کرنا ہے اس ساری تمہید کا مطلب یہی ہے کہ ہمارا کام بہتر سے بہتر اور خیر کی تلاش ہونا چاہیے ۔
اس عمل میں راستے، تفہیم ، نقطہ نظر اور مطلوبہ نتیجے میں فرق کا امکان ہمیشہ رہے گا کہ ہر آدمی فطرتاً اپنے اور اپنی صف کے گزشتہ اور موجودہ بڑوں کی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر نیّت سچ مچ خیر کا حصول ہو توجلد یا بدیر سچ ہر چیز پر غالب آجاتاہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو ہوش رُبا ترقی گزشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے ا ُس میں تحقیق کے ذریعے کسی ایسے نتیجے پر پہنچنا آسان ہوگیا ہے جس میں کسی رائج نظریئے سے اختلاف کو عقل و دانش اور تجربے کے حوالے سے ایک نئی اور متفقہ شکل دی جاسکتی ہے لیکن دیگر معاملات میں یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ لوگ دوسرے کی بات سننے ، سمجھنے اور اُس کے صحیح حصے کو تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اختلاف برائے اتفاق کے بجائے اختلاف برائے اختلاف ہی کو ترجیح دیتے ہیں مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کو ایک طرف رکھ کر بات کی بجائے اور اگر مقصد سچ کی تلاش اور خلق خدا کی بھلائی ہو تو اپنی ذات اور جھوٹی انا کے بت کو گرا یا ہٹا کربات کرنی چاہیے۔
اب مثال کے طور پر ہمارے تمام ٹی وی چینلز پر چلنے و الے ٹاک شوز کو ہی دیکھ لیجیے اینکر حضرات عام طور پر گفتگو کا آغاز ہی ایسے اندازمیں کرتے ہیں کہ شرکائے گفتگو جو مختلف سیاسی ، مذہبی یا تہذیبی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوں اُن کو مرغوں کی طرح آپس میں لڑایا جائے تاکہ شو گرم ہو اور وہ اپنا نمک حلال اور پروگرام کی ریٹنگ کو بڑھا سکیں دوسری طرف جن شرکا کو بحث میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے وہ پہلے سے ''میں نہ مانوں'' کا روّیہ لے کر شریک گفتگو ہوتے ہیں اور اُن کا واحد مقصد اپنی بات یا مسئلے کی وکالت اور وضاحت کے بجائے مخالفین کی توہین یا الزام تراشی ہوتا ہے، یہ بات ایک حد تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگر مقصد ہی اپنا دفاع اور مخالفین کی سرکوبی ہو تو کوئی بھی کھلے دل سے دوسرے کی بات سننے ، سمجھنے یا اُس کی دلیل کو اپنی دلیل کے مقابلے میں بہتر ماننے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتا، سو درست تو رہا ایک طرف کوئی درمیانہ راستہ بھی نہیں نکل پاتا اگرچہ بیشتر بھارتی ٹی وی چینلز اس ضمن میں ناقابلِ یقین حد تک پستی میں اُتر چکے ہیں اور وہاں کے اینکرز اور سدھاے ہوئے شرکائے گفتگو کی زبان ، لہجہ، انداز اور جارحیت اخلاق کی ہر حد کو پار کر چکی ہے مگر اب آہستہ آہستہ یہ وبا واہگہ بارڈر کراس کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
حکومتی نمائندے ہوں یا اپوزیشن کے ترجمان نہ صرف یہ کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ ہر آدمی سوال کا جواب دینے کے بجائے ایک نیا سوال داغ دیتا ہے اور یوں کسی بھی پروگرام کے اختتام تک بقول جمیل ملک مرحوم یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ ''حکم کیا ہے''۔ قومی، ملکی یا عوامی مفاد نام کی کوئی چیز ان بحثوں میں دُور دُور تک نظر نہیں آتی اس ضمن میں بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا کہ میرا مقصد صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ کورونا ایک بین الاقوامی اور ایک خاص حد تک ہمارا قومی مسئلہ ہے جس کا حل بھی ہم نے پہلے قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر تلاش کرنا ہے اور اس میں ہرگز ہرگز مرکز اور صوبوں کے درمیان کسی قسم کی ضد بازی اور الزام تراشی کی گنجائش نہیں۔کورونا کے متاثرین یا اس کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والے لوگ کسی بھی صوبے یا علاقے سے ہو وہ سب سے پہلے اور صرف پاکستانی ہیں اسی طرح ڈاکٹرز اور طبی عملہ یا سیکیورٹی ڈیوٹی انجام دینے والے تمام بہادر اور قابلِ تعریف لوگ صرف اور صرف پاکستانی ہیں، خدا کے لیے ان کو پارٹیوں یا صوبوں میں نہ بانٹئے۔
سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ مسئلہ ہم سب کا سانجھا ہے کہ موت اور وبا کسی گھر میں یہ پوچھ کر داخل نہیں ہوتی کہ اُس کا تعلق کس صوبے یا سیاسی جماعت سے ہے، اپنی پارٹیوں سے وفاداری ضرور نبھایئے مگر عوام کے مفاد کی قیمت پر نہیں۔لاک ڈاؤن کی پالیسی کے تضادات ہوں یا امدادی رقوم اور راشن کی تقسیم کا مسئلہ، طبی سہولتوں کا فقدان ہو یا بے روزگاری کی فراوانی یہ سب مسئلے ہم سب کے سانجھے ہیں، ان پر پوائنٹ اسکورنگ ایک قومی جرم ہے۔
ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہمارے اینکر حضرات اور چند گنے چنے مختلف پارٹیوںکے نامزد کردہ نمائندے اس Blame game کے بے نتیجہ دائرے سے باہر نکلیں اور ملکی مسائل پر سنجیدگی اور ذمے داری سے مکالمہ کرنے کی روش کو اپنائیں کہ ان سب کو اپنے حاکموں اور لیڈروں کو ہی جواب نہیں دینا، یہ عوام اور تاریخ کو بھی جوابدہ ہیں اور ایک دن ہم سب کو ایک ایسے دربار میں بھی پیش ہونا ہے جہاں ہر ایک کی فردِ عمل اُس کے اپنے ہاتھ میں ہوگی اختلاف ضرور کریں مگر اس کا مقصد ایک ایسے اتفاق تک رسائی ہونی چاہیے جس میں ہم سب کا بھلا ہو اور جہاں پر محبت کا پہلا اور آخری مقصد خیر کا حصول ہو ورنہ مولانا حالیؔ کا یہ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے کا کہا ہوا شعر ہمارے ''آج'' پر بھی لاگو ہوجائیگا اور یہ کس قدر افسوس کی بات ہوگی کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے نظر آئیں جہاں آج سے ڈیڑھ صدی پہلے تھے۔
مدرسے میں دہر کے رُوبر قفا بیٹھے تھے ہم
بس اُٹھے ویسے ہی کورے جیسے جا بیٹھے تھے ہم
پرانے وقتوں میں اس معاملے کو اخلاقیات کے حوالے سے حل کرنے کا روّیہ غالب نظر آتا ہے اور سعدیؔ جیسا دانا اور جہاں دیدہ شخص بھی بظاہر'' خطائے بزرگاں گرفتن خطا است''یعنی بزرگوں کی غلطی کی نشاندہی بھی غلطی ہے کا پرچار کرتا نظر آتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا اور اس بات کو سمجھا جائے تو اخلاقیات کی حد تک تو اس کی کچھ نہ کچھ گنجائش نکالی جاسکتی ہے مگر اسے پوری اور عملی زندگی پر لاگو کرنے کا مطلب اس حقیقت سے انکار کرنا ہے کہ رب کریم نے زمین و آسمان ، چرند پرند ، موسموں کی تبدیلیوں ، ستاروں اور مختلف چیزوں او ر مخلوقات کی مثالیں دے دے کر بار بار ہمیں غور اور تفکرّ کرنے کی دعوت اسی لیے دی ہے کہ ہم ہمالیہ پہاڑ سے لے کر کورونا کے وائرس تک ہر چیز کی غائت اور نوعیت کوسمجھنے کی کوشش کریں اور اس کوشش میں اگر ہمیں اپنے بزرگوں سے اختلاف بھی کرنا پڑے تو ضرور کریں مگر یہ کام تمیز اور سلیقے سے ہونا چاہیے کیونکہ ہمارے بعد آنے والوں نے بالکل اسی طرح ہماری غلطیوں کو بھی اُجاگر اور درست کرنا ہے اس ساری تمہید کا مطلب یہی ہے کہ ہمارا کام بہتر سے بہتر اور خیر کی تلاش ہونا چاہیے ۔
اس عمل میں راستے، تفہیم ، نقطہ نظر اور مطلوبہ نتیجے میں فرق کا امکان ہمیشہ رہے گا کہ ہر آدمی فطرتاً اپنے اور اپنی صف کے گزشتہ اور موجودہ بڑوں کی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر نیّت سچ مچ خیر کا حصول ہو توجلد یا بدیر سچ ہر چیز پر غالب آجاتاہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں جو ہوش رُبا ترقی گزشتہ چند برسوں میں دیکھنے میں آئی ہے ا ُس میں تحقیق کے ذریعے کسی ایسے نتیجے پر پہنچنا آسان ہوگیا ہے جس میں کسی رائج نظریئے سے اختلاف کو عقل و دانش اور تجربے کے حوالے سے ایک نئی اور متفقہ شکل دی جاسکتی ہے لیکن دیگر معاملات میں یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ لوگ دوسرے کی بات سننے ، سمجھنے اور اُس کے صحیح حصے کو تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اختلاف برائے اتفاق کے بجائے اختلاف برائے اختلاف ہی کو ترجیح دیتے ہیں مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کو ایک طرف رکھ کر بات کی بجائے اور اگر مقصد سچ کی تلاش اور خلق خدا کی بھلائی ہو تو اپنی ذات اور جھوٹی انا کے بت کو گرا یا ہٹا کربات کرنی چاہیے۔
اب مثال کے طور پر ہمارے تمام ٹی وی چینلز پر چلنے و الے ٹاک شوز کو ہی دیکھ لیجیے اینکر حضرات عام طور پر گفتگو کا آغاز ہی ایسے اندازمیں کرتے ہیں کہ شرکائے گفتگو جو مختلف سیاسی ، مذہبی یا تہذیبی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوں اُن کو مرغوں کی طرح آپس میں لڑایا جائے تاکہ شو گرم ہو اور وہ اپنا نمک حلال اور پروگرام کی ریٹنگ کو بڑھا سکیں دوسری طرف جن شرکا کو بحث میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے وہ پہلے سے ''میں نہ مانوں'' کا روّیہ لے کر شریک گفتگو ہوتے ہیں اور اُن کا واحد مقصد اپنی بات یا مسئلے کی وکالت اور وضاحت کے بجائے مخالفین کی توہین یا الزام تراشی ہوتا ہے، یہ بات ایک حد تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ اگر مقصد ہی اپنا دفاع اور مخالفین کی سرکوبی ہو تو کوئی بھی کھلے دل سے دوسرے کی بات سننے ، سمجھنے یا اُس کی دلیل کو اپنی دلیل کے مقابلے میں بہتر ماننے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتا، سو درست تو رہا ایک طرف کوئی درمیانہ راستہ بھی نہیں نکل پاتا اگرچہ بیشتر بھارتی ٹی وی چینلز اس ضمن میں ناقابلِ یقین حد تک پستی میں اُتر چکے ہیں اور وہاں کے اینکرز اور سدھاے ہوئے شرکائے گفتگو کی زبان ، لہجہ، انداز اور جارحیت اخلاق کی ہر حد کو پار کر چکی ہے مگر اب آہستہ آہستہ یہ وبا واہگہ بارڈر کراس کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
حکومتی نمائندے ہوں یا اپوزیشن کے ترجمان نہ صرف یہ کہ کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ ہر آدمی سوال کا جواب دینے کے بجائے ایک نیا سوال داغ دیتا ہے اور یوں کسی بھی پروگرام کے اختتام تک بقول جمیل ملک مرحوم یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ ''حکم کیا ہے''۔ قومی، ملکی یا عوامی مفاد نام کی کوئی چیز ان بحثوں میں دُور دُور تک نظر نہیں آتی اس ضمن میں بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہتا کہ میرا مقصد صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ کورونا ایک بین الاقوامی اور ایک خاص حد تک ہمارا قومی مسئلہ ہے جس کا حل بھی ہم نے پہلے قومی اور پھر بین الاقوامی سطح پر تلاش کرنا ہے اور اس میں ہرگز ہرگز مرکز اور صوبوں کے درمیان کسی قسم کی ضد بازی اور الزام تراشی کی گنجائش نہیں۔کورونا کے متاثرین یا اس کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے والے لوگ کسی بھی صوبے یا علاقے سے ہو وہ سب سے پہلے اور صرف پاکستانی ہیں اسی طرح ڈاکٹرز اور طبی عملہ یا سیکیورٹی ڈیوٹی انجام دینے والے تمام بہادر اور قابلِ تعریف لوگ صرف اور صرف پاکستانی ہیں، خدا کے لیے ان کو پارٹیوں یا صوبوں میں نہ بانٹئے۔
سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ مسئلہ ہم سب کا سانجھا ہے کہ موت اور وبا کسی گھر میں یہ پوچھ کر داخل نہیں ہوتی کہ اُس کا تعلق کس صوبے یا سیاسی جماعت سے ہے، اپنی پارٹیوں سے وفاداری ضرور نبھایئے مگر عوام کے مفاد کی قیمت پر نہیں۔لاک ڈاؤن کی پالیسی کے تضادات ہوں یا امدادی رقوم اور راشن کی تقسیم کا مسئلہ، طبی سہولتوں کا فقدان ہو یا بے روزگاری کی فراوانی یہ سب مسئلے ہم سب کے سانجھے ہیں، ان پر پوائنٹ اسکورنگ ایک قومی جرم ہے۔
ضرورت اس با ت کی ہے کہ ہمارے اینکر حضرات اور چند گنے چنے مختلف پارٹیوںکے نامزد کردہ نمائندے اس Blame game کے بے نتیجہ دائرے سے باہر نکلیں اور ملکی مسائل پر سنجیدگی اور ذمے داری سے مکالمہ کرنے کی روش کو اپنائیں کہ ان سب کو اپنے حاکموں اور لیڈروں کو ہی جواب نہیں دینا، یہ عوام اور تاریخ کو بھی جوابدہ ہیں اور ایک دن ہم سب کو ایک ایسے دربار میں بھی پیش ہونا ہے جہاں ہر ایک کی فردِ عمل اُس کے اپنے ہاتھ میں ہوگی اختلاف ضرور کریں مگر اس کا مقصد ایک ایسے اتفاق تک رسائی ہونی چاہیے جس میں ہم سب کا بھلا ہو اور جہاں پر محبت کا پہلا اور آخری مقصد خیر کا حصول ہو ورنہ مولانا حالیؔ کا یہ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے کا کہا ہوا شعر ہمارے ''آج'' پر بھی لاگو ہوجائیگا اور یہ کس قدر افسوس کی بات ہوگی کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے نظر آئیں جہاں آج سے ڈیڑھ صدی پہلے تھے۔
مدرسے میں دہر کے رُوبر قفا بیٹھے تھے ہم
بس اُٹھے ویسے ہی کورے جیسے جا بیٹھے تھے ہم