مشروط نفع ونقصان

اس مہینے نیک اعمال کے درجات حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں

moosaafendi@gmail.com

ماِہ رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے۔ اس بابرکت مہینے کی نعمتیں سمیٹنے کے لیے ہر مسلمان عام دنوں سے زیادہ کوشش کرتا ہے ۔ سحری سے افطار تک فرضی عبادتوں نمازوں اورتراویوں کے ساتھ ساتھ صدقات خیرات اور زکوٰۃ بانٹتے نظر آتے ہیں۔ پاکستانیوں کا یہ انداز فیاضی اور خدا ترسی انھیں قرب خداوندی کا جو قلبی سکون واطمینان عطا کرتاہے اُسے صرف اس عمل نیک میںمشغول شخص ہی جان سکتا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس کے ساتھ نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے۔

اس مہینے نیک اعمال کے درجات حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں احتیاط لازم ہوجاتی ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ہماری تین قسم کی بداحتیاطیاں ہماری نیکیوں اور اعمال صالح کو اس طرح کھاجاتی ہیں کہ ہمیں اُن کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لیے انھیں تین قسم کی صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی صورت ایسے افعال کی ہے جو اعمال کو شروع دن سے ضائع کردیتے ہیں ۔

یعنی آدمی بڑے شوق و ذوق سے شرعی احکامات کے مطابق پاک صاف ہوکراور خوشبولگاکر اس خیال کے ساتھ مسجد میںداخل ہو کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ میںایک نمازی ہوں وہ نہیں ہوں جو وہ مجھے سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہوں جو وہ بھی چاہتے ہیںکہ دوسرے انھیں سمجھیں ۔ ایسا عمل صالح شروع ہوتے ہی ضائع ہوجاتاہے کیونکہ یہ اللہ کے لیے نہیںبلکہ لوگوں کے لیے انجام دیاگیا۔


ظاہرہے جو عمل انجام ہی غیر اللہ کے لیے دیا جائے اس کا صلہ اللہ سے مانگنا ، عمل کی یہ صورت کیسے قابل قبول ہوسکتی ہے؟دوسری صورت جو اعمال صالح کو ضائع کردیتی ہے وہ آدھے راستے تک پہنچ کر ضائع کرتی ہے مثلاً آدمی بڑے شوق سے نمازیں پڑھنا شروع کرتاہے باقاعدگی سے روزے رکھتاہے اچھے کام کرتا ہے برے کاموں سے پرہیز کرتاہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں دیتا ۔ تواضع وانکساری کافی عرصے تک اختیار کرکے اپنی شرافت اور پرہیزگاری کا لوہا اس حد تک منوالیتاہے کہ آہستہ آہستہ اِس زعم کا شکار ہونا کہ وہ اوروں سے بہتر اور برتر ہے یہ احساس کہ وہ اچھا ہے اور اردگرد کے لوگ برے ہیں اس کے سارے اعمال برباد کردیتاہے ۔

انجانے میںاور لاشعور طور پر وہ اپنے نیک اعمال کو خود سے تولنا شروع کردیتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنے اعمال کو وزنی بھی سمجھنے لگتا ہے بھول جاتا ہے کہ عبادت و ریاضت اللہ کی خوشنودگی کے لیے ہے ، خضوع اور خشوع عاجزی اور انکساری سکھلاتاہے۔ جب کہ خودپسندی غرور وتکبر کی طرف دھکیلتی ہے ۔ خودپسندی اعمال صالح کو فوراً برباد کردیتی ہے جس سے بچنا لازمی ہے۔تیسری صورت جو اعمال کے ضبط ہوجانے کا باعث ہوسکتی ہے اس کی اگردرجہ بندی کی جائے تو دوحالتیں نظر آتی ہیں۔

پہلی حالت میںایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنا یعنی دوبارہ کافر ہوجانا ۔ ایسا بہت کم ہوتاہے لیکن تاریخ میںا س کی مثالیں موجود ہیں۔ ایمان کی حالت میں انجام دیے گئے سارے اعمال صالح حالت کفر وشرک میں دوبارہ لوٹ جانے سے ضبط ہوجاتے ہیں یعنی ضائع ہوجاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مقدسات کی بے ادبی اعمال کو فوراً ضائع کردیتی ہے۔ آدمی کی ساری نمازیں روزے حج زکوٰتیں اس وقت ضائع ہوجاتی ہیں جب آدمی ان مقدسات کی بے ادبی اور توہین کا مرتکب ہوتاہے جنھیں اللہ اور رسول نے مقدس قرار دیا ہے۔ دین حاصل کرنے کے مسلمان کے پاس دوہی ذرائع ہیں۔ کتاب خدا اور رسول خدا ۔ ان کا احترام اور تقدس مسلمان پر واجب ہے۔
Load Next Story