پھلوں کے کچرے سے قدرتی پولیمر کی تیاری میں کامیابی
سمندری جانوروں کے بیرونی خول یا کائٹن کو ماحول دوست انداز میں بنانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے
ISLAMABAD:
سمندری صدفوں، کیکڑوں اور دیگر جانداروں کے اوپر سخت خول کائٹن پایا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن اب اسے تیار کرنے کا ایک بالکل نیا طریقہ سنگاپور کے سائنسدانوں نے پیش کیا ہے۔
کائٹن یا کائٹوسان کے بہت سے طبی اور کیمیائی فوائد سامنے آئے ہیں۔ ان سے زخم بھرنے والی پٹیاں، ازخود ختم ہونے والے پلاسٹک اور گاڑیوں کے ایسے پینٹ بنائے جاسکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مرمت خود کرسکیں گے۔ لیکن کائٹن کے لیے سمندری جانوروں کے خول کو تیزابی عمل سے گزارا جاتا ہے جو ایک مہنگا، مشکل اور ماحول دشمن عمل ہے۔
لیکن اب سنگاپور کی نینیانگ یونیورسٹی نے جھینگوں کے خول، کئی اقسام کے بیکٹیریا اور گلے سڑے پھلوں سے کائٹن تیار کیا ہے۔ اس عمل میں قدرتی طور پر پھلوں کے کچرے کا گلوکوز عملِ تخمیر کو بڑھاتا ہے جس سے جھینگوں کو خول سادہ اجزا میں ٹوٹتا ہے اور اس طرح کائٹن کو نکال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں جو پھل بہت مفید ثابت ہوئے ان میں انگور، سیب کے چھلکے، آم، انناس اور کیلے کے چھلکے زیادہ مفید و مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ حاصل شدہ کائٹن کو 'کرسٹلائنٹی انڈیکس' کے تحت ناپا جاتا ہے۔ اس عمل سے جو کائٹن ملا وہ 98.16 فیصد خالص تھا جبکہ روایتی طور پر جو طریقے استعمال ہورہے ہیں وہ صرف 87 فیصد تک ہی خالص کائٹن فراہم کرتے ہیں۔
ان حوصلہ افزا تجربات کے بعد ماہرین کے مزید تجربات جاری ہیں جس سے نہ صرف پھلوں کا کوڑا کام آئے گا بلکہ انتہائی مفید مادے کائٹن کی وسیع مقدار بھی حاصل ہوسکے گی۔
سمندری صدفوں، کیکڑوں اور دیگر جانداروں کے اوپر سخت خول کائٹن پایا جاتا ہے جو انسانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ لیکن اب اسے تیار کرنے کا ایک بالکل نیا طریقہ سنگاپور کے سائنسدانوں نے پیش کیا ہے۔
کائٹن یا کائٹوسان کے بہت سے طبی اور کیمیائی فوائد سامنے آئے ہیں۔ ان سے زخم بھرنے والی پٹیاں، ازخود ختم ہونے والے پلاسٹک اور گاڑیوں کے ایسے پینٹ بنائے جاسکتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مرمت خود کرسکیں گے۔ لیکن کائٹن کے لیے سمندری جانوروں کے خول کو تیزابی عمل سے گزارا جاتا ہے جو ایک مہنگا، مشکل اور ماحول دشمن عمل ہے۔
لیکن اب سنگاپور کی نینیانگ یونیورسٹی نے جھینگوں کے خول، کئی اقسام کے بیکٹیریا اور گلے سڑے پھلوں سے کائٹن تیار کیا ہے۔ اس عمل میں قدرتی طور پر پھلوں کے کچرے کا گلوکوز عملِ تخمیر کو بڑھاتا ہے جس سے جھینگوں کو خول سادہ اجزا میں ٹوٹتا ہے اور اس طرح کائٹن کو نکال کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں جو پھل بہت مفید ثابت ہوئے ان میں انگور، سیب کے چھلکے، آم، انناس اور کیلے کے چھلکے زیادہ مفید و مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ حاصل شدہ کائٹن کو 'کرسٹلائنٹی انڈیکس' کے تحت ناپا جاتا ہے۔ اس عمل سے جو کائٹن ملا وہ 98.16 فیصد خالص تھا جبکہ روایتی طور پر جو طریقے استعمال ہورہے ہیں وہ صرف 87 فیصد تک ہی خالص کائٹن فراہم کرتے ہیں۔
ان حوصلہ افزا تجربات کے بعد ماہرین کے مزید تجربات جاری ہیں جس سے نہ صرف پھلوں کا کوڑا کام آئے گا بلکہ انتہائی مفید مادے کائٹن کی وسیع مقدار بھی حاصل ہوسکے گی۔