ہماری دعائیں بے اثر کیوں ہیں

امریکا اور یورپ نے اس وجہ سے ترقی نہیں کی کہ وہاں کے لوگ چرچ جاکر اپنی سربلندی کی دعائیں کیا کرتے تھے

دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

SYDNEY:
خالق کائنات نے تمام انسانوں کو اس دنیا میں یکساں پیدا کیا ہے۔ بعض میں کوئی پیدائشی نقص ہوتا ہے لیکن اکثریت جسمانی اور ذہنی اعتبار سے درست ہوتی ہے۔ وہ انسان جسے ربِ کائنات نے یکساں پیدا فرمایا، وہی انسان رنگ، نسل، زبان اور مذہب میں منقسم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ جس گروہ سے وابستہ ہوتا ہے، اسی گروہ کے عقائد اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے روایتی طریقے سے خدا کی عبادت کرتا ہے۔

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ جب انسان خدا سے دعا مانگتا ہے یا التجا کرتا ہے، تو اس سے قبل انسان کو عمل بھی انجام دینا ہوتا ہے تاکہ اس کے حوالے سے وہ خدا کے سامنے اپنی مانگ رکھ سکے۔ دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، حالانکہ یہ تواتر کے ساتھ مذہبی رسوم بھی ادا کرتے ہیں پھر بھی لگتا ہے کہ کوئی کمی ہے جس وجہ سے وہ دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔

اگر مزید دقیق نظر سے زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو معلوم ہوجائے گا کہ ہماری ہر بات عمل سے بالکل خالی ہے۔

اب ذرا تھوڑی سی توجہ غیر مسلموں پر کر لیتے ہیں۔ خدا نے ان کو بھی وہ ہی دو ہاتھ، دو پاؤں اور دماغ دیئے ہیں۔ وہ بھی اپنے تہوار مناتے ہیں اور اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر دعائیں کرتے ہیں؛ اور ہر میدان میں ہم سے آگے ہیں۔ ہر جنگ میں جیت بھی جاتے ہیں کیونکہ یہ کائنات کچھ اصولوں پر چلتی ہے۔ وہ اصول رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ان اصولوں پر جو عمل کرتا ہے، ترقی اس کا نصیب بن جاتی ہے۔

جب دنیا وجود میں آئی تھی، تب ہی سے یہ طبیعی قوانین وجود میں آگئے تھے۔ مثلاً سر میں درد ہو تو اس کی ایک جیسی گولی ہر انسان کی ضرورت ہے، چاہے وہ پادری ہو یا مسجد کا امام ہو۔ دور دراز فاصلوں پر رابطے کےلیے فون کی ضرورت سب کو ہے چاہے وہ کوئی ملحد ہو یا کوئی مسلمان۔ لہذا ضرورت کی یہ اور ان جیسی دوسری اشیاء جو بھی تخلیق کرے گا، وہ دنیا میں ترقی کرتا جائے گا اور دنیا میں اپنا لوہا منوا لے گا۔


اگر آپ تھوڑا سا اپنے دماغ پر زور ڈالیے تو معلوم ہوجائے گا کہ آج تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار نہیں مگر مساجد میں امت مسلمہ میں اتحاد کی دعائیں کرتے ہیں۔

لیکن پھر وہ ہی سوال کہ ہماری دعائیں بے اثر کیوں ہیں؟

ولیم ڈیلرمپل نے اپنی مشہور کتاب The Anarchy میں بتایا ہے کہ کس طرح انگریزوں کے ایک چھوٹے گروہ نے برصغیر کی مغل سلطنت کا خاتمہ کرکے آبادی کو غلام بنا لیا تھا۔ اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مسلمان بادشاہت کے لالچ میں تھے جبکہ انگریز بحیثیت قوم متحد تھے۔

دراصل امریکا اور یورپ نے جو ترقی کی ہے وہ اس لیے نہیں کی کہ وہ گرجا گھروں میں جاکر اپنی سربلندی کی دعائیں کیا کرتے تھے؛ بلکہ دنیا میں طاقت کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جنہیں اپنانے کے بعد ہی ہر قوم ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے۔ جب تک ہم اِس دنیا میں انسانیت کی بقا و سلامتی کےلیے اپنی خدمات انجام دیتے رہیں گے، تب ہی اپنا نام روشن کر پائیں گے، اس دنیا میں ترقی کرسکیں گے... کیونکہ اپنے لیے زندگی بسر کرنے والوں کو لوگ بھول جاتے ہیں جبکہ انسانیت کےلیے زندگیاں وقف کرنے والے افراد کو دنیا ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story