کورونا قوم کو مزید گائیڈ لائنز کی ضرورت
اموات کے عالمی اعداد وشمار کے آئینہ میں پاکستان کی صورتحال دگرگوں نہیں ہے۔
لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد گزشتہ روز لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے بند تمام دکانیں اور چھوٹے کاروبار کھل گئے، بازاروں کی گہما گہمی بحال ہوگئی، سڑکوں پر ٹریفک کا بہاؤ بھی بڑھ گیا، سماجی فاصلے کا اصول درہم برہم ہوگیا۔
لاہور میں48 روز بعد انارکلی، مال روڈ، ہال روڈ، اچھرہ، سرکلر روڈ، برانڈرتھ روڈ، باغبانپورہ، ماڈل ٹاؤن لنک روڈ، گلبرگ، حفیظ سینٹر، ایم ایم عالم روڈ، لبرٹی سمیت شہر بھر کی مارکیٹیں اور دکانیں صبح 8 بجے سے شام5 بجے تک کھلی رہیں۔
شہر قائد کراچی کے بڑے شاپنگ مالز، بند رہے، ہیئر کٹنگ سیلونز کی ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے ان کے شعبے کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے کیونکہ50 ہزار سے زائد افراد اس شعبہ سے وابستہ ہیں، اسی طرح وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کو لاک ڈاؤن سے نکالتے ہوئے جس سرگرمی اور تیزی کی توقع ظاہر کی تھی وہ ٹرانسپورٹ کی مسلسل بندش سے بے نتیجہ ثابت ہوئی، تعمیراتی شعبہ فولاد، ریتی، بجری، سیمنٹ اور اینٹوں کی ترسیل کے لیے ٹرکوں اور گڈز ٹرانسپورٹ ناپید ہونے کی وجہ سے متحرک نہ ہوسکا۔ تاہم دکاندار دکانیں کھلنے پر خوش دکھائی دیے، انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کر کے دکھائیں گے۔ مگر کہاں کے ماسک، سماجی فاصلہ اور کہاں کی سینی ٹائزیشن، سب اصول ہوا میں اڑ گئے۔
بہرحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کھلنے سے حکومت نے جس مثالی نظم وضبط کی امید وابستہ کی وہ قومی مزاج، عوامی رویے، معاشرتی تربیت، تنظیم اور شہریت کی بنیادی اقدار سے مربوط نہیں تھی،سوال یہ ہے کہ قوم کو کس دور میں شہری ذمے داریوں، حقوق و فرائض، ڈسپلن اور اصول پسندی کا درس دیا گیا، ہم ہمیشہ سے جنگل کے قانون کے تحت سیاسی وسماجی اور اقتصادی دوڑ میں مصروف رہے، بقائے اصلح کا اصول ہی ہمارا مطمع نظر رہا اور آج بھی ہے، میرٹ، اصول، منطق اور اخلاقیات کا جو درس جمہوریت میں عوام کو اس کے حکمرانوں سے ملنا چاہیے تھا اسے یکسر فراموش کیا گیا، اس لیے کورونا کے اچانک بھونچال اور چیلنج سے جو منظر لاک ڈاؤن کھولنے کی صورت میں سامنے آیا ہے اس سے بھی ارباب اختیار اور قومی حلقے سبق سیکھ سکتے ہیں، کورونا کوئی آندھی نہیں، جنگل کی بھڑکتی آگ نہیں، زلزلہ نہیں، کوئی آفت اور چنگھاڑ نہیں کہ ملک کے کروڑوں عوام کو صرف کورونا کے نام سے خوف ودہشت کی نذر کردیا جائے۔
بلاشبہ کاروبار کھل گیا ہے، یہ معاشی ضرورت ہے، حکومت کا صائب فیصلہ ہے، اس نعرہ میں جان ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ اصل میں زندگی کی بقا کی جنگ ہے، طبی دنیا دکھی انسانیت اور کورونا کے دنیا بھر میں42 لاکھ مریضوں اور2 لاکھ اموات پر افسردہ ہے مگر یہ جنگ انھوں نے کورونا کے متاثرین کی تالیف قلوب کرتے ہوئے جیتنی ہے، انھیں ذہنی اور اعصابی طور پر نڈھال کرکے نہیں، مسیحا ڈراتے نہیں اپنے میڈاز ٹچ، بے لوث تیمارداری، دلنوازگفتگو اور ہاتھوں کے لمس سے قریب المرگ مریض کو بھی زندگی کی دعا اور دوا ساتھ دیتے ہیں، کورونا کا عذاب دہرا ہے اس میں کوئی دوا نہیں مگر مریض کو دعا سے تو محروم نہیں کیا جانا چاہیے، لہٰذا لاک ڈاؤن میں نرمی سے ملک کے بازار کھلنے پر صف ماتم نہیں بچھنی چاہیے، موجودہ آزمائش کا ہمت، حوصلہ اور عزم سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مئی کو Dooms Day قرار دینے کے بجائے ارباب اختیار اپنے داخلی تنازعات اور کشیدگی کو بالائے طاق رکھ دیں تو صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے، کورونا وائرس سے نمٹنے میں قوم کو گائیڈ لائنز کی مزید ضرورت ہے، عوام الناس کو زندگی کے نئے تجربے، آداب اور طبی تقاضوں سے آشنا کرنے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمے داری محسوس کریں، انھیں عوام کی رگ جاں سے نزدیک ہونے کی ضرورت ہے، کورونا ٹویٹ کرنے یا متاثرین کی دلجوئی کے لیے صرف باتوں سے رخصت نہیں ہوگا، ماہرین کے مطابق یہ وہ کمبل ہے جو آپکو آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔
کورونا اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے سیاق وسباق میں سیاسی اور جمہوری عمل میں بھی پیش رفت ہوئی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہوئے، وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں کورونا کی صورتحال اور معاشی ٹیم کے الگ الگ اجلاس ہوئے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر کے لیے مربوط حکمت عملی بنائے جائے، وزیراعظم کو بتایا گیا کہ بھاشا ڈیم عملی آغاز کے لیے تیار ہے، اس منصوبہ سے روزگار کے 16 ہزار500 مواقع پیدا ہونگے، وزیر اعظم نے توانائی اور زرعی ضروریات کی اہمیت اجاگر کی، انھوں نے کہا کہ پانی کی دستیابی کے ساتھ سستی بجلی کے حصول میں مدد ملیگی۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 7 نکاتی ایجنڈے پر بحث بھی ہونا تھی، سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے حکومت پر تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ کورونا پر حکومتی پالیسی یکساں و مربوط unified نہیں ہے، انھوں نے وزیر اعظم کو استعاراتی انداز میں کورونا مسئلہ پر ''مسنگ'' قرار دیا اور کہا کہ ان کے الفاظ بھی کورونا کی گمبھیرتا سے لاتعلق نظر آتے ہیں، شیری رحمان نے اپنی تقریر میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ کورونا کے معاملات کون چلارہا ہے۔ ادھر تجزیہ کاروں نے پارلیمان کی کارروائی پر اپنی دل گرفتگی کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا وہی ہمارا اصل چہرہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی مکالمہ اپنی تاریخی روایات سے کٹا ہوا ہے، ایسی بحث اور فکری افلاس سے لبریز گفتگو کا کیا فائدہ جس میں قوم کے دکھ درد شیئر کرنے کے بجائے سیاسی تناؤ مزید بڑھے۔نامہ نگاروں کے مطابق لاک ڈاؤن کھلنے کے پہلے روز صبح کے اوقات میں خریداری کے لیے زیادہ بڑی تعداد میں گاہک نہ آ سکے تاہم سہ پہر کے بعد بازاروں میں خاصا رش دیکھنے میں آیا۔ شہر کے تمام ماڈل بازار بھی کھول دیے گئے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود بڑے پلازے، شاپنگ مالز، ڈیپارٹمنٹل اسٹورز، سرکاری و نجی تعلیمی ادارے، سنیما گھر، پبلک ٹرانسپورٹ، تفریحی مقامات، شادی ہالز مسلسل بند رہے۔ ہر قسم کے اجتماعات اور کھیلوں کے ساتھ ساتھ ڈبل سواری پر پابندی برقرار رہی جب کہ آٹو رکشہ اور موٹر سائیکل رکشہ چلتے رہے۔
دکانداروں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھولے تاکہ گاہکوں کو خریداری کے لیے آنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ مارکیٹوں میں حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جو مختلف مارکیٹوں میں جائزہ لیتی رہیں۔ پولیس کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران شہر کی مختلف سڑکوں پر لگائے گئے ناکوں کی تعداد انتہائی محدود کر دی گئی۔ حکومتی اعلان کے مطابق آیندہ احکامات تک ہفتے میں4 دن سوموار سے جمعرات تک کاروبار کھلے گا جب کہ3 دن جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو دکانیں بند رہیں گی۔ ان تین دنوں کے دوران بھی کریانہ اسٹورز، دودھ دہی،گوشت کی دکانیں اور میڈیکل اسٹورز کھلے رہیں گے۔
ادھر صوبائی وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال سے آل پاکستان شاپنگ مال ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ حکومت شاپنگ مالز کی بندش کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور کاروبار کھولنے کی اجازت دے۔ اجازت ملنے کی صورت میں حکومتی ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اسلام آباد میں بھی چھوٹی مارکیٹیں کھل گئیں،47 روز بعد تاجروں نے دکانوں کے شٹر اٹھا لیے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش بڑھ گیا۔
راولپنڈی شہر میں دکانیں، چھوٹے کاروبارکھلنے سے رونقیں بحال، تاجرخوشی سے نہال ہوگئے، شہر میں بدترین ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔ راجہ بازار، باڑہ مارکیٹ، موتی بازار، پرانا قلعہ، تلوڑاں بازار، بھابڑا بازار اور مری روڈ پر خریداروں کے غیر معمولی رش کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، خریدار اور تاجروں کی بڑی تعداد ماسک کے بغیر نظر آئی۔ چکوال اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی دکانیں کھل گئیں اور شہری خریداری کرتے رہے۔
کراچی بھر کے تجارتی مراکز 50 روزہ طویل لاک ڈاؤن کے بعد پیر کو حکومتی ایس او پیز کے مطابق کھل گئے اور شہر میں کاروباری رونقیں بحال ہوگئیں۔ صدر، ڈیفنس،کلفٹن، طارق روڈ، لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی، کورنگی، گولیمار، حیدری، اورنگی ٹاؤن، ناظم آباد، گلبہار، سمامہ شاپنگ گیلریا نارتھ کراچی، سندھی ہوٹل، یوپی موڑ، سخی حسن، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں کی مارکیٹوں میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔ کلفٹن سے سہراب گوٹھ تک قائم تمام کار ڈیلرز اور شورومز بھی دوپہر 12 بجے کے بعد سے کھل گئے۔ کاروباری سرگرمیوں کے آغاز پر مزدور بھی مزدوری ملنے پر خوش نظر آئے۔
سندھ حکومت کے9 محکموں کے دفاتر پیر سے کھل گئے تاہم بیرون کراچی گئے ہوئے ملازمین کی بڑی تعداد ڈیوٹی پر نہیں پہنچ سکی۔ سندھ میں ہفتہ میں 4 دن تجارتی مراکز صبح 6 سے شام4 بجے تک کھلیں گے، عوامی نقل وحرکت پر شام 5 سے صبح 6بجے تک مکمل پابندی ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ سندھ میں مزید چار محکموں کی تعطیلات ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ان میں وزیر اعلیٰ معائنہ و انکوائریز ٹیم، محکمہ ٹرانسپورٹ، ماحولیات اور محکمہ توانائی کے انتظامی دفاتر شامل ہیں۔ کوئٹہ اور دیگر شہروں میں بھی کاروباری مراکز کھل گئے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں اور اپریل میں تیزی دیکھی گئی ہے، ڈبلیو ایچ او کی ریٹنگ کے مطابق اسلام آباد میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے، اس وقت اموات کے لحاظ سے خیبر پختونخوا پہلے، پنجاب دوسرے اور سندھ تیسرے نمبر ہے مگر اموات کے عالمی اعداد وشمار کے آئینہ میں پاکستان کی صورتحال دگرگوں نہیں ہے، ہم نے بصد سامان رسوائی بھی کورونا سے نمٹنے میں بڑی کوتائی نہیں دکھائی ہے، اگر عوام کو مناسب رہنمائی اور سپورٹ ملے تو ایس او پیز پر عمل درآمد کے منظرنامہ میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
لاہور میں48 روز بعد انارکلی، مال روڈ، ہال روڈ، اچھرہ، سرکلر روڈ، برانڈرتھ روڈ، باغبانپورہ، ماڈل ٹاؤن لنک روڈ، گلبرگ، حفیظ سینٹر، ایم ایم عالم روڈ، لبرٹی سمیت شہر بھر کی مارکیٹیں اور دکانیں صبح 8 بجے سے شام5 بجے تک کھلی رہیں۔
شہر قائد کراچی کے بڑے شاپنگ مالز، بند رہے، ہیئر کٹنگ سیلونز کی ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی ہے ان کے شعبے کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے کیونکہ50 ہزار سے زائد افراد اس شعبہ سے وابستہ ہیں، اسی طرح وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کو لاک ڈاؤن سے نکالتے ہوئے جس سرگرمی اور تیزی کی توقع ظاہر کی تھی وہ ٹرانسپورٹ کی مسلسل بندش سے بے نتیجہ ثابت ہوئی، تعمیراتی شعبہ فولاد، ریتی، بجری، سیمنٹ اور اینٹوں کی ترسیل کے لیے ٹرکوں اور گڈز ٹرانسپورٹ ناپید ہونے کی وجہ سے متحرک نہ ہوسکا۔ تاہم دکاندار دکانیں کھلنے پر خوش دکھائی دیے، انھوں نے کہا کہ وہ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کر کے دکھائیں گے۔ مگر کہاں کے ماسک، سماجی فاصلہ اور کہاں کی سینی ٹائزیشن، سب اصول ہوا میں اڑ گئے۔
بہرحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کھلنے سے حکومت نے جس مثالی نظم وضبط کی امید وابستہ کی وہ قومی مزاج، عوامی رویے، معاشرتی تربیت، تنظیم اور شہریت کی بنیادی اقدار سے مربوط نہیں تھی،سوال یہ ہے کہ قوم کو کس دور میں شہری ذمے داریوں، حقوق و فرائض، ڈسپلن اور اصول پسندی کا درس دیا گیا، ہم ہمیشہ سے جنگل کے قانون کے تحت سیاسی وسماجی اور اقتصادی دوڑ میں مصروف رہے، بقائے اصلح کا اصول ہی ہمارا مطمع نظر رہا اور آج بھی ہے، میرٹ، اصول، منطق اور اخلاقیات کا جو درس جمہوریت میں عوام کو اس کے حکمرانوں سے ملنا چاہیے تھا اسے یکسر فراموش کیا گیا، اس لیے کورونا کے اچانک بھونچال اور چیلنج سے جو منظر لاک ڈاؤن کھولنے کی صورت میں سامنے آیا ہے اس سے بھی ارباب اختیار اور قومی حلقے سبق سیکھ سکتے ہیں، کورونا کوئی آندھی نہیں، جنگل کی بھڑکتی آگ نہیں، زلزلہ نہیں، کوئی آفت اور چنگھاڑ نہیں کہ ملک کے کروڑوں عوام کو صرف کورونا کے نام سے خوف ودہشت کی نذر کردیا جائے۔
بلاشبہ کاروبار کھل گیا ہے، یہ معاشی ضرورت ہے، حکومت کا صائب فیصلہ ہے، اس نعرہ میں جان ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ اصل میں زندگی کی بقا کی جنگ ہے، طبی دنیا دکھی انسانیت اور کورونا کے دنیا بھر میں42 لاکھ مریضوں اور2 لاکھ اموات پر افسردہ ہے مگر یہ جنگ انھوں نے کورونا کے متاثرین کی تالیف قلوب کرتے ہوئے جیتنی ہے، انھیں ذہنی اور اعصابی طور پر نڈھال کرکے نہیں، مسیحا ڈراتے نہیں اپنے میڈاز ٹچ، بے لوث تیمارداری، دلنوازگفتگو اور ہاتھوں کے لمس سے قریب المرگ مریض کو بھی زندگی کی دعا اور دوا ساتھ دیتے ہیں، کورونا کا عذاب دہرا ہے اس میں کوئی دوا نہیں مگر مریض کو دعا سے تو محروم نہیں کیا جانا چاہیے، لہٰذا لاک ڈاؤن میں نرمی سے ملک کے بازار کھلنے پر صف ماتم نہیں بچھنی چاہیے، موجودہ آزمائش کا ہمت، حوصلہ اور عزم سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مئی کو Dooms Day قرار دینے کے بجائے ارباب اختیار اپنے داخلی تنازعات اور کشیدگی کو بالائے طاق رکھ دیں تو صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے، کورونا وائرس سے نمٹنے میں قوم کو گائیڈ لائنز کی مزید ضرورت ہے، عوام الناس کو زندگی کے نئے تجربے، آداب اور طبی تقاضوں سے آشنا کرنے کے لیے سیاسی اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمے داری محسوس کریں، انھیں عوام کی رگ جاں سے نزدیک ہونے کی ضرورت ہے، کورونا ٹویٹ کرنے یا متاثرین کی دلجوئی کے لیے صرف باتوں سے رخصت نہیں ہوگا، ماہرین کے مطابق یہ وہ کمبل ہے جو آپکو آسانی سے نہیں چھوڑے گا۔
کورونا اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے سیاق وسباق میں سیاسی اور جمہوری عمل میں بھی پیش رفت ہوئی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہوئے، وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں کورونا کی صورتحال اور معاشی ٹیم کے الگ الگ اجلاس ہوئے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی فوری تعمیر کے لیے مربوط حکمت عملی بنائے جائے، وزیراعظم کو بتایا گیا کہ بھاشا ڈیم عملی آغاز کے لیے تیار ہے، اس منصوبہ سے روزگار کے 16 ہزار500 مواقع پیدا ہونگے، وزیر اعظم نے توانائی اور زرعی ضروریات کی اہمیت اجاگر کی، انھوں نے کہا کہ پانی کی دستیابی کے ساتھ سستی بجلی کے حصول میں مدد ملیگی۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 7 نکاتی ایجنڈے پر بحث بھی ہونا تھی، سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے حکومت پر تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ کورونا پر حکومتی پالیسی یکساں و مربوط unified نہیں ہے، انھوں نے وزیر اعظم کو استعاراتی انداز میں کورونا مسئلہ پر ''مسنگ'' قرار دیا اور کہا کہ ان کے الفاظ بھی کورونا کی گمبھیرتا سے لاتعلق نظر آتے ہیں، شیری رحمان نے اپنی تقریر میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ کورونا کے معاملات کون چلارہا ہے۔ ادھر تجزیہ کاروں نے پارلیمان کی کارروائی پر اپنی دل گرفتگی کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا وہی ہمارا اصل چہرہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پارلیمانی مکالمہ اپنی تاریخی روایات سے کٹا ہوا ہے، ایسی بحث اور فکری افلاس سے لبریز گفتگو کا کیا فائدہ جس میں قوم کے دکھ درد شیئر کرنے کے بجائے سیاسی تناؤ مزید بڑھے۔نامہ نگاروں کے مطابق لاک ڈاؤن کھلنے کے پہلے روز صبح کے اوقات میں خریداری کے لیے زیادہ بڑی تعداد میں گاہک نہ آ سکے تاہم سہ پہر کے بعد بازاروں میں خاصا رش دیکھنے میں آیا۔ شہر کے تمام ماڈل بازار بھی کھول دیے گئے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود بڑے پلازے، شاپنگ مالز، ڈیپارٹمنٹل اسٹورز، سرکاری و نجی تعلیمی ادارے، سنیما گھر، پبلک ٹرانسپورٹ، تفریحی مقامات، شادی ہالز مسلسل بند رہے۔ ہر قسم کے اجتماعات اور کھیلوں کے ساتھ ساتھ ڈبل سواری پر پابندی برقرار رہی جب کہ آٹو رکشہ اور موٹر سائیکل رکشہ چلتے رہے۔
دکانداروں نے مطالبہ کیا کہ حکومت پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھولے تاکہ گاہکوں کو خریداری کے لیے آنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ مارکیٹوں میں حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جو مختلف مارکیٹوں میں جائزہ لیتی رہیں۔ پولیس کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران شہر کی مختلف سڑکوں پر لگائے گئے ناکوں کی تعداد انتہائی محدود کر دی گئی۔ حکومتی اعلان کے مطابق آیندہ احکامات تک ہفتے میں4 دن سوموار سے جمعرات تک کاروبار کھلے گا جب کہ3 دن جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو دکانیں بند رہیں گی۔ ان تین دنوں کے دوران بھی کریانہ اسٹورز، دودھ دہی،گوشت کی دکانیں اور میڈیکل اسٹورز کھلے رہیں گے۔
ادھر صوبائی وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال سے آل پاکستان شاپنگ مال ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ حکومت شاپنگ مالز کی بندش کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور کاروبار کھولنے کی اجازت دے۔ اجازت ملنے کی صورت میں حکومتی ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اسلام آباد میں بھی چھوٹی مارکیٹیں کھل گئیں،47 روز بعد تاجروں نے دکانوں کے شٹر اٹھا لیے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش بڑھ گیا۔
راولپنڈی شہر میں دکانیں، چھوٹے کاروبارکھلنے سے رونقیں بحال، تاجرخوشی سے نہال ہوگئے، شہر میں بدترین ٹریفک جام دیکھنے میں آیا۔ راجہ بازار، باڑہ مارکیٹ، موتی بازار، پرانا قلعہ، تلوڑاں بازار، بھابڑا بازار اور مری روڈ پر خریداروں کے غیر معمولی رش کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، خریدار اور تاجروں کی بڑی تعداد ماسک کے بغیر نظر آئی۔ چکوال اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی دکانیں کھل گئیں اور شہری خریداری کرتے رہے۔
کراچی بھر کے تجارتی مراکز 50 روزہ طویل لاک ڈاؤن کے بعد پیر کو حکومتی ایس او پیز کے مطابق کھل گئے اور شہر میں کاروباری رونقیں بحال ہوگئیں۔ صدر، ڈیفنس،کلفٹن، طارق روڈ، لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی، کورنگی، گولیمار، حیدری، اورنگی ٹاؤن، ناظم آباد، گلبہار، سمامہ شاپنگ گیلریا نارتھ کراچی، سندھی ہوٹل، یوپی موڑ، سخی حسن، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور دیگر علاقوں کی مارکیٹوں میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔ کلفٹن سے سہراب گوٹھ تک قائم تمام کار ڈیلرز اور شورومز بھی دوپہر 12 بجے کے بعد سے کھل گئے۔ کاروباری سرگرمیوں کے آغاز پر مزدور بھی مزدوری ملنے پر خوش نظر آئے۔
سندھ حکومت کے9 محکموں کے دفاتر پیر سے کھل گئے تاہم بیرون کراچی گئے ہوئے ملازمین کی بڑی تعداد ڈیوٹی پر نہیں پہنچ سکی۔ سندھ میں ہفتہ میں 4 دن تجارتی مراکز صبح 6 سے شام4 بجے تک کھلیں گے، عوامی نقل وحرکت پر شام 5 سے صبح 6بجے تک مکمل پابندی ہوگی۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ سندھ میں مزید چار محکموں کی تعطیلات ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا ان میں وزیر اعلیٰ معائنہ و انکوائریز ٹیم، محکمہ ٹرانسپورٹ، ماحولیات اور محکمہ توانائی کے انتظامی دفاتر شامل ہیں۔ کوئٹہ اور دیگر شہروں میں بھی کاروباری مراکز کھل گئے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں اور اپریل میں تیزی دیکھی گئی ہے، ڈبلیو ایچ او کی ریٹنگ کے مطابق اسلام آباد میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوا ہے، اس وقت اموات کے لحاظ سے خیبر پختونخوا پہلے، پنجاب دوسرے اور سندھ تیسرے نمبر ہے مگر اموات کے عالمی اعداد وشمار کے آئینہ میں پاکستان کی صورتحال دگرگوں نہیں ہے، ہم نے بصد سامان رسوائی بھی کورونا سے نمٹنے میں بڑی کوتائی نہیں دکھائی ہے، اگر عوام کو مناسب رہنمائی اور سپورٹ ملے تو ایس او پیز پر عمل درآمد کے منظرنامہ میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔