انڈس اسپتال کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر
اس منفرد ہسپتال میں ہر ماہ تین لاکھ سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے
2007 ء میں 150 بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال کورنگی میں قائم ہوا جس نے پاکستان کے شعبہ صحت میں ایک ایسی مثال قائم کی کہ کوئی دوسرا سرکاری اور نجی ہسپتال ایسی مثال قائم نہ کرسکا۔یہ ایک غیر سرکاری اور غیر منافع بخش ہسپتال تھا جس کا دعویٰ تھا کہ یہاں داخل ہونے والا کوئی بھی مریض علاج کے پیسے نہ ہونے کے باعث واپس نہیں بھجا جائے گااور ہر مریض کو مفت لیکن معیاری علاج فراہم کیا جائے گا۔ہسپتال کے کرتا دھرتا افراد کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ کسی مریض سے مذہب، زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی اور اس عمل میں کسی بھی مریض کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی۔
لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا ممکن نہیں اور جلد ہی یہ ہسپتال بند ہوجائے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ انڈس ہسپتال اب تک نہ صرف قائم ہے بلکہ یہاں ہر ماہ تین لاکھ سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور اب تک دس ہزار سے زائد بچوں کا کینسر اور خون کے امراض کے لیے علاج کیا جاچکا ہے۔انڈس ہسپتال اب بارہ ہسپتالوں پر محیط ملک گیرہیلتھ نیٹ ورک میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ہسپتال کا بلڈ سینٹرسو فی صد صاف اور محفوظ خون رضاکارانہ بنیادوں پر جمع کرتا اور نیٹ ورک کے ہسپتالوں اور دیگر ملحقہ ہسپتالوں کو مفت فراہم کرتا ہے۔
ہسپتال کے چار ریجنل بلڈ سینٹر ملک کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ ہسپتال کے چار فزیکل ری ہیبی لیٹیشن سینٹرز ملک کے چار شہروں میں موجود ہیں جن کے تحت تقریباً دس ہزار افراد کو مصنوعی ہاتھ اور ٹانگیں فراہم کی جاچکی ہیں۔ نیٹ ورک کے تحت ٹی بی، ملیریا، ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کے خلاف ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے۔ ان امراض کے قلع قمع کے لیے موبائل ، بوٹ اور کنٹینر کلینکس کام کررہے ہیں۔ ثالثی سطح کے ہسپتالوں پر سے دباؤ کم کرنے اور لوگوں کو ان کے گھروں کے نزدیک علاج فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے باون(52) اضلاع میں پرائمری کیئر کلینک قائم کیے گئے ہیں اور نیٹ ورک کے کمیونٹی ہیلتھ ورکر گھر گھر جا کر لوگوں میں آگاہی پھیلا رہے ہیں۔
انڈس ہسپتال کی کارکردگی کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ان اقدامات کی معترف ہیں۔ انڈس ہسپتال کئی سطحوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری2020ء میں جب کورونا وائرس کی وباء نے پاکستان کا رخ کیا تو حکومت سندھ نے اپنی دفاعی حکمت عملی مرتب کرنے سے لے کر عملی اقدامات کرنے تک کے مراحل میں انڈس ہسپتال کو شریک رکھا۔
انڈس ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان وزیر اعظم عمران خان کی نیشنل ٹاسک فورس کے رکن ہیں، انھیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قائم ہونے والی صوبائی ٹاسک فورس کا رکن بھی نامزد کیا گیا۔ وہ اس حوالے سے اہم مشاورتی کردار ادا کررہے ہیں۔
انڈس ہسپتال اس قومی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔اپنے تجربے کے پیش نظر انڈس ہسپتال کو سرکاری ہسپتالوں کی استعداد کار میں اضافے کی ذمے داری سونپی گئی۔ انڈس نے جنگی بنیادوں پر دو ہسپتالوں میں آئسولیشن اورقرنطینہ وارڈ قائم کیے۔
مشاورتی اور معاونتی کردار کے ساتھ ساتھ انڈس ہسپتال اپنا روایتی کردار بھی ادا کررہا ہے۔ ہسپتال میں ایک جدید ترین اور تمام ضروری سہولیات سے لیس کووڈ 19 وارڈ قائم کیا گیا ہے۔ بیس بستروں پرمشتمل اس وارڈ میںضروری تعداد میں وینٹی لیٹرز بھی دستیاب ہیں۔ انڈس ہسپتال کی لیبارٹری کی استعداد میں اضافے کے لیے راتوں رات ضروری اقدامات کیے گئے۔ اب یہ لیب نہ صرف انڈس ہسپتال بلکہ سرکاری ہسپتال سیآنے والے مریضوں کے کورونا ٹیسٹ بھی کررہی ہے۔ لیب تین شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کرتی ہے اور دن میں ہزارسے زائد ٹیسٹ کرسکتی ہے۔
انڈس ہسپتال کو دن میں دو بار جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے۔ انڈس ہسپتال کورنگی کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کورونا کے مریضوں کے لیے ایک حصہ مختص کیا گیا ہے جہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنکی ہدایات کے مطابق مشتبہ مریضوں کو زیر نگرانی رکھا جاتا ہے اور مصدقہ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تمام ہسپتالوں میں عملے اور مریضوں کے لیے مفت اسکریننگ کی سہولت دستیاب ہے۔انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تحت مظفر گڑھ میں قائم 'رجب طیب اردگان ہسپتال' میں بھی کورونا وائرس کی اسکریننگ کے ساتھ ایک خصوصی وارڈ قائم کیا گیا ہے۔
لوگ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلاہیں اور نزلہ و زکام کی علامات کو بھی کورونا وائرس سمجھ کر ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہسپتالوں پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ایسے لوگوں کی سہولت کے لیے انڈس ہسپتال نے کورنگی اور مظفر گڑھ ہسپتال میں خصوصی ہیلپ لائنز کا انتظام کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہسپتال کے ریسرچ سینٹر نے اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک آن لائن سوال نامہ بنایا ہے جو پاکستانی آبادی کے لیے مخصوص ہے۔ اس سوال نامے کی مدد سے لوگ اپنی علامات کا جائزہ لے سکتے ہیںاور ہسپتال آنے سے بچ سکتے ہیں۔
کورونا کے علاوہ دیگر امراض میں مبتلا افراد کی سہولت کے لیے ایک ٹیلی کلینک بھی قائم کیا گیا ہے جس کی مدد سے لوگ اپنے امراض کے حوالے سے متعلقہ ڈاکٹروں سے مشاورت کرسکتے ہیں۔ ہسپتال اپنے موبائل ٹی بی کلینکس کو کورونا کی اسکریننگ اور ٹیسٹنگ کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ان میں سے کچھ موبائل کلینکس انڈس ہسپتال اور سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہیں جبکہ کچھ کلینکس ڈرائیو تھرو کلینکس کے طور پر کام کررہے ہیں۔
انڈس ہسپتال اپنے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر معاون عملے کو اپنا اثاثہ قراردیتا ہے۔ ان کی حفاظت ، تربیت اور اپنے تجربے سے دوسروں کو مستفید کرنے کے لیے انڈس ہسپتال مختلف آن لائن تربیتی پروگرام کررہا ہے جس میں دیگر نجی اور سرکاری ہسپتالوں کے افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔انڈس ہسپتال اپنے عملے کو اس نفسیاتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ماہرانہ مشاورت فراہم کررہا ہے اور ہر وہ شخص جو کورونا سے نمٹنے کے مشن میں شامل ہے اسے ایک اضافی مالی بونس بھی فراہم کیا جارہا ہے۔انڈس کے ماہرین نے اس ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے مختف طبی مواد اور رہنما ہدایات بھی تیار کی ہیں اور عوام کی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے مصدقہ معلومات بھی فراہم کی جارہی ہے۔
کووڈ 19 کی وجہ سے جو معاشی اور معاشرتی بحران پیدا ہوا ہے اس کے باعث ملک کے شعبہ صحت پر نہایت خطرناک دباؤ پڑا ہے ، لاکھوں افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ مسئلہ پوری قوم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ کووڈ 19 کو فوری طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ حل کیا جائے وہیں ملک کے وہ لاکھوں مستحق اور پریشان حال افراد بھی ہماری توجہ کے طالب ہیں جو دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز نہ کیا تو ممکن ہے کہ ہم جیت کر بھی ہار جائیں۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں جیت سکتا۔ ہم صرف متحد ہوکر ہی کووڈ 19 کو مکمل طور پرشکست دے سکتے ہیں۔
انڈس ہسپتال یہ تمام سہولیات عوام کی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی مدد سے فراہم کرتا ہے۔ یہ عطیات کووڈ 19 اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کوبہترین اور مفت علاج فراہم کرنے، طبی عملے، ماہرین ، رضاکاروں اور دیگر معاون عملے کے لیے حفاظتی لباس اور آلات خرید نے اور ہسپتالوں اور ایمرجنسی رومز کو وسعت دینے کے کام آتے ہیں۔
ڈاکٹرعبدالباری خان اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ہر قومی بحران میں قوم اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام سہولیات بروئے کار لارہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور قوم کے مخیر افراد کی مدد سے ہم اس وباء کو روکنے کے قابل ہوجائیں گے۔
( مضمون نگار ڈپٹی مینیجر، کیمونیکیشن اینڈ ریسورس
ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ، انڈس ہسپتال ہیں)
لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا ممکن نہیں اور جلد ہی یہ ہسپتال بند ہوجائے گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ انڈس ہسپتال اب تک نہ صرف قائم ہے بلکہ یہاں ہر ماہ تین لاکھ سے زائد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور اب تک دس ہزار سے زائد بچوں کا کینسر اور خون کے امراض کے لیے علاج کیا جاچکا ہے۔انڈس ہسپتال اب بارہ ہسپتالوں پر محیط ملک گیرہیلتھ نیٹ ورک میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ہسپتال کا بلڈ سینٹرسو فی صد صاف اور محفوظ خون رضاکارانہ بنیادوں پر جمع کرتا اور نیٹ ورک کے ہسپتالوں اور دیگر ملحقہ ہسپتالوں کو مفت فراہم کرتا ہے۔
ہسپتال کے چار ریجنل بلڈ سینٹر ملک کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ ہسپتال کے چار فزیکل ری ہیبی لیٹیشن سینٹرز ملک کے چار شہروں میں موجود ہیں جن کے تحت تقریباً دس ہزار افراد کو مصنوعی ہاتھ اور ٹانگیں فراہم کی جاچکی ہیں۔ نیٹ ورک کے تحت ٹی بی، ملیریا، ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کے خلاف ملک گیر مہم چلائی جارہی ہے۔ ان امراض کے قلع قمع کے لیے موبائل ، بوٹ اور کنٹینر کلینکس کام کررہے ہیں۔ ثالثی سطح کے ہسپتالوں پر سے دباؤ کم کرنے اور لوگوں کو ان کے گھروں کے نزدیک علاج فراہم کرنے کے لیے پاکستان کے باون(52) اضلاع میں پرائمری کیئر کلینک قائم کیے گئے ہیں اور نیٹ ورک کے کمیونٹی ہیلتھ ورکر گھر گھر جا کر لوگوں میں آگاہی پھیلا رہے ہیں۔
انڈس ہسپتال کی کارکردگی کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ان اقدامات کی معترف ہیں۔ انڈس ہسپتال کئی سطحوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری2020ء میں جب کورونا وائرس کی وباء نے پاکستان کا رخ کیا تو حکومت سندھ نے اپنی دفاعی حکمت عملی مرتب کرنے سے لے کر عملی اقدامات کرنے تک کے مراحل میں انڈس ہسپتال کو شریک رکھا۔
انڈس ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان وزیر اعظم عمران خان کی نیشنل ٹاسک فورس کے رکن ہیں، انھیں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قائم ہونے والی صوبائی ٹاسک فورس کا رکن بھی نامزد کیا گیا۔ وہ اس حوالے سے اہم مشاورتی کردار ادا کررہے ہیں۔
انڈس ہسپتال اس قومی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔اپنے تجربے کے پیش نظر انڈس ہسپتال کو سرکاری ہسپتالوں کی استعداد کار میں اضافے کی ذمے داری سونپی گئی۔ انڈس نے جنگی بنیادوں پر دو ہسپتالوں میں آئسولیشن اورقرنطینہ وارڈ قائم کیے۔
مشاورتی اور معاونتی کردار کے ساتھ ساتھ انڈس ہسپتال اپنا روایتی کردار بھی ادا کررہا ہے۔ ہسپتال میں ایک جدید ترین اور تمام ضروری سہولیات سے لیس کووڈ 19 وارڈ قائم کیا گیا ہے۔ بیس بستروں پرمشتمل اس وارڈ میںضروری تعداد میں وینٹی لیٹرز بھی دستیاب ہیں۔ انڈس ہسپتال کی لیبارٹری کی استعداد میں اضافے کے لیے راتوں رات ضروری اقدامات کیے گئے۔ اب یہ لیب نہ صرف انڈس ہسپتال بلکہ سرکاری ہسپتال سیآنے والے مریضوں کے کورونا ٹیسٹ بھی کررہی ہے۔ لیب تین شفٹوں میں 24 گھنٹے کام کرتی ہے اور دن میں ہزارسے زائد ٹیسٹ کرسکتی ہے۔
انڈس ہسپتال کو دن میں دو بار جراثیم سے پاک کیا جاتا ہے۔ انڈس ہسپتال کورنگی کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں کورونا کے مریضوں کے لیے ایک حصہ مختص کیا گیا ہے جہاں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنکی ہدایات کے مطابق مشتبہ مریضوں کو زیر نگرانی رکھا جاتا ہے اور مصدقہ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تمام ہسپتالوں میں عملے اور مریضوں کے لیے مفت اسکریننگ کی سہولت دستیاب ہے۔انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے تحت مظفر گڑھ میں قائم 'رجب طیب اردگان ہسپتال' میں بھی کورونا وائرس کی اسکریننگ کے ساتھ ایک خصوصی وارڈ قائم کیا گیا ہے۔
لوگ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلاہیں اور نزلہ و زکام کی علامات کو بھی کورونا وائرس سمجھ کر ہسپتالوں کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہسپتالوں پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ایسے لوگوں کی سہولت کے لیے انڈس ہسپتال نے کورنگی اور مظفر گڑھ ہسپتال میں خصوصی ہیلپ لائنز کا انتظام کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہسپتال کے ریسرچ سینٹر نے اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک آن لائن سوال نامہ بنایا ہے جو پاکستانی آبادی کے لیے مخصوص ہے۔ اس سوال نامے کی مدد سے لوگ اپنی علامات کا جائزہ لے سکتے ہیںاور ہسپتال آنے سے بچ سکتے ہیں۔
کورونا کے علاوہ دیگر امراض میں مبتلا افراد کی سہولت کے لیے ایک ٹیلی کلینک بھی قائم کیا گیا ہے جس کی مدد سے لوگ اپنے امراض کے حوالے سے متعلقہ ڈاکٹروں سے مشاورت کرسکتے ہیں۔ ہسپتال اپنے موبائل ٹی بی کلینکس کو کورونا کی اسکریننگ اور ٹیسٹنگ کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ان میں سے کچھ موبائل کلینکس انڈس ہسپتال اور سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہیں جبکہ کچھ کلینکس ڈرائیو تھرو کلینکس کے طور پر کام کررہے ہیں۔
انڈس ہسپتال اپنے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر معاون عملے کو اپنا اثاثہ قراردیتا ہے۔ ان کی حفاظت ، تربیت اور اپنے تجربے سے دوسروں کو مستفید کرنے کے لیے انڈس ہسپتال مختلف آن لائن تربیتی پروگرام کررہا ہے جس میں دیگر نجی اور سرکاری ہسپتالوں کے افراد بھی شریک ہوتے ہیں۔انڈس ہسپتال اپنے عملے کو اس نفسیاتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ماہرانہ مشاورت فراہم کررہا ہے اور ہر وہ شخص جو کورونا سے نمٹنے کے مشن میں شامل ہے اسے ایک اضافی مالی بونس بھی فراہم کیا جارہا ہے۔انڈس کے ماہرین نے اس ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے مختف طبی مواد اور رہنما ہدایات بھی تیار کی ہیں اور عوام کی آگاہی کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے مصدقہ معلومات بھی فراہم کی جارہی ہے۔
کووڈ 19 کی وجہ سے جو معاشی اور معاشرتی بحران پیدا ہوا ہے اس کے باعث ملک کے شعبہ صحت پر نہایت خطرناک دباؤ پڑا ہے ، لاکھوں افراد زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ یہ مسئلہ پوری قوم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ کووڈ 19 کو فوری طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ حل کیا جائے وہیں ملک کے وہ لاکھوں مستحق اور پریشان حال افراد بھی ہماری توجہ کے طالب ہیں جو دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز نہ کیا تو ممکن ہے کہ ہم جیت کر بھی ہار جائیں۔یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں جیت سکتا۔ ہم صرف متحد ہوکر ہی کووڈ 19 کو مکمل طور پرشکست دے سکتے ہیں۔
انڈس ہسپتال یہ تمام سہولیات عوام کی زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی مدد سے فراہم کرتا ہے۔ یہ عطیات کووڈ 19 اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کوبہترین اور مفت علاج فراہم کرنے، طبی عملے، ماہرین ، رضاکاروں اور دیگر معاون عملے کے لیے حفاظتی لباس اور آلات خرید نے اور ہسپتالوں اور ایمرجنسی رومز کو وسعت دینے کے کام آتے ہیں۔
ڈاکٹرعبدالباری خان اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ہر قومی بحران میں قوم اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام سہولیات بروئے کار لارہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور قوم کے مخیر افراد کی مدد سے ہم اس وباء کو روکنے کے قابل ہوجائیں گے۔
( مضمون نگار ڈپٹی مینیجر، کیمونیکیشن اینڈ ریسورس
ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ، انڈس ہسپتال ہیں)