دیامیر بھاشا ڈیم پایہ تکمیل کو پہنچنا چاہیے
ہم نے 1972کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا، جب کہ 1972کے مقابلے میں آبادی میں 4گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ہم ٹیکنالوجی کے معاملے میں دوسرے ملکوں کے مرہون منت ہیں تو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ اس میں قصور کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا ہے۔ ہم نے 1972کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا، جب کہ 1972کے مقابلے میں آبادی میں 4گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ (جب کہ اس کے مقابلے میں ہمسایہ ملک بھارت نے اس دوران ستائیس ڈیم بنا لیے ہیں۔ )خیر اُس وقت اگر ہماری آبادی ساڑھے 4کروڑ تھی تو آج 22کروڑ کو پہنچ چکی ہے۔
اگر اُس وقت ہماری بجلی 1500میگا واٹ استعمال ہوتی تھی تو آج ہم 22ہزار میگاواٹ کو چھو رہے ہیں۔ اُس وقت فی یونٹ ریٹ اگر25پیسے تھا تو آج 30روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ریٹ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اُس وقت ہم بجلی صرف پانی سے بناتے تھے جس کے لیے صرف انفرااسٹرکچر اور ٹربائن کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم دنیا کے مہنگے ترین پاور پلانٹ سے بجلی بنارہے ہیں اور وہ فرنس آئل یا دوسری توانائیوں کو خرچ کرکے ''توانائی'' حاصل کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ پانی کو چھوڑ کر تیل سے بجلی پیدا کریں گے تو آپ کو فی یونٹ کاسٹ بھی اسی حساب سے ادا کرنی پڑے گی۔
پاکستان نے کالاباغ ڈیم کے بجائے کم متنازع دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کرنے کا آغاز کردیا ہے جو خاصی خوش آیند بات ہے۔ لیکن حقیقی خوشی تو تبھی ہو سکتی ہے جب اس کی تکمیل بھی ہو ورنہ تو کالاباغ ڈیم کو بھی شروع کیا گیا تھا، مشینری بھی ساری ''وقوعہ'' پر پہنچ چکی تھی لیکن اربوں روپے کی مشینری آج بھی وہاں ''عبرت'' کا نشان بن کر زنگ آلود ہوگئی ہے۔ یہ منصوبہ صوبوں کی لڑائی اور سیاست کی ایسی بھینٹ چڑھا کہ مشرف جیسا ڈکٹیٹر بھی اس پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا۔
خیر دیر آئد درست آئد کے مصداق اگر ہم بات کریں ''دیا میر بھاشا ڈیم'' کی تو یہ ڈیم پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے بھاشا میں بننے جا رہا ہے۔ اس ڈیم کا کچھ حصہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوھستان میں ہے جب کہ کچھ حصہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے علاقے میں آتا ہے۔ جس وجہ سے اس کو دیامیر بھاشا ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
دیامیر بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ تعمیر تربیلا ڈیم سے 315 کلومیٹر دورجب کہ گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت سے 165کلومیٹر اور چالاس سے 40 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے نچلی طرف ہو گی۔ ڈیم کی بلندی 272 میٹر ہو گی۔ اس کے 14سپل وے گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ اس میں مجموعی طور پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8.10 ملین ایکٹر فٹ ہو گی جب کہ اس میں ہمہ وقت 6.40 ملین ایکٹر فٹ پانی موجود رہے گا۔اس پانی کو زراعت کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
اس منصوبے سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کا چھ لاکھ ایکٹر کا رقبہ قابل کاشت ہو جائے گا بلکہ مجموعی طور پر تین ملین ایکٹر زرعی رقبہ سیراب ہو سکے گا۔اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بارہ ٹربائن لگائی جائیں گی اور ہر ایک ٹربائن سے متوقع طور پر 375 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گئی جب کہ مجموعی طور پر 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ ڈیم دریائے سندھ کے پانی کا قدرتی بہاؤ استعمال کرتے ہوئے اس پانی کا 15 فیصد استعمال کرے گا جب کہ اس مقام پر دریائے سندھ کا سالانہ اخراج 5کروڑ فٹ ایکٹر ہے۔
ڈیم مجموعی طور پر 110 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہو گا جب کہ 100 کلومیٹر مزید رقبے پر ڈیم کے انفرااسٹریکچر کی تعمیر ہو گئی۔ڈیم کی تعمیر سے 30 دیہات اور مجموعی طور پر 2200گھرانے جن کی آبادی کا تخمینہ بائیس ہزار لگایا گیا ہے، 500 ایکٹر زرعی زمین اور شاہراہ قراقرم کا سو کلومیٹر کا علاقہ پانی برد ہو گا۔
دیامیر بھاشا ڈیم پر اگر لاگت کی بات کی جائے تو اس کی تعمیر کا تازہ تخمینہ 1400ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ابتدائی طور پر کام کرنے والے عملے کے لیے رہائشی کالونی، سڑکوں اور دیگر ضروری ڈھانچے پر کام لگ بھگ مکمل ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ پہاڑی اور پتھریلے علاقے کی وجہ سے بھاشا ڈیم سے نہریں نکال کر اردگرد کے علاقوں میں آبپاشی کے لیے استعمال نہیں ہو سکتیں جب کہ کالا باغ دریائے سندھ کے پانی کے نہری استعمال کے لیے سب سے زیادہ موزوں مقام سمجھا جاتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی منصوبہ بندی 2008ء میں مکمل ہوئی۔ اس وقت تعمیراتی لاگت کا تخمینہ 12.6ارب ڈالر لگایا گیا۔
مارچ 2008ء میں منصوبے کی تفصیلی ڈرائنگ مکمل کر لی گئی۔ اگست 2012ء میں منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے بڑے شراکت داروں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کر لی۔ بھارتی اثر و رسوخ نے ان اداروں کو منصوبے سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دونوں نے کہا کہ ڈیم ایک متنازع علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے اس لیے پاکستان اگر فنڈز چاہتا ہے تو اسے بھارت سے این او سی لینا ہو گا۔ اگست 2013کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر یکے بعد دیگرے کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ بتایا گیا کہ بھاشا ڈیم پر 12برس تک کام مکمل ہو جائے گا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے منصوبے کی باقاعدہ منظوری دیتے ہوئے2017ء کے آخر تک تعمیراتی کام شروع کرنے کی ہدایت کی۔ نومبر 2017ء میں ایک بار پھر یہ منصوبہ مشکلات کا شکار ہو گیا۔ منصوبے کو تعمیراتیفہرست سے نکال دیا گیا۔ منصوبہ پاک چین راہداری پیکیج میں شامل کیا گیا تھا ۔ جولائی 2018ء میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے حکومت کو بھاشا ڈیم کی تعمیر کا حکم جاری کیا۔ جسٹس ثاقت نثار نے مہمند اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنی جیب سے 10لاکھ روپے دیے اور تمام پاکستانیوں سے عطیات کی اپیل کی۔ یہ عطیات بارہ ارب روپے کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔ ڈیم کے ابتدائی ڈھانچے کے لیے 5ارب ڈالر اور بعد میں پانی ذخیرہ اور چالو کرنے پر 7ارب ڈالر کا خرچ ہو گا۔
پاکستان میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت کا اندازہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر عالمی اداروں کی ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جن کی رو سے 2040تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ہمیں ہر سال تقریباً 145ملین ایکڑ فِٹ بارش کا پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے 14ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم پانی بچتا ہے۔ لہٰذااس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک عزم کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی ہونی چاہیے۔
اگر اُس وقت ہماری بجلی 1500میگا واٹ استعمال ہوتی تھی تو آج ہم 22ہزار میگاواٹ کو چھو رہے ہیں۔ اُس وقت فی یونٹ ریٹ اگر25پیسے تھا تو آج 30روپے سے بھی زیادہ ہے۔ یہ ریٹ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اُس وقت ہم بجلی صرف پانی سے بناتے تھے جس کے لیے صرف انفرااسٹرکچر اور ٹربائن کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ہم دنیا کے مہنگے ترین پاور پلانٹ سے بجلی بنارہے ہیں اور وہ فرنس آئل یا دوسری توانائیوں کو خرچ کرکے ''توانائی'' حاصل کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب آپ پانی کو چھوڑ کر تیل سے بجلی پیدا کریں گے تو آپ کو فی یونٹ کاسٹ بھی اسی حساب سے ادا کرنی پڑے گی۔
پاکستان نے کالاباغ ڈیم کے بجائے کم متنازع دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کرنے کا آغاز کردیا ہے جو خاصی خوش آیند بات ہے۔ لیکن حقیقی خوشی تو تبھی ہو سکتی ہے جب اس کی تکمیل بھی ہو ورنہ تو کالاباغ ڈیم کو بھی شروع کیا گیا تھا، مشینری بھی ساری ''وقوعہ'' پر پہنچ چکی تھی لیکن اربوں روپے کی مشینری آج بھی وہاں ''عبرت'' کا نشان بن کر زنگ آلود ہوگئی ہے۔ یہ منصوبہ صوبوں کی لڑائی اور سیاست کی ایسی بھینٹ چڑھا کہ مشرف جیسا ڈکٹیٹر بھی اس پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا۔
خیر دیر آئد درست آئد کے مصداق اگر ہم بات کریں ''دیا میر بھاشا ڈیم'' کی تو یہ ڈیم پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقے بھاشا میں بننے جا رہا ہے۔ اس ڈیم کا کچھ حصہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوھستان میں ہے جب کہ کچھ حصہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر کے علاقے میں آتا ہے۔ جس وجہ سے اس کو دیامیر بھاشا ڈیم کا نام دیا گیا ہے۔
دیامیر بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ تعمیر تربیلا ڈیم سے 315 کلومیٹر دورجب کہ گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت سے 165کلومیٹر اور چالاس سے 40 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے نچلی طرف ہو گی۔ ڈیم کی بلندی 272 میٹر ہو گی۔ اس کے 14سپل وے گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ اس میں مجموعی طور پر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8.10 ملین ایکٹر فٹ ہو گی جب کہ اس میں ہمہ وقت 6.40 ملین ایکٹر فٹ پانی موجود رہے گا۔اس پانی کو زراعت کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
اس منصوبے سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کا چھ لاکھ ایکٹر کا رقبہ قابل کاشت ہو جائے گا بلکہ مجموعی طور پر تین ملین ایکٹر زرعی رقبہ سیراب ہو سکے گا۔اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بارہ ٹربائن لگائی جائیں گی اور ہر ایک ٹربائن سے متوقع طور پر 375 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گئی جب کہ مجموعی طور پر 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ ڈیم دریائے سندھ کے پانی کا قدرتی بہاؤ استعمال کرتے ہوئے اس پانی کا 15 فیصد استعمال کرے گا جب کہ اس مقام پر دریائے سندھ کا سالانہ اخراج 5کروڑ فٹ ایکٹر ہے۔
ڈیم مجموعی طور پر 110 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہو گا جب کہ 100 کلومیٹر مزید رقبے پر ڈیم کے انفرااسٹریکچر کی تعمیر ہو گئی۔ڈیم کی تعمیر سے 30 دیہات اور مجموعی طور پر 2200گھرانے جن کی آبادی کا تخمینہ بائیس ہزار لگایا گیا ہے، 500 ایکٹر زرعی زمین اور شاہراہ قراقرم کا سو کلومیٹر کا علاقہ پانی برد ہو گا۔
دیامیر بھاشا ڈیم پر اگر لاگت کی بات کی جائے تو اس کی تعمیر کا تازہ تخمینہ 1400ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ابتدائی طور پر کام کرنے والے عملے کے لیے رہائشی کالونی، سڑکوں اور دیگر ضروری ڈھانچے پر کام لگ بھگ مکمل ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کالا باغ ڈیم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ پہاڑی اور پتھریلے علاقے کی وجہ سے بھاشا ڈیم سے نہریں نکال کر اردگرد کے علاقوں میں آبپاشی کے لیے استعمال نہیں ہو سکتیں جب کہ کالا باغ دریائے سندھ کے پانی کے نہری استعمال کے لیے سب سے زیادہ موزوں مقام سمجھا جاتا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کی منصوبہ بندی 2008ء میں مکمل ہوئی۔ اس وقت تعمیراتی لاگت کا تخمینہ 12.6ارب ڈالر لگایا گیا۔
مارچ 2008ء میں منصوبے کی تفصیلی ڈرائنگ مکمل کر لی گئی۔ اگست 2012ء میں منصوبے کے لیے فنڈز فراہم کرنے والے بڑے شراکت داروں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کر لی۔ بھارتی اثر و رسوخ نے ان اداروں کو منصوبے سے الگ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دونوں نے کہا کہ ڈیم ایک متنازع علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے اس لیے پاکستان اگر فنڈز چاہتا ہے تو اسے بھارت سے این او سی لینا ہو گا۔ اگست 2013کو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر یکے بعد دیگرے کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ بتایا گیا کہ بھاشا ڈیم پر 12برس تک کام مکمل ہو جائے گا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے منصوبے کی باقاعدہ منظوری دیتے ہوئے2017ء کے آخر تک تعمیراتی کام شروع کرنے کی ہدایت کی۔ نومبر 2017ء میں ایک بار پھر یہ منصوبہ مشکلات کا شکار ہو گیا۔ منصوبے کو تعمیراتیفہرست سے نکال دیا گیا۔ منصوبہ پاک چین راہداری پیکیج میں شامل کیا گیا تھا ۔ جولائی 2018ء میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار نے حکومت کو بھاشا ڈیم کی تعمیر کا حکم جاری کیا۔ جسٹس ثاقت نثار نے مہمند اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنی جیب سے 10لاکھ روپے دیے اور تمام پاکستانیوں سے عطیات کی اپیل کی۔ یہ عطیات بارہ ارب روپے کے لگ بھگ ہو چکے ہیں۔ ڈیم کے ابتدائی ڈھانچے کے لیے 5ارب ڈالر اور بعد میں پانی ذخیرہ اور چالو کرنے پر 7ارب ڈالر کا خرچ ہو گا۔
پاکستان میں پانی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قلت کا اندازہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر عالمی اداروں کی ان رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے جن کی رو سے 2040تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ہمیں ہر سال تقریباً 145ملین ایکڑ فِٹ بارش کا پانی دستیاب ہوتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے 14ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم پانی بچتا ہے۔ لہٰذااس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ایک عزم کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی ہونی چاہیے۔