جلدحالات سے مطابقت پیدا کریں
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام وبائوں کا زیادہ زور شہروں ہی میں رہا ہے۔
HYDERABAD:
پچھلے تین دنوں میں بازاروں میں بھِیڑ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم احتیاط نہیں کر رہے حالانکہ کورونا وائرس کی وباء کوئی وقتی عمل phenomenon نہیں اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ جلدی اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔
1918کی اسپینش فلوSpanish flu سے بچ جانے والے ایک معمر شخص نے بتایا تھا کہ 1922 میں جاکر زندگی کچھ نارمل ہونی شروع ہوئی تھی ۔ کورونا وائرس کی وباء نے شہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ دیہات بڑی حد تک اس کی دست بُرد سے محفوظ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں آبادی کا زیادہ تر Interactionٰ اِنٹرایکشن باہمی ہوتا ہے۔کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے تعلیم، روزگار یا علاج کے لیے دیہات کا رُخ کیا ہو جب کہ ہر شہر میں ہزاروں، لاکھوں لوگ روزانہ آتے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام وبائوں کا زیادہ زور شہروں ہی میں رہا ہے۔ روزانہ جاری ہونے والی رپورٹوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر اموات شہروں میں ہی ہو رہی ہیں۔کورونا نے بھی نیویارک کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جو کہ شاید دنیا کا سب سے گنجان آباد ایک شہر ہے۔ہمیں دیکھنا ہے کہ وائرس سے آنے والے دنوں میں شہری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور شہری زندگی کیسی ہو سکتی ہے۔
یہ بات بلا خوفِ و تردید کہی جا سکتی ہے کہ وباء سے پہلے والی زندگی اور وباء کے بعد کی زندگی ایک جیسی نہیں ہو گی۔اس وباء نے بہت کچھ ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں کئی ملین ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔چونکہ اُن کے ہاں ڈیٹا مل جاتا ہے اس لیے وہاں کی صورتحال کا علم ہے۔
شہری زندگی میں جاب مارکیٹ بہت وسیع ہوتی ہے۔کام ملنے کے مواقعے بے شمار ہوتے ہیں۔مارکیٹیں ہر قسم کے سامان سے بھری ہوتی ہیں۔تعلیم حاصل کرنے اور اپنی skills کو بہتر کرنے کے ذرایع موجود ہوتے ہیں۔ بیماریوں کا شہر میں علاج ممکن ہوتا ہے۔ آرٹ،موسیقی اور ادب میں نام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے بھی شہروں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے اس لیے لوگ شہروں کی طرف اُمڈے چلے آتے ہیں۔یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔
اس سے پہلے کئی وبائیں پھوٹیں،ہزاروں لاکھوں جانوں کو نگل گئیں، ایشیا،مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا شہر ہو جہاں یہ آفت کبھی نہ کبھی وارد نہ ہوئی ہو لیکن کیا یہ شہر اجڑ گئے،نہیں ایسا نہیں ہوا۔اسپینش فلو میں کوئی پچاس ملین لوگ لقمہء اجل بن گئے خاص طور پر لاک ڈائون کھلنے کے بعد دوسرے حملے میں جو پہلے سے زیادہ شدید تھا،لیکن پھر بھی شہروں میں زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ واپس ایسی جلوہ گر ہوئی کہ شاید اس سے پہلے کبھی اتنی چکا چوند نہ تھی۔
روشنیوں کی چکا چوند نے زندگی کے آڑے آنے والے عوامل کو درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وباء کے ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد شہروں کی رونقیں ضرور بحال ہوں گی لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زندگی اب پہلے والی کبھی نہیں ہو گی۔لوگ اب بھیڑ میں جانے سے ہمیشہ پہلو تہی کریں گے۔یہ خوف ہمیشہ دامن گیر رہے گا کہ نہ جانے کون سا آدمی کون سے موڑ پر موت بیچ رہا ہو۔بغلگیر ہونا اور گرم جوشی سے مصافحہ کرنا قصہء پارینہ ہو چکا۔ کھچا کھچ بھری ٹرین یا اوور لوڈِڈ بس کا سفر خطرات کو دعوت دینے کے مترادف بن چکا ہے۔ بھیڑ ہی کی وجہ سے سب وے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خوف محسوس ہو گا۔
شہروں میں بلند و بالا اسکائی اسکریپرز اور پلازے،ان کی لابیاں،ان کی لفٹیں بیماری پھیلانے کا موجب ہونے کے باعث فیشن میں نہیں رہیں گے۔اسی طرح ملٹی اسٹوری ٹاورزو اپارٹمنٹس کے مقابلے میں ایک پرائیویٹ گھر وبائی امراض سے بچائو میں کافی ممدو معاون ہے اس لیے لوگ چاہیں گے کہ جیسا کیسا بھی ہو لیکن اپنا پرائیویٹ گھر ہو اور یہ ترجیحاً گنجان آبادی سے دور مضافاتی علاقے میں ہو۔ اداروں اور کاخانوں کے کارپردازوں کو سوچنا پڑے گا کہ کس طرح ملازمین کو ایک دوسرے سے دور رکھ کر پروڈکشن جاری رکھیں اس لیے شاید آنے والے وقتوں میں روبوٹس کا چلن زیادہ دکھائی دے۔
ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ وباء شہری زندگی کو تبدیل کر رہی ہے۔اسپتالوں پر بہت زیادہ دبائو ہے بہت سے ڈاکٹر اور اسٹاف اپنے فرض کی ادائیگی میںجان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تجارت کو بہت دھچکا لگا ہے۔
وہ شعبے،ادارے یا کاروبار جو شدید متاثر ہوئے ہیں ان میں پہلے نمبر پر جاب مارکیٹ آتی ہے۔لاکھوں کروڑوں ملازمتیں جاتی رہی ہیں اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ پہلے والی جاب مارکیٹ کبھی لوٹ کر نہ آئے کیونکہ بڑے بڑے آجر اب ملازموں کو اپنے پے رول پر رکھنے کے بجائے آئوٹ سورس کرنا چاہیں گے۔لاک ڈائون اور موت کے مہیب سائے نے ٹرانسپورٹ بند کر دی ہے اس لیے ٹریول انڈسٹری بہت متاثر ہوئی ہے اور اسی کے ساتھ سیاحت کا شعبہ ،ہوٹل انڈسٹری میں بھی کافی مندی آئی ہے۔ہر دم کھچا کھچ بھرے رہنے والے ہوٹل اب مہمانوں کا رستہ دیکھ رہے ہیں۔شادی گھر والوں کا بہت بزنس تھا ،یہ تو ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے اور اب شاید کبھی پہلے والا بزنس واپس نہ آئے۔ان تمام شعبوں سے متعلق افراد کو جاگنا ہو گا۔بہائو کی مخالف سمت تیرتے رہنا اچھا نہیں۔
اب جو شعبے بہتر رہیں گے ان میں سب سے ٹاپ پر آئی ٹی کا شعبہ ہے۔ڈیجیٹل پروڈکٹس کی مانگ بڑھ گئی ہے،انٹر نیٹ کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔فیس بُک والوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ GIG آکانومی میں مہارت حاصل کر کے بہت کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے،اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں اس لیے یہ وقت ہے اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگانے کا۔کمپیوٹر گیمز بھی بہت فائدے کا کاروبار بن گیا ہے۔آن لائن کوچنگ بہت فائدہ مند بزنس بنتا جا رہا ہے۔جتنا جلدی ہو سکے اپنے آپ کو صحیح سمت اور صحیح جگہ پوزیشن کریں۔جو جتنا جلدی بدلتے حالات سے مطابقت پیدا کرے گا اتنی ہی کامیابی سمیٹے گا۔اﷲ آپ کی حفاظت کرے۔ (آمین۔)
پچھلے تین دنوں میں بازاروں میں بھِیڑ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم احتیاط نہیں کر رہے حالانکہ کورونا وائرس کی وباء کوئی وقتی عمل phenomenon نہیں اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہیے کہ جلدی اس سے چھٹکارا مل جائے گا۔
1918کی اسپینش فلوSpanish flu سے بچ جانے والے ایک معمر شخص نے بتایا تھا کہ 1922 میں جاکر زندگی کچھ نارمل ہونی شروع ہوئی تھی ۔ کورونا وائرس کی وباء نے شہروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔ دیہات بڑی حد تک اس کی دست بُرد سے محفوظ رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں آبادی کا زیادہ تر Interactionٰ اِنٹرایکشن باہمی ہوتا ہے۔کبھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے تعلیم، روزگار یا علاج کے لیے دیہات کا رُخ کیا ہو جب کہ ہر شہر میں ہزاروں، لاکھوں لوگ روزانہ آتے جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام وبائوں کا زیادہ زور شہروں ہی میں رہا ہے۔ روزانہ جاری ہونے والی رپورٹوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر اموات شہروں میں ہی ہو رہی ہیں۔کورونا نے بھی نیویارک کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جو کہ شاید دنیا کا سب سے گنجان آباد ایک شہر ہے۔ہمیں دیکھنا ہے کہ وائرس سے آنے والے دنوں میں شہری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور شہری زندگی کیسی ہو سکتی ہے۔
یہ بات بلا خوفِ و تردید کہی جا سکتی ہے کہ وباء سے پہلے والی زندگی اور وباء کے بعد کی زندگی ایک جیسی نہیں ہو گی۔اس وباء نے بہت کچھ ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں کئی ملین ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔چونکہ اُن کے ہاں ڈیٹا مل جاتا ہے اس لیے وہاں کی صورتحال کا علم ہے۔
شہری زندگی میں جاب مارکیٹ بہت وسیع ہوتی ہے۔کام ملنے کے مواقعے بے شمار ہوتے ہیں۔مارکیٹیں ہر قسم کے سامان سے بھری ہوتی ہیں۔تعلیم حاصل کرنے اور اپنی skills کو بہتر کرنے کے ذرایع موجود ہوتے ہیں۔ بیماریوں کا شہر میں علاج ممکن ہوتا ہے۔ آرٹ،موسیقی اور ادب میں نام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے بھی شہروں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے اس لیے لوگ شہروں کی طرف اُمڈے چلے آتے ہیں۔یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔
اس سے پہلے کئی وبائیں پھوٹیں،ہزاروں لاکھوں جانوں کو نگل گئیں، ایشیا،مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا شہر ہو جہاں یہ آفت کبھی نہ کبھی وارد نہ ہوئی ہو لیکن کیا یہ شہر اجڑ گئے،نہیں ایسا نہیں ہوا۔اسپینش فلو میں کوئی پچاس ملین لوگ لقمہء اجل بن گئے خاص طور پر لاک ڈائون کھلنے کے بعد دوسرے حملے میں جو پہلے سے زیادہ شدید تھا،لیکن پھر بھی شہروں میں زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ واپس ایسی جلوہ گر ہوئی کہ شاید اس سے پہلے کبھی اتنی چکا چوند نہ تھی۔
روشنیوں کی چکا چوند نے زندگی کے آڑے آنے والے عوامل کو درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ وباء کے ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد شہروں کی رونقیں ضرور بحال ہوں گی لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زندگی اب پہلے والی کبھی نہیں ہو گی۔لوگ اب بھیڑ میں جانے سے ہمیشہ پہلو تہی کریں گے۔یہ خوف ہمیشہ دامن گیر رہے گا کہ نہ جانے کون سا آدمی کون سے موڑ پر موت بیچ رہا ہو۔بغلگیر ہونا اور گرم جوشی سے مصافحہ کرنا قصہء پارینہ ہو چکا۔ کھچا کھچ بھری ٹرین یا اوور لوڈِڈ بس کا سفر خطرات کو دعوت دینے کے مترادف بن چکا ہے۔ بھیڑ ہی کی وجہ سے سب وے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے خوف محسوس ہو گا۔
شہروں میں بلند و بالا اسکائی اسکریپرز اور پلازے،ان کی لابیاں،ان کی لفٹیں بیماری پھیلانے کا موجب ہونے کے باعث فیشن میں نہیں رہیں گے۔اسی طرح ملٹی اسٹوری ٹاورزو اپارٹمنٹس کے مقابلے میں ایک پرائیویٹ گھر وبائی امراض سے بچائو میں کافی ممدو معاون ہے اس لیے لوگ چاہیں گے کہ جیسا کیسا بھی ہو لیکن اپنا پرائیویٹ گھر ہو اور یہ ترجیحاً گنجان آبادی سے دور مضافاتی علاقے میں ہو۔ اداروں اور کاخانوں کے کارپردازوں کو سوچنا پڑے گا کہ کس طرح ملازمین کو ایک دوسرے سے دور رکھ کر پروڈکشن جاری رکھیں اس لیے شاید آنے والے وقتوں میں روبوٹس کا چلن زیادہ دکھائی دے۔
ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ وباء شہری زندگی کو تبدیل کر رہی ہے۔اسپتالوں پر بہت زیادہ دبائو ہے بہت سے ڈاکٹر اور اسٹاف اپنے فرض کی ادائیگی میںجان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تجارت کو بہت دھچکا لگا ہے۔
وہ شعبے،ادارے یا کاروبار جو شدید متاثر ہوئے ہیں ان میں پہلے نمبر پر جاب مارکیٹ آتی ہے۔لاکھوں کروڑوں ملازمتیں جاتی رہی ہیں اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ پہلے والی جاب مارکیٹ کبھی لوٹ کر نہ آئے کیونکہ بڑے بڑے آجر اب ملازموں کو اپنے پے رول پر رکھنے کے بجائے آئوٹ سورس کرنا چاہیں گے۔لاک ڈائون اور موت کے مہیب سائے نے ٹرانسپورٹ بند کر دی ہے اس لیے ٹریول انڈسٹری بہت متاثر ہوئی ہے اور اسی کے ساتھ سیاحت کا شعبہ ،ہوٹل انڈسٹری میں بھی کافی مندی آئی ہے۔ہر دم کھچا کھچ بھرے رہنے والے ہوٹل اب مہمانوں کا رستہ دیکھ رہے ہیں۔شادی گھر والوں کا بہت بزنس تھا ،یہ تو ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے اور اب شاید کبھی پہلے والا بزنس واپس نہ آئے۔ان تمام شعبوں سے متعلق افراد کو جاگنا ہو گا۔بہائو کی مخالف سمت تیرتے رہنا اچھا نہیں۔
اب جو شعبے بہتر رہیں گے ان میں سب سے ٹاپ پر آئی ٹی کا شعبہ ہے۔ڈیجیٹل پروڈکٹس کی مانگ بڑھ گئی ہے،انٹر نیٹ کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔فیس بُک والوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ GIG آکانومی میں مہارت حاصل کر کے بہت کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے،اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں اس لیے یہ وقت ہے اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگانے کا۔کمپیوٹر گیمز بھی بہت فائدے کا کاروبار بن گیا ہے۔آن لائن کوچنگ بہت فائدہ مند بزنس بنتا جا رہا ہے۔جتنا جلدی ہو سکے اپنے آپ کو صحیح سمت اور صحیح جگہ پوزیشن کریں۔جو جتنا جلدی بدلتے حالات سے مطابقت پیدا کرے گا اتنی ہی کامیابی سمیٹے گا۔اﷲ آپ کی حفاظت کرے۔ (آمین۔)