چینی اسکینڈل اربوں کی ڈکیتی میں مسابقتی کمیشن سمیت متعلقہ ادارے بھی ملوث
فرانزک آڈٹ کیلیے دی گئی مدت ختم‘صوبائی حکومتیں نرخ کم مقرر کرکے کسانوںکا استحصال کرتی ہیں، رپورٹ میں انکشاف
ISLAMABAD:
چینی اسکینڈل بے نقاب کرنے کیلیے فرانزک کمیشن کی رپورٹ آخری مراحل میں داخل ہوگئی جبکہ فرانزک آڈٹ کیلیے دی گئی مدت بھی پوری ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق کمیشن چینی اسکینڈل میں ملوث کارٹل کی نشاندہی کے علاوہ چینی مافیا کی اجارہ داری ختم کرنے کیلیے اپنی سفارشات پیش کرنے تک ہی محدود رہے گا،حکومت کی طرف سے چینی پر سبسڈی دینا مجرمانہ اقدام کے زمرے میں نہیں آتا، اس لیے ایف آئی اے اس معاملے پر کارروائی سے قاصر رہے گا تاہم فرانزک رپورٹ منظرعام آنے پر چینی مافیا کا گھناؤنا کھیل روکنے میں مدد ملے گی، رپورٹ سے کارٹل میں شامل مختلف مافیاز کی نشاندہی ممکن ہو سکے گی جس کے بعدنیب اپنی تحقیقات شروع کر سکے گا۔
فرانزک رپورٹ میں گنے کے کاشتکاروں کے استحصال سے لیکر مہنگے داموں چینی فروخت کر کے صارفین کی جیب پر اربوں روپے کی ڈکیتی ڈالنے والوں میں بااثر شوگر ملز ایسوسی ایشن ، شوگربروکرز، مسابقتی کمیشن سمیت تمام متعلقہ سرکاری ادارے شامل ہیں۔
فرانزک رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت گنے کے نرخ کم مقرر کر کے کاشتکاروں کے استحصال کی ابتدا کرتی ہیں، دوسرے مرحلے میں شوگر ملز کی طرف سے جان بوجھ کر خریداری میں تاخیر کی جاتی ہے اور گنا غیر معیاری قرار دیکر مزید کم نرخوں میں کاشتکاروں سے خریدا جاتا ہے، جنوبی پنجاب میں اس فصل کی کاشت سے زیر زمین پانی کا لیول نیچے چلا گیا اور زمینوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، شوگر ملز مالکان ایکس مل پرائس خود مقرر کرتے ہیں جبکہ بروکر چینی مارکیٹ میں پہنچاتے ہیں،فرانزک آڈٹ کے دوران ایسے شواہد ملے کہ بروکرز اور ملز مالکان میں گٹھ جوڑ ہے، شوگر ملز کے گوداموں میں چینی موجود ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق فرانزک رپورٹ میں شوگر ملز کی جانب سے افغانستان میں چینی کی بر آمد کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ چینی ایکسپورٹ کرنے کے نام پر ایف بی آر سے اجازت تو لی جاتی ہے مگر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی چینی افغانستان برآمد ہوتی بھی ہے یا نہیں ؟ بادی النظر میں فرانزک کمیشن کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں، لہذاعین ممکن ہے کہ فرانزک کمیشن حکومت سے تحقیقات کیلئے مزید وقت مانگے۔
ادھر مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد گزشتہ روز چینی انکوائری کمیشن کے روبرو پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ ذرائع کے مطابق واجد ضیاء کی سربراہی میں کمیشن ارکان نے چینی کی ایکسپورٹ اور سبسڈی دینے کے معاملے پر ان سے متعدد سوالات بھی کئے، دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایک اور خط لکھتے ہوئے وزیراعلی سندھ کی طلبی کا نوٹس فوری واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
چینی اسکینڈل بے نقاب کرنے کیلیے فرانزک کمیشن کی رپورٹ آخری مراحل میں داخل ہوگئی جبکہ فرانزک آڈٹ کیلیے دی گئی مدت بھی پوری ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق کمیشن چینی اسکینڈل میں ملوث کارٹل کی نشاندہی کے علاوہ چینی مافیا کی اجارہ داری ختم کرنے کیلیے اپنی سفارشات پیش کرنے تک ہی محدود رہے گا،حکومت کی طرف سے چینی پر سبسڈی دینا مجرمانہ اقدام کے زمرے میں نہیں آتا، اس لیے ایف آئی اے اس معاملے پر کارروائی سے قاصر رہے گا تاہم فرانزک رپورٹ منظرعام آنے پر چینی مافیا کا گھناؤنا کھیل روکنے میں مدد ملے گی، رپورٹ سے کارٹل میں شامل مختلف مافیاز کی نشاندہی ممکن ہو سکے گی جس کے بعدنیب اپنی تحقیقات شروع کر سکے گا۔
فرانزک رپورٹ میں گنے کے کاشتکاروں کے استحصال سے لیکر مہنگے داموں چینی فروخت کر کے صارفین کی جیب پر اربوں روپے کی ڈکیتی ڈالنے والوں میں بااثر شوگر ملز ایسوسی ایشن ، شوگربروکرز، مسابقتی کمیشن سمیت تمام متعلقہ سرکاری ادارے شامل ہیں۔
فرانزک رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت گنے کے نرخ کم مقرر کر کے کاشتکاروں کے استحصال کی ابتدا کرتی ہیں، دوسرے مرحلے میں شوگر ملز کی طرف سے جان بوجھ کر خریداری میں تاخیر کی جاتی ہے اور گنا غیر معیاری قرار دیکر مزید کم نرخوں میں کاشتکاروں سے خریدا جاتا ہے، جنوبی پنجاب میں اس فصل کی کاشت سے زیر زمین پانی کا لیول نیچے چلا گیا اور زمینوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، شوگر ملز مالکان ایکس مل پرائس خود مقرر کرتے ہیں جبکہ بروکر چینی مارکیٹ میں پہنچاتے ہیں،فرانزک آڈٹ کے دوران ایسے شواہد ملے کہ بروکرز اور ملز مالکان میں گٹھ جوڑ ہے، شوگر ملز کے گوداموں میں چینی موجود ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق فرانزک رپورٹ میں شوگر ملز کی جانب سے افغانستان میں چینی کی بر آمد کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ چینی ایکسپورٹ کرنے کے نام پر ایف بی آر سے اجازت تو لی جاتی ہے مگر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی چینی افغانستان برآمد ہوتی بھی ہے یا نہیں ؟ بادی النظر میں فرانزک کمیشن کے پاس ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں، لہذاعین ممکن ہے کہ فرانزک کمیشن حکومت سے تحقیقات کیلئے مزید وقت مانگے۔
ادھر مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد گزشتہ روز چینی انکوائری کمیشن کے روبرو پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ ذرائع کے مطابق واجد ضیاء کی سربراہی میں کمیشن ارکان نے چینی کی ایکسپورٹ اور سبسڈی دینے کے معاملے پر ان سے متعدد سوالات بھی کئے، دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے ڈی جی ایف آئی اے کو ایک اور خط لکھتے ہوئے وزیراعلی سندھ کی طلبی کا نوٹس فوری واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔