انٹرنیٹ کے سحر میں گرفتار انسانی دماغ
انسان نے نرالی ڈیجیٹل دنیا تو ایجاد کر لی مگر کیا وہ اس کے منفی اثرات کا بخوبی مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے؟
پچھلے دنوں ایک عزیز کے گھر جانا ہوا۔ وہ ایک بھرا پرا گھرانا ہے۔ چھ بچوں کی وجہ سے خاصا ہنگامہ رہتا تھا۔ مگر اس دن گھر میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کوئی اپنے فون پر بیٹھا ہے تو کوئی لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر براجمان۔غرض سبھی چھوٹے بڑے دنیائے انٹرنیٹ میں گھوم پھر رہے تھے۔
یہ ایک گھر کا ماجرا نہیں' پاکستان کے شہروں میں خصوصاً یہ منظر اکثر دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن نے تو نیٹ کو ان گھروں میں بھی پہنچا دیا جہاں پہلے اس کا کم عمل دخل تھا۔نیٹ استعمال کرنے میں یقیناً کوئی قباحت نہیں لیکن اس کے پیچھے انسان دنیا مافیہا سے بے خبر ہو جائے تو یہ شدت پسندی اسے ہی نقصان پہنچاتی ہے۔
فوائد اور نقصان بھی
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وجہ یہی کہ نیٹ تفریح نہیں رہا روزمرہ کاموں میں مدد کرنے والا اہم ذریعہ بھی بن چکا۔ مثلاً لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ ہی دنیا بھر میں کروڑوں طلبہ و طالبات کوتعلیم و تربیت دینے والا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ۔ پھر اربوں انسان یہیں فلمیں و پروگرام دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔ انٹرنیٹ کرہ ارض پر معلومات کی فراہمی کا سبب سے بڑا مرکز بھی بن چکا ۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف باہمی رابطہ سہل و تیز تر بنایا بلکہ عام آدمی کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کر سکے۔
غرض انٹرنیٹ کے کئی فائدے ہیں مگر اس کے نقصانات بھی سامنے آ چکے۔مثلاً اس کے ازحد استعمال سے خصوصاً شہری خاندانوں میں باہمی تبادلہ خیال کم ہوا ہے۔ حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی نوجوان نسل سمارٹ فون تھامے اپنے مشغلے میں گم رہتے ہیں۔
اسی طرح کلاس روم میں بھی طلبہ و طالبات کم سوال پوچھنے لگے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت سوشل میڈیا کے تصّورات میں کھوئی ہوتی ہے۔ اب ہر سال سمارٹ فون کی وجہ سے لاکھوں ٹریفک حادثے ہونے لگے ہیں کہ ڈرائیور اس میں مشغول ہوتے ہیں۔ کئی لوگ تو چلتے پھرتے سمارٹ فون استعمال کرتے اتنے منہمک رہتے ہیں کہ کسی سخت شے سے ٹکرا کر خود کو زخمی کر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح جو مرد و زن حد سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کریں' وہ ڈپریشن' سستی اور بے پروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقی دنیا اور اپنے پیاروں سے بھی کٹ جاتے ہیں۔ پھر دنیائے نیٹ میں بہت سے جرائم پیشہ گروہ متحرک ہو چکے جو مختلف طریقوں سے وہاں کے باسیوں کو لوٹتے اور قبیح جرم کرتے ہیں۔ خصوصاً فحاشی پھیلانے میں بھی نیٹ کا اہم کردار رہا ہے۔
سمارٹ فون اور انٹرنیٹ سستے ہونے کی بنا پر یہ جدید ایجادات اب قصبوں اور دیہات تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا، ان ایجادات کے فوائد ہیں۔ مگر انہیں پسندی اور صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جسمانی خصوصاً ذہنی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔
ان کے کثرت استعمال سے انسان احمق، گم سم، توجہ سے محروم اور انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔دنیائے انٹرنیٹ اسے رنگ برنگ معلومات دینے والا زبردست ذریعہ بن چکا۔ یہی وجہ ہے، آسٹریلیا سے لے کر پاکستان ' برطانیہ اور امریکا تک آج کروڑوں لوگ روزانہ دن میں کم از کم چار گھنٹے ضرور نیٹ پر بیٹھتے ہیں۔ بعض سر پھرے تو ایسے ہیں کہ تقریباً چوبیس گھنٹے آن لائن رہتے ہیں۔ نیٹ پر رہنا ان کی عادت بن چکی یا کہہ لیجیے کہ انہیں اس کا نشہ ہو چکا۔
نئی معلومات کی بھوک
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نیٹ کے منفی عوامل انسان کی ایک ازلی خواہش کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں... یہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلے۔ پروفیسر آدم گیزلے ( Adam Gazzaley)مشہور امریکی نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ وہ اسی موضوع پر ایک اہم کتاب''The Distracted Mind: Ancient Brains in a High-Tech World'' بھی لکھ چکے۔ ان کا کہنا ہے ''انسان کی روزاول سے تمنا ہے کہ وہ روزانہ نت نئی باتیں سیکھے اور نئی معلومات پائے۔
اس کا تجسس اسے نئی چیزیں جاننے کی جانب اکساتا ہے۔ مگر انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات استعمال کرتے ہوئے اسی ازلی تمنا نے انسان کو مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔''
دنیا بھر میں نفسیات ' عمرانیات اور طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے بطن سے جنم لینے والا سب سے بڑا عجوبہ یہ ہے کہ اس نے بنی نوع انسان پر معلومات کا زبردست بوجھ ڈال دیا۔ اب انسان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنے دماغ کی مدد سے اس بے حساب معلومات کو پروسیس کیونکر کرے؟ کیونکہ پچھلے پچاس برس میں انسانی دماغ میں تو کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی' وہ قدیم دماغی مشینری کے ذریعے ہی اپنا کام کر رہاہے۔
دماغ مگر قدیم رہا!
انسان جب کسی بھی معاملے میں اعتدال پسندی ترک کر دے تو بے صبری اسے گھیر لیتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا کی حالیہ نوجوان نسل میں سے جو انٹرنیٹ پر زیادہ عرصہ گزاریں' ا ن میں صبرو برداشت کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ کہیں بھی قطار میں کھڑے ہوں تو بے صبری دکھاتے ہوئے اسے توڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کا کام پہلے ہو جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی بعض اوقات بحث مباحثے سے بات لڑائی تک جا پہنچتی ہے اور رواداری و برداشت کا نام ونشان نہیں رہتا۔یہ باتیں محض پچاس سال قبل کے انسانی معاشروں میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔
گویا انسان فطری طور پر زیادہ سے زیادہ معلومات پانے اور نت نئی باتیں سیکھنے کا بھوکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم بلکہ کچھ عرصہ قبل تک اسے نئی معلومات محدود تعداد ہی میں ملتی تھیں۔ اسی لیے انسان کا دماغ نئی معلومات اخذ کرنے اور توجہ دینے کی استعداد بھی محدود مقدار میں رکھتا ۔ جب اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ شروع ہوا تو وہاں معلومات کا سیلاب آگیا۔
لاکھوں برس پر محیط اپنی تاریخ میں انسان نے پہلی بار اتنی زیادہ معلومات پائی تھیں اور وہ بھی انگلیوں پر... بس چند بٹن دباؤ اور گوگل دنیا جہان کی باتیں حاضر کرنے لگا۔ مگر محدود پیمانے پر کام کرنے والا انسانی دماغ اتنی زیادہ معلومات پروسیس کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اسی لیے خصوصاً جو مرد و زن حد سے زیادہ نیٹ استعمال کرنے لگے، ان میں مختلف ذہنی مسائل پیدا ہوگئے۔ ان مسائل نے نیٹ پر بیٹھنے والے دیگر بچوں بڑوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ان مسائل کی ماہیت اور اصلیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ یہ واقف ہوجائیں کہ انسانی دماغ کیونکر ارتقا پذیر ہوا۔
قدرت کا سپر کمپیوٹر
کرسٹوف کوخ امریکا کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے '' انسانی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ ترین شے ہے۔''انسانی دماغ تقریباً 86 ارب خصوصی خلیوں' نیورونر(neurons) کا مجموعہ ہے۔ یہ برقی چارج رکھنے والے خلیے ہیں جو بذریعہ برقی(electrical) یا کیمیائی(chemical) سگنل ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ سگنل کی شکل میں ان کا باہمی رابطہ اصطلاح میں''سیناپس''(synapses) کہلاتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک نیورون کم از کم دس ہزار نیورونز سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دس ہزار نیورون فی سیکنڈ ایک دوسرے کو ''ایک ٹریلین سگنل'' بھیجنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ماہرین اسی لیے انسانی دماغ کو ایک ٹریلین پرویس فی منٹ انجام دینے والا کمپیوٹر قرار دے چکے۔
ہمارا دماغ ساٹھ ستر سال کی عمر تک ایک ارب بٹس کا ڈیٹا اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری آف کانگریس (امریکا) میں ایک کروڑ نوے لاکھ کتب جمع ہیں۔ انسانی دماغ اس سے پچاس ہزار گنا زیادہ کتب کا ڈیٹا اپنے میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دماغ کے نیورون زمانہ حمل میں پیدا ہوتے اور پھر ساری عمر زندہ رہتے ہیں۔ ان میں خرابی در آنے سے انسان بھول پن اور دیگر بیماریوں کا نشانہ بنتا ہے۔
انسانی ذہن کا ارتقا
یہ دماغ ہی ہے جس کی بدولت انسان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ کہانیاں اور ناول تخلیق کر سکے۔ دل چھو لینے والی دھنیں بنائے۔ یہ کوشش کرے کہ نظام شمسی سے باہر کس طرح خلائی جہاز بھجوایا جائے؟ اور ایسے سپر کمپیوٹر ایجاد کر لے جن کی طاقت اب انسانی دماغ کی قوت سے بھی بڑھ چکی۔ تاہم قدرت الٰہی کا یہ شاہکار بذریعہ ارتقا ہی حالیہ مقام پر پہنچا ۔کرہ ارض پر زندگی کے حیران کن ارتقا کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین میں نہایت مدلل و جامع انداز میں بیان فرمایا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ قران پاک میں افشا کردہ معلومات سے سائنس چودہ سو سال بعد واقف ہوئی۔
اس آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ ہمیں مطلع کرتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا فرمایا۔ (سورہ الانبیاء۔30)اس کے بعد رب کائنات کو جو شے پسند آئی، آپ نے اسے تخلیق فرمایا۔(سورہ قصص ۔68) ظاہر ہے' پھر انسان سمیت ہر شے ارتقا کے عمل سے گزری: ''اور اس نے تمھیں طرح طرح سے بنایا۔''(سورہ نوح۔14 )۔اسی دوران اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت رکھنے والا بنا دیا۔(سورہ تین۔4) اور اس کو بہت سی نئی باتیں سکھائیں۔
(سورہ علق ۔5)جب معین وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہی انسانوں میں سے ایک ' حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا نبی اور زمین پر بہ حیثیت فرماں روا چن لیا۔(سورہ آل عمران ۔33) رب کائنات نے پھر حضرت آدم علیہ السلام کو عقل عطا فرمائی ۔ یوں آدمی بن کر انسان شرف المخلوقات قرار پایا اور زمین پر اس کی حکومت قائم ہو گئی۔
حضرت آدمؑ پہلے انسان ہیں جنہیں اللہ پاک نے عقل کی دولت عطا فرمائی: ''اور آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے گئے۔'' (سورۃ البقرہ۔31)۔ گویا دنیا کے پہلے عاقل و ذہین آدمی کی تخلیق فرما کر اللہ پاک نے کرہ ارض پر جدید انسانی دور کا آغاز فرما دیا۔حضرت آدمؑ کو پہلے مسلمان ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ اللہ پاک نے اب تک جتنی بھی زندہ چیزیں تخلیق فرمائی تھیں، حضرت آدمؑ عقل رکھنے کی وجہ سے ان میں ممتاز ترین قرار پائے۔ حتیٰ کہ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ تبھی ایک فرشتہ (ابلیس) حکم الٰہی نہ اختیار کرنے پر آدمی کا ازلی دشمن قرار پایا۔
اللہ تعالی کی مخلوق،قدیم انسان غاروں اور درختوں میں رہتے تھے۔ ماہرین بشریات کا کہنا ہے کہ رب کائنات نے حضرت آدمؑ کو عقل عطا فرمائی تب وہ کھڑے ہوکر چلنے لگے۔ ان کی آنے والی نسلوں نے اس اہم تبدیلی سے بہت فائدہ اٹھایا۔ وہ یوں کہ اب اس قابل ہوگئیں کہ ہاتھوں سے نت نئے آلات اور اوزار بناسکیں۔ یہی نہیں، وہ اس قابل بھی ہوگئے کہ چل کر دور دراز علاقوں تک جاسکیں۔ حضرت آدم ؑہی نے اپنی اولاد کو کھیتی باڑی کرنا اور روٹی پکانا سکھایا۔
عقل کا لافانی تحفہ
قدیم زمانے میں عرب سے لے کر حبشہ (ایتھوپیا) تک کا علاقہ قدیم انسانوں کی آماج گاہ رہا ہے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت آدم ؑاس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ ان علاقوں کے مکین ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ اسی باعث ہم دیکھتے ہیں کہ جب سرداران قریش نے مسلمانان مکہ کو بہت زیادہ تنگ کیا تو اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر بہت سے صحابہ کرام حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کو ایک محفوظ و مامون مقام پر بھیج دیا۔
اس خصوصی علاقے سے دور جدید کے ماہرین بشریات کو قدیم انسانوں کی کھوپڑیاں اور دیگر جسمانی اعضا کی ہڈیاں ملی ہیں۔ سب سے پرانی کھوپڑی باون لاکھ سال پرانی ہے۔ ان کھوپڑیوں کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی حقانیت واضح ہوگئی: ''اور اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا۔'' (سورۃ نوح۔ 14) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف، قسم قسم کے انسان تخلیق فرمائے اور پھر عقل کا لافانی تحفہ عطا فرماکر حضرت آدمؑ کو جدید انسانی نسل کا جدامجد بنادیا۔
قدیم کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے مطالعے سے ماہرین بشریات نے جانا کہ قدیم انسان کا دماغ کافی چھوٹا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی قدرت سے پھیلاتے رہے تاکہ ایک دن انسان پوری عقل پاکے کرۂ ارض پر ان کا نائب بن جائے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیس لاکھ سال پہلے کے قدیم انسانوں کا چھوٹا دماغ اللہ تعالی کی ایک اور تخلیق،بندر سے ملتا جلتا تھا۔ مگر جب تقریباً پچاس ہزار سال قبل حضرت آدمؑ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ ماضی کی نسبت ان کے دماغ کو تین گنا بڑا فرماچکے تھے۔ دماغ اسی لیے بڑا کیا گیا تاکہ عقل و ذہانت میں اضافہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ نیورون اور ان سے بنے مختلف حصے اس میں سماسکیں۔
جینیاتی تبدیلیاں اور قران پاک
عقل و ذہانت کا ویسے دماغ کی جسامت یا وزن سے کوئی تعلق نہیں۔ کرۂ ارض کے زندہ باسیوں میں سب سے بڑا دماغ اسپرم وہیل کا ہے۔ وہ 7800 گرام وزن رکھتا ہے جبکہ آج عام انسانی دماغ صرف 1361 گرام وزنی ہے۔ گویا بہ لحاظ جسامت ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں مگر انسانی دماغ میں عقل و ذہانت کو بڑھاوا دینے والے حصے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دماغی خلیوں (نیورون) سے مالا مال ہیں۔
مثال کے طور پر انسانی دماغ کی بیرونی تہہ سیربرل کورٹکس (cerebral cortex) کہلاتی ہے۔ دماغ کا یہ حصّہ توجہ، شعور، سوچ، یادداشت اور زبان کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ یہ تقریباً سولہ ارب نیورونز سے تخلیق پاتا ہے۔ دنیا کے کسی اور جاندار کا سیربرل کورٹیکس اتنے زیادہ نیورونز سے تشکیل نہیں پاتا۔
اب قرآن پاک کی حقانیت کا ایک اور زبردست ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ جدید سائنس نے دو درجن سے زائد ایسی جینیاتی تبدیلیاں دریافت کی ہیں جن کے ذریعے نہ صرف انسانی دماغ بڑا ہوگیا بلکہ اس کی قوت میں بھی حیران کن اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں مشہور امریکی ماہربشریات، جان ہاکس کہتا ہے ''انسانی دماغ یک دم چھلانگ لگاکر بڑی جسامت والا سرچشمہ طاقت نہیں بنا بلکہ اس کی نشوونما مرحلہ وار ہوئی۔ اس نشوونما میں نئے نیورونز کی پیدائش سے لے کر نظام استحالہ (metabolism) تک کی تبدیلیوں نے حصہ لیا۔''
مثال کے طور پر تحقیق سے عیاں ہوا کہ ہمارے جسم میں'' نوچ 2 ''(NOTCH2) نامی ایک جین ملتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس جین میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کی بدولت ہمارے بدن میں نیورل بنیادی خلیوں (Stem cells) کی تعداد بڑھ گئی۔ انسانی جسم میں یہی خلیے نیورون بناتے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا دماغ نہ صرف پھیل گیا بلکہ اس کی استعداد کار میں بھی اضافہ ہوا۔اسی طرح ''فوکس پی 2 ''(FOXP2)نامی جین کو لیجیے۔
زندہ اشیا میں یہی جین ان کو بولنے کے قابل بناتا ہے۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ انسان میں یہ جین دو بنیادی جوڑے (base pairs) رکھتا ہے۔ یہ جوڑے کسی اور جاندار میں نہیں پائے گئے۔گویا فوکس پی 2 جین میں ایک جینیاتی تبدیلی نے انسان کو بولنے کے قابل بنا دیا جبکہ بقیہ چرند پرند انسان کی طرح بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
غرض جدید سائنس نے اس فرمان الٰہی کی تصدیق کردی ''اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تمہیں طرح طرح سے اور اپنی پسند کے مطابق تخلیق کیا۔'' زندگی کے تمام اقسام میں رنگارنگی اور تنوع دراصل رب کائنات ہی کی دین اور انہی کا عظیم ترین معجزہ ہے۔ اس معجزے کے پوشیدہ پہلو اب سائنس داں دریافت کررہے ہیں۔سورہ علق آیت 5 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔ اب سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ کی نشوونما میں بیرونی قوتیں بھی کارفرما رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جب عاقل ہوکر آدمی دو ٹانگوں پر چلنے لگا تو وہ اپنے ساتھیوں سے دور بھی چلا جاتا۔ اسی دوری کے باعث یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ گفتگو کے ذریعے ساتھیوں سے رابطہ رکھے۔
تبدیلیوں کے ادوار
بولنے کے اس عمل نے بھی انسانی دماغ کی نشوونما کو بڑھاوا دیا اور وہ ذہانت کی طاقت حاصل کرنے لگا۔ ہماری خوراک میں در آنے والی تبدیلیوں نے بھی دماغ پر اہم اثرات مرتب کیے۔ حضرت آدمؑ کے بعد آدمی فصلیں اور اناج اگانے لگے۔ اب کاربوہائیڈریٹس کی بدولت دماغ کو غذا میسر آئی۔ چناں چہ انسانی دماغ نے تیزی سے نشوونما پائی اور طاقت کا مرکز بن گیا۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ عاقل ہونے کے بعد آدمیوں نے خاندان بناکر رہنا شروع کیا۔ بستیوں کی بنیاد پڑی۔ اخلاقی اصول و ضوابط نے جنم لیا۔ ان معاشرتی تبدیلیوں نے بھی انسانی دماغ کے پھلنے پھولنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن درج بالا تمام تبدیلیاں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہی انجام پائیںکیونکہ وہ انسانوں کو بتدریج سبھی باتیں سکھانا چاہتے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن ادوار میں انسانوں کا دماغ تبدیلیوں سے گزر رہا تھا، وہ دور جدید سے بالکل مختلف تھے۔ کئی لاکھ برس تک انہیں جنگلوں کے قریب رہتے خطرناک جانوروں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ ہر وقت چوکنا رہتے کہ کہیں حیوان ان پر حلمہ نہ کردیں۔ پھر قبائل کی باہمی دشمنیوں نے جنم لیا۔ خوراک اور سر چھپانے کی جگہیں وجہ تنازع بن گئیں۔خاص بات یہ کہ انسانی دماغ اپنے ارتقا کے دوران کبھی ملٹی ٹاسک نہیں رہا... یعنی وہ عام طور پر ایک وقت میں ایک ہی مسئلے یا امر پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دماغ کی توجہ دو باتوں پر رہتی۔ لیکن جدید دور کے نت نئے ڈیجیٹل آلات آدمی کی قوت ارتکاز میں بنیادی تبدیلیاں لارہے ہیں جو کافی اہم ہیں۔
قوت ارتکاز میں کمی
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک حصہ ''پیش پیشانی قشر''(Prefrontal cortex) فیصلہ سازی سے متعلق ہے۔ گویا یہ دماغ کا سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہے۔ جب دماغ کے مختلف حصّوں سے معلومات اس حصے تک پہنچیں تو وہ انہیں معین صورت دے کر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ انسان پھر اسی فیصلے پر عمل درآمد انجام دیتا ہے۔ قدرت الٰہی نے رفتہ رفتہ اس حصے کو خوب طاقتور بنا دیا لیکن انسان لاکھوں برس کے دوران اپنی قوت ارتکاز زیادہ قوی نہ کرسکا۔
ماہرین کے مطابق توجہ کی قوت میں کمی ہمارے ماضی سے تعلق رکھتی ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان کمزور و ناتواں تھا ۔اس کی عقل ابھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے باعث ارتقا پذیر تھی۔ تب اس کے ذرائع دفاع بھی محدود تھے مثلاً ڈنڈا اور پتھر جب کہ آس پاس خونخوار جانور بستے تھے۔
اسی لیے ان سے مقابلہ کرنے کی خاطر انسان کو بہت زیادہ چوکنا رہنا پڑتا۔کہیں پتے چرچراتے یا کوئی شاخ ہلتی تو انسان ہوشیار ہوجاتا۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ کوئی جانور آرہا ہے۔ جب کچھ عقل آئی، تو انسان قبائل میں تقسیم ہوگیا۔جلد ہی یہ قبائل زمین، زر یا زن کی خاطر آپس میں نبرد آزما ہوگئے۔ تب دور سے نظر آنے والا سایہ بھی دشمن بن گیا۔ غرض زمانہ قدیم میں وہ واقعات اور چیزیں بکثرت تھیں، جو انسان کی توجہ فوراً حاصل کرلیتیں۔ انہی حالات و عوامل کی وجہ سے انسان اپنی قوت ارتکاز زیادہ بہتر نہیں کرپایا۔
دور جدید میں توجہ ہٹانے والی نت نئی چیزیں جنم لے چکیں۔ مثال کے طور پر کوئی اچھا ٹی وی پروگرام، کھیل کا مقابلہ، کوئی لذیز کھانا، فلم وغیرہ۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ حقیقتاً وہ انسان کی توجہ تقسیم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔
دلچسپ بات یہ کہ انٹرنیٹ ہی سے انسان کو نت نئی معلومات بھی ملتی ہیں جو اس کی ازلی تمنا ہے۔ کیونکہ انھیں پاکر انسان میں خوشی و اطمینان کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خوشی و لذت پانے کے لیے ہی انسان پھر نئی معلومات پانے کی کھوج میں لگ جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسری ویب سائٹ پر جاتا ہے۔ کبھی فیس بک میں گھومتا پھرتا ہے تو کبھی ٹویٹر، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کی سیر کرتا ہے۔
''ملٹی ٹاسکنگ'' کا عمل
جیسا کہ بتایا گیا، دنیائے انٹرنیٹ میں گھومتے پھرتے نئی معلومات کا حصول قاعدے سے اور اعتدال میں رہتے ہوئے کیا جائے تو عموماً اس سے انسان کو فائدہ ملتا ہے۔ اس کے شعور میں اضافہ ہوتا اور ذہنی کینوس بڑھتا ہے۔ لیکن انسان دن کا بیشتر حصہ اسی ورچوئل دنیا میں گزارنے لگے تو اس عمل سے سب سے زیادہ انسانی قوت ارتکاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ تب انسان توجہ سے محروم ہوکر کئی لحاظ سے اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے دفتر یا گھر میں ایک اہم کام مکمل کرنا ہے۔اگر توجہ نہ رہی تو وہ کام بروقت مکمل نہیں ہوسکتا یا انجام پایا تو غیر معیاری ہوگا۔ اسی طرح آپ کلاس میں تعلیم پر توجہ نہیں دے پائیں گے۔ اسی خرابی کے باعث اپنے پیاروں سے تعلق متاثر ہوگا۔ دور جدید میں بعض انسانوں نے کوشش کی ہے کہ وہ بیک وقت تین چار کام کرنے کا فن سیکھ سکیں۔ اس عمل کو ''ملٹی ٹاسکنگ'' کا نام ملا۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ بیشتر انسان ملٹی ٹاسکنگ کرتے ہوئے ایک کام بھی درست طرح نہیں کر پاتے۔ صرف انتہائی ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان ہی توجہ متاثر کیے بغیر بیک وقت دو تین کام کرپاتے ہیں۔
منفی اثرات سے بچنے کے گُر
پروفیسر گیزلے کا کہنا ہے ''انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل آلات کی آمد کے باعث جدید انسان عجیب مشکل میں گرفتار ہوچکا۔ اس کی تمنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت نیٹ پر گزارے تاکہ اسے بھرپور معلومات اور نئی باتیں میسر آئیں۔ لیکن اس کا انسانی دماغ قدرتی طور پر اس ساخت وہئیت سے بنا ہے کہ وہ ڈھیر ساری معلومات کو بہت جلد پروسیس نہیں کرسکتا۔ گویا انسان جو کرنا چاہتا ہے، اسے انجام دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ لہٰذا جب وہ زبردستی انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارے تو اسی غیر فطری عمل سے مختلف جسمانی و نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں جن کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا۔
انسان کے حق میں مگر یہ حقیقت جاتی ہے کہ وہ جلد یا بدیر نئے حالات اور نئی چیزوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔اسی طرح ہم صحت مندانہ عادات اختیار کرنے سے ٹکنالوجی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ان میں توجہ کی قوت میں کمی لے آنا ہی ایک اہم اثر ہے۔ماہرین ان اثرات سے عہدہ براں ہونے کے لیے درج ذیل مشورے دیتے ہیں:
٭گھر میں جب اہل خانہ یا عزیزاقارب کے ساتھ بیٹھیں تو سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ استعمال نہ کریں۔خصوصاً کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے ہوئے انھیں دور رکھیے۔صرف ضروری کام کرنے کے لیے ہی انھیں اٹھائیے۔
٭دفتر میں پہلے اپنے سارے کام کر لیجیے۔جب فراغت کے لمحے میسر آئیں تو آپ کچھ عرصہ نیٹ کی سیاحت کر سکتے ہیں۔
٭فطرت سے دوستی رکھیے۔تحقیق وتجربات سے آشکارا ہو چکا کہ کچھ عرصہ باغ یا کھلی جگہ وقت گذارنے سے تھکا دماغ تازہ دم ہو جاتا ہے۔
٭دماغی ورزش کرانے والے کھیل کھیلیے۔اعتدال کے ساتھ اس قسم کی وڈیو گیمز بھی کھیلی جا سکتی ہیں۔
٭اللہ تعالی کی قلب سلیم سے عبادت کیجیے۔تحقیق سے معلوام ہوا ہے کہ عبادت ِالہی سے انسان کی قوت ارتکاز اور یاداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭جسمانی ورزش کیجیے۔بدن کی نقل و حرکت سے دماغ چست وچالاک ہوتا ہے۔
٭گاڑی چلاتے ہوئے صرف اشد ضرورت کے تحت ہی فون استعمال کیجیے۔
یہ ایک گھر کا ماجرا نہیں' پاکستان کے شہروں میں خصوصاً یہ منظر اکثر دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ لاک ڈاؤن نے تو نیٹ کو ان گھروں میں بھی پہنچا دیا جہاں پہلے اس کا کم عمل دخل تھا۔نیٹ استعمال کرنے میں یقیناً کوئی قباحت نہیں لیکن اس کے پیچھے انسان دنیا مافیہا سے بے خبر ہو جائے تو یہ شدت پسندی اسے ہی نقصان پہنچاتی ہے۔
فوائد اور نقصان بھی
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وجہ یہی کہ نیٹ تفریح نہیں رہا روزمرہ کاموں میں مدد کرنے والا اہم ذریعہ بھی بن چکا۔ مثلاً لاک ڈاؤن کے دوران نیٹ ہی دنیا بھر میں کروڑوں طلبہ و طالبات کوتعلیم و تربیت دینے والا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ۔ پھر اربوں انسان یہیں فلمیں و پروگرام دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔ انٹرنیٹ کرہ ارض پر معلومات کی فراہمی کا سبب سے بڑا مرکز بھی بن چکا ۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف باہمی رابطہ سہل و تیز تر بنایا بلکہ عام آدمی کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کھل کر کر سکے۔
غرض انٹرنیٹ کے کئی فائدے ہیں مگر اس کے نقصانات بھی سامنے آ چکے۔مثلاً اس کے ازحد استعمال سے خصوصاً شہری خاندانوں میں باہمی تبادلہ خیال کم ہوا ہے۔ حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی نوجوان نسل سمارٹ فون تھامے اپنے مشغلے میں گم رہتے ہیں۔
اسی طرح کلاس روم میں بھی طلبہ و طالبات کم سوال پوچھنے لگے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت سوشل میڈیا کے تصّورات میں کھوئی ہوتی ہے۔ اب ہر سال سمارٹ فون کی وجہ سے لاکھوں ٹریفک حادثے ہونے لگے ہیں کہ ڈرائیور اس میں مشغول ہوتے ہیں۔ کئی لوگ تو چلتے پھرتے سمارٹ فون استعمال کرتے اتنے منہمک رہتے ہیں کہ کسی سخت شے سے ٹکرا کر خود کو زخمی کر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح جو مرد و زن حد سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کریں' وہ ڈپریشن' سستی اور بے پروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایسے لوگ حقیقی دنیا اور اپنے پیاروں سے بھی کٹ جاتے ہیں۔ پھر دنیائے نیٹ میں بہت سے جرائم پیشہ گروہ متحرک ہو چکے جو مختلف طریقوں سے وہاں کے باسیوں کو لوٹتے اور قبیح جرم کرتے ہیں۔ خصوصاً فحاشی پھیلانے میں بھی نیٹ کا اہم کردار رہا ہے۔
سمارٹ فون اور انٹرنیٹ سستے ہونے کی بنا پر یہ جدید ایجادات اب قصبوں اور دیہات تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا، ان ایجادات کے فوائد ہیں۔ مگر انہیں پسندی اور صحیح طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جسمانی خصوصاً ذہنی نقصان پہنچاسکتی ہیں۔
ان کے کثرت استعمال سے انسان احمق، گم سم، توجہ سے محروم اور انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔دنیائے انٹرنیٹ اسے رنگ برنگ معلومات دینے والا زبردست ذریعہ بن چکا۔ یہی وجہ ہے، آسٹریلیا سے لے کر پاکستان ' برطانیہ اور امریکا تک آج کروڑوں لوگ روزانہ دن میں کم از کم چار گھنٹے ضرور نیٹ پر بیٹھتے ہیں۔ بعض سر پھرے تو ایسے ہیں کہ تقریباً چوبیس گھنٹے آن لائن رہتے ہیں۔ نیٹ پر رہنا ان کی عادت بن چکی یا کہہ لیجیے کہ انہیں اس کا نشہ ہو چکا۔
نئی معلومات کی بھوک
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نیٹ کے منفی عوامل انسان کی ایک ازلی خواہش کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں... یہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلے۔ پروفیسر آدم گیزلے ( Adam Gazzaley)مشہور امریکی نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ وہ اسی موضوع پر ایک اہم کتاب''The Distracted Mind: Ancient Brains in a High-Tech World'' بھی لکھ چکے۔ ان کا کہنا ہے ''انسان کی روزاول سے تمنا ہے کہ وہ روزانہ نت نئی باتیں سیکھے اور نئی معلومات پائے۔
اس کا تجسس اسے نئی چیزیں جاننے کی جانب اکساتا ہے۔ مگر انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور دیگر ڈیجیٹل آلات استعمال کرتے ہوئے اسی ازلی تمنا نے انسان کو مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔''
دنیا بھر میں نفسیات ' عمرانیات اور طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے بطن سے جنم لینے والا سب سے بڑا عجوبہ یہ ہے کہ اس نے بنی نوع انسان پر معلومات کا زبردست بوجھ ڈال دیا۔ اب انسان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اپنے دماغ کی مدد سے اس بے حساب معلومات کو پروسیس کیونکر کرے؟ کیونکہ پچھلے پچاس برس میں انسانی دماغ میں تو کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی' وہ قدیم دماغی مشینری کے ذریعے ہی اپنا کام کر رہاہے۔
دماغ مگر قدیم رہا!
انسان جب کسی بھی معاملے میں اعتدال پسندی ترک کر دے تو بے صبری اسے گھیر لیتی ہے۔دیکھا گیا ہے کہ دنیا کی حالیہ نوجوان نسل میں سے جو انٹرنیٹ پر زیادہ عرصہ گزاریں' ا ن میں صبرو برداشت کا مادہ کم ہو جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ کہیں بھی قطار میں کھڑے ہوں تو بے صبری دکھاتے ہوئے اسے توڑنے کی سعی کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کا کام پہلے ہو جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں بھی بعض اوقات بحث مباحثے سے بات لڑائی تک جا پہنچتی ہے اور رواداری و برداشت کا نام ونشان نہیں رہتا۔یہ باتیں محض پچاس سال قبل کے انسانی معاشروں میں بہت کم پائی جاتی تھیں۔
گویا انسان فطری طور پر زیادہ سے زیادہ معلومات پانے اور نت نئی باتیں سیکھنے کا بھوکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم بلکہ کچھ عرصہ قبل تک اسے نئی معلومات محدود تعداد ہی میں ملتی تھیں۔ اسی لیے انسان کا دماغ نئی معلومات اخذ کرنے اور توجہ دینے کی استعداد بھی محدود مقدار میں رکھتا ۔ جب اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ شروع ہوا تو وہاں معلومات کا سیلاب آگیا۔
لاکھوں برس پر محیط اپنی تاریخ میں انسان نے پہلی بار اتنی زیادہ معلومات پائی تھیں اور وہ بھی انگلیوں پر... بس چند بٹن دباؤ اور گوگل دنیا جہان کی باتیں حاضر کرنے لگا۔ مگر محدود پیمانے پر کام کرنے والا انسانی دماغ اتنی زیادہ معلومات پروسیس کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اسی لیے خصوصاً جو مرد و زن حد سے زیادہ نیٹ استعمال کرنے لگے، ان میں مختلف ذہنی مسائل پیدا ہوگئے۔ ان مسائل نے نیٹ پر بیٹھنے والے دیگر بچوں بڑوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ان مسائل کی ماہیت اور اصلیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ یہ واقف ہوجائیں کہ انسانی دماغ کیونکر ارتقا پذیر ہوا۔
قدرت کا سپر کمپیوٹر
کرسٹوف کوخ امریکا کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے '' انسانی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ ترین شے ہے۔''انسانی دماغ تقریباً 86 ارب خصوصی خلیوں' نیورونر(neurons) کا مجموعہ ہے۔ یہ برقی چارج رکھنے والے خلیے ہیں جو بذریعہ برقی(electrical) یا کیمیائی(chemical) سگنل ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ سگنل کی شکل میں ان کا باہمی رابطہ اصطلاح میں''سیناپس''(synapses) کہلاتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک نیورون کم از کم دس ہزار نیورونز سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دس ہزار نیورون فی سیکنڈ ایک دوسرے کو ''ایک ٹریلین سگنل'' بھیجنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ماہرین اسی لیے انسانی دماغ کو ایک ٹریلین پرویس فی منٹ انجام دینے والا کمپیوٹر قرار دے چکے۔
ہمارا دماغ ساٹھ ستر سال کی عمر تک ایک ارب بٹس کا ڈیٹا اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری آف کانگریس (امریکا) میں ایک کروڑ نوے لاکھ کتب جمع ہیں۔ انسانی دماغ اس سے پچاس ہزار گنا زیادہ کتب کا ڈیٹا اپنے میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ دماغ کے نیورون زمانہ حمل میں پیدا ہوتے اور پھر ساری عمر زندہ رہتے ہیں۔ ان میں خرابی در آنے سے انسان بھول پن اور دیگر بیماریوں کا نشانہ بنتا ہے۔
انسانی ذہن کا ارتقا
یہ دماغ ہی ہے جس کی بدولت انسان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ کہانیاں اور ناول تخلیق کر سکے۔ دل چھو لینے والی دھنیں بنائے۔ یہ کوشش کرے کہ نظام شمسی سے باہر کس طرح خلائی جہاز بھجوایا جائے؟ اور ایسے سپر کمپیوٹر ایجاد کر لے جن کی طاقت اب انسانی دماغ کی قوت سے بھی بڑھ چکی۔ تاہم قدرت الٰہی کا یہ شاہکار بذریعہ ارتقا ہی حالیہ مقام پر پہنچا ۔کرہ ارض پر زندگی کے حیران کن ارتقا کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین میں نہایت مدلل و جامع انداز میں بیان فرمایا ۔حیرت انگیز بات یہ کہ قران پاک میں افشا کردہ معلومات سے سائنس چودہ سو سال بعد واقف ہوئی۔
اس آسمانی کتاب میں اللہ تعالیٰ ہمیں مطلع کرتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا فرمایا۔ (سورہ الانبیاء۔30)اس کے بعد رب کائنات کو جو شے پسند آئی، آپ نے اسے تخلیق فرمایا۔(سورہ قصص ۔68) ظاہر ہے' پھر انسان سمیت ہر شے ارتقا کے عمل سے گزری: ''اور اس نے تمھیں طرح طرح سے بنایا۔''(سورہ نوح۔14 )۔اسی دوران اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت رکھنے والا بنا دیا۔(سورہ تین۔4) اور اس کو بہت سی نئی باتیں سکھائیں۔
(سورہ علق ۔5)جب معین وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہی انسانوں میں سے ایک ' حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا نبی اور زمین پر بہ حیثیت فرماں روا چن لیا۔(سورہ آل عمران ۔33) رب کائنات نے پھر حضرت آدم علیہ السلام کو عقل عطا فرمائی ۔ یوں آدمی بن کر انسان شرف المخلوقات قرار پایا اور زمین پر اس کی حکومت قائم ہو گئی۔
حضرت آدمؑ پہلے انسان ہیں جنہیں اللہ پاک نے عقل کی دولت عطا فرمائی: ''اور آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے گئے۔'' (سورۃ البقرہ۔31)۔ گویا دنیا کے پہلے عاقل و ذہین آدمی کی تخلیق فرما کر اللہ پاک نے کرہ ارض پر جدید انسانی دور کا آغاز فرما دیا۔حضرت آدمؑ کو پہلے مسلمان ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے۔ اللہ پاک نے اب تک جتنی بھی زندہ چیزیں تخلیق فرمائی تھیں، حضرت آدمؑ عقل رکھنے کی وجہ سے ان میں ممتاز ترین قرار پائے۔ حتیٰ کہ فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ تبھی ایک فرشتہ (ابلیس) حکم الٰہی نہ اختیار کرنے پر آدمی کا ازلی دشمن قرار پایا۔
اللہ تعالی کی مخلوق،قدیم انسان غاروں اور درختوں میں رہتے تھے۔ ماہرین بشریات کا کہنا ہے کہ رب کائنات نے حضرت آدمؑ کو عقل عطا فرمائی تب وہ کھڑے ہوکر چلنے لگے۔ ان کی آنے والی نسلوں نے اس اہم تبدیلی سے بہت فائدہ اٹھایا۔ وہ یوں کہ اب اس قابل ہوگئیں کہ ہاتھوں سے نت نئے آلات اور اوزار بناسکیں۔ یہی نہیں، وہ اس قابل بھی ہوگئے کہ چل کر دور دراز علاقوں تک جاسکیں۔ حضرت آدم ؑہی نے اپنی اولاد کو کھیتی باڑی کرنا اور روٹی پکانا سکھایا۔
عقل کا لافانی تحفہ
قدیم زمانے میں عرب سے لے کر حبشہ (ایتھوپیا) تک کا علاقہ قدیم انسانوں کی آماج گاہ رہا ہے۔مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت آدم ؑاس علاقے میں مبعوث ہوئے۔ ان علاقوں کے مکین ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ اسی باعث ہم دیکھتے ہیں کہ جب سرداران قریش نے مسلمانان مکہ کو بہت زیادہ تنگ کیا تو اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر بہت سے صحابہ کرام حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مسلمانوں کی چھوٹی سی جماعت کو ایک محفوظ و مامون مقام پر بھیج دیا۔
اس خصوصی علاقے سے دور جدید کے ماہرین بشریات کو قدیم انسانوں کی کھوپڑیاں اور دیگر جسمانی اعضا کی ہڈیاں ملی ہیں۔ سب سے پرانی کھوپڑی باون لاکھ سال پرانی ہے۔ ان کھوپڑیوں کی موجودگی سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی حقانیت واضح ہوگئی: ''اور اس نے تمہیں طرح طرح سے بنایا۔'' (سورۃ نوح۔ 14) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف، قسم قسم کے انسان تخلیق فرمائے اور پھر عقل کا لافانی تحفہ عطا فرماکر حضرت آدمؑ کو جدید انسانی نسل کا جدامجد بنادیا۔
قدیم کھوپڑیوں اور ہڈیوں کے مطالعے سے ماہرین بشریات نے جانا کہ قدیم انسان کا دماغ کافی چھوٹا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی قدرت سے پھیلاتے رہے تاکہ ایک دن انسان پوری عقل پاکے کرۂ ارض پر ان کا نائب بن جائے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ تیس لاکھ سال پہلے کے قدیم انسانوں کا چھوٹا دماغ اللہ تعالی کی ایک اور تخلیق،بندر سے ملتا جلتا تھا۔ مگر جب تقریباً پچاس ہزار سال قبل حضرت آدمؑ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ ماضی کی نسبت ان کے دماغ کو تین گنا بڑا فرماچکے تھے۔ دماغ اسی لیے بڑا کیا گیا تاکہ عقل و ذہانت میں اضافہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ نیورون اور ان سے بنے مختلف حصے اس میں سماسکیں۔
جینیاتی تبدیلیاں اور قران پاک
عقل و ذہانت کا ویسے دماغ کی جسامت یا وزن سے کوئی تعلق نہیں۔ کرۂ ارض کے زندہ باسیوں میں سب سے بڑا دماغ اسپرم وہیل کا ہے۔ وہ 7800 گرام وزن رکھتا ہے جبکہ آج عام انسانی دماغ صرف 1361 گرام وزنی ہے۔ گویا بہ لحاظ جسامت ان دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں مگر انسانی دماغ میں عقل و ذہانت کو بڑھاوا دینے والے حصے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دماغی خلیوں (نیورون) سے مالا مال ہیں۔
مثال کے طور پر انسانی دماغ کی بیرونی تہہ سیربرل کورٹکس (cerebral cortex) کہلاتی ہے۔ دماغ کا یہ حصّہ توجہ، شعور، سوچ، یادداشت اور زبان کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ یہ تقریباً سولہ ارب نیورونز سے تخلیق پاتا ہے۔ دنیا کے کسی اور جاندار کا سیربرل کورٹیکس اتنے زیادہ نیورونز سے تشکیل نہیں پاتا۔
اب قرآن پاک کی حقانیت کا ایک اور زبردست ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ جدید سائنس نے دو درجن سے زائد ایسی جینیاتی تبدیلیاں دریافت کی ہیں جن کے ذریعے نہ صرف انسانی دماغ بڑا ہوگیا بلکہ اس کی قوت میں بھی حیران کن اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں مشہور امریکی ماہربشریات، جان ہاکس کہتا ہے ''انسانی دماغ یک دم چھلانگ لگاکر بڑی جسامت والا سرچشمہ طاقت نہیں بنا بلکہ اس کی نشوونما مرحلہ وار ہوئی۔ اس نشوونما میں نئے نیورونز کی پیدائش سے لے کر نظام استحالہ (metabolism) تک کی تبدیلیوں نے حصہ لیا۔''
مثال کے طور پر تحقیق سے عیاں ہوا کہ ہمارے جسم میں'' نوچ 2 ''(NOTCH2) نامی ایک جین ملتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس جین میں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ ان کی بدولت ہمارے بدن میں نیورل بنیادی خلیوں (Stem cells) کی تعداد بڑھ گئی۔ انسانی جسم میں یہی خلیے نیورون بناتے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا دماغ نہ صرف پھیل گیا بلکہ اس کی استعداد کار میں بھی اضافہ ہوا۔اسی طرح ''فوکس پی 2 ''(FOXP2)نامی جین کو لیجیے۔
زندہ اشیا میں یہی جین ان کو بولنے کے قابل بناتا ہے۔ تحقیق سے افشا ہوا کہ انسان میں یہ جین دو بنیادی جوڑے (base pairs) رکھتا ہے۔ یہ جوڑے کسی اور جاندار میں نہیں پائے گئے۔گویا فوکس پی 2 جین میں ایک جینیاتی تبدیلی نے انسان کو بولنے کے قابل بنا دیا جبکہ بقیہ چرند پرند انسان کی طرح بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
غرض جدید سائنس نے اس فرمان الٰہی کی تصدیق کردی ''اور اس (اللہ تعالیٰ) نے تمہیں طرح طرح سے اور اپنی پسند کے مطابق تخلیق کیا۔'' زندگی کے تمام اقسام میں رنگارنگی اور تنوع دراصل رب کائنات ہی کی دین اور انہی کا عظیم ترین معجزہ ہے۔ اس معجزے کے پوشیدہ پہلو اب سائنس داں دریافت کررہے ہیں۔سورہ علق آیت 5 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔ اب سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ کی نشوونما میں بیرونی قوتیں بھی کارفرما رہی ہیں۔ مثال کے طور پر جب عاقل ہوکر آدمی دو ٹانگوں پر چلنے لگا تو وہ اپنے ساتھیوں سے دور بھی چلا جاتا۔ اسی دوری کے باعث یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ گفتگو کے ذریعے ساتھیوں سے رابطہ رکھے۔
تبدیلیوں کے ادوار
بولنے کے اس عمل نے بھی انسانی دماغ کی نشوونما کو بڑھاوا دیا اور وہ ذہانت کی طاقت حاصل کرنے لگا۔ ہماری خوراک میں در آنے والی تبدیلیوں نے بھی دماغ پر اہم اثرات مرتب کیے۔ حضرت آدمؑ کے بعد آدمی فصلیں اور اناج اگانے لگے۔ اب کاربوہائیڈریٹس کی بدولت دماغ کو غذا میسر آئی۔ چناں چہ انسانی دماغ نے تیزی سے نشوونما پائی اور طاقت کا مرکز بن گیا۔
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ عاقل ہونے کے بعد آدمیوں نے خاندان بناکر رہنا شروع کیا۔ بستیوں کی بنیاد پڑی۔ اخلاقی اصول و ضوابط نے جنم لیا۔ ان معاشرتی تبدیلیوں نے بھی انسانی دماغ کے پھلنے پھولنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن درج بالا تمام تبدیلیاں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہی انجام پائیںکیونکہ وہ انسانوں کو بتدریج سبھی باتیں سکھانا چاہتے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جن ادوار میں انسانوں کا دماغ تبدیلیوں سے گزر رہا تھا، وہ دور جدید سے بالکل مختلف تھے۔ کئی لاکھ برس تک انہیں جنگلوں کے قریب رہتے خطرناک جانوروں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ ہر وقت چوکنا رہتے کہ کہیں حیوان ان پر حلمہ نہ کردیں۔ پھر قبائل کی باہمی دشمنیوں نے جنم لیا۔ خوراک اور سر چھپانے کی جگہیں وجہ تنازع بن گئیں۔خاص بات یہ کہ انسانی دماغ اپنے ارتقا کے دوران کبھی ملٹی ٹاسک نہیں رہا... یعنی وہ عام طور پر ایک وقت میں ایک ہی مسئلے یا امر پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ دماغ کی توجہ دو باتوں پر رہتی۔ لیکن جدید دور کے نت نئے ڈیجیٹل آلات آدمی کی قوت ارتکاز میں بنیادی تبدیلیاں لارہے ہیں جو کافی اہم ہیں۔
قوت ارتکاز میں کمی
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ہمارے دماغ میں ایک حصہ ''پیش پیشانی قشر''(Prefrontal cortex) فیصلہ سازی سے متعلق ہے۔ گویا یہ دماغ کا سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہے۔ جب دماغ کے مختلف حصّوں سے معلومات اس حصے تک پہنچیں تو وہ انہیں معین صورت دے کر کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ انسان پھر اسی فیصلے پر عمل درآمد انجام دیتا ہے۔ قدرت الٰہی نے رفتہ رفتہ اس حصے کو خوب طاقتور بنا دیا لیکن انسان لاکھوں برس کے دوران اپنی قوت ارتکاز زیادہ قوی نہ کرسکا۔
ماہرین کے مطابق توجہ کی قوت میں کمی ہمارے ماضی سے تعلق رکھتی ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان کمزور و ناتواں تھا ۔اس کی عقل ابھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے باعث ارتقا پذیر تھی۔ تب اس کے ذرائع دفاع بھی محدود تھے مثلاً ڈنڈا اور پتھر جب کہ آس پاس خونخوار جانور بستے تھے۔
اسی لیے ان سے مقابلہ کرنے کی خاطر انسان کو بہت زیادہ چوکنا رہنا پڑتا۔کہیں پتے چرچراتے یا کوئی شاخ ہلتی تو انسان ہوشیار ہوجاتا۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ کوئی جانور آرہا ہے۔ جب کچھ عقل آئی، تو انسان قبائل میں تقسیم ہوگیا۔جلد ہی یہ قبائل زمین، زر یا زن کی خاطر آپس میں نبرد آزما ہوگئے۔ تب دور سے نظر آنے والا سایہ بھی دشمن بن گیا۔ غرض زمانہ قدیم میں وہ واقعات اور چیزیں بکثرت تھیں، جو انسان کی توجہ فوراً حاصل کرلیتیں۔ انہی حالات و عوامل کی وجہ سے انسان اپنی قوت ارتکاز زیادہ بہتر نہیں کرپایا۔
دور جدید میں توجہ ہٹانے والی نت نئی چیزیں جنم لے چکیں۔ مثال کے طور پر کوئی اچھا ٹی وی پروگرام، کھیل کا مقابلہ، کوئی لذیز کھانا، فلم وغیرہ۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ حقیقتاً وہ انسان کی توجہ تقسیم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔
دلچسپ بات یہ کہ انٹرنیٹ ہی سے انسان کو نت نئی معلومات بھی ملتی ہیں جو اس کی ازلی تمنا ہے۔ کیونکہ انھیں پاکر انسان میں خوشی و اطمینان کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ خوشی و لذت پانے کے لیے ہی انسان پھر نئی معلومات پانے کی کھوج میں لگ جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسری ویب سائٹ پر جاتا ہے۔ کبھی فیس بک میں گھومتا پھرتا ہے تو کبھی ٹویٹر، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کی سیر کرتا ہے۔
''ملٹی ٹاسکنگ'' کا عمل
جیسا کہ بتایا گیا، دنیائے انٹرنیٹ میں گھومتے پھرتے نئی معلومات کا حصول قاعدے سے اور اعتدال میں رہتے ہوئے کیا جائے تو عموماً اس سے انسان کو فائدہ ملتا ہے۔ اس کے شعور میں اضافہ ہوتا اور ذہنی کینوس بڑھتا ہے۔ لیکن انسان دن کا بیشتر حصہ اسی ورچوئل دنیا میں گزارنے لگے تو اس عمل سے سب سے زیادہ انسانی قوت ارتکاز کو نقصان پہنچتا ہے۔ تب انسان توجہ سے محروم ہوکر کئی لحاظ سے اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے دفتر یا گھر میں ایک اہم کام مکمل کرنا ہے۔اگر توجہ نہ رہی تو وہ کام بروقت مکمل نہیں ہوسکتا یا انجام پایا تو غیر معیاری ہوگا۔ اسی طرح آپ کلاس میں تعلیم پر توجہ نہیں دے پائیں گے۔ اسی خرابی کے باعث اپنے پیاروں سے تعلق متاثر ہوگا۔ دور جدید میں بعض انسانوں نے کوشش کی ہے کہ وہ بیک وقت تین چار کام کرنے کا فن سیکھ سکیں۔ اس عمل کو ''ملٹی ٹاسکنگ'' کا نام ملا۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ بیشتر انسان ملٹی ٹاسکنگ کرتے ہوئے ایک کام بھی درست طرح نہیں کر پاتے۔ صرف انتہائی ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل انسان ہی توجہ متاثر کیے بغیر بیک وقت دو تین کام کرپاتے ہیں۔
منفی اثرات سے بچنے کے گُر
پروفیسر گیزلے کا کہنا ہے ''انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل آلات کی آمد کے باعث جدید انسان عجیب مشکل میں گرفتار ہوچکا۔ اس کی تمنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت نیٹ پر گزارے تاکہ اسے بھرپور معلومات اور نئی باتیں میسر آئیں۔ لیکن اس کا انسانی دماغ قدرتی طور پر اس ساخت وہئیت سے بنا ہے کہ وہ ڈھیر ساری معلومات کو بہت جلد پروسیس نہیں کرسکتا۔ گویا انسان جو کرنا چاہتا ہے، اسے انجام دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ لہٰذا جب وہ زبردستی انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارے تو اسی غیر فطری عمل سے مختلف جسمانی و نفسیاتی عوارض جنم لیتے ہیں جن کا تذکرہ قبل ازیں ہو چکا۔
انسان کے حق میں مگر یہ حقیقت جاتی ہے کہ وہ جلد یا بدیر نئے حالات اور نئی چیزوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔اسی طرح ہم صحت مندانہ عادات اختیار کرنے سے ٹکنالوجی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ان میں توجہ کی قوت میں کمی لے آنا ہی ایک اہم اثر ہے۔ماہرین ان اثرات سے عہدہ براں ہونے کے لیے درج ذیل مشورے دیتے ہیں:
٭گھر میں جب اہل خانہ یا عزیزاقارب کے ساتھ بیٹھیں تو سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ استعمال نہ کریں۔خصوصاً کھانا کھاتے اور گپ شپ لگاتے ہوئے انھیں دور رکھیے۔صرف ضروری کام کرنے کے لیے ہی انھیں اٹھائیے۔
٭دفتر میں پہلے اپنے سارے کام کر لیجیے۔جب فراغت کے لمحے میسر آئیں تو آپ کچھ عرصہ نیٹ کی سیاحت کر سکتے ہیں۔
٭فطرت سے دوستی رکھیے۔تحقیق وتجربات سے آشکارا ہو چکا کہ کچھ عرصہ باغ یا کھلی جگہ وقت گذارنے سے تھکا دماغ تازہ دم ہو جاتا ہے۔
٭دماغی ورزش کرانے والے کھیل کھیلیے۔اعتدال کے ساتھ اس قسم کی وڈیو گیمز بھی کھیلی جا سکتی ہیں۔
٭اللہ تعالی کی قلب سلیم سے عبادت کیجیے۔تحقیق سے معلوام ہوا ہے کہ عبادت ِالہی سے انسان کی قوت ارتکاز اور یاداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔
٭جسمانی ورزش کیجیے۔بدن کی نقل و حرکت سے دماغ چست وچالاک ہوتا ہے۔
٭گاڑی چلاتے ہوئے صرف اشد ضرورت کے تحت ہی فون استعمال کیجیے۔