تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ہمارے ملک میں تقریباً سات ہفتوں کے سخت لاک ڈاؤن کے گزرنے کے باوجود بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
آج کا انسان ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس میں اس کا دشمن کوئی انسان نہیں بلکہ ایک وائرس یا جرثومہ ہے۔ اس جنگ میں مختصر سے عرصے میں جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں، وہ اتنے ہی عرصے کے دوران جنگ عظیم میں بھی شاید نہ ہوئی ہوں، کیونکہ اس دور میں نہ تو اس طرح لاک ڈاؤن تھا، نہ ہی انسانوں کی نقل و حرکت اور میل جول پر پابندی تھی، نہ سرحدیں اور ہوائی اڈے اور زمینی راستے یا ٹرانسپورٹ بند رہی۔
معاشی سرگرمیاں جن میں مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ کورونا وائرس کی انسان کے خلاف جنگ نتائج کے اعتبار سے انتہائی مہلک، خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کے اثرات اسلحہ، گولہ بارود والی جنگوں سے زیادہ خوف ناک اور غیر متوقع ہیں۔
کسی کے گمان میں نہ تھا کہ مسجد نبوی خالی کرالی جائے گی، خانہ کعبہ میں نمازی تراویح نہیں پڑھ سکیں گے، بیسیوں ممالک کی مساجد میں باجماعت نمازوں پر پابندی ہوگی، کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا کسی کو کہ ٹرمپ سورہ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ کر آسمانی خدا سے دعا اور مدد مانگے گا۔
کسی کی فہم میں بھی یہ نہ ہوگا کہ دنیا کے سوا چار ارب انسان گھروں میں نظر بند ہو جائیں گے، امریکا جیسے سپر طاقت والے ملک کے سوا کروڑ بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دیں گے، برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کی مالی اعانت کریں گی اور امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مردہ خانے لاشوں سے بھر جائیں گے اور یہ بھی کسی کے دل و دماغ میں نہ ہوگا کہ ایٹم بم بنانیوالے وینٹی لیٹر بنا رہے ہوں گے اور میزائل اور جنگی طیارے اور آبدوزیں بنانیوالے ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر بنانے لگیں گے۔
ہمارے ملک میں تقریباً سات ہفتوں کے سخت لاک ڈاؤن کے گزرنے کے باوجود بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور اس کی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ کا اختلاف ہے جو عوام کو زبردست معاشی بدحالی اور ملکی معیشت کو تقریباً ختم ہی کرچکا ہے۔ وفاق اور سندھ کی حکومت کی رسہ کشی نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کو ریت کی بھربھری عمارت میں بدل دیا۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ (کراچی) 40 سالوں سے وفاق کو پالتا پوستا چلا آ رہا ہے محصولات، ریونیو یا ٹیکسز کے حوالے سے۔ کاش ہمارے ارباب اختیار یہ جان پاتے کہ ملک کی دم توڑتی معیشت کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے لیکن بھوک، غربت، افلاس اور بے روزگاری سے مر جانے والے انسانوں کو کسی طور دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔اور اب تو ہمارے ہاں کے 90 فیصد عوام نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بھوک افلاس سے مرنے سے بہتر ہے کہ انسان کورونا سے مرجائے۔
تفریحی پارک، سینما ہالز، شادی ہالز، ریسٹورنٹس، مساجد، عبادت گاہیں، تمام تر تعلیمی ادارے، بیشتر کمپنیاں، فیکٹریاں جب بند ہوں گی تو پھر ٹیکس کہاں سے اور کیونکر مل پائے گا؟ پولیس لاک ڈاؤن کی آڑ میں دکانوں اور سواریوں سے رشوت وصول کرتی رہی ہے اور نہ دینے کی صورت میں مار دھاڑ یا بے عزتی سے باز نہیں آئی۔ عملی طور پر نہ وفاقی حکومت کو عوام الناس کا خیال ہے اور نہ ہی سندھ حکومت کو کراچی شہر کے عام لوگوں اور کاروبار کرنے والے اداروں کا دکھ دکھائی پڑتا ہے، کسی کو 3 کروڑ آبادی والے شہر سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اور کب تک یہ ہولناک صورتحال رہے گی اس کا جواب نہ وزیر اعظم کے پاس ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شر ہمیشہ اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ اچھے اور بااختیار لوگ کچھ بھی نہیں کرتے۔ امریکا، برطانیہ، بھارت، دبئی، فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی میں لاک ڈاؤن انتہائی محدود کردیا گیا ہے اور بعض ممالک میں تو ختم بھی کردیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں گزشتہ ہفتہ سے نرم تو کیا گیا ہے لیکن بیشتر کمپنیاں اور شاپنگ مالز اور بڑی مارکیٹیں تادم تحریر بند ہی ہیں۔ اگر اس لاک ڈاؤن کو رات 10 بجے سے صبح 7 بجے تک کے سخت کرفیو میں بدل دیا جاتا تو ملک کے لوگوں اور اس کی معیشت پر اس کے برے اثرات نہ پڑتے اور کاروبار زندگی بھی رواں رہتا اور عالم لوگوں کو بھوک و افلاس کی فصلیں نہ کاٹنی پڑتیں۔
پاکستان کا شمار انتہائی غریب اور گنجان آبادی والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 14 فیصد افراد غربت سے بہت ہی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ 40 فیصد روزانہ اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ مشکل سے بھر پاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی اور سخت ترین لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ طبقہ زندہ لاش کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ مثال کے طور پر سینما ہالز، شاپنگ مالز، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، باربی کیو، چائے خانے، آئس کریم پارلر اور مٹھائی وغیرہ کی شاپس پر یومیہ یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے کورونا کے حشرات سے زندہ درگور ہوکر رہ گئے۔ جمہوری ملک ہونے کے ناتے وزیر اعظم کا عہدہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ہر اچھے برے وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے رہیں لیکن ہوا اس کے برعکس۔
کورونا 210 ملکوں میں ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم دنیا کے واحد حکمران ہیں جنھوں نے لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں سے بھی چندہ مانگا اور انھیں اس ضمن میں 55 کروڑ کے وعدے ملے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں روزانہ اس سے دگنا ٹول ٹیکس جمع ہو جاتا ہے حکومت کے پاس۔
اور اس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درست حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی ہے اب تک۔ سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، جزوی لاک ڈاؤن یا اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح نے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ کر رکھ دیا۔ لاک ڈاؤن کے غلط دورانیے یا تکرار نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ ایسے ایسے سفید پوش اس سیلاب میں اپنی عزت نفس کے ساتھ ڈوبے ہیں کہ جی جانتا ہے۔ افسوس کہیں سے کوئی مدد، امداد، تحفظ یا ریلیف دیہاڑی دار طبقے تک نہیں پہنچا۔
عیدالفطر سر پر آ پہنچی ہے اور بھوک، بے روزگاری، افلاس کا تپتا سورج انسانوں کو جھلسا کر ان کی شناخت کو مٹا چکا ہے۔ صرف اور صرف تنخواہ دار طبقہ (سرکاری ملازمین بالخصوص) اور مال و زر کے انباروں کے مالک آج بھی چین اور سکون کی بنسی بجانے میں مصروف ہیں وگرنہ خالی جیب اور خالی کچن کا مرثیہ سینہ پیٹ پیٹ کر ہر گھر کا مقدر بن چکا ہے۔ اگر کبھی مکمل لاک ڈاؤن ختم ہوا تو ہمارے ملک میں وہ ہولناک اور گلا دینے والی مہنگائی کا طوفان آئے گا جس کو محسوس کرکے ہی روح تھرا رہی ہے۔
کورونا کی عالمگیر وبا اور ملک اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے جو پاکستان کے مستقبل کی تاریخ میں اپنے سربراہ کا نام سنہری حرفوں سے رقم بھی کراسکتی ہے اور ان کے نام کو مٹا بھی سکتی ہے۔ آج بھی متاثرین کو ریلیف دینے کے پروگراموں کا کوئی ڈیٹا کہیں موجود نہیں ہے کیونکہ یہ سارے پروگرام بیورو کریسی کے ذریعے چلائے گئے۔
بیرون ملک سے آنے والا طبی سامان کہاں گئے اور کیسے اور کسے تقسیم ہوا، جہازوں سے اتارے جانے والے سامان کے ٹرک کہاں گئے، اربوں ڈالر کی امدادی رقوم قومی خزانے سے کس مصرف میں منتقل ہوئی اس کا بھی کوئی حساب نہیں۔ عام اسپتالوں میں نہ ہی وینٹی لیٹر آئے اور نہ ہی ماسک اور دیگر حفاظتی لباس یا سامان کسی متاثرہ فرد تک پہنچا۔ کوئی حقیقی آڈٹ یا احتساب ممکن ہی نہیں نظر آرہا۔ اگر فلاحی یا خیراتی ادارے نہ ہوتے تو شاید بھوکے اور ضرورت مند افراد کے غصے کو کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں رہتا اور یہ ساری ناکامیاں حکومت وقت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں جا رہی ہیں۔
گو امید اور امکان کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن آفاقی سچائی یہی ہے کہ دنیا میں سب کو سب کچھ نہیں مل جاتا اور زیادہ تر لوگوں کو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں اور کتنے لوگ بددعاؤں کے زیر اثر ہیں اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔
معاشی سرگرمیاں جن میں مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ کورونا وائرس کی انسان کے خلاف جنگ نتائج کے اعتبار سے انتہائی مہلک، خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کے اثرات اسلحہ، گولہ بارود والی جنگوں سے زیادہ خوف ناک اور غیر متوقع ہیں۔
کسی کے گمان میں نہ تھا کہ مسجد نبوی خالی کرالی جائے گی، خانہ کعبہ میں نمازی تراویح نہیں پڑھ سکیں گے، بیسیوں ممالک کی مساجد میں باجماعت نمازوں پر پابندی ہوگی، کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا کسی کو کہ ٹرمپ سورہ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ کر آسمانی خدا سے دعا اور مدد مانگے گا۔
کسی کی فہم میں بھی یہ نہ ہوگا کہ دنیا کے سوا چار ارب انسان گھروں میں نظر بند ہو جائیں گے، امریکا جیسے سپر طاقت والے ملک کے سوا کروڑ بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دیں گے، برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کی مالی اعانت کریں گی اور امریکا، برطانیہ اور یورپ کے مردہ خانے لاشوں سے بھر جائیں گے اور یہ بھی کسی کے دل و دماغ میں نہ ہوگا کہ ایٹم بم بنانیوالے وینٹی لیٹر بنا رہے ہوں گے اور میزائل اور جنگی طیارے اور آبدوزیں بنانیوالے ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر بنانے لگیں گے۔
ہمارے ملک میں تقریباً سات ہفتوں کے سخت لاک ڈاؤن کے گزرنے کے باوجود بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی اور اس کی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومت سندھ کا اختلاف ہے جو عوام کو زبردست معاشی بدحالی اور ملکی معیشت کو تقریباً ختم ہی کرچکا ہے۔ وفاق اور سندھ کی حکومت کی رسہ کشی نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کو ریت کی بھربھری عمارت میں بدل دیا۔ کون نہیں جانتا کہ سندھ (کراچی) 40 سالوں سے وفاق کو پالتا پوستا چلا آ رہا ہے محصولات، ریونیو یا ٹیکسز کے حوالے سے۔ کاش ہمارے ارباب اختیار یہ جان پاتے کہ ملک کی دم توڑتی معیشت کو دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے لیکن بھوک، غربت، افلاس اور بے روزگاری سے مر جانے والے انسانوں کو کسی طور دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔اور اب تو ہمارے ہاں کے 90 فیصد عوام نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ بھوک افلاس سے مرنے سے بہتر ہے کہ انسان کورونا سے مرجائے۔
تفریحی پارک، سینما ہالز، شادی ہالز، ریسٹورنٹس، مساجد، عبادت گاہیں، تمام تر تعلیمی ادارے، بیشتر کمپنیاں، فیکٹریاں جب بند ہوں گی تو پھر ٹیکس کہاں سے اور کیونکر مل پائے گا؟ پولیس لاک ڈاؤن کی آڑ میں دکانوں اور سواریوں سے رشوت وصول کرتی رہی ہے اور نہ دینے کی صورت میں مار دھاڑ یا بے عزتی سے باز نہیں آئی۔ عملی طور پر نہ وفاقی حکومت کو عوام الناس کا خیال ہے اور نہ ہی سندھ حکومت کو کراچی شہر کے عام لوگوں اور کاروبار کرنے والے اداروں کا دکھ دکھائی پڑتا ہے، کسی کو 3 کروڑ آبادی والے شہر سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اور کب تک یہ ہولناک صورتحال رہے گی اس کا جواب نہ وزیر اعظم کے پاس ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شر ہمیشہ اس لیے کامیاب ہوتا ہے کہ اچھے اور بااختیار لوگ کچھ بھی نہیں کرتے۔ امریکا، برطانیہ، بھارت، دبئی، فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی میں لاک ڈاؤن انتہائی محدود کردیا گیا ہے اور بعض ممالک میں تو ختم بھی کردیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں گزشتہ ہفتہ سے نرم تو کیا گیا ہے لیکن بیشتر کمپنیاں اور شاپنگ مالز اور بڑی مارکیٹیں تادم تحریر بند ہی ہیں۔ اگر اس لاک ڈاؤن کو رات 10 بجے سے صبح 7 بجے تک کے سخت کرفیو میں بدل دیا جاتا تو ملک کے لوگوں اور اس کی معیشت پر اس کے برے اثرات نہ پڑتے اور کاروبار زندگی بھی رواں رہتا اور عالم لوگوں کو بھوک و افلاس کی فصلیں نہ کاٹنی پڑتیں۔
پاکستان کا شمار انتہائی غریب اور گنجان آبادی والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 14 فیصد افراد غربت سے بہت ہی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ 40 فیصد روزانہ اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ مشکل سے بھر پاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی اور سخت ترین لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ طبقہ زندہ لاش کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ مثال کے طور پر سینما ہالز، شاپنگ مالز، ہوٹلز، ریسٹورنٹس، باربی کیو، چائے خانے، آئس کریم پارلر اور مٹھائی وغیرہ کی شاپس پر یومیہ یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے کورونا کے حشرات سے زندہ درگور ہوکر رہ گئے۔ جمہوری ملک ہونے کے ناتے وزیر اعظم کا عہدہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ہر اچھے برے وقت میں قوم کے ساتھ کھڑے رہیں لیکن ہوا اس کے برعکس۔
کورونا 210 ملکوں میں ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم دنیا کے واحد حکمران ہیں جنھوں نے لاک ڈاؤن میں پھنسے لوگوں سے بھی چندہ مانگا اور انھیں اس ضمن میں 55 کروڑ کے وعدے ملے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں روزانہ اس سے دگنا ٹول ٹیکس جمع ہو جاتا ہے حکومت کے پاس۔
اور اس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درست حکمت عملی وضع نہیں کی جاسکی ہے اب تک۔ سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، جزوی لاک ڈاؤن یا اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح نے ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ کر رکھ دیا۔ لاک ڈاؤن کے غلط دورانیے یا تکرار نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا۔ ایسے ایسے سفید پوش اس سیلاب میں اپنی عزت نفس کے ساتھ ڈوبے ہیں کہ جی جانتا ہے۔ افسوس کہیں سے کوئی مدد، امداد، تحفظ یا ریلیف دیہاڑی دار طبقے تک نہیں پہنچا۔
عیدالفطر سر پر آ پہنچی ہے اور بھوک، بے روزگاری، افلاس کا تپتا سورج انسانوں کو جھلسا کر ان کی شناخت کو مٹا چکا ہے۔ صرف اور صرف تنخواہ دار طبقہ (سرکاری ملازمین بالخصوص) اور مال و زر کے انباروں کے مالک آج بھی چین اور سکون کی بنسی بجانے میں مصروف ہیں وگرنہ خالی جیب اور خالی کچن کا مرثیہ سینہ پیٹ پیٹ کر ہر گھر کا مقدر بن چکا ہے۔ اگر کبھی مکمل لاک ڈاؤن ختم ہوا تو ہمارے ملک میں وہ ہولناک اور گلا دینے والی مہنگائی کا طوفان آئے گا جس کو محسوس کرکے ہی روح تھرا رہی ہے۔
کورونا کی عالمگیر وبا اور ملک اس کی وجہ سے لاک ڈاؤن بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک کڑا امتحان ہے جو پاکستان کے مستقبل کی تاریخ میں اپنے سربراہ کا نام سنہری حرفوں سے رقم بھی کراسکتی ہے اور ان کے نام کو مٹا بھی سکتی ہے۔ آج بھی متاثرین کو ریلیف دینے کے پروگراموں کا کوئی ڈیٹا کہیں موجود نہیں ہے کیونکہ یہ سارے پروگرام بیورو کریسی کے ذریعے چلائے گئے۔
بیرون ملک سے آنے والا طبی سامان کہاں گئے اور کیسے اور کسے تقسیم ہوا، جہازوں سے اتارے جانے والے سامان کے ٹرک کہاں گئے، اربوں ڈالر کی امدادی رقوم قومی خزانے سے کس مصرف میں منتقل ہوئی اس کا بھی کوئی حساب نہیں۔ عام اسپتالوں میں نہ ہی وینٹی لیٹر آئے اور نہ ہی ماسک اور دیگر حفاظتی لباس یا سامان کسی متاثرہ فرد تک پہنچا۔ کوئی حقیقی آڈٹ یا احتساب ممکن ہی نہیں نظر آرہا۔ اگر فلاحی یا خیراتی ادارے نہ ہوتے تو شاید بھوکے اور ضرورت مند افراد کے غصے کو کنٹرول کرنا ممکن ہی نہیں رہتا اور یہ ساری ناکامیاں حکومت وقت اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں جا رہی ہیں۔
گو امید اور امکان کا در ہمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن آفاقی سچائی یہی ہے کہ دنیا میں سب کو سب کچھ نہیں مل جاتا اور زیادہ تر لوگوں کو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں اور کتنے لوگ بددعاؤں کے زیر اثر ہیں اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔