حکومت آج بھی لاپتہ افراد پیش نہ کرسکی سپریم کورٹ کی کل تک مہلت
ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر کسی شہری کے خلاف مقدمات ہیں تو ہمارا عدالتی نظام طے کرے،وزیر دفاع خواجہ آصف
سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت جمعرات کو بھی 33 لاپتہ افراد کو پیش نہیں کرسکی اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی یقین دہانی پر سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آئی جی ایف بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد کو توہین عدالت کا نوٹس لاپتہ افراد کیس سے متعلق ایف سی پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کےلئے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جاری کیا گیا۔ آج سماعت کے دوران عرفان قادر ایف سی کے وکیل کی حیثیت سے بغیر وکات نامے کے عدالت پہنچے، انہوں نے کہا کہ وہ آئی جی ایف سی کے حوالے سے اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع کروا دیں گے تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک آئی جی ایف سی عدالت میں پیش نہیں ہوتے انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے کہا کہ آئی جی ایف سی بلوچستان کو متعدد بار عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے عدالت میں پیش نہ ہونے سے متعلق بھی کوئی جواز عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے، اس موقع پر اٹارنی جنرل منیراے ملک نے عدالت کو بتایا کہ سارے افراد کا پتا نہیں چل سکا، عدالت ان کیمرا سماعت کر لے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ان کیمرہ سماعت کیلئے تیار ہے ہم سے بھی باتیں چھپائی جا رہی ہیں، ہر کوئی ملک کا خیرخواہ ہے، ہم کوئی دشمن نہیں، عدالت کے وقار کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 30 افراد کو پیش کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ 5 سے 7 افراد کا پتا چلا ہے، معلومات حساس ہیں، سب کے سامنے معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکتے، ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دی جائے، ہم کیس میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے، لاپتا افراد کو تلاش کرنے میں وقت لگے گا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران وزیردفاع کو کہا کہ اگر آپ بندے پیش نہیں کرسکتے تو ہمیں لکھ کر دیں، اس طرح عدالت کا مذاق نہ اڑایا جائے، پہلے دن سے ہی عدالت کو عزت نہیں دی جارہی۔ ہمیں حکم دینے پر مجبور نہ کریں، اگر لاپتہ افراد کو پیش نہ کیا گیا تو ہم کسی اور کو بلائیں گے اور جسے بلائیں گے ان سے کہیں گے کہ آپ کے ملک میں یہ ہورہا ہے، چیف جسٹس نے حکومت کو لاپتہ افراد آج شام 4 بجے تک پیش کرنے کا حکم دیتےہوئے خواجہ آصف کو مخاطب کرتےہوئے پنجابی میں ریمارکس دیئے کہ بندے لائیں ورنہ "ہتھ لا کے نہ ویکھدے رہنا"۔ تاہم وقفے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کو پیش نہیں کیا جاسکا۔ اور وزیر دفاع کی جانب سے چند لاپتہ افراد کو پیش کرنے یقینی دہانی پر سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود ہوتے ہیں ہمیں ان کی تکلیف کا احساس ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ تمام مسائل کو قانون کے تحت حل کیا جائے اور اگر کسی کے خلاف الزامات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور عدالت ہی ان کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ ہمیں اس کا احساس ہے کہ عدالت عظمیٰ ایک ایسے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو کئی برسوں سے ہمارے لئے ندامت کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چند لاپتہ افراد کے سراغ ملیں ہیں جنہیں آج سپریم کورٹ میں لانا ممکن نہیں لیکن ہماری پوری کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لاپتہ افراد کو عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے یا کم از کم ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ان کی زندگی کے بارے میں عدالت کو مطمئن کردیا جائے تاکہ لاپتہ افراد میں سے کچھ لوگ آزاد زندگی بسر کررہے ہیں ان کے منظر عام پر آنے سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
سپریم کورٹ کی جانب سے آئی جی ایف بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد کو توہین عدالت کا نوٹس لاپتہ افراد کیس سے متعلق ایف سی پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کےلئے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جاری کیا گیا۔ آج سماعت کے دوران عرفان قادر ایف سی کے وکیل کی حیثیت سے بغیر وکات نامے کے عدالت پہنچے، انہوں نے کہا کہ وہ آئی جی ایف سی کے حوالے سے اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع کروا دیں گے تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک آئی جی ایف سی عدالت میں پیش نہیں ہوتے انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے کہا کہ آئی جی ایف سی بلوچستان کو متعدد بار عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے عدالت میں پیش نہ ہونے سے متعلق بھی کوئی جواز عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
بلوچستان میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرے، اس موقع پر اٹارنی جنرل منیراے ملک نے عدالت کو بتایا کہ سارے افراد کا پتا نہیں چل سکا، عدالت ان کیمرا سماعت کر لے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ان کیمرہ سماعت کیلئے تیار ہے ہم سے بھی باتیں چھپائی جا رہی ہیں، ہر کوئی ملک کا خیرخواہ ہے، ہم کوئی دشمن نہیں، عدالت کے وقار کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 30 افراد کو پیش کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ 5 سے 7 افراد کا پتا چلا ہے، معلومات حساس ہیں، سب کے سامنے معلومات کا تبادلہ نہیں کر سکتے، ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دی جائے، ہم کیس میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے، لاپتا افراد کو تلاش کرنے میں وقت لگے گا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران وزیردفاع کو کہا کہ اگر آپ بندے پیش نہیں کرسکتے تو ہمیں لکھ کر دیں، اس طرح عدالت کا مذاق نہ اڑایا جائے، پہلے دن سے ہی عدالت کو عزت نہیں دی جارہی۔ ہمیں حکم دینے پر مجبور نہ کریں، اگر لاپتہ افراد کو پیش نہ کیا گیا تو ہم کسی اور کو بلائیں گے اور جسے بلائیں گے ان سے کہیں گے کہ آپ کے ملک میں یہ ہورہا ہے، چیف جسٹس نے حکومت کو لاپتہ افراد آج شام 4 بجے تک پیش کرنے کا حکم دیتےہوئے خواجہ آصف کو مخاطب کرتےہوئے پنجابی میں ریمارکس دیئے کہ بندے لائیں ورنہ "ہتھ لا کے نہ ویکھدے رہنا"۔ تاہم وقفے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کو پیش نہیں کیا جاسکا۔ اور وزیر دفاع کی جانب سے چند لاپتہ افراد کو پیش کرنے یقینی دہانی پر سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین بھی موجود ہوتے ہیں ہمیں ان کی تکلیف کا احساس ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری یہ آئینی ذمہ داری ہے کہ تمام مسائل کو قانون کے تحت حل کیا جائے اور اگر کسی کے خلاف الزامات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور عدالت ہی ان کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے۔ ہمیں اس کا احساس ہے کہ عدالت عظمیٰ ایک ایسے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو کئی برسوں سے ہمارے لئے ندامت کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چند لاپتہ افراد کے سراغ ملیں ہیں جنہیں آج سپریم کورٹ میں لانا ممکن نہیں لیکن ہماری پوری کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لاپتہ افراد کو عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے یا کم از کم ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ان کی زندگی کے بارے میں عدالت کو مطمئن کردیا جائے تاکہ لاپتہ افراد میں سے کچھ لوگ آزاد زندگی بسر کررہے ہیں ان کے منظر عام پر آنے سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔