بہت کچھ بدل رہا ہے
آئین کا آرٹیکل 160(3)(a)کہتا ہے صوبوں کا حصہ مالیاتی ایوارڈ میں بڑھایا تو جا سکتا ہے مگرگھٹایا نہیں جا سکتا۔
بہت کچھ بدلنے جا رہا ہے۔ ہمارا سیاسی منظر نامہ ، ہمارا وفاق، اس کی اکائیاں اور ان کے درمیان وفاق کے ساتھ مالی بٹوارہ، اقتدارکا بٹوارہ بھی۔ اگر آئین موجود ہے تو ایسا ہونے کے لیے آئین میں تبدیلی چاہیے اور آئین میں تبدیلی یا ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ہونی چاہیے یا پھر یہ کہ تبدیلی کرنے والے آئین کو روند دیں،کیوں؟ کیا ایسے پہلے ہوا نہیں ہے؟ اور جب ہوا ہی ہے تو ایک بار اورسہی۔
آئین کا آرٹیکل 160(3)(a)کہتا ہے صوبوں کا حصہ مالیاتی ایوارڈ میں بڑھایا تو جا سکتا ہے مگرگھٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ چاہے بلواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو۔کان کو چاہے الٹے ہاتھ سے پکڑا جائے یا پھر سیدھے ہاتھ سے۔ حصہ تو حصہ ہوتا ہے، لوگ وفاق میں نہیں بلکہ اکائیوں میں رہتے ہیں۔ مالیاتی ایوارڈ میں جوصوبوں کا حصہ تھا وہ آبادی کے تناسب سے بانٹا جاتا تھا۔ لگ بھگ پینتیس سال بعد ساتویں مالیاتی ایوارڈ میں کچھ اور پیمانے بھی ڈالے گئے، لیکن پھر بھی آبادی کا تناسب اسی فیصد سے اوپر ہی رہا۔
قربانی وفاق نے دی اپنا حصہ 58% سے کم کرکے 42.5% پر لے آیا جو اس سے پہلے صوبوں کو ملتا تھا اورصوبوں کو اب 57.5% دیا گیا اور اس حصے میں سے صوبے آپس میں تقسیم کرتے تھے۔ آبادی کے لحاظ سے اور اگر دوچار پیمانے بھی ڈالیں تو یوں کہیے کہ پنجاب نے قربانی دی اور اس طرح جو تین صوبے پنجاب اور وفاق ایک سمجھتے تھے وہ اب سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب کی اب اتنی مخالفت نہ رہی جو ماضی میں تھی اور وفاق بھی مضبوط نظر آیا اور جمہوریت بھی رواں دواں رہی۔ بھرپور نہ سہی مگر اس طرح بھی نہ بیٹھی تھی، جس طرح خان صاحب کی حکومت بیٹھ گئی ہے۔
1988 کے بعد اقتدارکی رسہ کشی جاری رہی۔ دس سال معذورجمہوریت تو دس سال آمریت۔ دس سال 1950سے لے کر وزیر کی کرسی کے پھیرے اور بالاخر دس سال ایوب کی آمریت۔ پاکستان کی تاریخ میں مضبوط جمہوریت اور مضبوط وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی شکل میں ابھرا مگر وہ بھی صرف پانچ سال کے لیے ۔ پھر دس سال ضیاء الحق کی آمریت۔
اگر آئین ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ بھی جیساکہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف کیسز میں بیان کیا ہے۔ اس بنیادی ڈھانچے کے چار یا پانچ بنیادی ستون ہیں۔ ان میں ایک اہم ستون اس ملک کا وفاقی ہونا ہے۔ اس کی وفاقیت کو مضبوط سے مضبوط تر توکیا جا سکتا ہے مگرکمزور نہیں، اگر دوتہائی اکثریت سے کوئی آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 160 کا سب آرٹیکل (3A) نکال بھی دے تو نہیں نکال سکتا۔ کیونکہ ایسے آئین یا جو تحریری ہوتے ہیں وہ آئین سپریم ہوتے ہیں نہ کہ پارلیمینٹ۔ یہ بنیادی ڈھانچے کی وہ تھیوری ہے جس کو امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سر جان مارشل نے آج سے دو سو سال قبل ایک کیس میں بیان کیا تھا اور پھر اس تھیوری کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے1973 میں اپنے آئین میں شامل کیا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تھیوری کوئی بڑی تھیوری بھی نہیں، مگر اس سے جج صاحبان کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ جب ہندوستان میں مودی آیا توسپریم کورٹ بالکل خاموش۔ مودی نے ہندوستانی آئین کی دھجیاں بکھیردیں۔اس کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا ڈالا مگر سپریم کورٹ آنکھیں بندکرکے تماشہ دیکھ رہی ہے۔
در اصل عدالت ہو یا کہ پارلیمینٹ دونوں کو طاقت تو عوام سے ہی ملتی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو قانون وآئین کا فلسفہ لکھتی ہے۔ عدالتیں ہوں یا جج دلیر تب ہوتے ہیں جب عوام بیدار ہوتے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دی تھی اور دس سال بعد جب وہ کمزورہوا، عوام بیدار ہوئے تو اس وقت تحریک کی قیادت سیاستدانوں نے نہیں بلکہ وکلاء نے اورججوں نے اپنے استعفیٰ دے کرکی تھی۔
آئین کا آرٹیکل 160(3b)کہتا ہے نئے مالیاتی ایوارڈ کمیشن کو دیکھنے والا مالیاتی وزیر ہوگا نہ ہی مالیاتی صلاح کار۔ مگر اس حکومت کو شاید اس بات کا بھی علم نہیں کہ صدر وفاق کی کابینہ کی مشاورت سے کام کرتا ہے اورگورنر صوبائی کابینہ کی مشاورت سے۔ہمارے سندھ کے گورنر نے بغیر صوبائی مشاورت کے سندھ کے اس مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کی کون نمائندگی کریگا ، صدر کو نام ارسال کر دیے۔
اٹھارہویں ترمیم میں ردو بدل نہیں کیا جا سکتا، مگر بحث جاری ہے اوراگر ایسا ہونے جا رہا ہے تو یقینا آئین سے بالاتر ہوکر ہونے جا رہا ہے۔
میں نے 2009 میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر این ایف سی کے حوالے سے کمیشن بنایا۔ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اس کام کو اپنے سر لیا، ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو، قیصر بنگالی، جہانگیر میری پشت پر کھڑے تھے۔ لاہور سے لے کر کوئٹہ تک سیمینارز کروائے اور بالٓاخر ساتواں مالیاتی ایوارڈ بڑی انقلابی تبدیلیوں سے آیا۔ اس مالیاتی ایوارڈ میں میری بھی کچھ کاوشیں شامل تھیں۔ میں ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جو1971 کے سانحے میں بنگالیوں کے ساتھ تھا۔ جب پورا سندھ بھٹو کے نعرے لگا رہا تھا اور وہ بھٹو جو خود ہمارے گھر چلے آئے کہ میرے والد ان کی پارٹی میں شمولیت اختیارکریں ۔
کیا ہوا اگر ہم وفاق کے انکاری تھے۔ ہم اقتدار میں بنگالیوں کو شراکت دینے کے لیے تیار نہ تھے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ شیخ مجیب اس بھرپور پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش کو ٹھکراتے اور بنگلہ دیش کا وزیراعظم بننے کو ترجیح دیتے۔
اس وقت عوام بیدار نہیں، بالکل اسی طرح جب آمریتیں مسلط ہونے کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں کہ کسی وقت بھی ''عزیز ہم وطنو'' سنائی دے سکتا ہے، مگر پھرکچھ سال گزرجاتے ہیں اورآمریت بھی اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اقتدار کبھی ٹھہرتا نہیں، ٹھہرتی صرف تاریخ ہے۔ پردے پر منظر بدل جاتے ہیں، شعور کی آگہی ہو چکی ہے، صوبوں میں اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے اس بیداری کو وفاق کی علامت سمجھنا چاہیے یہ سوچ کوئی منفی سوچ نہیں ہے۔ اپنی ثقافت اور زبان سے پیار کوئی ملک دشمنی نہیں ہے۔
کورونانے اب دنیا کو مستحکم صحت کا نظام دینا ہے۔ ایک ایسا نظام جو ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہوگا۔ ایک ایسا نظام جس کو بہترکیے بغیرکوئی ملک مستحکم نہیں رہ سکتا۔ اب جنگیں بارودی نہیں بلکہ ماحولیاتی حوالے سے ہونگی، وباؤں کے خلاف ہونگی اور اب ان نئی جنگوں کے ہر اول دستے ڈاکٹر اور نرسز ہوں گے۔ ریسرچ لیبارٹریاں ہونگی۔ صحت کا شعبہ فطری طور پر صوبائی اور لوکل باڈیز کا معاملہ ہے۔ اب اس شعبے کو زیادہ بجٹ درکار ہو گا۔
یہ دنیا اب نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے سے نہیں چلیں گی۔ مودی کورونا کو بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے، ٹرمپ اس کو چین کے خلاف استعمال کررہا ہے، ہماری وفاقی حکومت، سندھ حکومت کے خلاف کورونا کو لیے کھڑی ہے۔ ہم کورونا کو جمہوری اقدار کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، مگر یہ سب صرف کچھ دن کے لیے کیا جا سکتا ہے، لمبے عرصے کے لیے نہیں۔کورونا کا جانا دوچار دنوں کی بات نہیں، اس نے ابھی رہنا ہے شاید دو تین سال۔ ابھی کورونا کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی شاید دو تین سال لگ جائیں۔
اس تمام پس منظر میں جو سیاسی منظرنامہ بننے جا رہا ہے وہ کوئی بہتر نہیں۔ شاید کچھ وقت کے لیے تو ٹھیک ہو مگر آگے جا کر اس کے نتائج بہت منفی ثابت ہوں گے۔
آئین کا آرٹیکل 160(3)(a)کہتا ہے صوبوں کا حصہ مالیاتی ایوارڈ میں بڑھایا تو جا سکتا ہے مگرگھٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ چاہے بلواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو۔کان کو چاہے الٹے ہاتھ سے پکڑا جائے یا پھر سیدھے ہاتھ سے۔ حصہ تو حصہ ہوتا ہے، لوگ وفاق میں نہیں بلکہ اکائیوں میں رہتے ہیں۔ مالیاتی ایوارڈ میں جوصوبوں کا حصہ تھا وہ آبادی کے تناسب سے بانٹا جاتا تھا۔ لگ بھگ پینتیس سال بعد ساتویں مالیاتی ایوارڈ میں کچھ اور پیمانے بھی ڈالے گئے، لیکن پھر بھی آبادی کا تناسب اسی فیصد سے اوپر ہی رہا۔
قربانی وفاق نے دی اپنا حصہ 58% سے کم کرکے 42.5% پر لے آیا جو اس سے پہلے صوبوں کو ملتا تھا اورصوبوں کو اب 57.5% دیا گیا اور اس حصے میں سے صوبے آپس میں تقسیم کرتے تھے۔ آبادی کے لحاظ سے اور اگر دوچار پیمانے بھی ڈالیں تو یوں کہیے کہ پنجاب نے قربانی دی اور اس طرح جو تین صوبے پنجاب اور وفاق ایک سمجھتے تھے وہ اب سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ پنجاب کی اب اتنی مخالفت نہ رہی جو ماضی میں تھی اور وفاق بھی مضبوط نظر آیا اور جمہوریت بھی رواں دواں رہی۔ بھرپور نہ سہی مگر اس طرح بھی نہ بیٹھی تھی، جس طرح خان صاحب کی حکومت بیٹھ گئی ہے۔
1988 کے بعد اقتدارکی رسہ کشی جاری رہی۔ دس سال معذورجمہوریت تو دس سال آمریت۔ دس سال 1950سے لے کر وزیر کی کرسی کے پھیرے اور بالاخر دس سال ایوب کی آمریت۔ پاکستان کی تاریخ میں مضبوط جمہوریت اور مضبوط وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی شکل میں ابھرا مگر وہ بھی صرف پانچ سال کے لیے ۔ پھر دس سال ضیاء الحق کی آمریت۔
اگر آئین ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ بھی جیساکہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف کیسز میں بیان کیا ہے۔ اس بنیادی ڈھانچے کے چار یا پانچ بنیادی ستون ہیں۔ ان میں ایک اہم ستون اس ملک کا وفاقی ہونا ہے۔ اس کی وفاقیت کو مضبوط سے مضبوط تر توکیا جا سکتا ہے مگرکمزور نہیں، اگر دوتہائی اکثریت سے کوئی آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 160 کا سب آرٹیکل (3A) نکال بھی دے تو نہیں نکال سکتا۔ کیونکہ ایسے آئین یا جو تحریری ہوتے ہیں وہ آئین سپریم ہوتے ہیں نہ کہ پارلیمینٹ۔ یہ بنیادی ڈھانچے کی وہ تھیوری ہے جس کو امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سر جان مارشل نے آج سے دو سو سال قبل ایک کیس میں بیان کیا تھا اور پھر اس تھیوری کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے1973 میں اپنے آئین میں شامل کیا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تھیوری کوئی بڑی تھیوری بھی نہیں، مگر اس سے جج صاحبان کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ جب ہندوستان میں مودی آیا توسپریم کورٹ بالکل خاموش۔ مودی نے ہندوستانی آئین کی دھجیاں بکھیردیں۔اس کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا ڈالا مگر سپریم کورٹ آنکھیں بندکرکے تماشہ دیکھ رہی ہے۔
در اصل عدالت ہو یا کہ پارلیمینٹ دونوں کو طاقت تو عوام سے ہی ملتی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو قانون وآئین کا فلسفہ لکھتی ہے۔ عدالتیں ہوں یا جج دلیر تب ہوتے ہیں جب عوام بیدار ہوتے ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دی تھی اور دس سال بعد جب وہ کمزورہوا، عوام بیدار ہوئے تو اس وقت تحریک کی قیادت سیاستدانوں نے نہیں بلکہ وکلاء نے اورججوں نے اپنے استعفیٰ دے کرکی تھی۔
آئین کا آرٹیکل 160(3b)کہتا ہے نئے مالیاتی ایوارڈ کمیشن کو دیکھنے والا مالیاتی وزیر ہوگا نہ ہی مالیاتی صلاح کار۔ مگر اس حکومت کو شاید اس بات کا بھی علم نہیں کہ صدر وفاق کی کابینہ کی مشاورت سے کام کرتا ہے اورگورنر صوبائی کابینہ کی مشاورت سے۔ہمارے سندھ کے گورنر نے بغیر صوبائی مشاورت کے سندھ کے اس مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کی کون نمائندگی کریگا ، صدر کو نام ارسال کر دیے۔
اٹھارہویں ترمیم میں ردو بدل نہیں کیا جا سکتا، مگر بحث جاری ہے اوراگر ایسا ہونے جا رہا ہے تو یقینا آئین سے بالاتر ہوکر ہونے جا رہا ہے۔
میں نے 2009 میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر این ایف سی کے حوالے سے کمیشن بنایا۔ اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر اس کام کو اپنے سر لیا، ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو، قیصر بنگالی، جہانگیر میری پشت پر کھڑے تھے۔ لاہور سے لے کر کوئٹہ تک سیمینارز کروائے اور بالٓاخر ساتواں مالیاتی ایوارڈ بڑی انقلابی تبدیلیوں سے آیا۔ اس مالیاتی ایوارڈ میں میری بھی کچھ کاوشیں شامل تھیں۔ میں ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں جو1971 کے سانحے میں بنگالیوں کے ساتھ تھا۔ جب پورا سندھ بھٹو کے نعرے لگا رہا تھا اور وہ بھٹو جو خود ہمارے گھر چلے آئے کہ میرے والد ان کی پارٹی میں شمولیت اختیارکریں ۔
کیا ہوا اگر ہم وفاق کے انکاری تھے۔ ہم اقتدار میں بنگالیوں کو شراکت دینے کے لیے تیار نہ تھے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ شیخ مجیب اس بھرپور پاکستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش کو ٹھکراتے اور بنگلہ دیش کا وزیراعظم بننے کو ترجیح دیتے۔
اس وقت عوام بیدار نہیں، بالکل اسی طرح جب آمریتیں مسلط ہونے کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں کہ کسی وقت بھی ''عزیز ہم وطنو'' سنائی دے سکتا ہے، مگر پھرکچھ سال گزرجاتے ہیں اورآمریت بھی اپنا بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اقتدار کبھی ٹھہرتا نہیں، ٹھہرتی صرف تاریخ ہے۔ پردے پر منظر بدل جاتے ہیں، شعور کی آگہی ہو چکی ہے، صوبوں میں اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے اس بیداری کو وفاق کی علامت سمجھنا چاہیے یہ سوچ کوئی منفی سوچ نہیں ہے۔ اپنی ثقافت اور زبان سے پیار کوئی ملک دشمنی نہیں ہے۔
کورونانے اب دنیا کو مستحکم صحت کا نظام دینا ہے۔ ایک ایسا نظام جو ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہوگا۔ ایک ایسا نظام جس کو بہترکیے بغیرکوئی ملک مستحکم نہیں رہ سکتا۔ اب جنگیں بارودی نہیں بلکہ ماحولیاتی حوالے سے ہونگی، وباؤں کے خلاف ہونگی اور اب ان نئی جنگوں کے ہر اول دستے ڈاکٹر اور نرسز ہوں گے۔ ریسرچ لیبارٹریاں ہونگی۔ صحت کا شعبہ فطری طور پر صوبائی اور لوکل باڈیز کا معاملہ ہے۔ اب اس شعبے کو زیادہ بجٹ درکار ہو گا۔
یہ دنیا اب نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے سے نہیں چلیں گی۔ مودی کورونا کو بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے، ٹرمپ اس کو چین کے خلاف استعمال کررہا ہے، ہماری وفاقی حکومت، سندھ حکومت کے خلاف کورونا کو لیے کھڑی ہے۔ ہم کورونا کو جمہوری اقدار کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، مگر یہ سب صرف کچھ دن کے لیے کیا جا سکتا ہے، لمبے عرصے کے لیے نہیں۔کورونا کا جانا دوچار دنوں کی بات نہیں، اس نے ابھی رہنا ہے شاید دو تین سال۔ ابھی کورونا کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی شاید دو تین سال لگ جائیں۔
اس تمام پس منظر میں جو سیاسی منظرنامہ بننے جا رہا ہے وہ کوئی بہتر نہیں۔ شاید کچھ وقت کے لیے تو ٹھیک ہو مگر آگے جا کر اس کے نتائج بہت منفی ثابت ہوں گے۔