طبی ماہرین کی رائے تسلیم کریں

حقیقی سیاسی قیادت کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ماضی حال و مستقبل پر گہری نظر رکھتی ہے

ماضی کے تجربات و غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے فوٹو : فائل

حقیقی سیاسی قیادت کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ماضی حال و مستقبل پر گہری نظر رکھتی ہے اور ماضی کے تجربات و غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے۔ 19ویں صدی کے عظیم فلسفی کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے، قیادت کی حال پر بھی گہری نظر ہوتی ہے اور مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہوئے آنے والے وقت کے لیے بہترین حکمت عملی ترتیب دیتی ہے۔

بہرکیف یہ کھلی حقیقت ہے کہ پوری دنیا اس وقت ایک قدرتی آفت کورونا کی لپیٹ میں ہے اور تادم تحریر اس مرض کا شکار لوگوں کی تعداد 41 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد ہے تین لاکھ سے بھی زائد ہو چکی ہے۔

سب سے زیادہ افراد جوکہ اس مرض میں مبتلا ہوکر جاں بحق ہوئے وہ ہیں امریکی جن کی تعداد ہے 83 ہزار سے زائد جب کہ برطانیہ 31ہزار، اٹلی 30 ہزار، اسپین قریباً 29 ہزار اموات کے ساتھ بالترتیب دوسرے تیسرے و چوتھے نمبر پر ہیں جب کہ جرمنی، بیلجیم، ترکی، ایران، برازیل بھی وہ ممالک ہیں جوکہ اس موذی مرض سے شدید متاثر ہیں جب کہ چین وہ واحد ملک ہے جہاں سے اس مرض کا آغاز ہوا، یعنی چینی شہر ووہان سے مگر یہ بھی حقیقت ہے چینی قیادت نے بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور اس مرض پر قابو پانے والا اولین ملک قرار پایا، البتہ افسوس ناک پہلو اس ضمن میں یہ ہے کہ چین کے شہر ووہان، جہاں اس مہلک وائرس کا جنم ہوا، وہاں تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس مرض میں پھر سے شدت آ رہی ہے اور اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ حکومت چین کی جانب سے کہ ووہان کی تمام آبادی جوکہ ایک کروڑ دس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے کے پھر کورونا ٹیسٹ ہوں گے ۔

یہ بھی ایک حقیقت بیان کی جاتی ہے کہ ٹھیک ہے کہ 3جنوری 2020 کو کورونا وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کے مریض موجود ہیں مگر طبی ماہرین یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ کورونا مرض کا شکار اولین ایک امریکی تھا جو کہ نومبر 2019 میں اس مرض کا شکار ہوا جب کہ دوسرا مریض ایک فرانسیسی تھا جو کہ دسمبر 2019میں اس مرض کا شکار ہوا۔


امریکا جو کہ اس مرض سے متاثر ہونے والوں میں سرفہرست ہے وہاں کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ اس کورونا وائرس کے بارے میں کسی صحافی کے جواب دینے سے کتراتے ہیں یہاں تک وہ کسی تلخ سوال پر پریس کانفرنس نامکمل چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، البتہ چند خوش قسمت ممالک ایسے بھی ہیں جوکہ اس موذی مرض سے ابھی تک محفوظ ہیں جن میں ویت نام، کیوبا، شمالی کوریا وغیرہ شامل ہیں جب کہ پاکستان میں کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ اب تک یہاں اس مرض سے متاثرین کی تعداد چالیس ہزار کے قریب جب کہ جاں بحق افراد کی تعداد ہے 866 اور اس مرض سے نجات پا کر صحت یاب ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ جب کہ 24 ہزار مریض زیر علاج ہیں جن کے لیے پورے ملک کے عوام دعا گو ہیں اور نیک خواہشات رکھتے ہیں البتہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں ماہ کے آخر و آیندہ ماہ کے آغاز میں اس مرض کورونا کا نقطہ عروج ہو گا یہ خدشہ طبی ماہرین ظاہر کر رہے ہیں جن کی ان تمام حالات پر بڑی گہری نظر ہے یہ وہ سپاہی ہیں جوکہ اگلے محاذ پر مصروف جہاد ہیں۔

دست بستہ عرض کر رہے ہیں کہ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں جوکہ اس مرض سے نجات کا واحد حل ہے مگر عوام کسی بھی احتیاطی حکمت عملی پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ لازم ہے کہ پھر اس مرض کا پھیلاؤ اس قدر شدید ہو گا کہ جس پر قابو پانا شدید مشکل ہوگا۔

اب تک کیفیت یہ بنتی ہے کہ ملک میں 20مارچ 2020 کو لاک ڈاؤن لگایا گیا جس کے باعث ملک بھر میں کاروبار حیات منجمد ہو گیا گو کہ اس حکومتی فیصلے سے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بری طرح متاثر ہوئے جن میں چھوٹے تاجر، ٹھیلے والے، روزانہ اجرت پر کام کرنے والے جن میں تعمیراتی شعبے سے وابستہ لوگ ، کارخانوں و فیکٹریوں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے والے مزدور، چھوٹے دکاندار، ورکشاپس میں کام کرنے والے مزدور، گھریلو مزدور مطلب یہ ہے گھروں میں کام کرنے والے وہ محنت کش جوکہ جھاڑو پوچا، برتن دھونا، کپڑوں کی دھلائی وغیرہ کے کام کرتے ہیں شدید مشکلات کا شکار ہو گئے۔

ایسے ضرورت مند لوگوں کے لیے اگر ایک جانب وفاقی حکومت نے یہ اقدامات اٹھائے کہ ایسے ضرورت مندوں کے لیے 12 ہزار روپے فی خاندان تقسیم کیے جب کہ صوبائی حکومتوں و مخیر حضرات نے بھی بساط بھر کوشش کی کہ ضرورت مندوں کی دادرسی کی جائے مگر اس قسم کی مالی معاونت حاصل کرکے وقت تو پاس کیا جاسکتا ہے البتہ یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے ۔

آخر مخیر حضرات و حکومتوں کی عطا کردہ قلیل رقوم سے لوگوں کے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے، جب کہ تشویش ناک صورت حال یہ سامنے آئی ہے کثیر تعداد میں محنت کشوں کو فیکٹریوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اس جبری بے دخلی کے خلاف ایک جانب تو احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اس جبری بے دخلی کے خلاف عدلیہ سے بھی رجوع کیا گیاہے گویا یہ معاملہ اب عدلیہ تک جا پہنچا ہے جب کہ بے روزگاری کے باعث جرائم کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے چنانچہ لازم ہے کہ پی ٹی آئی حکومت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے مسائل کا ادراک کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر مسائل کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے۔
Load Next Story