پنجاب میں دودھ کی کھپت میں 40 فیصد تک کمی
لاک ڈاؤن کے باعث پنجاب میں دودھ کے کمرشل استعمال میں بے حد کمی آئی ہے
گرمیوں کا موسم شروع ہوتے ہی پنجاب میں دودھ کی پیداوارکم ہونا شروع ہوگئی ہے جبکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی لاہور میں دودھ کی کھپت میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے۔
موسم میں تبدیلی کے باعث جہاں گائے اور بھینس کے دودھ کی پیداوار کم ہونا شروع ہوئی ہے وہیں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کی کھپت میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس سے فارمرز اور دودھ فروز دونوں ہی پریشان ہیں۔
ملک سیلرایسوسی ایشن لاہورکے صدرچوہدری سہیل نے بتایا کہ مئی کے آغازمیں جب درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے تو جانوروں کے دودھ کی پیداوارکم ہوناشروع ہوجاتی ہے، انہوں نے بتایا مئی میں 5 سے 10 فیصد، جون اورجولائی میں 20 فیصد جبکہ اگست میں دودھ کی پیداوار30 سے 35 فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔
چوہدری سہیل کہتے ہیں لاہورمیں دودھ کی کھپت کا تخمینہ 30 لاکھ لیٹر یومیہ ہے، اس میں سے 25 سے 30 فیصد کمرشل ضروریات میں استعمال ہوتا ہے جبکہ 70 فیصد دودھ گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں۔ کمرشل استعمال سے متعلق انہوں نے بتایا کہ جودودھ چائے کی دکانوں ، ہوٹلوں، مٹھائی کی دکانوں، ملک شیک بنانے والے استعمال کرتے ہیں یہ کمرشل استعمال ہے۔ موجودہ لاک ڈاؤن کے دوران دودھ کی کمرشل فروخت میں 30 فیصد سے کم ہوکر 2 سے 3 فیصد تک آگئی ہے جب کہ گھریلو صارفین جو دودھ استعمال کرتے تھے اس کی کھپت بھی 70 فیصد سے کم ہوکر 60 فیصد تک آگئی ہے۔ 30 لاکھ لیٹردودھ میں سے 5 لاکھ سے 7 لاکھ لیٹر دودھ کا کمرشل استعمال ہے جب کہ 23 سے 25 لاکھ لیٹردودھ گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینمل سائنسزکے ماہرین کے مطابق جب درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو دودھ دینے والی گائیں اوربھینسیں کھانا کم کردیتی ہیں ان کی خوراک میں 8 سے 12 فیصدتک کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے دودھ کی پیداوار بھی 20 سے 30 فیصد کم ہوجاتی ہے۔ ویٹرنری ماہرین کا کہنا ہے اگر گرمیوں میں دودھ دینے والے جانوروں کو سائے میں رکھا جائے اور دوپہر کے وقت ناصرف انہیں ٹھنڈے پانی سے نہلایا جائے بلکہ انہیں ٹھنڈا پانی زیادہ پلایا جائے تو اس سے دودھ کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔
مقامی فارمر رانا مبشر حسن نے بتایا کہ گرمیوں میں سبزچارہ مثلا برسین ختم ہونے کے بعد جانوروں کے دودھ کی پیداوار کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جبکہ ایک دودھ کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ موسم گائے اور بھینسوں کی افزائش کا سیزن ہوتا ہے ،ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اکتوبر میں دودھ کی پیداوار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر نومبر سے تین، چار ماہ تک جانور پورا دودھ دیتے ہیں۔
مئی سے اگست تک دودھ کی پیداوارکم ہونے کے باعث اس کی کھپت پوری کرنے کے لئے بعض عناصر کیمیکل سے دودھ تیارکرکے فروخت کرتے ہیں، اس طرح کا مضر صحت دودھ زیادہ ترساہیوال، اوکاڑہ ،پاکپتن، شیخوپورہ، حجرہ شاہ مقیم کی طرف تیارکیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے کنٹینرز کے ذریعے یہ دودھ لاہور سمیت مختلف شہروں میں لایا جاتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی مئی کے دوران ہی لاکھوں لیٹر مضر صحت اور کیمیکل سے تیاردودھ ضائع کرچکی ہے۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان میمن کا کہنا ہے کہ جب تک کھلے دودھ کی فروخت پرمکمل پابندی نہیں لگ جاتی ملاوٹ کا سوفیصدخاتمہ ممکن نہیں ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ کھلے دودھ کی فروخت بتدریج بندکی جائے، ہم نے ٹاؤن شپ لاہورمیں پاسچرائزڈدودھ کی فروخت کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق پنجاب میں 2022 سے کھلے دودھ کی فروخت مکمل طور پر بند ہوجائے گی۔
موسم میں تبدیلی کے باعث جہاں گائے اور بھینس کے دودھ کی پیداوار کم ہونا شروع ہوئی ہے وہیں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کی کھپت میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس سے فارمرز اور دودھ فروز دونوں ہی پریشان ہیں۔
ملک سیلرایسوسی ایشن لاہورکے صدرچوہدری سہیل نے بتایا کہ مئی کے آغازمیں جب درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوتا ہے تو جانوروں کے دودھ کی پیداوارکم ہوناشروع ہوجاتی ہے، انہوں نے بتایا مئی میں 5 سے 10 فیصد، جون اورجولائی میں 20 فیصد جبکہ اگست میں دودھ کی پیداوار30 سے 35 فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔
چوہدری سہیل کہتے ہیں لاہورمیں دودھ کی کھپت کا تخمینہ 30 لاکھ لیٹر یومیہ ہے، اس میں سے 25 سے 30 فیصد کمرشل ضروریات میں استعمال ہوتا ہے جبکہ 70 فیصد دودھ گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں۔ کمرشل استعمال سے متعلق انہوں نے بتایا کہ جودودھ چائے کی دکانوں ، ہوٹلوں، مٹھائی کی دکانوں، ملک شیک بنانے والے استعمال کرتے ہیں یہ کمرشل استعمال ہے۔ موجودہ لاک ڈاؤن کے دوران دودھ کی کمرشل فروخت میں 30 فیصد سے کم ہوکر 2 سے 3 فیصد تک آگئی ہے جب کہ گھریلو صارفین جو دودھ استعمال کرتے تھے اس کی کھپت بھی 70 فیصد سے کم ہوکر 60 فیصد تک آگئی ہے۔ 30 لاکھ لیٹردودھ میں سے 5 لاکھ سے 7 لاکھ لیٹر دودھ کا کمرشل استعمال ہے جب کہ 23 سے 25 لاکھ لیٹردودھ گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینمل سائنسزکے ماہرین کے مطابق جب درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو دودھ دینے والی گائیں اوربھینسیں کھانا کم کردیتی ہیں ان کی خوراک میں 8 سے 12 فیصدتک کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے دودھ کی پیداوار بھی 20 سے 30 فیصد کم ہوجاتی ہے۔ ویٹرنری ماہرین کا کہنا ہے اگر گرمیوں میں دودھ دینے والے جانوروں کو سائے میں رکھا جائے اور دوپہر کے وقت ناصرف انہیں ٹھنڈے پانی سے نہلایا جائے بلکہ انہیں ٹھنڈا پانی زیادہ پلایا جائے تو اس سے دودھ کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔
مقامی فارمر رانا مبشر حسن نے بتایا کہ گرمیوں میں سبزچارہ مثلا برسین ختم ہونے کے بعد جانوروں کے دودھ کی پیداوار کم ہونا شروع ہوجاتی ہے جبکہ ایک دودھ کم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ موسم گائے اور بھینسوں کی افزائش کا سیزن ہوتا ہے ،ان کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اکتوبر میں دودھ کی پیداوار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر نومبر سے تین، چار ماہ تک جانور پورا دودھ دیتے ہیں۔
مئی سے اگست تک دودھ کی پیداوارکم ہونے کے باعث اس کی کھپت پوری کرنے کے لئے بعض عناصر کیمیکل سے دودھ تیارکرکے فروخت کرتے ہیں، اس طرح کا مضر صحت دودھ زیادہ ترساہیوال، اوکاڑہ ،پاکپتن، شیخوپورہ، حجرہ شاہ مقیم کی طرف تیارکیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے کنٹینرز کے ذریعے یہ دودھ لاہور سمیت مختلف شہروں میں لایا جاتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی مئی کے دوران ہی لاکھوں لیٹر مضر صحت اور کیمیکل سے تیاردودھ ضائع کرچکی ہے۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی عرفان میمن کا کہنا ہے کہ جب تک کھلے دودھ کی فروخت پرمکمل پابندی نہیں لگ جاتی ملاوٹ کا سوفیصدخاتمہ ممکن نہیں ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ کھلے دودھ کی فروخت بتدریج بندکی جائے، ہم نے ٹاؤن شپ لاہورمیں پاسچرائزڈدودھ کی فروخت کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق پنجاب میں 2022 سے کھلے دودھ کی فروخت مکمل طور پر بند ہوجائے گی۔