عوام ہوش کے ناخن لیں
ہمارے عوام کو اس افسوسناک حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے کہ کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔
بے انتہا تباہی منہ کھولے کھڑی ہے اور انسان اس کو سمجھنے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ ایک طرف تاریخ کی بدترین وبا منہ کھولے کھڑی ہے، دوسری طرف بھوکا انسان ہے، اگر انسان اپنی اور اپنے خاندان کی بھوک مٹانا چاہتا ہے تو اسے کام کرنا پڑے گا اور کام کا مطلب ہے کورونا کا رسک لینا۔
اس عذاب ناک صورتحال نے عوام کو پراگندہ کرکے رکھ دیا ہے، حکومتیں مرکزی اور صوبائی بھی چہ کنم کے چکر میں الجھی ہوئی ہیں کہ لاک ڈاؤن کھولتے ہیں تو کورونا پوری طاقت سے عوام پر جھپٹ پڑتا ہے اور اگر لاک ڈاؤن نہیں کھولتیں تو عوام بھوکے مر جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہوگا کہ دنیا کو ایسی گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
اس طبقاتی نظام میں 90 فیصد افراد غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری کے شکار ہیں اور صرف دو فیصد ایلیٹ کلاس عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہے نہ بھوک اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ کورونا اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ کراچی میں اموات کی تعداد 42 ہے یعنی آج کورونا سے 42 افراد ہلاک ہوگئے ۔کل اموات 734 اور متاثرین کی تعداد 32 ہزار 839 ہے، اس اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا کیسا عذاب بن کر عوام پر ٹوٹ پڑا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی صورتحال نہیں بلکہ ساری دنیا کا یہی حال ہے۔
اب تک دنیا میں کورونا سے 2 لاکھ نوے ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد 42 لاکھ33 ہزار ہے، اسی سے ملتی جلتی صورتحال دنیا کے دوسرے ملکوں کی ہے۔ ہر طرف خوف و دہشت کی فضا ہے انسان اپنی زندگی اور مستقبل سے مایوس ہے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اس ناگہانی اور تباہ کن بلائے عظیم سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرے۔یہاں ایک امکان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری فضاؤں میں خلائی مخلوق کی آمد کی باتیں ہوتی رہی ہیں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایسی اڑن طشتریاں دیکھی ہیں جن کا ہماری دنیا سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خلائی مخلوق ہے۔
انسانی تاریخ میں دوسرے ملکوں پر حملے اور قبضے عام رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ خلائی مخلوق کورونا کے ذریعے انسان کے وجود کو دنیا سے مٹا کر کرہ ارض پر قبضے کے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔ یہ امکانات ہیں اور کورونا کی تباہ کاریوں کے تناظر میں ان امکانات پر غور کرنا غلط نہیں ہو سکتا۔ کورونا کو اب تک کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پوری دنیا اب کورونا کا وجود ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج تک اس وائرس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے بعض بلائیں انسانوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں لیکن وہ دیکھی نہیں جاتیں کیا کورونا بھی ان جیسی بلاؤں میں سے ایک ہے؟
کورونا جس رفتار سے انسانی جانیں لے رہا ہے اس میں کمی کا تو کوئی امکان نہیں البتہ اس میں ناقابل یقین اضافے کا امکان ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ ہر طرف سے کیا جا رہا ہے، اس مطالبے کی شدت کے پیش نظر لاک ڈاؤن کچھ شرائط کے ساتھ ختم تو کردیا گیا ہے لیکن کورونا کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے اور عوام کے ہر جگہ ہجوم کی وجہ انسانی جانوں کا بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے جس کا مداوا ممکن نہیں۔ لاک ڈاؤن بلاشبہ زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا لیکن شہریوں کو نقصان سے بچنے کے لیے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں ہمارے بھائیوں نے ان کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ یہ بات عوام کی سمجھ سے باہر نظر آتی ہے کہ ملک بھر میں عوام کے ہجوم پاکستانی باشندوں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت بار بار عوام کو ان تباہیوں سے آگاہ کر رہی ہے جو عوام کی طرف سے احتیاطی تدابیر کو جوتوں کی نوک پر رکھا جا رہا ہے اس حوالے سے انسانی جانوں کے زیاں سے بچنے کے لیے حکومت کو سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔ دراصل ہمارے عوام کو اس قسم کی صورتحال کا ماضی میں سامنا نہیں کرنا پڑا، دوسرے ہماری حکومتوں نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی عوام کو ڈسپلن کی ٹریننگ نہیں دی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ہمارے عوام کو اس افسوسناک حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے کہ کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کورونا کے علاج دریافت کرنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔اس مایوس کن صورتحال میں سوائے احتیاط کے ہمارے پاس اس بلا کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ کورونا کی ویکسین کی تیاری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔
اب ہمیں حقیقت پسند بننا چاہیے بے خوفی اور بہادری قابل تعریف ہے لیکن اس کی بھی کچھ محدود شرائط ہوتی ہیں جن کا سختی سے خیال رکھنا پڑتا ہے ،احتیاط کے بغیر بہادری حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد کورونا کی تباہ کاریوں میں ناقابل یقین اور حیرت انگیز اضافہ ہو سکتا ہے، اس حقیقت کے پیش نظر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر احمقانہ بہادری کا مظاہرہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں۔ اب حکومت کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ خود عوام کے مفاد میں عوام کو حکومتی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور کریں۔
اس عذاب ناک صورتحال نے عوام کو پراگندہ کرکے رکھ دیا ہے، حکومتیں مرکزی اور صوبائی بھی چہ کنم کے چکر میں الجھی ہوئی ہیں کہ لاک ڈاؤن کھولتے ہیں تو کورونا پوری طاقت سے عوام پر جھپٹ پڑتا ہے اور اگر لاک ڈاؤن نہیں کھولتیں تو عوام بھوکے مر جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہوگا کہ دنیا کو ایسی گمبھیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
اس طبقاتی نظام میں 90 فیصد افراد غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری کے شکار ہیں اور صرف دو فیصد ایلیٹ کلاس عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہے نہ بھوک اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ کورونا اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ کراچی میں اموات کی تعداد 42 ہے یعنی آج کورونا سے 42 افراد ہلاک ہوگئے ۔کل اموات 734 اور متاثرین کی تعداد 32 ہزار 839 ہے، اس اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا کیسا عذاب بن کر عوام پر ٹوٹ پڑا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی صورتحال نہیں بلکہ ساری دنیا کا یہی حال ہے۔
اب تک دنیا میں کورونا سے 2 لاکھ نوے ہزار لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد 42 لاکھ33 ہزار ہے، اسی سے ملتی جلتی صورتحال دنیا کے دوسرے ملکوں کی ہے۔ ہر طرف خوف و دہشت کی فضا ہے انسان اپنی زندگی اور مستقبل سے مایوس ہے اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ اس ناگہانی اور تباہ کن بلائے عظیم سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرے۔یہاں ایک امکان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری فضاؤں میں خلائی مخلوق کی آمد کی باتیں ہوتی رہی ہیں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایسی اڑن طشتریاں دیکھی ہیں جن کا ہماری دنیا سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خلائی مخلوق ہے۔
انسانی تاریخ میں دوسرے ملکوں پر حملے اور قبضے عام رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ خلائی مخلوق کورونا کے ذریعے انسان کے وجود کو دنیا سے مٹا کر کرہ ارض پر قبضے کے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔ یہ امکانات ہیں اور کورونا کی تباہ کاریوں کے تناظر میں ان امکانات پر غور کرنا غلط نہیں ہو سکتا۔ کورونا کو اب تک کسی نے دیکھا نہیں لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پوری دنیا اب کورونا کا وجود ہے اور اس کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آج تک اس وائرس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے بعض بلائیں انسانوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں لیکن وہ دیکھی نہیں جاتیں کیا کورونا بھی ان جیسی بلاؤں میں سے ایک ہے؟
کورونا جس رفتار سے انسانی جانیں لے رہا ہے اس میں کمی کا تو کوئی امکان نہیں البتہ اس میں ناقابل یقین اضافے کا امکان ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ ہر طرف سے کیا جا رہا ہے، اس مطالبے کی شدت کے پیش نظر لاک ڈاؤن کچھ شرائط کے ساتھ ختم تو کردیا گیا ہے لیکن کورونا کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے خاتمے اور عوام کے ہر جگہ ہجوم کی وجہ انسانی جانوں کا بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے جس کا مداوا ممکن نہیں۔ لاک ڈاؤن بلاشبہ زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا لیکن شہریوں کو نقصان سے بچنے کے لیے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں ہمارے بھائیوں نے ان کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔ یہ بات عوام کی سمجھ سے باہر نظر آتی ہے کہ ملک بھر میں عوام کے ہجوم پاکستانی باشندوں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت بار بار عوام کو ان تباہیوں سے آگاہ کر رہی ہے جو عوام کی طرف سے احتیاطی تدابیر کو جوتوں کی نوک پر رکھا جا رہا ہے اس حوالے سے انسانی جانوں کے زیاں سے بچنے کے لیے حکومت کو سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے۔ دراصل ہمارے عوام کو اس قسم کی صورتحال کا ماضی میں سامنا نہیں کرنا پڑا، دوسرے ہماری حکومتوں نے دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی عوام کو ڈسپلن کی ٹریننگ نہیں دی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
ہمارے عوام کو اس افسوسناک حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیے کہ کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کورونا کے علاج دریافت کرنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔اس مایوس کن صورتحال میں سوائے احتیاط کے ہمارے پاس اس بلا کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ کورونا کی ویکسین کی تیاری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔
اب ہمیں حقیقت پسند بننا چاہیے بے خوفی اور بہادری قابل تعریف ہے لیکن اس کی بھی کچھ محدود شرائط ہوتی ہیں جن کا سختی سے خیال رکھنا پڑتا ہے ،احتیاط کے بغیر بہادری حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد کورونا کی تباہ کاریوں میں ناقابل یقین اور حیرت انگیز اضافہ ہو سکتا ہے، اس حقیقت کے پیش نظر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر احمقانہ بہادری کا مظاہرہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں۔ اب حکومت کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ خود عوام کے مفاد میں عوام کو حکومتی ہدایات پر عمل کرنے پر مجبور کریں۔