لاک ڈائون اور غریبوں کی حالت زار
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف شعبہ جات زندگی سے منسلک محنت کشوں کی تعداد سات کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
BEIRUT:
مزدوروں کے عالمی دن پر اس سال ملک کے تمام محنت کشوں نے پہلی مرتبہ یہ چھٹی منائی لیکن استحقاقی طور پر نہیں بلکہ لاک ڈائون کی وجہ سے کیونکہ مزدور، محنت مزدوری کرنے سے قاصر تھے۔
حسب روایت اس دن کے حوالے سے بہت سے پروگرام ہوئے، اخبارات نے خصوصی مضامین و ضمیمے شایع کیے، بہت سی مزدور تنظیموں نے پروگرام اور مظاہرے کیے جو اس لحاظ سے حیران کن اور قابل تحسین تھے کہ ان میں حکومتی ایس او پی کا پورا خیال رکھا گیا۔ اس موقع پر مزدور رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداری نظام اور یومیہ اجرت کیوجہ سے ایک کروڑ محنت کش لیبر قوانین سے با ہر ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد محنت کشوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔
محنت کشوں نے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ لاک ڈائون کے دوران برطرفیاں روکنے اور ادائیگی یقینی بنانے کے لیے کوئی موثر طریقہ کار اور پالیسی وضع کی جائے ورنہ کورونا وائرس کی یہ وباء محنت کشوں کے لیے فاقہ کشی کے ذریعے موت کا پیغام ثابت ہوگی۔ راقم کے علم میں بھی یہ بات آئی ہے کہ بعض کمپنی مالکان اپنے ملازمین سے پیشگی استعفیٰ لے کر لاک ڈائون دورانیہ کی تنخوہ ادا کر رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف شعبہ جات زندگی سے منسلک محنت کشوں کی تعداد سات کروڑ کے لگ بھگ ہے، خود حکومت کے مطابق اسی فیصد مزدور رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہزاروں انڈسٹریز بھی رجسٹرڈ نہیں ہیں جو رجسٹرڈ ہیں ان میں بھی بہت سی انڈسٹریز میں یونین رجسٹرڈ نہیں ہونے دی جاتی یا پھر پاکٹ مزدور یونینز ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں محنت کش اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ملک کے شہریوں کی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے خصوصاً نوے کی دہائی کے بعد سے اس طبقہ کے زیر اثر کی گئی قانونی ترمیمات نے مزدورورں کے قانونی استحصال کی راہیں فراہم کردی ہیں جن کی وجہ سے محنت کش بہت سے قانونی تحفظات اور مراعات سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
لیبر کورٹس،لیبر اپیلٹ ٹرائی بیونل اور این آئی آر سی میں مقدمات سالہاسال زیر التوا پڑے رہتے ہیں ،لمبی لمبی تاریخیں حکومتی بے توجہی،ججز اور ممبرز نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کا التوا انصاف کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بھٹہ مزددور، بانڈیڈ ایمپلائی،نجی جیلوں میں مقید ہاریوں جیسی انسانی غلامی کی روایت آج بھی زندہ ہے ۔ کوئلے کی کانوں میں آئے دن کے حادثات میں سیکڑوں مزدور اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں ۔ ان کے تحفظ کے انتظامات وحفاظتی آلات و خاطر خواہ معاوضہ کا کوئی طریقہ کار نظر آتا ہے نہ ایسے واقعات پر کوئی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے۔
لاک ڈائون کی وجہ سے سب سے زیادہ اور براہ راست متاثر طبقہ، محنت کشوں کا ہے۔ معاشی ماہرین کی آرا کے مطابق دو کروڑ کے قریب افراد خط غربت سے نیچے پہنچ چکے ہیں اور کروڑوں بے روز گار ہو سکتے ہیں۔ حکومت خود ایک کروڑ کے بے روزگار اور بیروزگاری کی شرح میں 79 فیصد اور غربت کی شرح میں56 فیصد اضافہ کے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈائون کب اور کیسے ختم ہونگے اس سلسلے میں لامتناہی اور غیر یقینی صورتحال نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ لاک ڈوائن اشرافیہ نے کر وایا ہے اگر صرف غریب مر رہے ہوتے تو اتنی تیزی نہیں دکھائی جاتی اوریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ وبا چھ ماہ یا سال بھر بھی چل سکتی ہے۔
حکومت پاکستان کو کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں کیے جانے والے لاک ڈائون کی صورت حال میں اپنے ملک کے معروضی حالات کو خصوصی طور پر مد نظر رکھنا چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فل اسکیل ایمپلائمنٹ( (Full scale employment بے روزگاری الائونس اور صحت و صفائی کی سہولیات اور سوشل سیکیورٹی کا نظام موجود ہے۔ وہاں کی حکومتوںنے لاک ڈائون سے پہلے اس کے ممکنہ درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے انتظامات کیے کہ ان کی معیشت کیسے چلائی جائیں گی۔
شہریوں کی دہلیز اور ریلیف کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے، جب کہ ان کی معیشت بھی مستحکم تھی۔ نیوزی لینڈ کی مثال دنیا کے سامنے ہے جس نے لاک ڈائون کے ذریعے چند ہفتوں میں اس وبا پر قابو پا لیا۔ سوئیڈن نے تو بھر پور عالمی وبائو کے باوجود بغیر لا ک ڈائون کیے اس وبا کا مقابلہ کیا۔ البتہ چین میں کیونکہ اس ناگہانی وبا کا اچانک آغاز ہوا تھا ،جو ناقابل سمجھ اور تحقیق طلب تھی اس لیے سخت ترین لاک ڈائون کیا گیا لیکن وہاں بھی اٹھائیس روزہ لاک ڈائون کے بعد زندگی پھر سے روں دواں ہے۔
دنیا کے بعض ممالک میں جہاں لاک ڈائون کے دوران شہریوں کو خاطر خواہ سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں ،اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ امریکا میں لاک ڈائون کے خلاف جدید ہتھیاروں سے لیس سفید فام امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ان مشتعل افراد کے خوف سے سرکاری ملازمین نے بلٹ پروف جیکٹس پہننا شروع کردی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ امریکی صدر ان مظاہرین کو اچھے لوگ قرادے رہے ہیں۔
امریکی صدر بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرح لاک ڈائون کے مخالف نظر آتے ہیںجہاں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سہولیات کی فراہمی کے باوجود طویل لاک ڈائون سے تلملا گئے ہیں وہی ہمارے ملک کے شہری بھی طویل لاک ڈائون کے نتیجے میں معاشی طور پر نڈھال اور لب جان ہو کر لاک ڈائون ختم کرنے اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ حکومت کو درپیش معاشی مسائل میں گھیرے اس ملک اور اس کے شہریوں کی حالت زار اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے لاک ڈائون کے مضمرات پر بھی سنجیدگی سے غور کر لینا چاہیے۔
ایسا ملک جس کے حکومتی ادارے ایک دوسرے کے اربوں روپے کے مقروض ہوں ، بڑے قومی ادارے تباہی سے دوچار ہوں ، اسٹیل ملز کے ملازمین کو پانچ پانچ ماہ تنخواہ نہ ملتی ہو ، چھ سات سال قبل ریٹائر ہونے والے ضعیف العمر ملازمین اپنے واجبات کی ادائیگیوں کے لیے مظاہرے کر رہے ہوں ۔ ا س سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی کا ہے لاک ڈائون کی وجہ سے غریب و محنت کش عوام ہی نہیں بلکہ تاجر، کاروباری، طبقہ بڑے صنعت کار اور خود ملک بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اگر پیداوار نہ ہوگی تو مارکیٹ ، سپلائی کیسے ہوگی، مارکیٹیں نہیں کھیلیں گی تو آگے ترسیل کیسے ہوگی؟، ایکسپورٹ کا کیا بنے گا، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کیسے ہوگی، زرمبادلہ کہاں سے آئے گا ؟ حکومت کو ریونیو کیسے ملے گا ، ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے ملیں گی؟
اربوں روپے کی رقم اور امدادی سامان کی تقسیم میں بھی کوئی شفافیت نظر نہیں آئی بلکہ اس میں خرد برد اور کرپشن کی شکایات سامنے آئیں کہ مستحقین محروم رہے اور انکی عزت نفس پامال کی جارہی ہے ۔ خودکشی و جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ، اگریہ صورتحال مستقل رہتی ہے تو خط افلاس سے نیچے زندگیاں بسر کرنے والے افراد اور کروڑوں کی بیروز گار فوج کیا حشر برپا کر سکتی ہے اس کا اندازہ اور پیش بندی قبل از وقت کر لینی چاہیے۔
مزدوروں کے عالمی دن پر اس سال ملک کے تمام محنت کشوں نے پہلی مرتبہ یہ چھٹی منائی لیکن استحقاقی طور پر نہیں بلکہ لاک ڈائون کی وجہ سے کیونکہ مزدور، محنت مزدوری کرنے سے قاصر تھے۔
حسب روایت اس دن کے حوالے سے بہت سے پروگرام ہوئے، اخبارات نے خصوصی مضامین و ضمیمے شایع کیے، بہت سی مزدور تنظیموں نے پروگرام اور مظاہرے کیے جو اس لحاظ سے حیران کن اور قابل تحسین تھے کہ ان میں حکومتی ایس او پی کا پورا خیال رکھا گیا۔ اس موقع پر مزدور رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ٹھیکیداری نظام اور یومیہ اجرت کیوجہ سے ایک کروڑ محنت کش لیبر قوانین سے با ہر ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زائد محنت کشوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔
محنت کشوں نے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ لاک ڈائون کے دوران برطرفیاں روکنے اور ادائیگی یقینی بنانے کے لیے کوئی موثر طریقہ کار اور پالیسی وضع کی جائے ورنہ کورونا وائرس کی یہ وباء محنت کشوں کے لیے فاقہ کشی کے ذریعے موت کا پیغام ثابت ہوگی۔ راقم کے علم میں بھی یہ بات آئی ہے کہ بعض کمپنی مالکان اپنے ملازمین سے پیشگی استعفیٰ لے کر لاک ڈائون دورانیہ کی تنخوہ ادا کر رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مختلف شعبہ جات زندگی سے منسلک محنت کشوں کی تعداد سات کروڑ کے لگ بھگ ہے، خود حکومت کے مطابق اسی فیصد مزدور رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہزاروں انڈسٹریز بھی رجسٹرڈ نہیں ہیں جو رجسٹرڈ ہیں ان میں بھی بہت سی انڈسٹریز میں یونین رجسٹرڈ نہیں ہونے دی جاتی یا پھر پاکٹ مزدور یونینز ہیں جس کی وجہ سے کروڑوں محنت کش اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ملک کے شہریوں کی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے خصوصاً نوے کی دہائی کے بعد سے اس طبقہ کے زیر اثر کی گئی قانونی ترمیمات نے مزدورورں کے قانونی استحصال کی راہیں فراہم کردی ہیں جن کی وجہ سے محنت کش بہت سے قانونی تحفظات اور مراعات سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
لیبر کورٹس،لیبر اپیلٹ ٹرائی بیونل اور این آئی آر سی میں مقدمات سالہاسال زیر التوا پڑے رہتے ہیں ،لمبی لمبی تاریخیں حکومتی بے توجہی،ججز اور ممبرز نہ ہونے کی وجہ سے مقدمات کا التوا انصاف کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بھٹہ مزددور، بانڈیڈ ایمپلائی،نجی جیلوں میں مقید ہاریوں جیسی انسانی غلامی کی روایت آج بھی زندہ ہے ۔ کوئلے کی کانوں میں آئے دن کے حادثات میں سیکڑوں مزدور اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں ۔ ان کے تحفظ کے انتظامات وحفاظتی آلات و خاطر خواہ معاوضہ کا کوئی طریقہ کار نظر آتا ہے نہ ایسے واقعات پر کوئی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے۔
لاک ڈائون کی وجہ سے سب سے زیادہ اور براہ راست متاثر طبقہ، محنت کشوں کا ہے۔ معاشی ماہرین کی آرا کے مطابق دو کروڑ کے قریب افراد خط غربت سے نیچے پہنچ چکے ہیں اور کروڑوں بے روز گار ہو سکتے ہیں۔ حکومت خود ایک کروڑ کے بے روزگار اور بیروزگاری کی شرح میں 79 فیصد اور غربت کی شرح میں56 فیصد اضافہ کے خدشات کا اظہار کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈائون کب اور کیسے ختم ہونگے اس سلسلے میں لامتناہی اور غیر یقینی صورتحال نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ لاک ڈوائن اشرافیہ نے کر وایا ہے اگر صرف غریب مر رہے ہوتے تو اتنی تیزی نہیں دکھائی جاتی اوریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ وبا چھ ماہ یا سال بھر بھی چل سکتی ہے۔
حکومت پاکستان کو کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں کیے جانے والے لاک ڈائون کی صورت حال میں اپنے ملک کے معروضی حالات کو خصوصی طور پر مد نظر رکھنا چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں فل اسکیل ایمپلائمنٹ( (Full scale employment بے روزگاری الائونس اور صحت و صفائی کی سہولیات اور سوشل سیکیورٹی کا نظام موجود ہے۔ وہاں کی حکومتوںنے لاک ڈائون سے پہلے اس کے ممکنہ درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے انتظامات کیے کہ ان کی معیشت کیسے چلائی جائیں گی۔
شہریوں کی دہلیز اور ریلیف کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے، جب کہ ان کی معیشت بھی مستحکم تھی۔ نیوزی لینڈ کی مثال دنیا کے سامنے ہے جس نے لاک ڈائون کے ذریعے چند ہفتوں میں اس وبا پر قابو پا لیا۔ سوئیڈن نے تو بھر پور عالمی وبائو کے باوجود بغیر لا ک ڈائون کیے اس وبا کا مقابلہ کیا۔ البتہ چین میں کیونکہ اس ناگہانی وبا کا اچانک آغاز ہوا تھا ،جو ناقابل سمجھ اور تحقیق طلب تھی اس لیے سخت ترین لاک ڈائون کیا گیا لیکن وہاں بھی اٹھائیس روزہ لاک ڈائون کے بعد زندگی پھر سے روں دواں ہے۔
دنیا کے بعض ممالک میں جہاں لاک ڈائون کے دوران شہریوں کو خاطر خواہ سہولیات بھی فراہم کی گئی ہیں ،اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ امریکا میں لاک ڈائون کے خلاف جدید ہتھیاروں سے لیس سفید فام امریکی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ان مشتعل افراد کے خوف سے سرکاری ملازمین نے بلٹ پروف جیکٹس پہننا شروع کردی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی حکومتی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ امریکی صدر ان مظاہرین کو اچھے لوگ قرادے رہے ہیں۔
امریکی صدر بھی پاکستانی وزیراعظم کی طرح لاک ڈائون کے مخالف نظر آتے ہیںجہاں ترقی یافتہ ممالک کے لوگ سہولیات کی فراہمی کے باوجود طویل لاک ڈائون سے تلملا گئے ہیں وہی ہمارے ملک کے شہری بھی طویل لاک ڈائون کے نتیجے میں معاشی طور پر نڈھال اور لب جان ہو کر لاک ڈائون ختم کرنے اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاروبار کھولنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ حکومت کو درپیش معاشی مسائل میں گھیرے اس ملک اور اس کے شہریوں کی حالت زار اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے لاک ڈائون کے مضمرات پر بھی سنجیدگی سے غور کر لینا چاہیے۔
ایسا ملک جس کے حکومتی ادارے ایک دوسرے کے اربوں روپے کے مقروض ہوں ، بڑے قومی ادارے تباہی سے دوچار ہوں ، اسٹیل ملز کے ملازمین کو پانچ پانچ ماہ تنخواہ نہ ملتی ہو ، چھ سات سال قبل ریٹائر ہونے والے ضعیف العمر ملازمین اپنے واجبات کی ادائیگیوں کے لیے مظاہرے کر رہے ہوں ۔ ا س سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی کا ہے لاک ڈائون کی وجہ سے غریب و محنت کش عوام ہی نہیں بلکہ تاجر، کاروباری، طبقہ بڑے صنعت کار اور خود ملک بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اگر پیداوار نہ ہوگی تو مارکیٹ ، سپلائی کیسے ہوگی، مارکیٹیں نہیں کھیلیں گی تو آگے ترسیل کیسے ہوگی؟، ایکسپورٹ کا کیا بنے گا، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کیسے ہوگی، زرمبادلہ کہاں سے آئے گا ؟ حکومت کو ریونیو کیسے ملے گا ، ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے ملیں گی؟
اربوں روپے کی رقم اور امدادی سامان کی تقسیم میں بھی کوئی شفافیت نظر نہیں آئی بلکہ اس میں خرد برد اور کرپشن کی شکایات سامنے آئیں کہ مستحقین محروم رہے اور انکی عزت نفس پامال کی جارہی ہے ۔ خودکشی و جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ، اگریہ صورتحال مستقل رہتی ہے تو خط افلاس سے نیچے زندگیاں بسر کرنے والے افراد اور کروڑوں کی بیروز گار فوج کیا حشر برپا کر سکتی ہے اس کا اندازہ اور پیش بندی قبل از وقت کر لینی چاہیے۔