فیس بک‘ ادب اور اچھے برے چہرے
’’میں فیس بک نہیں دیکھتا۔ کیا دیکھوں۔ وہاں تو ہنر مند اور بے ہنر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں‘‘۔
''میں فیس بک نہیں دیکھتا۔ کیا دیکھوں۔ وہاں تو ہنر مند اور بے ہنر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں''۔
ٹھیٹ اردو میں یوں سمجھئے کہ وہاں گدھے گھوڑے میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ کہنے والے تھے جواں سال نقاد پروفیسر ضیاء الحسن اور کہا بیچ کھیت کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں۔ موضوع بحث تھی ہمعصر اردو شاعری کہنے لگے کہ ہمعصر اردو شاعری کے بارے میں کیا کہا جائے۔ پچھلے پندرہ سال کے دوران جو شعر مجموعی شایع ہوئے ہیں ان پر نظر ڈالیے۔ فرق بہت کم نظر آئے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شاعر کا اپنا وژن ہو' اپنا انداز نظر ہو۔
پھر یہ گرم مزاج نقاد ان ادیبوں پر برس پڑا جو فرمائش کر کے یا منتیں کر کے اپنے بارے میں مضمون لکھواتے ہیں' اور ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مضمون شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے یا ...... مگر وہ اس مقام پر آکر ٹھٹھک گئے۔ پتہ نہیں کس بے ہنر نام نہاد نقاد کا نام لینا چاہتے تھے۔ مگر پھر در گزر کیا۔
ضیاء الحسن نام خدا نئے ہیں۔ تنقید کے میدان میں ابھی تازہ دم ہیں۔ خون گرم ہے اور قلم میں بیباکی آ چلی ہے۔ مستند نقاد بننے تک یہ چلن رہے رہے نہ رہے۔ ورنہ ہم نے یوں بھی دیکھا ہے کہ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے ان کی تنقید فیس بک کا رنگ پکڑ لیتی ہے۔ ہاں یہ جو فیس بک بلکہ یہ جو انٹرنیٹ کا سارا تام جھام ہے اس کا گلیمر تو فی زمانہ بہت ہے۔ اب کسی نے ٹوکا تو سہی کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔
خیر ذکر یہاں عالمی اردو کانفرنس کا مقصود ہے، نئے پرانے کتنے ادیب یہاں جمع تھے۔ مقامی غیر مقامی۔ پھر باہر سے آئے ہوئے مندوبین۔ سامعین قطار اندر قطار۔ انھیں میں رلی ملی وہ مخلوق بھی تھی کہ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک کیمرہ جو ادیب ہال سے باہر نکلا وہ پکڑا گیا۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ ایک دائیں کھڑا ہوا، دوسرا بائیں کھڑا ہوا، تیسرا پہلے سے مستعد کیمرہ لیے کھڑا ہے۔ کھٹ سے تصویر کھینچ لی۔ اس مخلوق کے نرغے سے نکلے تو ایک دوسری مخلوق نمودار ہوئی۔ ٹی وی کے تام جھام سے مسلح۔ فرمائش کہ کانفرنس کے بارے میں اپنے خیالات و تاثرات عالیہ سے سرفرار فرمائیے۔
ارے ان ہی کے دم سے تو ساری آرٹ کونسل میں اتنی چہل پہل تھی۔ باقی ہال کے اندر سننے والے اور داد دینے والے بھی کم نہیں تھے۔ ایسے سیشن بھی تھے کہ آدمی پہ آدمی گر رہا تھا۔ تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جب ضیا محی الدین جیسے اہل ہنر زیب محفل ہوں تو پھر یہ عالم ہونا ہی تھا۔ دائود رہبر کا خاکہ کیا خوب پیش کیا سماں باندھ دیا۔ مسعود اشعر ہمارے برابر بیٹھے تھے۔ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہمارے خاکہ نگاروں کو یہ خاکہ پڑھنا چاہیے۔ انھیں پتہ چلے کہ شخصیت کو ایسے بیان کیا جاتا ہے۔ ارے یہ اردو میں کیوں نہیں لکھتے۔ ہم نے کہا کہ کیا بتائیں دلی کا پانی ملتان بہہ گیا۔ ضیاء محی الدین کا ملتان انگریزی زبان ہے۔ اردو میں قدم رکھتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اردو کی منتخب نظم اور منتخب نثر سنا کر جادو جگاتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ خود اپنی تحریر کے ہنر کو چھپا کر رکھتے ہیں۔
اور ہاں دائود رہبر پر نعمان صاحب نے بھی تو گفتگو کی تھی ان کا بھی دائود رہبر سے بہت ربط و ضبط رہا تھا۔ ایک عالم اپنے پیش رو عالم پر گفتگو کر رہا تھا۔ وہ گفتگو بھی خوب تھی۔ سو پتہ یہ چلا کہ جس شخص کو بیان کیا جا رہا ہو وہ آدمی بھی تو اپنی جگہ صاحب ہنر ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر خاکہ نگار اسمائے تفصیل ہی سے خاکہ کا پیٹ بھرے گا۔
ہاں ایک سیشن اردو اور سندھی کے تاریخی اور لسانی رابطے کے عنوان کے تحت بھی ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر فہمیدہ حسین کہہ رہی تھیں کہ اردو اور سندھی بہنیں ہیں انھیں سوکنیں تو مت بنائو۔ اچھا کہا مگر یہ تو انھوں نے لاہور کی آرٹ کونسل کی کانفرنس میں کہا تھا۔ یہاں تو کچھ دوسری شخصیتیں نظر آ رہی تھیں امداد حسینی' عطیہ دائود' فہمیدہ ریاض' مظہر جمیل' باقی نام یاد نہیں آ رہے۔ اور ان کی کہی ہوئی باتیں۔ مگر یہاں ہم نے اتنی باتیں سنی ہیں کہ سب کو حافظہ میں سنبھال کر رکھنا مشکل ہو گیا۔ اور کتنی نشستوں میں تو ہم شرکت کر ہی نہیں پائے۔ نشستیں بھی تو تابڑ توڑ تھیں۔ آدمی کہاں کہاں دوڑ کر جاتا۔ کہیں ہم تھک کر رہ گئے کہیں ہمارے حافظہ نے معذرت کی کہ یہ سب کچھ محفوظ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
کچھ ہلکی پھلکی باتیں یاد رہ گئیں۔ ورنہ سب سے بڑھ کر تو شمیم حنفی نے بصیرت افروز باتیں کی تھیں۔ اور کتنی نشستوں میں انھوں نے کتنا کچھ کہا تھا۔ ہندوستان سے آیا ہوا یہ ایک دانہ ہم سب پر بھاری تھا۔ آخر حافظہ ہمارا حافظہ ہی تو ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل تو نہیں ہے۔ کیا کیا یاد رکھتے۔
خیر کوئی بات نہیں ایسی کانفرنسوں میں جہاں اتنا کچھ ہو رہا ہو تو اس میں یہی ہوا کرتا ہے۔ اب کتنے چنیدہ ادیبوں کے لیے یہاں خاص اہتمام کیا گیا۔ یارک شائر سے ایک بی بی آئیں غزل انصاری انھوں نے اپنے یارک شائر ادبی فورم کی طرف سے فہمیدہ ریاض کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ ایک اعترافِ کمال مستنصر حسین تارڑ کے لیے۔ دوسرا اعترافِ کمال عبداللہ حسین کے لیے۔ لیجیے ان کا ایک فقرہ اٹکا رہ گیا ہے۔ محمد حنیف ان سے پوچھ رہے تھے ان کے ناول اداس نسلیں کے بارے میں کہ آخر یہ ناول کیسے سرزد ہوا۔ بولے کہ میں بہت بور ہو رہا تھا۔ میں نے یوں ہی قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا۔ وہ ناول بن گیا۔
اور کتنی کتابوں کی رسم اجراء ادا ہوئی۔ ناصر عباس نیر کی کتاب نو آبادیات اردو کے تناظر میں۔ شمس الحق عثمانی کی مرتبہ کتاب 'سارا منٹو' احفاظ الرحمن کا مجموعہ کلام ''زندہ ہے زندگی''۔ افضال احمد سیّد کا دیوان میرؔ فارسی کا اردو ترجمہ آصف فرخی کا 'انتخاب غلام عباس'۔
وغیرہ' وغیرہ' وغیرہ۔ کاش ہم دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتے ہوتے۔ ہاں وہ جو غلام عباس کے افسانوں کا انتخاب ہے ان میں سے ایک افسانے 'دھنک' پر مسعود اشعر رواں تھے کہ دیکھئے افسانہ نگار نے کب یہ افسانہ لکھا تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے اواخر میں جو نقشہ انھوں نے تب کھینچا تھا وہ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے۔ افسانہ نگار کی پیش بینی پر وہ داد دے رہے تھے۔ ادھر ہم سر پیٹ رہے تھے کہ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔ غلام عباس کی پیش بینی ہم پر بہت بھاری پڑی۔
ہاں سب مطبوعات سے بڑھ کر عزیز حامد مدنی کی کلیات نے اہمیت حاصل کی۔ اور بجا حاصل کی۔ اس مرحوم نے کتنا کچھ کہا۔ مگر سینت سینت کر رکھا۔ مرتے وقت بھتیجے کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بائیس برس بعد اس کلام کو چھپوانا۔ اس وصیت کی لِم سمجھ میں نہ آئی۔ بہر حال اس کلام کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں شمیم حنفی' سحر انصاری' محمد احمد شاہ' مبین مرزا شامل تھے۔ اس پر مستزاد بھتیجے ظفر سعید سیٹھی کی باتیں بعنوان ''باتیں مدنی چچا کی''۔
ٹھیٹ اردو میں یوں سمجھئے کہ وہاں گدھے گھوڑے میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ کہنے والے تھے جواں سال نقاد پروفیسر ضیاء الحسن اور کہا بیچ کھیت کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں۔ موضوع بحث تھی ہمعصر اردو شاعری کہنے لگے کہ ہمعصر اردو شاعری کے بارے میں کیا کہا جائے۔ پچھلے پندرہ سال کے دوران جو شعر مجموعی شایع ہوئے ہیں ان پر نظر ڈالیے۔ فرق بہت کم نظر آئے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شاعر کا اپنا وژن ہو' اپنا انداز نظر ہو۔
پھر یہ گرم مزاج نقاد ان ادیبوں پر برس پڑا جو فرمائش کر کے یا منتیں کر کے اپنے بارے میں مضمون لکھواتے ہیں' اور ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مضمون شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے یا ...... مگر وہ اس مقام پر آکر ٹھٹھک گئے۔ پتہ نہیں کس بے ہنر نام نہاد نقاد کا نام لینا چاہتے تھے۔ مگر پھر در گزر کیا۔
ضیاء الحسن نام خدا نئے ہیں۔ تنقید کے میدان میں ابھی تازہ دم ہیں۔ خون گرم ہے اور قلم میں بیباکی آ چلی ہے۔ مستند نقاد بننے تک یہ چلن رہے رہے نہ رہے۔ ورنہ ہم نے یوں بھی دیکھا ہے کہ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے ان کی تنقید فیس بک کا رنگ پکڑ لیتی ہے۔ ہاں یہ جو فیس بک بلکہ یہ جو انٹرنیٹ کا سارا تام جھام ہے اس کا گلیمر تو فی زمانہ بہت ہے۔ اب کسی نے ٹوکا تو سہی کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔
خیر ذکر یہاں عالمی اردو کانفرنس کا مقصود ہے، نئے پرانے کتنے ادیب یہاں جمع تھے۔ مقامی غیر مقامی۔ پھر باہر سے آئے ہوئے مندوبین۔ سامعین قطار اندر قطار۔ انھیں میں رلی ملی وہ مخلوق بھی تھی کہ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک کیمرہ جو ادیب ہال سے باہر نکلا وہ پکڑا گیا۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ ایک دائیں کھڑا ہوا، دوسرا بائیں کھڑا ہوا، تیسرا پہلے سے مستعد کیمرہ لیے کھڑا ہے۔ کھٹ سے تصویر کھینچ لی۔ اس مخلوق کے نرغے سے نکلے تو ایک دوسری مخلوق نمودار ہوئی۔ ٹی وی کے تام جھام سے مسلح۔ فرمائش کہ کانفرنس کے بارے میں اپنے خیالات و تاثرات عالیہ سے سرفرار فرمائیے۔
ارے ان ہی کے دم سے تو ساری آرٹ کونسل میں اتنی چہل پہل تھی۔ باقی ہال کے اندر سننے والے اور داد دینے والے بھی کم نہیں تھے۔ ایسے سیشن بھی تھے کہ آدمی پہ آدمی گر رہا تھا۔ تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جب ضیا محی الدین جیسے اہل ہنر زیب محفل ہوں تو پھر یہ عالم ہونا ہی تھا۔ دائود رہبر کا خاکہ کیا خوب پیش کیا سماں باندھ دیا۔ مسعود اشعر ہمارے برابر بیٹھے تھے۔ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہمارے خاکہ نگاروں کو یہ خاکہ پڑھنا چاہیے۔ انھیں پتہ چلے کہ شخصیت کو ایسے بیان کیا جاتا ہے۔ ارے یہ اردو میں کیوں نہیں لکھتے۔ ہم نے کہا کہ کیا بتائیں دلی کا پانی ملتان بہہ گیا۔ ضیاء محی الدین کا ملتان انگریزی زبان ہے۔ اردو میں قدم رکھتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اردو کی منتخب نظم اور منتخب نثر سنا کر جادو جگاتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ خود اپنی تحریر کے ہنر کو چھپا کر رکھتے ہیں۔
اور ہاں دائود رہبر پر نعمان صاحب نے بھی تو گفتگو کی تھی ان کا بھی دائود رہبر سے بہت ربط و ضبط رہا تھا۔ ایک عالم اپنے پیش رو عالم پر گفتگو کر رہا تھا۔ وہ گفتگو بھی خوب تھی۔ سو پتہ یہ چلا کہ جس شخص کو بیان کیا جا رہا ہو وہ آدمی بھی تو اپنی جگہ صاحب ہنر ہونا چاہیے۔ ورنہ پھر خاکہ نگار اسمائے تفصیل ہی سے خاکہ کا پیٹ بھرے گا۔
ہاں ایک سیشن اردو اور سندھی کے تاریخی اور لسانی رابطے کے عنوان کے تحت بھی ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر فہمیدہ حسین کہہ رہی تھیں کہ اردو اور سندھی بہنیں ہیں انھیں سوکنیں تو مت بنائو۔ اچھا کہا مگر یہ تو انھوں نے لاہور کی آرٹ کونسل کی کانفرنس میں کہا تھا۔ یہاں تو کچھ دوسری شخصیتیں نظر آ رہی تھیں امداد حسینی' عطیہ دائود' فہمیدہ ریاض' مظہر جمیل' باقی نام یاد نہیں آ رہے۔ اور ان کی کہی ہوئی باتیں۔ مگر یہاں ہم نے اتنی باتیں سنی ہیں کہ سب کو حافظہ میں سنبھال کر رکھنا مشکل ہو گیا۔ اور کتنی نشستوں میں تو ہم شرکت کر ہی نہیں پائے۔ نشستیں بھی تو تابڑ توڑ تھیں۔ آدمی کہاں کہاں دوڑ کر جاتا۔ کہیں ہم تھک کر رہ گئے کہیں ہمارے حافظہ نے معذرت کی کہ یہ سب کچھ محفوظ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
کچھ ہلکی پھلکی باتیں یاد رہ گئیں۔ ورنہ سب سے بڑھ کر تو شمیم حنفی نے بصیرت افروز باتیں کی تھیں۔ اور کتنی نشستوں میں انھوں نے کتنا کچھ کہا تھا۔ ہندوستان سے آیا ہوا یہ ایک دانہ ہم سب پر بھاری تھا۔ آخر حافظہ ہمارا حافظہ ہی تو ہے۔ عمرو عیار کی زنبیل تو نہیں ہے۔ کیا کیا یاد رکھتے۔
خیر کوئی بات نہیں ایسی کانفرنسوں میں جہاں اتنا کچھ ہو رہا ہو تو اس میں یہی ہوا کرتا ہے۔ اب کتنے چنیدہ ادیبوں کے لیے یہاں خاص اہتمام کیا گیا۔ یارک شائر سے ایک بی بی آئیں غزل انصاری انھوں نے اپنے یارک شائر ادبی فورم کی طرف سے فہمیدہ ریاض کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ ایک اعترافِ کمال مستنصر حسین تارڑ کے لیے۔ دوسرا اعترافِ کمال عبداللہ حسین کے لیے۔ لیجیے ان کا ایک فقرہ اٹکا رہ گیا ہے۔ محمد حنیف ان سے پوچھ رہے تھے ان کے ناول اداس نسلیں کے بارے میں کہ آخر یہ ناول کیسے سرزد ہوا۔ بولے کہ میں بہت بور ہو رہا تھا۔ میں نے یوں ہی قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کر دیا۔ وہ ناول بن گیا۔
اور کتنی کتابوں کی رسم اجراء ادا ہوئی۔ ناصر عباس نیر کی کتاب نو آبادیات اردو کے تناظر میں۔ شمس الحق عثمانی کی مرتبہ کتاب 'سارا منٹو' احفاظ الرحمن کا مجموعہ کلام ''زندہ ہے زندگی''۔ افضال احمد سیّد کا دیوان میرؔ فارسی کا اردو ترجمہ آصف فرخی کا 'انتخاب غلام عباس'۔
وغیرہ' وغیرہ' وغیرہ۔ کاش ہم دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتے ہوتے۔ ہاں وہ جو غلام عباس کے افسانوں کا انتخاب ہے ان میں سے ایک افسانے 'دھنک' پر مسعود اشعر رواں تھے کہ دیکھئے افسانہ نگار نے کب یہ افسانہ لکھا تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے اواخر میں جو نقشہ انھوں نے تب کھینچا تھا وہ اب حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے۔ افسانہ نگار کی پیش بینی پر وہ داد دے رہے تھے۔ ادھر ہم سر پیٹ رہے تھے کہ اے روشنی طبع تو بر من بلا شدی۔ غلام عباس کی پیش بینی ہم پر بہت بھاری پڑی۔
ہاں سب مطبوعات سے بڑھ کر عزیز حامد مدنی کی کلیات نے اہمیت حاصل کی۔ اور بجا حاصل کی۔ اس مرحوم نے کتنا کچھ کہا۔ مگر سینت سینت کر رکھا۔ مرتے وقت بھتیجے کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بائیس برس بعد اس کلام کو چھپوانا۔ اس وصیت کی لِم سمجھ میں نہ آئی۔ بہر حال اس کلام کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں شمیم حنفی' سحر انصاری' محمد احمد شاہ' مبین مرزا شامل تھے۔ اس پر مستزاد بھتیجے ظفر سعید سیٹھی کی باتیں بعنوان ''باتیں مدنی چچا کی''۔