قومی غیرت کے ایسے شاندار مناظر

اپنے تئیں کسی ملک کی تاریخ لکھتے ہوئے زیادہ تر لکھاری غیر جانبدار نہیں رہ پاتے۔ ان میں سے اکثر اپنے...

nusrat.javeed@gmail.com

اپنے تئیں کسی ملک کی تاریخ لکھتے ہوئے زیادہ تر لکھاری غیر جانبدار نہیں رہ پاتے۔ ان میں سے اکثر اپنے موضوع کے حوالے سے حقائق و واقعات کو بلکہ ایک خاص پیغام دینے کے لیے اکٹھا کر دیتے ہیں۔ یوں ''تاریخ نویسی'' پراپیگنڈہ لٹریچر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جلال الدین اکبر اپنے نورتنوں کے ذریعے علم و ثقافت کو فروغ دینے والا عادل و وسیع المشرب بادشاہ بن جاتا ہے۔ اورنگ ایک سفاک کٹھ ملا اور داراشکوہ ایک انسان دوست صوفی۔

تاریخ کو پراپیگنڈہ کی صورت لکھنے والوں نے سب سے زیادہ ظلم افغانستان کے ساتھ کیا ہے۔ پوری 19 ویں صدی میں برطانیہ اور روس دو عظیم سامراجی قوتیں ہوا کرتی تھیں۔ ان دونوں کا مقصد آج کے بھارت، پاکستان، ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زمینوں پر قبضہ اور ان کے لوگوں کو اپنا محکوم بنانا تھا۔ Great Game کے نام پر برسوں تک جاری رہنے والی اس کش مکش میں افغانستان اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ اس صدی کے امریکی صدر بش کی طرح جس نے فرضی کہانیوں کی بنیاد پر عراق کو ایک تباہ کن جنگ کا نشانہ بنایا تھا، 1839ء کے برطانوی سامراج نے بھی افغانستان کو ''روس سے بچانے'' کی خاطر اس ملک پر شاہ شجاع کو مسلط کر دیا۔

1747ء میں افغانستان کی بنیاد ڈالنے والے سدوزئی خاندان کا یہ شاہ زادہ پہلے رنجیت سنگھ کا قیدی رہا۔ اس نے اس شہزادے سے کوہ نور ہیرا بھی حاصل کر لیا۔ اس کی وفا شعار اور بڑی ہی بہادر بیوی مگر ہمت نہ ہاری۔ وفا بیگم نے بلکہ بڑی ہوشیاری سے پہلے خود اور بعدازاں اپنے شوہر کو رنجیت سنگھ کی قید سے فرار ہو کر لدھیانہ پہنچ جانے کی راہ نکالی۔ لدھیانہ ان دنوں انگریزوں کی عمل داری میں تھا۔ انھوں نے شجاع اور اس کے خاندان کی خاص پذیرائی نہ کی۔ لندن میں بیٹھے کچھ لال پیلی ٹوپیوں والے ''دانشوروں'' نے مگر اپنے حکمرانوں کو مسلسل پراپیگنڈے کے ذریعے قائل کر دیا کہ روس افغانستان پر قبضہ کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ روس کی ممکنہ ''پیش قدمی'' کو روکنے کی خاطر کلکتہ اور لدھیانہ میں بیٹھے انگریزوں کو شجاع کی اہمیت کا احساس ہو گیا اور ان کی پشت پناہی سے شہزادہ شجاع سندھ اور قندھار سے ہوتا ہوا کابل میں بادشاہ بن گیا۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی انگریز فوجیوں اور دوسرے اہل کاروں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کی ''معاونت'' کرنے کابل پہنچ گئی۔ نظر بظاہر وہ شہر بھی اس وقت کی دلی جیسا ہو گیا جہاں لال قلعہ میں تو مغل بادشاہ بیٹھا تھا مگر حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی والوں کی تھی۔ بہت سارے واقعات اور وجوہات کی بناء پر افغان غیر ملکیوں کی ایسی موجودگی سے تنگ آ گئے۔ بالآخر 1842ء کی عام بغاوت ہو گئی جسے تاریخ میں پہلی افغان جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں عام تاثر یہی ہے کہ افغانستان میں مقیم تمام انگریز اور ان سارے مصاحبین مارے گئے۔ صرف ایک ڈاکٹر Brydon کسی طرح جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔


سوویت یونین نے جب دسمبر 1979ء میں افغانستان پر ببرک کارمل کو مسلط کیا تو ''افغان جہاد'' کے پروردہ امریکی اور دوسرے صحافیوں اور لکھاریوں کو پہلی افغان جنگ بہت یاد آئی۔ اس جنگ کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھ کر اس کے کئی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ بالآخر جب سوویت افواج بھی افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دی گئیں تو اسی جنگ کو یاد کرتے ہوئے طے کر لیا گیا کہ افغانستان ہمیشہ ''سامراج کا قبرستان'' ثابت ہوا کرتا ہے۔ سن 2014ء کے قریب آتے آتے ''سامراج کا قبرستان، افغانستان'' والی کہانی خود کو ان دنوں نیٹو افواج کے حوالے سے دہراتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔

افغانستان کے بارے میں ''اغیار'' کی لکھی تواریخ سے ہمارے انٹرنیٹ مجاہدین نے کچھ ''ٹھوس سبق'' اخذ کر لیے ہیں جنھیں وہ اپنے ایمان کی سختی کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ اکثر میرا دل مچل جاتا ہے کہ افغان تاریخ کے ماہر بنے ان لوگوں سے یہ بھی پوچھ لوں کہ پہلی افغان جنگ کے بعد برطانوی سامراج نے جو War of Retribution برپا کی اس کے اہم کردار کون تھے اور اس جنگ کے نتیجے میں غزنی اور کابل میں سفاکانہ ظلم اور بربریت کی کیا داستانیں رقم ہوئیں۔ ''سامراج کا قبرستان۔ افغانستان، افغانستان'' کا ورد کرنے والے پتہ نہیں جانتے ہیں یا نہیں کہ پشاور کون سے سن تک اسی ملک کا سرمائی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ اس شہر پر کس نے کون سے سن میں قبضہ کیا اور پھر یہی شہر پہلے برطانوی سامراج کے بنائے NWFP کا صوبائی صدر مقام رہا اور آج کل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خیبر پختونخوا میں بھی حیثیت اسی شہر کی وہی ہے۔ افغانستان جیسے ''ناقابل تسخیر اور جنگجو'' ملک نے اس شہر کو واپس اپنے قبضے میں لینے کے لیے آخری بار کوئی سنجیدہ کوشش کب کی تھی؟ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے خوف سے مگر ایسے سوالات اٹھانے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔

میں تو بلکہ اپنے انٹرنیٹ مجاہدین کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف کی جانب سے نیٹو سپلائی کے خلاف رواں رکھے دھرنوں کے خوف کی وجہ سے امریکا نے اپنے فوجی ساز و سامان کی افغانستان سے پاکستان کے راستوں کے ذریعے منتقلی فی الوقت روک دی ہے۔ اپنے ایسے قیمتی اور جنگی حوالوں سے بڑے جدید سامان اور اسلحہ کو وہ دوسرے ممالک کے ذریعے منتقل کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا اور امریکا کو اس ضمن میں روس کی بھی کافی منت سماجت کرنا ہو گی۔ بالآخر اس حوالے سے نیٹو افواج کی طرف سے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی ہم اس پر غور کرنے میں اپنا وقت کیوں ضایع کریں۔ فی الحال شاداں تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ اپنے تئیں دُنیا کی واحد سپر طاقت بنا امریکا افغانستان میں پھنس گیا ہے۔ اس کے ہزار ہا فوجی وہاں مقیم ہیں۔ ان تک رسد کم از کم خیبر کے راستے سے تحریک انصاف کے مجاہد رضا کاروں نے روک رکھی ہے۔ اپنے فوجی ساز و سامان کی حفاظت کے خوف سے امریکا اس کو پاکستانی راستوں سے واپس بھی نہیں بھیج پا رہا۔ ہماری طرف سے رسد بند ہے۔ اس طرف خوف نے ٹریفک رک رکھی ہے۔ اب تو انتظار ہمیں اس بات کا کرنا چاہیے کہ کب صدر اوبامہ اپنے مصاحبین کو بنی گالہ بھیج کر عمران خان صاحب سے Safe Passage کی بھیک مانگنا شروع ہو جائے۔ نواز شریف اپنے تئیں اس ملک کے وزیراعظم بنے بیٹھے ہیں۔ وہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے چیف ایگزیکٹو بھی ہیں۔ مگر امریکا والے اپنی جان و مال کا تحفظ اب عمران خان صاحب سے مانگنے پر مجبور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ قومی غیرت کے ایسے شاندار مناظر اس ملک میں دیکھنے کو بہت کم ملے ہیں۔
Load Next Story