بلوچستان میں دہشت گردی

بلوچستان میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے6 جوان اور ایک سویلین ڈرائیور شہید ہو گئے۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے6 جوان اور ایک سویلین ڈرائیور شہید ہو گئے۔ فوٹو : این این آئی

بلوچستان میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں سیکیورٹی فورسز کے6 جوان اور ایک سویلین ڈرائیور شہید ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پہلا واقعہ گزشتہ رات مچھ کے علاقے کے قریب پیر غائب میں پیش آیا، جب رات کی پیٹرولنگ کے بعد ایف سی کی گاڑی بیس کیمپ کی طرف واپس آتے ہوئے دہشت گردوں کی نصب کردہ بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر(جے سی او) اور سویلین ڈرائیور سمیت 6 جوان شہید ہو گئے۔

شہداء میں نائب صوبیدار احسان اللہ خان، نائیک زبیر خان، نائیک اعجاز احمد، نائیک مولا بخش، نائیک نور محمد اور ڈرائیور عبدالجبار شامل ہیں، آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردی کا دوسرا واقعہ بلوچستان میں کیچ کے علاقے مند میں پیش آیا جہاں دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں سپاہی امداد علی شہید ہوگیا۔

بلوچستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث عناصر، ان کے چہرے اور عزائم وہی ہیں جن کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بعض قوتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں اور جن کے بارے میں عالمی برادری کو آگاہ کیا گیا۔ ان قوتوں نے اپنے گھناؤنے مقاصد اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سیاسی، تزویراتی اوراقتصادی گٹھ جوڑ کر رکھاہے اور اس میں دورائے نہیں کہ بدی کے اس ہمہ جہتی گٹھ جوڑ کی ڈوریاں بھارت کے ہاتھ میں ہیں، کیونکہ بھارت نے اپنے دفاعی اور عسکری اہداف کی مکروہ تکمیل کے لیے بلوچستان کے گرد ایک سرخ دائرہ کھینچ رکھا ہے۔

مودی حکومت کے عزائم اس لیے بھی ڈھکے چھپے نہیں کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے وہ افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتا رہا ہے، اسے ہمسایہ ملکوں کی خودمختاری سے زیادہ اپنے مفادات کا خیال ہے وہ خطے میں امن، ترقی، عوام کی خوشحالی اور بین الاقوامیت پر مبنی اقتصادی بریک تھرو کی راہیں مسدود کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور پاکستان ہی اس کے ان مکروہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

لہٰذا بلوچستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے ایجنڈے کی تکمیل بھارت کے پیش نظر رہتی ہے اور پاکستان دشمن طاقتوں سے راہ و رسم پیدا کرکے وہ پاکستان میں شورش، تخریب کاری اور دہشتگردی کے ایک گھناؤنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، چنانچہ بولان اور کیچ میں دہشتگردی کی اس بزدلانہ کارروائی کو پاکستان کسی اور تناظر میں دیکھنے کو تضیع اوقات سمجھتا ہے اس لیے اسے دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان کے دشمن خطے میں امن کے فرنٹ لائن ملک کی حیثیت میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بلوچستان واقعہ کے تناظر میں جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اس میں چند بنیادی باتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت جھوٹے فلیگ آپریشن کے کسی بہانے کی تلاش میں ہے، لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کو خطے کے استحکام کو نقصان پہنچانے کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہی قوتیں پاکستان کو مستحکم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ کبھی لوگ بھجوا کر در اندزی کرتے ہیں جس کی مثال کلبھوش یادیو کا کیس ہے، وہ جس طرح بلوچستان کی سرزمین پر دہشتگردی اور جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا سب کو معلوم ہے، کبھی یہ عناصر فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، کبھی دہشتگردی کی آڑ لیتے ہیں، بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کا ذکر کیا اور کہا کہ عالمی برادری کو بھارت کے عزائم اور سرگرمیوں کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔

پاکستان کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں کہا کہ امن کا قیام خطے کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ خطے میں دیرپا امن رہے لیکن بھارت کو امن ہضم نہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو دہشتگردی کا ٹارگٹ بنانا ایک گرینڈ عالمی الائنس کا شاخسانہ لگتا ہے، بلوچستان کے محل وقوع، اس کی تزویراتی اہمیت،جیوپولیٹیکل حساسیت اور مستقبل میں بے پناہ اقتصادی وسائل رکھنے کے باعث دشمن ملک بلوچستان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ان کے مفادات اور عزائم کی تکمیل میں بھارت دہشتگردی کاسب سے بڑا سہولت کار بنا ہوا ہے اور انھوں نے بلوچستان کو اپنے ہدف پر لے لیا ہے۔

ہماری سیکیورٹی فورسز کو اس ساری صورتحال کا ادراک ہے اس لیے اس زمینی حقیقت سے ارباب اختیار اور سیکیورٹی حکام کبھی بھی خطے میں تخریب کاری کے ایجنڈے کے بھارت کے ماسٹر مائنڈ ہونے سے غافل نہیں رہ سکتے اور ہردم پاکستان کی سلامتی، قومی یکجہتی اور علاقائی امن کے تحفظ کے لیے ہماری افواج کا مستعد رہنا ان کی ضرورت، ذمے داری اور قومی فریضہ ہے۔


مبصرین نے بلوچستان میں دہشتگردوں کے پھر سے متحرک ہونے پر حکومت کو آنکھیں کھولنے کے لیے کہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک طے شدہ منصوبہ اور گرینڈ پلان کے تحت دہشتگردی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، دشمن کی بدنیتی کا عالم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ پاکستان کو کورونا وائرس سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے، عوام اس وبا سے نجات پانے کے لیے علاج کی سہولتیں چاہتے ہیں، لیکن دشمن خطے میں خون خرابہ چاہتا ہے اور اس نے اس موقع کو غنیمت جان کر بلوچستان کو دہشتگردی کانشانہ بنالیا۔

ارباب اختیار کو ملکی سالمیت اور بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے بھارتی عزائم کے بنیادی ٹارگٹ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دہشتگردی میں کون پاکستان کو اس کے جمہوری اور اقتصادی ترقی و عوام کی امنگوں سے محروم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اور سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے تاہم بھارت ان سے گٹھ جوڑ میں کامیاب اس لیے بھی نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اپنی سلامتی اور قومی یکجہتی کے مشن کی تکمیل میں کسی کو حائل ہونے نہیںدیگا، امن پاکستان کی ضرورت بھی ہے اور خطے کے عوام کے مشترکہ مقاصد اور امنگوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر بھی۔

بلوچستان کے حوالہ سے پاکستان کے سیکیورٹی حکام کو اب دہشتگردی میں سرحدوں کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنانے کی طرف مزید توجہ دینا ہوگی، دشمن ایران اور افغانستان بارڈر کو گھناؤنے مقاصدکے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے، ہمسایہ ملکوں میں اس کے ایجنٹ سرگرم ہوسکتے ہیں، خاص طور پر افغان اور ایران24 کلو میٹر طویل سرحد کو مزید محفوظ بنانے کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنا قومی سلامتی کا اہم تقاضہ ہے۔

دہشتگرد بلوچستان میں ایران اور افغانستان کے راستے آسکتے ہیں، شورش، تخریب کاری اور دہشت گردی کی وارداتوں سے بچنے کے لیے پاکستان کو ہمسایہ ملکوں پر زور دینا ہوگا اور انھیں بتانا ہوگا کہ بھارت جس راستے پر چل رہا ہے وہ اس کی تباہی کا راستہ ہے مگر خطے کے ممالک کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ بھارت کے مکارانہ اور پر خطر منصوبوں سے ہوشیار رہیں، خطے میں دہشتگردی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔

گورنر بلوچستان امان اﷲ یاسین زئی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، وزیر داخلہ ضیاء لانگو، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اور دیگر نے فورسز پر دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں اہلکاروں کے شہید اور زخمی ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے، چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے دہشت گردی کے ان واقعات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، انھوں نے شہدا کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے بلوچستان دہشتگردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جونیئر کمیشنڈ افسر سمیت چھ جوانوں اور ایک ڈرائیور کی شہادت پر رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اپنے تعزیتی بیان میں شہداء کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کی عظیم قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی، اللہ تعالی شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات اور اہل خانہ کو صبر دے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان میں فورسز پر دہشت گرد حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، اپنے بیان میں انھوں نے شہید اہلکاروں کے خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والے سپاہی قوم کے ہیروز ہیں۔ دہشتگردی کسی بھی شکل اور نام پر ہو، قابل مذمت اور ناقابل برداشت ہے۔ بلوچستان کے صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں نے پاکستان کی سلامتی پر حملہ کیا ہے، انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام بھارتی سازشوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردوں کو شکست دینے کے لیے سیاسی سٹیک ہولڈرز بھی اپنا کردار ادا کریں، بلوچستان ایک دردانگیز سیاسی دورانئے سے گزر تا آیا ہے، خطے میں بلوچستان کے پاس سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ ہے، اس کے دشمن بھی بہت ساری غیر ملکی طاقتیں ہیں، وہ بلوچستان میں ترقی اور اقتصادی پیش رفت دیکھنا نہیں چاہتیں تو لازم ہے کہ سیاسی مکالمہ کو راستہ دیا جائے۔

ملکی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت کو کہیں کہ وہ وفاق سے رابطہ کرے تاکہ سیاسی افہام و تفہیم کو بروئے کار لایا جاسکے، جمہوری رویے کی اشد ضرورت ہے، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں، اسپورٹسمین شپ سے کام لیں، بات چیت کے ذریعے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں، وفاق بلوچوں سے مکالمہ کا آغاز کرے تو صورتحال میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے، بھارت سمیت کسی ملک دشمن کو بلوچستان کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کبھی جرات نہیں ہوگی۔ بلوچستان میں امن و آشتی دوستانہ مکالمہ میں مضمر ہے۔
Load Next Story