عیدالفطر کے موقع پر چند باتوں کو ضرور یاد رکھئے گا

ماحولیاتی آلودگی اور غذائی بے اعتدالی پر قابو پاکر امراض کے پھیلاؤ اور شرح اموات میں آئیڈیل حد تک کمی لائی جاسکتی ہے

ماحولیاتی آلودگی اور غذائی بے اعتدالی پر قابو پاکر امراض کے پھیلاؤ اور شرح اموات میں آئیڈیل حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ سال کے اواخر سے ظاہر ہونے والی وبائی بیماری کورونا جہاں اب تک لاکھوں انسانی زندگیاں نگل چکی ہے وہیں دنیا بھر میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے سب سے بڑے سبب ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کا باعث بھی ثابت ہوئی ہے۔

طبی ماہرین امراض کی پیدائش اور افزائش کی کئی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ غذائی بے اعتدالی اور ماحولیاتی آلودگی کو سمجھتے ہیں۔ یہ فضائی آلودگی کارخانوں اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں، سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کے باعث اڑنے والی گردو غبار، فضاؤں کے سینے چیرتے ہوائی جہازوں اور انسانوں ودوسرے جانداروں کی نقل وحرکت سے پیدا ہوتی ہے۔

کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کی خاطر دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے نفاذ سے انسانی نقل وحرکت اور دوسری سرگرمیاں محدود و معطل ہونے سے فضا میں پائی جانے والی آلودگی میں خاطر خواہ حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اسی طرح کورونا سے بچاؤ کے لیے طبی ماہرین کی آراء پر عمل کرتے ہوئے لوگوں نے اپنی غذائی عادات و معمولات میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔

ماحول میں آلودگی کم ہونے اور روز مرہ خوراک میں اعتدال پیدا ہونے کی وجہ سے معمول کی بیماریوں میں قابل ذکر حد تک کمی سامنے آئی ہے۔ امراض میں کمی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا گھریلو، سادہ اور متوازن خوراک کا استعمال کرنا بن رہی ہے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے فاسٹ فوڈز، بازاری کھانوں اور چٹ پٹے پکوانوں سے دوری ہے۔علاوہ ازیں روز مرہ کی بنیاد پر شرح اموات میں بھی 50 فیصدسے زائد تک کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

قبرستانوں میں گور کنوں کے مطابق جہاں وہ روزانہ 40 سے 50 میتیں دفناتے تھے ، وہیں اب 8 سے10 لوگ لائے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی لائے جانے والے مریضوں کی تعداد میں کافی حد تک کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ان حقائق کی رو سے غور کیا جائے تو ایک تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر ماحولیاتی آلودگی اور غذائی بے اعتدالی پر قابو پالیا جائے تو امراض کے پھیلاؤ اور شرح اموات میں آئیڈیل حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

کورونا کے ڈر سے پیدا ہونے والے ماحول کے مطابق اگر ہم اپنی زندگیوں میں غذائی عادات اور خورو نوش کے روز مرہ معمولات کو مستقل اپنا لیں تو حقیقی معنوں میں ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر ہوسکتی ہے۔طبی ماہرین کی تجویز کردہ قدرتی غذائی اجزاء خور ونوش،غذائی عادات اور روز مرہ معمولات انتہائی آسان، سادہ اور قابل عمل ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دقت در پیش نہیں ۔

روز مرہ زندگی میں کام کے ساتھ ساتھ آرام، مکمل نیند، صفائی ستھرائی اور ماحول کا آلودگی سے پاک ہونا بھی اتنا ہی لازم ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے کھانا پینا اور سانس لینا ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ میں خاطر خواہ حد تک کمی واقع ہونے سے سانس کی بیماریوں، جلدی کینسر، پیٹ کے امراض،دل کی بیماریوں، امراض گردہ،امراض جگر اور لا تعداد بدنی مسائل میں جو کمی دیکھنے میں آرہی ہے اس سے ہم مستقل طور پر بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔

دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے دوران کورونا ماہ رمضان کی سعد گھڑیوں کا نزول بھی بہت بڑی نعمت ثابت ہوا ہے۔قدیم اطباء اور جدید طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے روزہ بہترین ڈھال اور مثالی صحت کا شاندار ذریعہ ہے۔


مسلمانوں نے مہینہ بھر روزے رکھ کر جہاں اپنے خالق حقیقی کی خوشنودی حاصل کی وہیں بیماریوں کے خلاف بدن کے دفاعی نظام کو بھی خوب مضبوطی فراہم کی۔غرباء فقراء، مساکین اور ہمارے گردو نواح کے مستحق افراد کی داد رسی کرنا بھی ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی ۔ ہمارے اڑوس پڑوس کے ایسے خاندان مالی تنگی یا کسی دوسری کی وجہ سے عید نہیں منا پارہے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے گھر جا کر ان کی غم گساری اور دل جوئی کرنے کی کوشش کریں۔

یاد رکھیں! کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے سماجی دوری اختیار ضرور کرنی ہے لیکن دلوں کے باہمی تعلق کو مزید استوار اور پائیدار کرنا ہے۔اس سلسلے میں ہمیں چاہیے کہ عید کے روز سماجی دوری اور معاشرتی فاصلوں کے قوائد وضوابط مد نظر رکھتے ہوئے غرباء و مساکین ،نادار و بے کس اور معذور و احساسِ محرومی کے شکار افراد کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں تا کہ ہم مہینہ بھر روزوں سے سیکھے ہوئے درس اور ماہِ رمضان کے فلسفہ ہمدردی ،احساس،رواداری اور دوسروں کا خیال رکھنے کا عملی مظاہرہ بھی کریں ۔

رمضان کے بعد عید کی خوشیوں بھری ساعتیں آتی ہیں۔ مہینہ بھر خور ونوش کی صحت مند پابندیوں کا سامنا کرنے کے بعد کھانے پینے کی آزادی ملتی ہے تو ہم اکثر وبیشتر افراط وتفریط کا شکار ہو کر امراض معدہ کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔ مرغن اور تیز مصالحہ جات والے کھانوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے۔اگر چٹخارے دار اشیاء کا کھانا بہت زیادہ ضروری ہو تو ان کے ساتھ یخ ٹھنڈے کولا مشروبات کی بجائے ادرک، پودینہ، زیرہ اور الائچی وغیرہ کا قہوہ لازمی پیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کھانے پینے کے معمولات میں بھی احتیاط کا دامن ہر گز نہ چھوڑیں۔کم ازکم 6 گھنٹے کے وقفے سے کچھ کھایا جائے ورنہ معدہ جو مہینہ بھر کم و بیش 15 گھنٹے خالی رہنے کا عادی ہو چکا تھا رد عمل کے طور پر غذائی بدپرہیزی میں مبتلا ہو کر آپ کو اور آپ سے جڑے افراد کو پریشانی لاحق کرنے کا باعث بن جائے گا۔

امسال عیدالفطر گرمی کے جوبن میں آ رہی ہے۔ شدید گرمی کے ماحول میں خوراک کے استعمال میں از حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہلکی سی بد پرہیزی کی صورت میں گیسٹرو ،اسہال،ہیضہ اور بد ہضمی کے عوارض حملہ آور ہوکر بدن انسانی کو نڈھال کر سکتے ہیں۔ثقیل، نفاخ اور دیر ہضم غذاؤں سے جس قدر ہو سکے بچا جائے۔ہلکی پھلکی اور زود ہضم غذائیں استعمال کی جائیں۔حفظ ماتقدم کے طور پر پودینہ، ادرک، لہسن، سبز مرچ ،سیاہ مرچ اور سبز دھنیا کی چٹنی بنا کر دہی ملا کر بطور رائتہ استعمال کریں۔کھانے کے ساتھ پیاز وسرکہ اور سبز مرچ بطور سلاد لازمی شامل کریں۔

پیاز اور سبز مرچ ہیضہ،گیسٹرو اور بد ہضمی سے محفوظ رکھنے کے لیے قدرتی ہتھیار کا کام کرتے ہیں۔کھیرا،خربوزہ، تربوز اور ککڑی کھاکر پانی پینے سے گریز کیا جاناچاہیے۔تربوز اور چاول ایک ساتھ تناول کرنے سے بھی پرہیز ضروری ہے۔ایک ہی وقت میں کئی پھلوں کا استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے لہٰذا ایک وقت میں ایک پھل ہی کھایا جائے تو صحت کے لیے زیادہ مفیدہوگا۔

(نوٹ:۔شوگر میں مبتلا مریض ماہ رمضان کی روٹین کو جاری وساری رکھ کر سال بھر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں)

موسمِ گرما میں عید آنے سے کئی دوسرے جسمانی مسائل سے پالا بھی پڑ سکتا ہے۔ زیادہ مٹھاس کی حامل غذاؤں کے بے دریغ استعمال سے پھوڑے، پھنسیاں،گرمی دانے اور جلدی امراض کے حملہ آور ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ خود کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی غذائی بد پرہیزی سے بچایا جائے تاکہ عید کی خوشیو ں کو بھرپور انداز میں منایا جا سکے۔پیٹ کے امراض سے بچاؤ کے لیے لازمی ہے کہ پانی آلودگی سے پاک وصاف پیا جائے۔ خوراک کو مکھیوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے، پھلوں کو تازہ پانی سے دھو کر کھایا جائے اور سالن وغیرہ تازہ پکا کر ہی استعمال کیا جائے۔ فریز شدہ خوراک کے استعمال سے بھی بچا جائے۔کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھوں کو لازمی دھویا جائے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں گھروں میں رہنا ہی محفوظ زندگی کی ضمانت ہے۔حکومت اور طبی ماہرین کے بتائے گئے طریقہ کار پر سختی سے عمل در آمد کیا جائے۔دنیاکی تمام خوشیاں زندگی سے مربوط و مشروط ہیں لہٰذا اپنی زندگی کی حفاظت ہر حالت میں مقدم جانیں۔ اعزا و اقربا ، دوست و احباب، ہمسائیوں، محلے داروں، غرباء، فقراء مساکین اور مستحقین کو حسب گنجائش تحفے تحائف اور مالی امداد لازمی پہنچائیں تاکہ سماجی دوری کے اس ماحول میں دلوں کی قربت، اللہ کی رضا ء اور روحانی منفعت کے فیوض وبرکات بھر پور سمیٹے جا سکیں۔

niazdayal@gmail.com
Load Next Story