سیاست کی نرسری اور تعلیم

میرے حلقہ احباب مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ملک کی سیاست پر کیوں نہیں لکھتے؟ میں بڑی شرمندگی سے جواب دیتا ہوں کہ ملک میں نہ تو جمہوریت ہے نہ ہی سیاست۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مخلص اور ایماندار خاندانی طبقہ سیاست میں ناکام ہے، یہی ہمارے ملک کا کلچر ہے۔ سیاست ایک ایسا معاشرتی عنصر ہے جو معاشرے کا ہر ذی شعور فرد اپنی زندگی میں محسوس کر سکتا ہے۔ کیونکہ بقول امریکی شہرہ آفاق کمپیوٹر سائنسدان جیمس کلارک ''سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اور ریاستدان اگلی نسلوں کا سوچتا ہے۔'' سیاست معاشرے کا سب سے اہم پیشہ ہے اور سیاستدان دنیا سنوارنے والے محب وطن اور ایماندار لوگ ہوتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ریاستدانوں (مدبران قوم) کی شدید قلت ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی سرگرمیوں کا مقصد طلباء میں اعتماد اور شعور کی فضا پیدا کرنا ہے جس کے تحت ملک کی اندرونی اور بیرونی حالات کے اتار چڑھائو سے آگاہی کا علم ہے۔

نجی سیکٹر میں تعلیمی اداروں کے قیام کی حکومتی حوصلہ افزائی نے سرکاری تعلیمی اداروں کی اہمیت کو کسی حد تک کم ضرور کر دیا ہے اور یوں طلبا یونین سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، جس کی وجہ سے ملک کی سیاست میں بھی ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ بلاشبہ تعلیم جیسے حساس شعبے کو کاروباری سطح پر استوار کرنا یقیناً تباہی کے مترادف ہے۔ موجودہ نظام تعلیم کا حصول کثیر سرمایے کے بغیر قطعی ناممکن ہے۔ ہمارے نام نہاد لیڈر اور خود غرض حکومتی اہلکار امریکا بہادر کی وفاداریوں میں غرق اپنے اقتدار کو طول دینے اور ملک و قوم کے سرمایے کی غاصبانہ لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ لوٹا ہوا سرمایہ بیرونی ممالک کے بینکوں میں اپنے مالی قد کو بڑھانے کے درپے ہیں۔ کسی کو نہ ملک اور نہ عوام سے کوئی غرض ہے۔ بدقسمتی سے آزادی سے اب تک ملک میں فوجی جرنیلوں کے اقتدار کے ساتھ سول اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور ان کے زیر سایہ ڈمی (Dummy) سول حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے طالب علمی کا دور موجودہ تعلیمی نظام سے بہت مختلف تھا۔

طلباء سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ کھیل اور تعلیم کے ساتھ منسلک رہا کرتے تھے۔ لاہور شہر کے وسط میں قائم قدیمی تعلیمی سرکاری درسگاہ ایم اے او کالج (محمڈن اینگلو اورینٹل کالج) کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حقیقت میں یہ ادارہ سیاست کی نرسری کا درجہ رکھتا تھا۔ جید اور قابل پروفیسرز کی ایک منظم ٹیم اس درسگاہ میں تدریسی سرگرمیوں پر مامور تھی، جن میں قابلِ ذکر نام ارد و کے پروفیسر اور نامور ادیب امجد اسلام امجد، پروفیسر عطاء الحق قاسمی، تاریخ کے پروفیسر میر حامد محمود ، اسلامی تاریخ کے پروفیسر اور معروف دانشور عارف عبدالمتین، معاشیات کے پروفیسر اور اصول معاشیات کے مصنف منظور علی شیخ، انگریزی کے پروفیسر اعجاز احمد کا انداز تدریس قابل ستائش تھا۔ پرائیوٹ کوچنگ اور امتحانی نوٹس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ پروفیسر حضرات کا طریقہ تدریس اس قسم کا تھا کہ طالب علم میں خود ہی اعتماد پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ تمام پروفیسر حضرات کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بغیر کسی غیر حاضری کے باقاعد گی سے کلاس لیا کرتے تھے۔ ٹیکسٹ کی کتابوں کے مطالعے کا رجحان تھا۔ اگلے دن جو باب (Chapter) پڑھانا ہوتا تھا اس کے بارے میں طلبا سے کہا جاتا تھا کہ وہ ٹیکسٹ کتاب سے متعلقہ باب کا مطالعہ کر کے آئیں۔


یوں جو کلاس میں پڑھایا جاتا تھا وہ باآسانی ہر طالب علم کے ذہن نشین ہو جایا کرتا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے قابل مشفق استاد اب کہاں ہیں؟ کہاں ہے وہ علم اور ادب و تہذیب کا خزانہ اور خوشگوار ماحول؟ طلبا پر رعب و دبدبہ کے بھی مالک تھے۔ لاہور کی یہ درسگاہ سیاست کی نرسری مانی جاتی تھی۔ کالج میں قائم لائبریری، سائنس لیبارٹری کے علاوہ بیرون شہر سے آئے ہوئے طلبا کی ایک کثیر تعداد کی رہائش کے لیے کشادہ اور آرام دہ کمروں پر مشتمل دو منزلہ ہاسٹل کی عمارت قائم تھی جس کے مقابل سایہ دار درختوں اور قدرتی سرسبز و شاداب گھاس پر مشتمل خوبصورت پارک جو کالج کی اندرونی رونق میں اضافے کا باعث تھا۔ شدید گرمی کے موسم میں بھی گرمی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شامل ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اسی درسگاہ کے فارغ ا لتحصیل ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ریلوے جیسے کرپٹ عوامی ادارے کا قبلہ درست کرنے میں ان کو کامیابی نصیب ہو جو ہمارے کالج کی نیک نامی میں اضافے کا سبب بھی بن سکے۔ سابقہ رکن صوبائی اسمبلی پیر سید ناظم حسین شاہ اسی درسگاہ میں پی ایس ایف(PSF) طلباء یونین کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ لاہور کے ضلعی ناظم نوید کمال بھٹی بھی طلباء یونین کے منتخب صدر رہ چکے ہیں۔

اس ادارے میں اساتذہ کے احترام کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ ایک مرتبہ کالج کے باہر ہنگامے کے دوران معاشیات کے نوجوان لیکچرار کو پولیس نے لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا، یہ دیکھ کر طلبا اشتعال میں آ گئے اور انھوں نے پولیس کی پوری کی پوری بٹالین کو گھیرے میں لے لیا، اس کے بعد ان کا کیا حشر ہوا یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔ گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات اس کالج کی حدود میں داخل ہوتے ہی تہذیب یافتہ ہو جایا کرتے تھے۔ طلبا کی ذہنی اور فکری خیالات کی ترویج اور نشونما کے لیے ریڈیو پاکستان لاہور باقاعدہ طلبا کے لیے مختص تعلیمی پروگرام ''اسکول براڈ کاسٹ'' کے نام سے روزانہ نشر کیا کرتا تھا جس میں مختلف موضوعات پر بحث و مباحثہ اور ذہنی آزمائش کے مقابلے کا انعقاد ہوا کرتا تھا، اسی طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح کا تعلیمی پروگرام ''یونیورسٹی میگزین'' بھی نشر ہوا کرتا تھا، اس میں بھی اسی انداز کے پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا شعبہ بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں تھا، ذہنی آزمائش کا پنجابی کوئز پروگرام ''ٹاکرہ'' ٹیلی کاسٹ ہوا کرتا تھا جس کی میزبانی اسلامیہ کالج سول لائنز کے انگریزی کے معروف پروفیسر مرحوم دلدار پرویز بھٹی اور ان کی معاونت مشہور اداکارہ بندیا کیا کرتی تھیں۔ راقم بھی اپنے کالج کی نمایندگی کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔

یاد رکھیے! آپ کسی بھی رتبہ یا ترقی کے مقام پر ہوں، اس اعزاز کو ہمیشہ اپنے والدین اور بزرگوں کی نیک تمنائوں، دعائوں اور اساتذہ کی محنت کا تحفہ تصور کریں، یہی آپ کی اعلیٰ شخصیت کی پہچان اور انکساری ہے۔
Load Next Story