جنرل مشرف ٹرائل آئین و قانون کی نظر میں آخری حصہ
ہر مارشل لا اپنی روح میں ملک کے مروج قانون کو بندوق کی نوک پہ یرغمال بناتا ہے۔ مشرف کے خلاف چلائے جانے والے ...
KARACHI:
ہر مارشل لا اپنی روح میں ملک کے مروج قانون کو بندوق کی نوک پہ یرغمال بناتا ہے۔ مشرف کے خلاف چلائے جانے والے اسپیشل ٹریبونل کے مینڈیٹ کے لیے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ میں جانا ہو گا ۔ آرٹیکل سترہ کے ذریعے وہ تمام ترامیم آئین میں کی گئی ہیں جو اصغر علی شاہ کیس کے بتائے ہوئے Basic Features سے تصادم میں ہیں ماسوا ان کے کہ جن پر doctrine of part of close transaction کا اطلاق ہوتا ہے ان کو آئین سے Repugnant قرار دے دے اور وہ دروازہ کھولے کہ جنرل مشرف اور ان ججوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ لیکن میری نظر میں ان اسمبلی ممبران پر یہ کیس نہیں چلایا جا سکتا جنھوں نے یہ ترمیم منظور کی وہ اس لیے کہ وہ سسٹم کو آگے لے جانا چاہتے تھے اور وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو جو بھی لنگڑی لولی جمہوریت 2002ء میں بحال ہوئی وہ نہیں ہو سکتی تھی۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آرٹیکل 270-AA کے تحت جنرل مشرف کے غداری کے کیس کے ملزمان کی لسٹ کو وسیع کیا جائے اور چونکہ Locus Standi حکومت کے پاس ہے وہ یہ کر بھی سکتی ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ کہیں بھی آئین و قانون میں یہ واضح نہیں ہے کہ غداری کا مقدمہ اسپیشل ٹریبونل میں چلے گا۔ غداری کے کیس کے بہت سارے خدوخال بھٹو کیس سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں بھی ملزم ملک کا سابق سربراہ تھا اس میں بھی جرم کی سزا موت تھی اب چونکہ (Pakistan Penal Code) PPC اور Criminal Procedure Code کے تحت سزائے موت والے کیس سیشن جج کی سربراہی میں ٹرائل کورٹ میں چلنے لگے۔ یہ استحقاق یا Locus Standi حکومت کے پاس ہے کہ آیا وہ ایف آئی آر کٹوائے یا کمپلینٹ کے ذریعے سیدھا کورٹ سے رجوع کرے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو اسپیشل کورٹ بنانے کو کہا ہے وہ خود Fair Trial جس کو اٹھارہویں ترمیم آرٹیکل 10-A کے تحت آئین واضح کرتا ہے، اس سے متصادم ہے کیوں کہ کورٹس میں کیس چلانے سے ملزم کو اپیل کے دو حق ملتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے جسے اس بحث کا موضوع نہیں بناتے تا کہ بات کو محدود بھی کیا جا سکے۔
در اصل بھٹو کیس میں دو ایف آئی آر کٹیں، ایک اس وقت جب قتل ہوا تھا، اور دوسری جب بھٹو اقتدار سے الگ کیے گئے تھے۔ کیس ہائی کورٹ کے جج مولوی مشتاق کے پاس چلا، چلنا وہ سیشن کورٹ میں تھا لیکن قانون میں ایسا Provision موجود تھا اور وہ خود Provision آج کے حساب سے آئین کے Article 10 A سے متصادم ہے۔ (اور جنرل مشرف کے وکلا اسے ہی بنیاد بنا کر پٹیشن داخل کر سکتے ہیں) یہ Provision صرف بھٹو کیس میں ہی آج تک استعمال ہوا ہے اور کسی کیس میں نہیں جس کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ اس کا تکنیکی اعتبار سے موازنہ جنرل مشرف پر آئین کی غداری کے کیس کے حوالے سے ہوتا ہے۔
عدالت کیا ہوتی ہے، کس طرح غداری کے ٹرائل چلاتی ہے اور کس طرح فیصلے سناتی ہے وہ تو کوئی بنگلہ دیش کی کورٹ سے سیکھے جن کے پاس ہمارے جیسا کریمنل پروسیجر ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہی جھٹکے میں 2009ء والی فوجی بغاوت میں 192 فوجی افسروں کو سزائے موت سنا دی۔ لہٰذا ایک جنرل مشرف نہیں، جس نے غداری کی، اس کے ساتھ کچھ فوجی افسر بھی تھے اور کچھ سپریم کورٹ کے جج بھی تھے۔ مارشل لا کا آنا اور نظریہ ضرورت کا ہونا یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مارشل لا تو مکمل ہی تب ہوتا ہے جب اس کو نظریہ ضرورت قانونی شکل دیتا ہے۔ آج جو پوری دنیا سقراط کے ٹرائل کے حوالے سے جانتی ہے اس کی بھی بد نصیبی یہی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کا ٹرائل ہو یا کوئی اور اگر اس ٹرائل کے آرٹیکل 10A کے تحت تمام جوہر پورے نہیں ہوئے تو کچھ اور نہیں کہ جنرل مشرف غاصب سے کہیں ہیرو نہ بن جائیں ۔
73ء کے آئین میں پہلا بگاڑ ضیا الحق نے کیا، اس کی آٹھویں ترمیم کو بھی Basic Structure تھیوری کے Prospective میں دیکھنا ہو گا اور اس کے لیے بھی آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ سے یا آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا۔
آرٹیکل 270-AAA کے تحت پرویز مشرف نے کوشش تو کی کہ 3 نومبر کے واقعے کو آئین کا حصہ بنایا جائے لیکن اس کے لیے وہ طریقہ کار بھی نہیں اپنایا جو آرٹیکل 238 کے اندر موجود ہے۔ یا جس طرح آٹھویں ترمیم یا سترہویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ آرٹیکل 270-AAA کو تو پھر سپریم کورٹ نے اسی Basic Structre Theory کے تحت آئین سے نکال دیا۔ لیکن اس ساری بحث میں یقیناً ایک چیز ادھوری رہ گئی وہ یہ کہ خود Basic Structure Theory کیا ہے؟ یہ ایک طویل اور جدا بحث کی متقاضی ہے۔ اس کو اگلے مضمون میں زیر بحث لائیں گے۔
لیکن کچھ باتیں اس حوالے سے بھی کہہ دوں کہ وہ یہ Theory ہے جو عالمگیر Universal ہے اور وہ آئین کو ایک سائنسی حقیقت مانتی ہے۔ لیکن اس کی پاور کورٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ کے پاس نہیں اور اس وقت کورٹ پارلیمنٹ سے بڑی ہو جاتی ہے جب پارلیمنٹ ایسی ترمیم آئین میں کرے جس سے آئین کی بنیادیں ہل جائیں تو کورٹ اسے روک سکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں ترامیم کا حق آئین کی بنیادوں کو اور مضبوط کرنا ہے نہ کہ کمزور کرنا۔ ترمیم کا حق جو کہ دو تہائی اکثریت سے یا Special Resolution کے ذریعے کیا جا سکتا ہے وہ اتنا بڑا حق نہیں کہ اس سے نیا آئین بنایا جائے اور مروج آئین ختم کیا جائے۔ دنیا کی عدالتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کورٹ نے یہ حق پارلیمنٹ و حکومت سے لڑ کر لیے ہیں۔ وہ امریکا میں ہو، برطانیہ میں یا ہندوستان میں۔
مشرف ٹرائل کا گہرا تعلق بنتا ہے ان ترمیم سے جو آئین سے متصادم تھیں۔ نظریہ ضرورت کا گہرا تعلق بنتا ہے ایسے فیصلوں سے جس کی آڑ لے کر قوم کو گمراہ کیا گیا۔ لوگوں کے حق تشریح، حق حکمرانی کو چھینا گیا۔ کیوں کہ کورٹ کے پاس تشریح کا حق آئین سے مشروط ہے اور آئین پارلیمنٹ نے بنایا جب کہ پارلیمنٹ لوگوں نے بنائی۔ مارشل لاء اس سارے پروسیس کی نفی تھا۔
ہر مارشل لا اپنی روح میں ملک کے مروج قانون کو بندوق کی نوک پہ یرغمال بناتا ہے۔ مشرف کے خلاف چلائے جانے والے اسپیشل ٹریبونل کے مینڈیٹ کے لیے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ میں جانا ہو گا ۔ آرٹیکل سترہ کے ذریعے وہ تمام ترامیم آئین میں کی گئی ہیں جو اصغر علی شاہ کیس کے بتائے ہوئے Basic Features سے تصادم میں ہیں ماسوا ان کے کہ جن پر doctrine of part of close transaction کا اطلاق ہوتا ہے ان کو آئین سے Repugnant قرار دے دے اور وہ دروازہ کھولے کہ جنرل مشرف اور ان ججوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ لیکن میری نظر میں ان اسمبلی ممبران پر یہ کیس نہیں چلایا جا سکتا جنھوں نے یہ ترمیم منظور کی وہ اس لیے کہ وہ سسٹم کو آگے لے جانا چاہتے تھے اور وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو جو بھی لنگڑی لولی جمہوریت 2002ء میں بحال ہوئی وہ نہیں ہو سکتی تھی۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آرٹیکل 270-AA کے تحت جنرل مشرف کے غداری کے کیس کے ملزمان کی لسٹ کو وسیع کیا جائے اور چونکہ Locus Standi حکومت کے پاس ہے وہ یہ کر بھی سکتی ہے۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ کہیں بھی آئین و قانون میں یہ واضح نہیں ہے کہ غداری کا مقدمہ اسپیشل ٹریبونل میں چلے گا۔ غداری کے کیس کے بہت سارے خدوخال بھٹو کیس سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں بھی ملزم ملک کا سابق سربراہ تھا اس میں بھی جرم کی سزا موت تھی اب چونکہ (Pakistan Penal Code) PPC اور Criminal Procedure Code کے تحت سزائے موت والے کیس سیشن جج کی سربراہی میں ٹرائل کورٹ میں چلنے لگے۔ یہ استحقاق یا Locus Standi حکومت کے پاس ہے کہ آیا وہ ایف آئی آر کٹوائے یا کمپلینٹ کے ذریعے سیدھا کورٹ سے رجوع کرے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو اسپیشل کورٹ بنانے کو کہا ہے وہ خود Fair Trial جس کو اٹھارہویں ترمیم آرٹیکل 10-A کے تحت آئین واضح کرتا ہے، اس سے متصادم ہے کیوں کہ کورٹس میں کیس چلانے سے ملزم کو اپیل کے دو حق ملتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے جسے اس بحث کا موضوع نہیں بناتے تا کہ بات کو محدود بھی کیا جا سکے۔
در اصل بھٹو کیس میں دو ایف آئی آر کٹیں، ایک اس وقت جب قتل ہوا تھا، اور دوسری جب بھٹو اقتدار سے الگ کیے گئے تھے۔ کیس ہائی کورٹ کے جج مولوی مشتاق کے پاس چلا، چلنا وہ سیشن کورٹ میں تھا لیکن قانون میں ایسا Provision موجود تھا اور وہ خود Provision آج کے حساب سے آئین کے Article 10 A سے متصادم ہے۔ (اور جنرل مشرف کے وکلا اسے ہی بنیاد بنا کر پٹیشن داخل کر سکتے ہیں) یہ Provision صرف بھٹو کیس میں ہی آج تک استعمال ہوا ہے اور کسی کیس میں نہیں جس کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ اس کا تکنیکی اعتبار سے موازنہ جنرل مشرف پر آئین کی غداری کے کیس کے حوالے سے ہوتا ہے۔
عدالت کیا ہوتی ہے، کس طرح غداری کے ٹرائل چلاتی ہے اور کس طرح فیصلے سناتی ہے وہ تو کوئی بنگلہ دیش کی کورٹ سے سیکھے جن کے پاس ہمارے جیسا کریمنل پروسیجر ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک ہی جھٹکے میں 2009ء والی فوجی بغاوت میں 192 فوجی افسروں کو سزائے موت سنا دی۔ لہٰذا ایک جنرل مشرف نہیں، جس نے غداری کی، اس کے ساتھ کچھ فوجی افسر بھی تھے اور کچھ سپریم کورٹ کے جج بھی تھے۔ مارشل لا کا آنا اور نظریہ ضرورت کا ہونا یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مارشل لا تو مکمل ہی تب ہوتا ہے جب اس کو نظریہ ضرورت قانونی شکل دیتا ہے۔ آج جو پوری دنیا سقراط کے ٹرائل کے حوالے سے جانتی ہے اس کی بھی بد نصیبی یہی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کا ٹرائل ہو یا کوئی اور اگر اس ٹرائل کے آرٹیکل 10A کے تحت تمام جوہر پورے نہیں ہوئے تو کچھ اور نہیں کہ جنرل مشرف غاصب سے کہیں ہیرو نہ بن جائیں ۔
73ء کے آئین میں پہلا بگاڑ ضیا الحق نے کیا، اس کی آٹھویں ترمیم کو بھی Basic Structure تھیوری کے Prospective میں دیکھنا ہو گا اور اس کے لیے بھی آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ سے یا آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا۔
آرٹیکل 270-AAA کے تحت پرویز مشرف نے کوشش تو کی کہ 3 نومبر کے واقعے کو آئین کا حصہ بنایا جائے لیکن اس کے لیے وہ طریقہ کار بھی نہیں اپنایا جو آرٹیکل 238 کے اندر موجود ہے۔ یا جس طرح آٹھویں ترمیم یا سترہویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ آرٹیکل 270-AAA کو تو پھر سپریم کورٹ نے اسی Basic Structre Theory کے تحت آئین سے نکال دیا۔ لیکن اس ساری بحث میں یقیناً ایک چیز ادھوری رہ گئی وہ یہ کہ خود Basic Structure Theory کیا ہے؟ یہ ایک طویل اور جدا بحث کی متقاضی ہے۔ اس کو اگلے مضمون میں زیر بحث لائیں گے۔
لیکن کچھ باتیں اس حوالے سے بھی کہہ دوں کہ وہ یہ Theory ہے جو عالمگیر Universal ہے اور وہ آئین کو ایک سائنسی حقیقت مانتی ہے۔ لیکن اس کی پاور کورٹ کے پاس ہے، پارلیمنٹ کے پاس نہیں اور اس وقت کورٹ پارلیمنٹ سے بڑی ہو جاتی ہے جب پارلیمنٹ ایسی ترمیم آئین میں کرے جس سے آئین کی بنیادیں ہل جائیں تو کورٹ اسے روک سکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں ترامیم کا حق آئین کی بنیادوں کو اور مضبوط کرنا ہے نہ کہ کمزور کرنا۔ ترمیم کا حق جو کہ دو تہائی اکثریت سے یا Special Resolution کے ذریعے کیا جا سکتا ہے وہ اتنا بڑا حق نہیں کہ اس سے نیا آئین بنایا جائے اور مروج آئین ختم کیا جائے۔ دنیا کی عدالتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کورٹ نے یہ حق پارلیمنٹ و حکومت سے لڑ کر لیے ہیں۔ وہ امریکا میں ہو، برطانیہ میں یا ہندوستان میں۔
مشرف ٹرائل کا گہرا تعلق بنتا ہے ان ترمیم سے جو آئین سے متصادم تھیں۔ نظریہ ضرورت کا گہرا تعلق بنتا ہے ایسے فیصلوں سے جس کی آڑ لے کر قوم کو گمراہ کیا گیا۔ لوگوں کے حق تشریح، حق حکمرانی کو چھینا گیا۔ کیوں کہ کورٹ کے پاس تشریح کا حق آئین سے مشروط ہے اور آئین پارلیمنٹ نے بنایا جب کہ پارلیمنٹ لوگوں نے بنائی۔ مارشل لاء اس سارے پروسیس کی نفی تھا۔