خوش قسمت لاوارث و بدقسمت لاوارث بچے حصہ دوم
پاکستان میں لگ بھگ تین سو ایدھی مراکز ہیں اور ہر مرکز کے باہر ایک خالی جھولا رکھا رہتا ہے
گزشتہ کالم میں پاکستان کے تقریباً بیالیس لاکھ یتیم بچوں اور ان میں سے لگ بھگ پندرہ لاکھ اپنی مدد آپ کے تحت خود رو پودوں کی طرح پروان چڑھنے والے بارہ سے پندرہ لاکھ اسٹریٹ چلڈرن کی احوال کشی کی کوشش کی گئی۔آج کچھ تذکرہ ہوگا ان سے بھی زیادہ مظلوم بچوں اور ان ہی میں سے کچھ بچوں کی کامیابیوں کا۔
پچھلے کالم میںبے سہارا بچوں کے ایدھی شیلٹر ہومز کی بھی بات ہوئی تھی۔ان پناہ گاہوں میں جو بچے بچیاں رہتے ہیں، کچھ تو وہ ہیں جو ناراضی یا ناروا سلوک کے سبب گھروں سے بھاگ نکلے۔ایسے بچوں کے لیے ہر برس ایدھی فاؤنڈیشن ایک خصوصی ملک گیر بس چلاتی ہے جس میں وہ بچے سوار ہوتے ہیں جو اپنے خاندانوں میں دوبارہ جانا چاہتے ہیں۔ان میں سے تقریباً آدھے بچے اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے اور دوبارہ اپنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور باقی واپس ایدھی ہومز لوٹ آتے ہیں۔
واپس آنے والوں میں بہت سے وہ بچے بھی ہوتے ہیں جنھوں نے اتنی کم عمری میں گھر چھوڑا کہ انھیں وہ گلی محلے اور پتے بھی یاد نہیں جہاں انھوں نے ہوش سنبھالا تھا۔کچھ خوش نصیب بچوں کے والدین یا وارث خود بھی ڈھونڈتے ڈھانڈتے ایدھی مراکز سے رابطہ کر لیتے ہیں اور کئی مرتبہ وہ اپنے بچوں کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اگر بچے بھی انھیں پہچان جائیں اور جانے پر راضی ہوں تو پھر بارِ دگر بحالی کا خوشگوار راستہ نکل آتا ہے۔
انھی مراکز میں ایک قلیل تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے جنھیں اپنا خاندانی پس منظر یا آگاہ پیچھا یاد نہیں۔ ان میں سے کئی بچے بے اولاد جوڑے گود لے لیتے ہیں۔ ان جوڑوں سے لکھت پڑھت کروائی جاتی ہے اور اچھے سلوک کا عہد لیا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت سالانہ ڈھائی سو کے لگ بھگ بچوں کو سرپرستی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔مگر ان میں سے بھی چند بچے اپنے اختیاری والدین کے ساتھ ذہنی طور پر ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے یا پھر اختیاری والدین انھیں اپنی اولاد کی طرح سمجھنے کے بجائے گھریلو غلام یا خادمہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ یہ بچے بھاگ کر دوبارہ ایدھی ہومز پہنچ جاتے ہیں۔
بہت سے جوڑے لڑکیوں کو اپنی سرپرستی میں نہیں لینا چاہتے اور لڑکوں کو گود لینا پسند کرتے ہیں۔چنانچہ زیادہ تر بچیاں ایدھی ہومز میں ہی فاؤنڈیشن سے منسلک کاموں میں ہاتھ بٹاتی رہتی ہیں۔ بہت سوں کی آگے چل کے شادیاں بھی ہو جاتی ہیں اور چند مثالیں ایسی بھی ہیں کہ کچھ لڑکیاں نسبتاً بہتر تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں اسقاطِ حمل غیر قانونی ہے تاوقتیکہ اس کی ٹھوس طبی وجوہات نہ ہوں۔اس کے باوجود ہر سال لگ بھگ سات لاکھ قانونی و غیر قانونی اسقاطِ حمل ہوتے ہیں۔غیر مستند عطائیوں یا دائیوں کے ہاتھوں اسقاط کے سبب عورت کی جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں اور ان میں سے بہت سی خواتین کی موت کی وجہ پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔اسقاط کی تین موٹی موٹی وجوہات ہیں۔ایک معقول وجہ تو یہ ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے حمل کے سبب بعض اوقات زچہ کی صحت کو سنگین خطرہ لاحق ہو جاتا ہے لہذا اسقاط ناگزیر ہوجاتا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ غربت بچے کی پیدائش میں مانع آتی ہے۔تیسرا سبب یہ ہے کہ الٹرا ساؤنڈ اور دیگر جدید حربوں کی مدد سے قبل از پیدائش بچے کی جنس کا پتہ چل جاتا ہے۔اگر لڑکی ہے تو اسے اسقاط کے ذریعے سزائے موت بھی مل سکتی ہے۔چوتھا سبب یہ ہے کہ حمل کسی رسمی رشتے کے بغیر ٹھہر گیا اور اب اس کا خاتمہ ضروری ہے۔
البتہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مدت گذر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ماں اور بچے کے لیے انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔چنانچہ ایسے بچوں کی پیدائش تو ہو جاتی ہے مگر چونکہ وہ بچے کسی نہ کسی سبب بوجھ یا گناہ تصور کیے جاتے ہیں لہذا یا تو انھیں خاموشی سے کسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے یا پھر قتل کر کے کچرے کے ڈھیر ، گٹر یا ندی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ایسے بچوں کی تعداد کتنی ہے جنھیں عالمِ نوزائدگی میں مار کے پھینک دیا جاتا ہے۔اس بارے میں لگائے جانے والے اندازوں میں بہت فرق ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سب سے بڑے شہر کراچی میں سالانہ ڈھائی سو سے چار سو نوزائدہ بچوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ان میں سے نوے فیصد سے زائد لاشیں لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ اس ایک منظر سے اگر آپ کے ذہن میں کوئی قومی سطح کی شماریاتی و اخلاقی تصویر بنتی ہے تو بھلے بنا لیں۔
پاکستان میں لگ بھگ تین سو ایدھی مراکز ہیں اور ہر مرکز کے باہر ایک خالی جھولا رکھا رہتا ہے۔اس جھولے کے اوپر دیوار یا بورڈ پر لکھا ہوتا ہے '' قتل نہ کریں اس جھولے میں ڈال دیں۔جان اللہ کی امانت ہے۔ان بچوں کو قتل کر کے ایک اور گناہ مول نہ لیجیے ''۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان جھولوں کی وجہ سے نوزائدہ بچوں کی جان بچنے کے امکانات بڑھ جاتے۔ مگر اوسطا نوزائیدہ بچوں کے سیکڑوں قتل کے تناسب میں ان جھولوں میں اوسطاً تیس سے چالیس بچے ہی ڈالے جاتے ہیں اور ان میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔آخر وجہ کیا ہے لوگ ان بچوں کو زندہ حالت میں جھولنے میں ڈالنے کے بجائے قتل کیوں کر دیتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کے سینییر کارکن اور قریبی دوست انور کاظمی نے چھبیس اپریل دو ہزار اٹھارہ کو ایک انگریزی اخبار میں شایع رپورٹ کے مطابق اپنا ایک ذاتی تجربہ یوں بتایا
'' کراچی کی ایک مسجد کے دروازے کے باہر کپڑے میں لپٹانوزائیدہ بچہ کوئی چھوڑ گیا۔آتے جاتے نمازیوں کی نگاہ پڑی تو کسی نے وہ بچہ اٹھا کر امام صاحب کو تھما دیا۔امام صاحب گھبرا گئے اور فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بچہ گناہ کی پیداوار ہے لہذا اسے سنگسار کر دیا جائے اور اس سزا پر فوری عمل بھی ہو گیا۔ میں نے اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر کچی رپورٹ کو پکی میں نہ بدلوا سکا ''۔
یہ الگ بات کہ فوجداری قانون کی دفعہ تین سو اٹھائیس اور تین سو انتیس کے تحت نوزائدہ بچے کی لاش کو خفیہ طور پر دفن کرنا یا پھینکنا یا بارہ برس سے کم عمر کے بچے کو لاوارث چھوڑ دینا قابلِ سزا جرائم ہیں اور یہ سزا دو سے پانچ برس اور جرمانے پر محیط ہے۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہر تاریکی میں سے ایک سپیدہ بھی برآمد ہوتا ہے۔وہ بچے جنھیں کسی بھی وجہ سے ایدھی مرکز کے باہر رکھے جھولوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ان میں سے بہت سے آج فاؤنڈیشن کے مختلف شعبوں میں بطور رضاکار کام کر رہے ہیں۔اور یہی بچے اس سماج کو کورونا سے بچانے میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں جس نے ان کے سرپے سے آسمان کھینچنے کی کوشش کی تھی۔انھی میں سے بہت سے جوان لڑکے لڑکیاں لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں کے لیے راشن کی سپلائی کا کام بھی منظم کر رہے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
پچھلے کالم میںبے سہارا بچوں کے ایدھی شیلٹر ہومز کی بھی بات ہوئی تھی۔ان پناہ گاہوں میں جو بچے بچیاں رہتے ہیں، کچھ تو وہ ہیں جو ناراضی یا ناروا سلوک کے سبب گھروں سے بھاگ نکلے۔ایسے بچوں کے لیے ہر برس ایدھی فاؤنڈیشن ایک خصوصی ملک گیر بس چلاتی ہے جس میں وہ بچے سوار ہوتے ہیں جو اپنے خاندانوں میں دوبارہ جانا چاہتے ہیں۔ان میں سے تقریباً آدھے بچے اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے اور دوبارہ اپنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور باقی واپس ایدھی ہومز لوٹ آتے ہیں۔
واپس آنے والوں میں بہت سے وہ بچے بھی ہوتے ہیں جنھوں نے اتنی کم عمری میں گھر چھوڑا کہ انھیں وہ گلی محلے اور پتے بھی یاد نہیں جہاں انھوں نے ہوش سنبھالا تھا۔کچھ خوش نصیب بچوں کے والدین یا وارث خود بھی ڈھونڈتے ڈھانڈتے ایدھی مراکز سے رابطہ کر لیتے ہیں اور کئی مرتبہ وہ اپنے بچوں کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اگر بچے بھی انھیں پہچان جائیں اور جانے پر راضی ہوں تو پھر بارِ دگر بحالی کا خوشگوار راستہ نکل آتا ہے۔
انھی مراکز میں ایک قلیل تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے جنھیں اپنا خاندانی پس منظر یا آگاہ پیچھا یاد نہیں۔ ان میں سے کئی بچے بے اولاد جوڑے گود لے لیتے ہیں۔ ان جوڑوں سے لکھت پڑھت کروائی جاتی ہے اور اچھے سلوک کا عہد لیا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت سالانہ ڈھائی سو کے لگ بھگ بچوں کو سرپرستی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔مگر ان میں سے بھی چند بچے اپنے اختیاری والدین کے ساتھ ذہنی طور پر ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے یا پھر اختیاری والدین انھیں اپنی اولاد کی طرح سمجھنے کے بجائے گھریلو غلام یا خادمہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ یہ بچے بھاگ کر دوبارہ ایدھی ہومز پہنچ جاتے ہیں۔
بہت سے جوڑے لڑکیوں کو اپنی سرپرستی میں نہیں لینا چاہتے اور لڑکوں کو گود لینا پسند کرتے ہیں۔چنانچہ زیادہ تر بچیاں ایدھی ہومز میں ہی فاؤنڈیشن سے منسلک کاموں میں ہاتھ بٹاتی رہتی ہیں۔ بہت سوں کی آگے چل کے شادیاں بھی ہو جاتی ہیں اور چند مثالیں ایسی بھی ہیں کہ کچھ لڑکیاں نسبتاً بہتر تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں اسقاطِ حمل غیر قانونی ہے تاوقتیکہ اس کی ٹھوس طبی وجوہات نہ ہوں۔اس کے باوجود ہر سال لگ بھگ سات لاکھ قانونی و غیر قانونی اسقاطِ حمل ہوتے ہیں۔غیر مستند عطائیوں یا دائیوں کے ہاتھوں اسقاط کے سبب عورت کی جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں اور ان میں سے بہت سی خواتین کی موت کی وجہ پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔اسقاط کی تین موٹی موٹی وجوہات ہیں۔ایک معقول وجہ تو یہ ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے حمل کے سبب بعض اوقات زچہ کی صحت کو سنگین خطرہ لاحق ہو جاتا ہے لہذا اسقاط ناگزیر ہوجاتا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ غربت بچے کی پیدائش میں مانع آتی ہے۔تیسرا سبب یہ ہے کہ الٹرا ساؤنڈ اور دیگر جدید حربوں کی مدد سے قبل از پیدائش بچے کی جنس کا پتہ چل جاتا ہے۔اگر لڑکی ہے تو اسے اسقاط کے ذریعے سزائے موت بھی مل سکتی ہے۔چوتھا سبب یہ ہے کہ حمل کسی رسمی رشتے کے بغیر ٹھہر گیا اور اب اس کا خاتمہ ضروری ہے۔
البتہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخصوص مدت گذر جانے کے بعد اسقاطِ حمل ماں اور بچے کے لیے انتہائی خطرناک ہو جاتا ہے۔چنانچہ ایسے بچوں کی پیدائش تو ہو جاتی ہے مگر چونکہ وہ بچے کسی نہ کسی سبب بوجھ یا گناہ تصور کیے جاتے ہیں لہذا یا تو انھیں خاموشی سے کسی کے حوالے کر دیا جاتا ہے یا پھر قتل کر کے کچرے کے ڈھیر ، گٹر یا ندی نالے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ایسے بچوں کی تعداد کتنی ہے جنھیں عالمِ نوزائدگی میں مار کے پھینک دیا جاتا ہے۔اس بارے میں لگائے جانے والے اندازوں میں بہت فرق ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ سب سے بڑے شہر کراچی میں سالانہ ڈھائی سو سے چار سو نوزائدہ بچوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ان میں سے نوے فیصد سے زائد لاشیں لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ اس ایک منظر سے اگر آپ کے ذہن میں کوئی قومی سطح کی شماریاتی و اخلاقی تصویر بنتی ہے تو بھلے بنا لیں۔
پاکستان میں لگ بھگ تین سو ایدھی مراکز ہیں اور ہر مرکز کے باہر ایک خالی جھولا رکھا رہتا ہے۔اس جھولے کے اوپر دیوار یا بورڈ پر لکھا ہوتا ہے '' قتل نہ کریں اس جھولے میں ڈال دیں۔جان اللہ کی امانت ہے۔ان بچوں کو قتل کر کے ایک اور گناہ مول نہ لیجیے ''۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان جھولوں کی وجہ سے نوزائدہ بچوں کی جان بچنے کے امکانات بڑھ جاتے۔ مگر اوسطا نوزائیدہ بچوں کے سیکڑوں قتل کے تناسب میں ان جھولوں میں اوسطاً تیس سے چالیس بچے ہی ڈالے جاتے ہیں اور ان میں بھی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔آخر وجہ کیا ہے لوگ ان بچوں کو زندہ حالت میں جھولنے میں ڈالنے کے بجائے قتل کیوں کر دیتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کے سینییر کارکن اور قریبی دوست انور کاظمی نے چھبیس اپریل دو ہزار اٹھارہ کو ایک انگریزی اخبار میں شایع رپورٹ کے مطابق اپنا ایک ذاتی تجربہ یوں بتایا
'' کراچی کی ایک مسجد کے دروازے کے باہر کپڑے میں لپٹانوزائیدہ بچہ کوئی چھوڑ گیا۔آتے جاتے نمازیوں کی نگاہ پڑی تو کسی نے وہ بچہ اٹھا کر امام صاحب کو تھما دیا۔امام صاحب گھبرا گئے اور فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ بچہ گناہ کی پیداوار ہے لہذا اسے سنگسار کر دیا جائے اور اس سزا پر فوری عمل بھی ہو گیا۔ میں نے اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر کچی رپورٹ کو پکی میں نہ بدلوا سکا ''۔
یہ الگ بات کہ فوجداری قانون کی دفعہ تین سو اٹھائیس اور تین سو انتیس کے تحت نوزائدہ بچے کی لاش کو خفیہ طور پر دفن کرنا یا پھینکنا یا بارہ برس سے کم عمر کے بچے کو لاوارث چھوڑ دینا قابلِ سزا جرائم ہیں اور یہ سزا دو سے پانچ برس اور جرمانے پر محیط ہے۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ ہر تاریکی میں سے ایک سپیدہ بھی برآمد ہوتا ہے۔وہ بچے جنھیں کسی بھی وجہ سے ایدھی مرکز کے باہر رکھے جھولوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ان میں سے بہت سے آج فاؤنڈیشن کے مختلف شعبوں میں بطور رضاکار کام کر رہے ہیں۔اور یہی بچے اس سماج کو کورونا سے بچانے میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں جس نے ان کے سرپے سے آسمان کھینچنے کی کوشش کی تھی۔انھی میں سے بہت سے جوان لڑکے لڑکیاں لاک ڈاؤن کے دوران ضرورت مندوں کے لیے راشن کی سپلائی کا کام بھی منظم کر رہے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)