عید کا چاند
زمانے کے ساتھ نہ چلنے اور زمانے کے نئے مسائل کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر زوال آیا ہے
آج ہفتہ کا روز ہے اور میں جب کالم لکھ رہا ہوں تو مجھے معلوم نہیں کہ کل یعنی اتوار کو عید ہو گی یا نہیں کیونکہ قوم کو ہمارے حکمرانوں اور علماء نے اپنے اپنے چکر میں الجھا دیا ہے ۔ حکمرانوں کی بات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے سائنسی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کے سا ئنسی علم کے مطابق عید الفطر بروز اتوار ہو گی جب کہ ہمارے علماء ابھی اس بات پر بضد ہیں کہ وہ ننگی آنکھ سے شوال کا چاند دیکھ کر فیصلہ کر یں گے کہ عید کب ہو گی۔
عید کے ہونے یا نہ ہونے کے چکر میں آج 29 ویں روزے کی شام کو پاکستانی انتظار میں لٹکے رہیں گے ۔ میں اگر اجتہاد کے مرتبے اور منصب پر فائز ہوتا تو پاکستانی عوام آج اپنی عبادات کا شکر ادا کر رہے ہوتے ۔ محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے پاس اب وہ تمام آلات موجود ہیں جو چاند دکھا سکتے ہیں لیکن ہمارے علماء کرام اس سائنسی چاند کو دیکھنا نہیں چاہتے اور ننگی آنکھ سے ہی چاند دیکھنے پر ہی بضد ہیں ۔
جس مبارک عہد میں چاند دیکھ لینے کی شرط پر عید منانے کا فیصلہ ہوا تھا اس زمانے میں آج کی طرح کوئی جدید آلات موجود نہیں تھے حتیٰ کہ اس زمانے میں تو آنکھوں کی عینک بھی نہیں تھی کجا کہ ہم دوربین کی بات کریں جس کو آنکھوں پر لگا کسی بلند عمارت کی چھت پر چڑھ کر ہمارے علماء چاند دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج اگر علماء اپنی بینائی کے لیے عینک لگاتے ہیں اور وہ اسی عینک سمیت چاند ڈھونٹتے دکھائی دیتے ہیں تو کیا وہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوربین کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے یعنی نہ عینک والی آنکھ کو ننگا کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوبین والی آنکھ کو لیکن اس اجتہاد کی جرات کہاں سے لائی جائے ۔ لاؤڈ اسپیکر سمیت ایک طویل فہرست ان صوتی آلات اور ذرائع کی ہے جو پہلے موجود نہیں تھے مگر آج کے زمانے میں عام استعمال میں ہیں اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا البتہ اگر کسی کو اعتراض ہوتا ہے تو مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے بے جا استعمال پر ہوتا ہے جس پراب حکومت نے اذان اور اہم اعلانات کے علاوہ پابندی لگا رکھی ہے۔
ہمارے عینک پوش محترم علماء ننگی آنکھ سے نہیں عینک والی آنکھ سے چاند دیکھ کر عید کا فیصلہ کرتے ہیں مگر وہ اس وقت اپنی ننگی آنکھ کی شرط کی ضد کے پورے ہونے یا نہ ہونے پر توجہ نہیںدیتے۔ اس طرح کے مسائل دیکھ کر میں کبھی کبھار اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں نے صحافت میں آکر غلطی کی اور اس میں کوئی خاص کردار بھی ادا نہ کر سکا میرے صحافت میں ہونے یا نہ ہونے کا کوئی فرق بھی نہیں پڑا لیکن میں اگر مولوی ہی رہتا اور ذرا آگے بڑھ کر 'علماء' کے درجے تک پہنچ جاتا تو یقینا اجتہاد کرتا ۔ میرے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ اگر گھر کے کھانے والے مولوی بنیں گے تو مولوی کی عزت بنے گی ۔
یہ میں پرانے زمانے کی بات کر رہا ہوں آج تو علماء کرام کے پاس ان کی علمیت کا دیا ہوا اتنا کچھ ہے کہ ان میں سے اکثر کی بڑی بڑی گاڑیاں اور بھاری بھر کم وجود دیکھ کر ہی عام آدمی ان کے رعب کے بوجھ تلے دب جاتا ہے ۔ اور جب سے علماء نے سیاست کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑھے ہیں اور ان کو جو سیاسی منصب ملے ہیں وہ اقتدار کی علامت ہیں ورنہ ہم جو ان کی بڑی گاڑیاں دیکھ کر رعب میں آ جاتے ہیں، ہمارے لیے تو وہی بہت تھیں ۔
رمضان المبارک کے چاند کا معاملہ ہو یا شوال کے چاند کا ہر سال یہی ہنگامہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک حصہ میں مفتی پوپلزئی صاحب اپنا اعلان کرتے ہیں تو پاکستان کی سرکاری رویت ہلال کمیٹی اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا اعلان کرتی ہے۔ ان 'علماء' کی اسی کشمکش میں روزہ دار اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ پہلے تو یہ علم نہیں ہوتا کہ رمضان شروع ہو رہا ہے یا نہیں اور بعد میں عید کا مزا خراب کر دیا جاتا ہے۔ ایک روزہ دار کہہ رہے تھے کہ جہاں پر 29 روزے رکھے وہاں پر تیس بھی رکھ لیں گے لیکن اس کی ذمے داری ان علماء پر ہو گی جو سائنس کے جدید علم سے استفادہ کرنے سے انکاری ہیں ۔
حضور پاک ﷺ نے یمن میں اپنا گورنر بھیجا تو اس سے پوچھا کہ تم فیصلے کیسے کرو گے ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ میں خدا کی کتاب میں فیصلہ تلاش کروں گا نہ ملا تو آپ کی سنت میں اور اگر وہاں سے بھی مجھے رہنمائی نہ ملی تو پھر میں خود اجتہاد کروں گا ۔ حضور پاکﷺ اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اجتہاد میں غلطی کرو گے تو پھر بھی ثواب ملے گا ، صحیح کرو گے تو دگنا ثواب ملے گا ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد مسلمانوں کے معاملات طے کرنے کا ایک دائمی ذریعہ ہے ۔ اگر مسلمانوں میں اجتہاد نہ ہو تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام قیامت تک کا دین ہے اور حضورﷺ آخری پیغمبر ہیں ۔ قیامت تک آنے والے زمانوں میں جو تبدیلیاں ہوں گی ان کو سامنے رکھ کر اجتہاد کے ذریعے ہی مسلمانوں کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رہے گا یعنی جس دن اسلام اپنے ماننے والوں کی نئے دور کی کسی مشکل میں ان کی رہنمائی نہیں کرے گا اس دن وہ آخری اور ابدی دین ہونے کے منصب سے عملاً الگ ہو جائے گا جو نہیں ہو سکتا۔
زمانے کے ساتھ نہ چلنے اور زمانے کے نئے مسائل کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر زوال آیا ہے ۔ ہمیں اگر زندہ رہنا ہے یعنی مسلمان بن کر زندہ رہنا ہے جن کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ وہ کسی سے مغلوب نہیں ہوں گے تو پھر وقت کے تقاضوں کے ساتھ اس کے چیلنجوں کو بھی قبول کر نا ہو گا اور ننگی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ ، دوربین سے دیکھ کر یا جدید سائنس کو استعمال کر کے چاند دیکھ کرعید مل جل کر منانی ہو گی ۔
عید کے ہونے یا نہ ہونے کے چکر میں آج 29 ویں روزے کی شام کو پاکستانی انتظار میں لٹکے رہیں گے ۔ میں اگر اجتہاد کے مرتبے اور منصب پر فائز ہوتا تو پاکستانی عوام آج اپنی عبادات کا شکر ادا کر رہے ہوتے ۔ محکمہ موسمیات اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے پاس اب وہ تمام آلات موجود ہیں جو چاند دکھا سکتے ہیں لیکن ہمارے علماء کرام اس سائنسی چاند کو دیکھنا نہیں چاہتے اور ننگی آنکھ سے ہی چاند دیکھنے پر ہی بضد ہیں ۔
جس مبارک عہد میں چاند دیکھ لینے کی شرط پر عید منانے کا فیصلہ ہوا تھا اس زمانے میں آج کی طرح کوئی جدید آلات موجود نہیں تھے حتیٰ کہ اس زمانے میں تو آنکھوں کی عینک بھی نہیں تھی کجا کہ ہم دوربین کی بات کریں جس کو آنکھوں پر لگا کسی بلند عمارت کی چھت پر چڑھ کر ہمارے علماء چاند دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
آج اگر علماء اپنی بینائی کے لیے عینک لگاتے ہیں اور وہ اسی عینک سمیت چاند ڈھونٹتے دکھائی دیتے ہیں تو کیا وہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوربین کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے یعنی نہ عینک والی آنکھ کو ننگا کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوبین والی آنکھ کو لیکن اس اجتہاد کی جرات کہاں سے لائی جائے ۔ لاؤڈ اسپیکر سمیت ایک طویل فہرست ان صوتی آلات اور ذرائع کی ہے جو پہلے موجود نہیں تھے مگر آج کے زمانے میں عام استعمال میں ہیں اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا البتہ اگر کسی کو اعتراض ہوتا ہے تو مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے بے جا استعمال پر ہوتا ہے جس پراب حکومت نے اذان اور اہم اعلانات کے علاوہ پابندی لگا رکھی ہے۔
ہمارے عینک پوش محترم علماء ننگی آنکھ سے نہیں عینک والی آنکھ سے چاند دیکھ کر عید کا فیصلہ کرتے ہیں مگر وہ اس وقت اپنی ننگی آنکھ کی شرط کی ضد کے پورے ہونے یا نہ ہونے پر توجہ نہیںدیتے۔ اس طرح کے مسائل دیکھ کر میں کبھی کبھار اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میں نے صحافت میں آکر غلطی کی اور اس میں کوئی خاص کردار بھی ادا نہ کر سکا میرے صحافت میں ہونے یا نہ ہونے کا کوئی فرق بھی نہیں پڑا لیکن میں اگر مولوی ہی رہتا اور ذرا آگے بڑھ کر 'علماء' کے درجے تک پہنچ جاتا تو یقینا اجتہاد کرتا ۔ میرے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ اگر گھر کے کھانے والے مولوی بنیں گے تو مولوی کی عزت بنے گی ۔
یہ میں پرانے زمانے کی بات کر رہا ہوں آج تو علماء کرام کے پاس ان کی علمیت کا دیا ہوا اتنا کچھ ہے کہ ان میں سے اکثر کی بڑی بڑی گاڑیاں اور بھاری بھر کم وجود دیکھ کر ہی عام آدمی ان کے رعب کے بوجھ تلے دب جاتا ہے ۔ اور جب سے علماء نے سیاست کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑھے ہیں اور ان کو جو سیاسی منصب ملے ہیں وہ اقتدار کی علامت ہیں ورنہ ہم جو ان کی بڑی گاڑیاں دیکھ کر رعب میں آ جاتے ہیں، ہمارے لیے تو وہی بہت تھیں ۔
رمضان المبارک کے چاند کا معاملہ ہو یا شوال کے چاند کا ہر سال یہی ہنگامہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک حصہ میں مفتی پوپلزئی صاحب اپنا اعلان کرتے ہیں تو پاکستان کی سرکاری رویت ہلال کمیٹی اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا اعلان کرتی ہے۔ ان 'علماء' کی اسی کشمکش میں روزہ دار اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ پہلے تو یہ علم نہیں ہوتا کہ رمضان شروع ہو رہا ہے یا نہیں اور بعد میں عید کا مزا خراب کر دیا جاتا ہے۔ ایک روزہ دار کہہ رہے تھے کہ جہاں پر 29 روزے رکھے وہاں پر تیس بھی رکھ لیں گے لیکن اس کی ذمے داری ان علماء پر ہو گی جو سائنس کے جدید علم سے استفادہ کرنے سے انکاری ہیں ۔
حضور پاک ﷺ نے یمن میں اپنا گورنر بھیجا تو اس سے پوچھا کہ تم فیصلے کیسے کرو گے ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ میں خدا کی کتاب میں فیصلہ تلاش کروں گا نہ ملا تو آپ کی سنت میں اور اگر وہاں سے بھی مجھے رہنمائی نہ ملی تو پھر میں خود اجتہاد کروں گا ۔ حضور پاکﷺ اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اجتہاد میں غلطی کرو گے تو پھر بھی ثواب ملے گا ، صحیح کرو گے تو دگنا ثواب ملے گا ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجتہاد مسلمانوں کے معاملات طے کرنے کا ایک دائمی ذریعہ ہے ۔ اگر مسلمانوں میں اجتہاد نہ ہو تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام قیامت تک کا دین ہے اور حضورﷺ آخری پیغمبر ہیں ۔ قیامت تک آنے والے زمانوں میں جو تبدیلیاں ہوں گی ان کو سامنے رکھ کر اجتہاد کے ذریعے ہی مسلمانوں کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رہے گا یعنی جس دن اسلام اپنے ماننے والوں کی نئے دور کی کسی مشکل میں ان کی رہنمائی نہیں کرے گا اس دن وہ آخری اور ابدی دین ہونے کے منصب سے عملاً الگ ہو جائے گا جو نہیں ہو سکتا۔
زمانے کے ساتھ نہ چلنے اور زمانے کے نئے مسائل کا مقابلہ نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر زوال آیا ہے ۔ ہمیں اگر زندہ رہنا ہے یعنی مسلمان بن کر زندہ رہنا ہے جن کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ وہ کسی سے مغلوب نہیں ہوں گے تو پھر وقت کے تقاضوں کے ساتھ اس کے چیلنجوں کو بھی قبول کر نا ہو گا اور ننگی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ ، دوربین سے دیکھ کر یا جدید سائنس کو استعمال کر کے چاند دیکھ کرعید مل جل کر منانی ہو گی ۔