شہرہ آفاق قوال عزیزمیاں کو ہم سے بچھڑے 13 بر س بیت گئے

اردو، فارسی اور عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری رکھنے والے عزیز میاں کی تینوں زبانوں پر مہارت قابل رشک تھی۔

عزیر میاں اپنی بیشتر قوالیاں خود ہی لکھتے تھے۔ فوٹو؛ فائل

اپنی قوالیوں کے ذریعے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے والے شہرہ آفاق قوال عزیز میاں کو ہم سے بچھڑے 13برس بیت گئے لیکن انکی سحر انگیز قوالیاں آج بھی حاضرین پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔



فن قوالی کی اصل روح کو دنیا کے سامنے جن قوالوں میں پیش کیا ان میں قوال عزیز میاں کا نام بھی نمایاں ہے، انہیں کلام پڑھنے میں کچھ ایسی مہارت حاصل تھی کہ حاضرین بلا اختیار اثر میں آجاتے تھے،عزیز میاں نے استاد عبد الوحید سے قوالی کا سیکھ کر فنی کیرئیر کا آغاز کیا ، اردو ، فارسی اور عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری رکھنے والے عزیز میاں کی تینوں زبانوں پر مہارت قابل رشک تھی جو کلام کی ادائیگی مزید شائستہ بنا دیتی، عزیز میاں کی بیشتر قوالیاں تصوف پر مبنی تھیں تاہم انکا رومانی رنگ بھی حاضرین کی توجہ کا مرکز بنا۔


عزیز میاں نے 1966 میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پیش کرنے پر دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی، وہ اپنی بیشتر قوالیاں خود لکھتے تھے جبکہ انہوں نے علامہ محمد اقبال اور قتیل شفائی کا کلام بھی انتہائی مہارت سے گایا۔


عزیز میاں کو 2000میں ایرانی حکومت نے پرفارمنس کیلئے تہران مدعو کیا جہاں وہ ہیپاٹائٹس کے مرض کے باعث انتقال کر گئے ، عزیز میاں کو انکی وصیت کے مطابق ملتان میں سپرد خاک کیا گیا۔

Load Next Story