ندامت و پشیمانی
پوری دنیا میں وبائی مرض نے دہشت پھیلائی ہوئی ہے، ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے
گناہ اور غلطی کا مادہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ وہ ذاتی مفادات اور دنیاوی مقام و مرتبے کے حصول کی خاطر غلط کام کرنے سے بھی باز نہیں آتا اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔
جیسے غلطی اور نافرمانی کرنا بنی نوع انسان کی فطرت کا حصہ ہے، ویسے ہی غلطی اور گناہ کا احساس ہونے پر اﷲ رب العزت کے حضور پشیمانی کا اظہار کرنے اور معافی طلب کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے گناہوں کی معافی کی نوید بھی سنائی ہے۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے، چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، احساس ہونے پر فوراً اﷲ تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔
بندے کے لیے کمال درجہ اﷲ رب العزت کے سامنے عاجزی اور انکساری میں ہے، اور بندے کے لیے ذلّت و رسوائی اﷲ تعالیٰ کے سامنے تکبّر و سرکشی اور اس کے اوامر و نواہی سے سرگردانی میں ہے۔ استغفار کے لیے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے بتا یا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے۔ تمام چھوٹے بڑے گناہوں پر توبہ کرنا لازم ہے۔
فرمان الہی کا مفہوم: ''اے مومنو! سب کے سب اﷲ کے لیے توبہ کرو۔'' (النور) پھر ایک اور جگہ توبہ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا گیا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اﷲ کے لیے سچی توبہ کرو۔'' (التحریم)
توبہ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور چاہے اپنے گناہوں کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، سب سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شُکر ادا کرنے میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، اس پر بھی توبہ کا معمول بنائے۔ آپؐ نے فرمایا: ''لوگو! اﷲ سے توبہ کرو، اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو، میں ایک دن میں سو بار استغفار کرتا ہوں۔'' (صحیح مسلم)
اہل علم کہتے ہیں کہ اگر گناہ اﷲ اور بندے سے متعلق ہے تو پھر توبۃ النصوح یعنی سچی توبہ کے لیے تین شرائط ہیں۔ اول: گناہ چھوڑ دے۔ دوم: گناہ پر پشیمان ہو اور سوم: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔ اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر کسی کا حق کھایا ہے تو واپس کرے، دل دکھایا ہے تو متعلقہ فرد سے معافی مانگ لے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھر وہ اﷲ سے بخشش طلب کرے تو اﷲ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔''
اﷲ کا فضل، کرم اور سخاوت اپنے بندوں کے لیے بہت وسیع ہے۔ اس کی مخلوق دن رات اس کی نافرمانی کرتی ہے، لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ بُردباری کا معاملہ فرماتا ہے۔ فوراً انہیں سزا سے دوچار نہیں کرتا بل کہ انہیں رزق اور عافیت سے نوازتا رہتا ہے اور ان پر نعمتیں کم نہیں کرتا، انہیں سُستی اور کوتاہی پر توبہ کی محض دعوت نہیں دیتا بل کہ اس پر ان کے لیے مغفرت اور ثواب کا پیشگی وعدہ بھی کرتا ہے۔ اﷲ رب العزت بندے کی توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص اﷲ کے حضور توبہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے دنیا میں اچھی زندگی اور آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوگا تو اس کے لیے طوبٰی (خُوش خبری) ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)
خواتین کو آپ ﷺ نے خاص طور پر استغفار کی ترغیب دی اور فرمایا، مفہوم: ''اے عورتوں کی جماعت! صدقہ دیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیوں کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری (عورتوں) دیکھی ہے۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت حسن بصریؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے اُن سے قحط سالی کی شکایت کی تو اُنہوں نے اس سے کہا: اﷲ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجی کا شکوہ کیا، ایک نے بے اولاد ہونے کا اور ایک نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو انہوں نے سب کو یہی کہا: استغفار کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی اشخاص آئے اور ہر ایک نے الگ الگ پریشانی بیان کی، مگر آپ نے سب کو ہی استغفار کا حکم دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جنابِ حسن بصریؒ نے جواب میں سورہ نوح کی ان آیات کی تلاوت فرمائی، مفہوم: ''پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیوں کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر بہ کثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد دے گا، اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔''
(بہ حوالہ تفسیر روح المعانی)
اس وقت پوری دنیا میں وبائی مرض نے دہشت پھیلائی ہوئی ہے، ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی بداعمالیوں اور نافرمانیوں پر نادم ہونے اور اﷲ رب العزت کو راضی کرنے کا وقت ہے، کیوں کہ جو قوم استغفار کرتی ہے، اﷲ تعالیٰ اُس سے عذاب کو دور کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ ان کو اُس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے، جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں، جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔'' (الانفال)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے بچاؤ کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اُٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ یعنی استغفار کو اختیار کرو۔ اس وقت سب سے بڑھ کر استغفار اور اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی بے بسی کے اظہار کا کوئی موقع نہیں آنے والا ہے۔ آئیے! ہم سب اﷲ رب العزت کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ زندگی پر غور کرکے اس کے حضور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور نافرمانی پر استغفار کریں، سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس ذات واحد سے بخشش طلب کریں۔
جیسے غلطی اور نافرمانی کرنا بنی نوع انسان کی فطرت کا حصہ ہے، ویسے ہی غلطی اور گناہ کا احساس ہونے پر اﷲ رب العزت کے حضور پشیمانی کا اظہار کرنے اور معافی طلب کرنے پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے گناہوں کی معافی کی نوید بھی سنائی ہے۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے، چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، احساس ہونے پر فوراً اﷲ تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔
بندے کے لیے کمال درجہ اﷲ رب العزت کے سامنے عاجزی اور انکساری میں ہے، اور بندے کے لیے ذلّت و رسوائی اﷲ تعالیٰ کے سامنے تکبّر و سرکشی اور اس کے اوامر و نواہی سے سرگردانی میں ہے۔ استغفار کے لیے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے بتا یا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے۔ تمام چھوٹے بڑے گناہوں پر توبہ کرنا لازم ہے۔
فرمان الہی کا مفہوم: ''اے مومنو! سب کے سب اﷲ کے لیے توبہ کرو۔'' (النور) پھر ایک اور جگہ توبہ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا گیا، مفہوم: ''اے ایمان والو! اﷲ کے لیے سچی توبہ کرو۔'' (التحریم)
توبہ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور چاہے اپنے گناہوں کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، سب سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شُکر ادا کرنے میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، اس پر بھی توبہ کا معمول بنائے۔ آپؐ نے فرمایا: ''لوگو! اﷲ سے توبہ کرو، اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو، میں ایک دن میں سو بار استغفار کرتا ہوں۔'' (صحیح مسلم)
اہل علم کہتے ہیں کہ اگر گناہ اﷲ اور بندے سے متعلق ہے تو پھر توبۃ النصوح یعنی سچی توبہ کے لیے تین شرائط ہیں۔ اول: گناہ چھوڑ دے۔ دوم: گناہ پر پشیمان ہو اور سوم: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔ اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر کسی کا حق کھایا ہے تو واپس کرے، دل دکھایا ہے تو متعلقہ فرد سے معافی مانگ لے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھر وہ اﷲ سے بخشش طلب کرے تو اﷲ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔''
اﷲ کا فضل، کرم اور سخاوت اپنے بندوں کے لیے بہت وسیع ہے۔ اس کی مخلوق دن رات اس کی نافرمانی کرتی ہے، لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ بُردباری کا معاملہ فرماتا ہے۔ فوراً انہیں سزا سے دوچار نہیں کرتا بل کہ انہیں رزق اور عافیت سے نوازتا رہتا ہے اور ان پر نعمتیں کم نہیں کرتا، انہیں سُستی اور کوتاہی پر توبہ کی محض دعوت نہیں دیتا بل کہ اس پر ان کے لیے مغفرت اور ثواب کا پیشگی وعدہ بھی کرتا ہے۔ اﷲ رب العزت بندے کی توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص اﷲ کے حضور توبہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے دنیا میں اچھی زندگی اور آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: ''جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوگا تو اس کے لیے طوبٰی (خُوش خبری) ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)
خواتین کو آپ ﷺ نے خاص طور پر استغفار کی ترغیب دی اور فرمایا، مفہوم: ''اے عورتوں کی جماعت! صدقہ دیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیوں کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری (عورتوں) دیکھی ہے۔'' (بخاری و مسلم)
حضرت حسن بصریؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے اُن سے قحط سالی کی شکایت کی تو اُنہوں نے اس سے کہا: اﷲ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجی کا شکوہ کیا، ایک نے بے اولاد ہونے کا اور ایک نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو انہوں نے سب کو یہی کہا: استغفار کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی اشخاص آئے اور ہر ایک نے الگ الگ پریشانی بیان کی، مگر آپ نے سب کو ہی استغفار کا حکم دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جنابِ حسن بصریؒ نے جواب میں سورہ نوح کی ان آیات کی تلاوت فرمائی، مفہوم: ''پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیوں کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر بہ کثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد دے گا، اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔''
(بہ حوالہ تفسیر روح المعانی)
اس وقت پوری دنیا میں وبائی مرض نے دہشت پھیلائی ہوئی ہے، ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی بداعمالیوں اور نافرمانیوں پر نادم ہونے اور اﷲ رب العزت کو راضی کرنے کا وقت ہے، کیوں کہ جو قوم استغفار کرتی ہے، اﷲ تعالیٰ اُس سے عذاب کو دور کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ ان کو اُس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے، جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں، جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔'' (الانفال)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے بچاؤ کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اُٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ یعنی استغفار کو اختیار کرو۔ اس وقت سب سے بڑھ کر استغفار اور اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی بے بسی کے اظہار کا کوئی موقع نہیں آنے والا ہے۔ آئیے! ہم سب اﷲ رب العزت کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ زندگی پر غور کرکے اس کے حضور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور نافرمانی پر استغفار کریں، سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس ذات واحد سے بخشش طلب کریں۔