ٹڈی دل کی ہولناک تباہ کاریاں
ہمارے ارباب اختیار اگریہ سوچ اپنا لیں کہ ٹڈی دل سے ہمیں فصلوں کو ہرحال میں بچانا ہے تو صورتحال میں بہت بہتری آجائے گی۔
یہ اطلاعات انتہائی افسوس ناک ہیں کہ ملک کے بیشتر اضلاع میں ٹڈی دل نے دوبارہ حملے کرکے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میںگندم، کپاس اور آم کے باغات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہی ہے لیکن یہ زمینی حقیقت ہے کہ کسان اور زراعت کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں رہے، ٹڈل دل کے حملوں نے پہلے ٹماٹر کی فصل پر حملہ کیا اور یوں ٹماٹر کی فصلیں تباہ ہونے کے باعث شدید قلت پیدا ہونے سے قیمت چار سو پچاس روپے فی کلو تک جا پہنچی۔چند ماہ قبل ٹڈیاں سندھ کے علاقوں گھوٹکی اور کشمور میں داخل ہوئی تھیں۔
اب تازہ ترین صورتحال کے مطابق تمام صوبوں کی انتظامیہ کی جانب سے ناکافی اقدامات کے سبب کسان شدید گرمی کے باوجود ہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں لیے اپنی مدد آپ کے تحت ٹڈیاں بھگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔
دراصل ٹڈیوں کے خاتمے کے لیے مختلف اضلاع میں اسپرے اس مسئلے کا حل تھا، لیکن بدقسمتی سے مطلوبہ مقدار میں اسپرے نہیں کیا گیا، پھر کورونا وائرس کی وباء کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کو نظر انداز کردیا لیکن ٹڈی دل کے دوبارہ خطرناک حملوں نے صورتحال کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے، ٹڈی دل کو بعض لوگ کورونا سے زیادہ خطرناک قرار دے چکے ہیں، اگریہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو ملک میں شدید ترین غذائی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ کسان معاشی طور پر بدحال ہوجائیں گے، اگر ٹڈی دل کو ختم نہیں کیا گیا تو نہ صرف فصلیں برباد ہوجائیں گی بلکہ ملکی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
ہمارے ارباب اختیار اگر یہ سوچ اپنا لیں کہ ٹڈی دل سے ہمیں فصلوں کو ہر حال میں بچانا ہے تو صورتحال میں بہت بہتری آ جائے گی۔ لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حکام بالا ایک دوسرے پر الزام تراشی کی روش ترک کرتے ہوئے فوری طور پر متاثرہ فصلوں پر سپرے کروانے کے اقدامات جنگی بنیادوں پر کریں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہی ہے لیکن یہ زمینی حقیقت ہے کہ کسان اور زراعت کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں رہے، ٹڈل دل کے حملوں نے پہلے ٹماٹر کی فصل پر حملہ کیا اور یوں ٹماٹر کی فصلیں تباہ ہونے کے باعث شدید قلت پیدا ہونے سے قیمت چار سو پچاس روپے فی کلو تک جا پہنچی۔چند ماہ قبل ٹڈیاں سندھ کے علاقوں گھوٹکی اور کشمور میں داخل ہوئی تھیں۔
اب تازہ ترین صورتحال کے مطابق تمام صوبوں کی انتظامیہ کی جانب سے ناکافی اقدامات کے سبب کسان شدید گرمی کے باوجود ہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں لیے اپنی مدد آپ کے تحت ٹڈیاں بھگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔
دراصل ٹڈیوں کے خاتمے کے لیے مختلف اضلاع میں اسپرے اس مسئلے کا حل تھا، لیکن بدقسمتی سے مطلوبہ مقدار میں اسپرے نہیں کیا گیا، پھر کورونا وائرس کی وباء کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس مسئلے کو نظر انداز کردیا لیکن ٹڈی دل کے دوبارہ خطرناک حملوں نے صورتحال کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے، ٹڈی دل کو بعض لوگ کورونا سے زیادہ خطرناک قرار دے چکے ہیں، اگریہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو ملک میں شدید ترین غذائی قلت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ کسان معاشی طور پر بدحال ہوجائیں گے، اگر ٹڈی دل کو ختم نہیں کیا گیا تو نہ صرف فصلیں برباد ہوجائیں گی بلکہ ملکی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
ہمارے ارباب اختیار اگر یہ سوچ اپنا لیں کہ ٹڈی دل سے ہمیں فصلوں کو ہر حال میں بچانا ہے تو صورتحال میں بہت بہتری آ جائے گی۔ لہذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حکام بالا ایک دوسرے پر الزام تراشی کی روش ترک کرتے ہوئے فوری طور پر متاثرہ فصلوں پر سپرے کروانے کے اقدامات جنگی بنیادوں پر کریں۔