فن کی خاطر قربانیاں دینے والے یعقوب زکریا
اداکاری سے محبت کرنے والے یعقوب زکریا نے فن کی خاطر بہت ساری قربانیاں دی ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔
WASHINGTON:
اداکاری سے محبت کرنے والے یعقوب زکریا نے فن کی خاطر بہت ساری قربانیاں دی ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں اور اس کی مثالیں بڑی کم ملتی ہیں جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔
فی الحال اس غریب و سادہ شکل کے بڑے فنکار کی ذاتی زندگی کے بارے میں آپ کو کچھ بتاتا چلوں۔ وہ 1943 میں ہندوستان کے شہر اوپلٹیا میں اپنے والد محمد ذکریا کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ کاٹھیاواڑی میمن تھے جو گھڑیوں کی مرمت کرنے کا کام کرتے تھے اور جب پاکستان بنا تو وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ پاکستان آگئے اور حیدرآباد سندھ میں آباد ہوئے جہاں پر وہ ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ ان کے والد نے شاہی بازار حیدرآباد میں ایک کرائے کی دکان لے کر اس میں گھڑیوں کی مرمت کا کام شروع کیا مگر وہ زیادہ چل نہیں سکا اور مجبوراً اس نے ایک تیل کے کارخانے میں بروکری کا کام شروع کیا۔
یعقوب کے ایک بھائی ہندوستان میں پیدا ہوئے اور وہیں پر ہی اللہ کو پیار ہوگئے۔ ذکریا کے دو چاچا تھے جس میں سے ایک نے حیدرآباد میں ہی ایک آٹے کی چکی قائم کی جب کہ دوسرے چچا نے کپڑے بیچنے کی دکان چلانا شروع کی۔ یعقوب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا مگر پاکستان آنے کے بعد اس کے والدین کے ہاں تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
ان کے والد بے حد غریب آدمی تھے اور صبح کو تیل کے کارخانے میں کام کرتے اور شام کو رات دیر گئے تک گھڑیاں بنانے کا کام کرتے۔ غربت کی وجہ سے یعقوب صرف 8 جماعت تک تعلیم حاصل کرسکے۔ اس لیے وہ چنے، پاپڑ، قلفی وغیرہ گلیوں میں بیچتے تھے اور جب بڑے ہوئے تو چار اور چھ سیٹر رکشہ چلانے لگے جس سے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگے۔ 1960 میں اس نے اپنی والدہ کے کہنے پر شادی کرلی جس سے اسے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ وہ کئی زبانیں بولنا جانتے تھے جس میں کاٹھیاواڑی جو اس کی مادری زبان تھی، گجراتی، راجستھانی، مارواڑی، ہندی، پنجابی، روتکی، اردو، ڈاکنی اور سندھی شامل ہیں۔ اس نے اپنی زندگی میں بڑے دکھ، غربت اور مایوسیوں کا سامنا کیا مگر بڑی محنت اور جفاکشی کے بعد بھی وہ اپنا ذاتی مکان نہیں بنا سکے جس کا احساس اسے ساری زندگی گھن کی طرح کھاتا رہا۔
یعقوب ذکریا 250 سے زیادہ فلموں، ٹی وی ڈراموں اور دو ہزار سے زیادہ اسٹیج ڈراموں اور ریڈیو ڈراموں میں کام کرچکے تھے حالانکہ اس کا معاشی مسئلہ اسے اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ جا کر اپنے فن کے شوق کی تکمیل کریں پھر بھی وقت نکال کر اس نے نہ صرف فن کی خدمت کی بلکہ اس کے لیے کئی ناقابل یقین قربانیاں دیں۔
اپنے فنی کریئر کی ابتدا اس نے ریڈیو پاکستان سے کی اور اس کے لیے اس نے ریڈیو پاکستان پر 1957 میں پانچ مرتبہ آڈیشن کے لیے گئے مگر اسے فیل کردیا گیا اور اس نے ہمت نہیں ہاری اور آخر کار چھٹی مرتبہ کامیاب ہوگئے اور 8 دسمبر 1958 پر اس کا اردو ڈرامہ بہادر نشر ہوا جس کے پروڈیوسر تھے احمد عبدالقیوم اس نے سندھی پروگراموں اور ڈراموں کے لیے بھی آڈیشن میں کامیابی حاصل کی ۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں اس نے اس وقت کے بڑے فنکاروں اور براڈ کاسٹروں کے ساتھ کام کیا جس میں اداکار محمد علی، ان کے بھائی ارشاد علی، حمایت علی شاعر، سنگر روبینہ قریشی، جیجی زرینہ بلوچ، عبدالحق ابڑو، سید صالح محمد شاہ، عبدالکریم بلوچ، مراد علی مرزا، منظور نقوی، نصیر مرزا وغیرہ شامل ہیں۔
جب غلام حیدر صدیقی انگلینڈ سے فلم ڈائریکشن اور کیمرہ ورک میں ڈپلوما کرنے کے بعد پاکستان آئے تو اس نے کئی سندھی فلمیں بنائیں ان میں سے ایک فلم گھونگھٹ لاھ کنوار بنائی جس میں یعقوب ذکریا کو چانس دیا جب پی ٹی وی پر عبدالکریم بلوچ پروڈیوسر بنے تو اس نے حیدرآباد کے کئی فنکاروں کو پی ٹی وی پر متعارف کروایا جس میں یعقوب ذکریا بھی تھے جسے انھوں نے مراد علی مرزا کے لکھے ہوئے سندھی ڈرامہ گنہگار میں ٹیکسی ڈرائیور کا رول دیا جس میں اس نے حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ وہ غریبوں اور مظلوم کا کردار بڑی مہارت سے ادا کرتے تھے کیونکہ اس کے چہرے سے اس کی غربت اور مفلسی ظاہر ہوتی تھی مگر اس کے باوجود وہ بڑا پراعتماد تھا اور کسی بھی کردار کو نبھاتے ہوئے نہیں گھبرایا۔
فن کو قربانی دینے کے حوالے سے یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جب پی ٹی وی کے پروڈیوسر اقبال انصاری لوک سندھی فنکارہ مائی بھاگی پر ایک اردو ڈرامہ سیریل کارواں بنا رہے تھے جس کے لیے ''سکھاں'' کے باپ کا کردار تھا جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کے باپ کے منہ میں دانت نہیں ہیں اور ایسا کوئی بھی فنکار نہیں تھا کہ وہ اپنے سارے دانت نکلوا دے مگر یعقوب نے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنے دانتوں کی قربانی دے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ ڈرامہ سیریل بڑی کامیاب ہوئی جس میں پہلے مین رول کے لیے روحی بانو کو کاسٹ کیا گیا مگر کسی وجہ سے وہ وقت دے نہیں پائی اور اس کی جگہ اس کی کزن ہما اکبر نے یہ کردار ادا کیا۔ سکھاں کا کردار مائی بھاگی کا تھا۔ اس ڈرامہ سیریل کو عبدالقادر جونیجو نے لکھا تھا اور اس کی ساری ریکارڈنگ تھر میں ہوئی تھی۔ اس ڈرامہ سیریل میں جو گانے مائی بھاگی کے تھے وہ ٹینا ثانی نے بڑے خوبصورت انداز میں گائے تھے۔
یعقوب کی ایک اور قربانی جسے دنیا آج تک یاد رکھتی ہے یہ تھی کہ ایک مرتبہ حیدرآباد شہر میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کے لیے ایک ٹیبلو نما ڈرامہ پرچھائیاں دکھایا جا رہا تھا جس کے لیے دو مہینے سے یعقوب سمیت سارے فنکار ریہرسل کرتے رہے اور جس دن یہ ڈرامہ پیش ہونے والا تھا کہ اسے گھر سے فون آیا کہ اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اگر وہ یہ ڈرامہ چھوڑ کے چلے جاتے تو وہ ڈرامہ نہیں ہوتا کیونکہ یعقوب کا اس میں مین کردار تھا اور دوسرا یہ کہ جو رقم حاصل ہوئی تھی وہ ساری واپس چلی جاتی جس سے ٹی بی کے مریضوں کو ملنے والی ادویات اور دوسرے خرچے نہیں مل پاتے لہٰذا وہ دل پر پتھر رکھ کے اپنی بیٹی کی تدفین میں نہیں جاسکے جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں اور باقی رشتے داروں نے اس کو برادری اور گھر سے نکال دیا اور وہ کئی عرصہ فٹ پاتھ، ریلوے اسٹیشن اور پارکس میں رہ کر وقت گزارتا تھا۔
پی ٹی وی ڈراموں میں اس کی کئی یادگار ڈرامہ سیریل ہیں جس میں ایک سندھی ڈرامہ سیریل ''رانی جی کہانی'' جسے ہارون رند نے پیش کیا تھا اور عبدالقادر جونیجو نے لکھا تھا جسے بعد میں اردو زبان میں دیواریں کے نام سے پیش کیا گیا جس میں اس نے ایک پولیس کے سپاہی کا کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا ڈرامہ سیریل ''جنگل'' تھا جس نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی اس میں بھی اس نے ایک باپ کا رول ادا کیا تھا۔
اس کے علاوہ دیگر ڈراموں نوری، عورت کہانی، جانگلوس، باادب باملاحظہ، زندان نجات، فٹ پاتھ، ادھورو انسان، ساگر کے آنسو، کونج وغیرہ بہت سارے نام شامل ہیں۔ سندھی فلموں میں محبوب مٹھا، مٹھڑاشال ملن، محب شیدی، گھونگھٹ لاھ کنوار اور اردو فلموں میں استادوں کے استاد، خطرناک حسینہ شامل ہیں جب کہ اس نے ہالی وڈ کی ایک انگریزی فلم میں بھی کام کیا تھا جس میں بالی وڈ کی اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھی کردار ادا کیا تھا جو یعقوب کے پرفارمنس سے بڑی متاثر ہوئیں اور اسے ہندوستان میں بننے والی فلم چٹان میں ایک اچھا کردار کی پیشکش کی جو وہ اپنے حالات کی وجہ سے قبول نہیں کرسکے۔
بلاشبہ اس دنیا میں غریب فنکاروں کو نہ تو جیتے جی نہ مرنے کے بعد کوئی پوچھتا ہے جو بڑی ناانصافی ہے۔ وہ جب میرے پاس سندھی چینل پر آتے تھے تو مجھے اس کی ہر بات میں فن نظر آتا تھا، بڑے ملنسار، خوددار، محنتی اور بااخلاق انسان تھے۔ ایک مرتبہ باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ میں حیران ہوں کہ ہمارے ملک کے بڑے اچھے ادیب امر جلیل نے اسے ملتے ہوئے اس کے ہاتھ اور ماتھے کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ملک میں تجھ جیسے فنکار ہیں۔ اس بات پر یعقوب کی آنکھوں سے خوشی میں آنسو نکل آئے کہ کوئی تو اتنا بڑا آدمی ہے جو اس کی اور اس کے فن کی عزت اور قدر تھا۔
اس کا ساتھ زندگی نے بھی اس طرح چھوڑا کہ سن کر اس کے چاہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے اشک روک نہیں سکے۔ جس دن اسے دل کا دورہ ہوا تو وہ دن عیدالاضحی کا تھا اور اسے جب سول اسپتال حیدرآباد لے گئے تو وہاں پر عید کی چھٹی کی وجہ سے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ بہت کم تھا اور وہ کافی دیر تک ایسے ہی پڑا رہا۔ 9 دسمبر 2008 کو اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔
میں حکومت سندھ اور حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں جس میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کہ وہ اس لاوارث غریب فنکار کے لیے بعد از موت پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعلان کریں اور اس کے خاندان کی مالی مدد بھی کریں جس کا اجر انھیں اللہ تعالیٰ دے گا۔
اداکاری سے محبت کرنے والے یعقوب زکریا نے فن کی خاطر بہت ساری قربانیاں دی ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں اور اس کی مثالیں بڑی کم ملتی ہیں جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔
فی الحال اس غریب و سادہ شکل کے بڑے فنکار کی ذاتی زندگی کے بارے میں آپ کو کچھ بتاتا چلوں۔ وہ 1943 میں ہندوستان کے شہر اوپلٹیا میں اپنے والد محمد ذکریا کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ کاٹھیاواڑی میمن تھے جو گھڑیوں کی مرمت کرنے کا کام کرتے تھے اور جب پاکستان بنا تو وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ پاکستان آگئے اور حیدرآباد سندھ میں آباد ہوئے جہاں پر وہ ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ ان کے والد نے شاہی بازار حیدرآباد میں ایک کرائے کی دکان لے کر اس میں گھڑیوں کی مرمت کا کام شروع کیا مگر وہ زیادہ چل نہیں سکا اور مجبوراً اس نے ایک تیل کے کارخانے میں بروکری کا کام شروع کیا۔
یعقوب کے ایک بھائی ہندوستان میں پیدا ہوئے اور وہیں پر ہی اللہ کو پیار ہوگئے۔ ذکریا کے دو چاچا تھے جس میں سے ایک نے حیدرآباد میں ہی ایک آٹے کی چکی قائم کی جب کہ دوسرے چچا نے کپڑے بیچنے کی دکان چلانا شروع کی۔ یعقوب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا مگر پاکستان آنے کے بعد اس کے والدین کے ہاں تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
ان کے والد بے حد غریب آدمی تھے اور صبح کو تیل کے کارخانے میں کام کرتے اور شام کو رات دیر گئے تک گھڑیاں بنانے کا کام کرتے۔ غربت کی وجہ سے یعقوب صرف 8 جماعت تک تعلیم حاصل کرسکے۔ اس لیے وہ چنے، پاپڑ، قلفی وغیرہ گلیوں میں بیچتے تھے اور جب بڑے ہوئے تو چار اور چھ سیٹر رکشہ چلانے لگے جس سے وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگے۔ 1960 میں اس نے اپنی والدہ کے کہنے پر شادی کرلی جس سے اسے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ وہ کئی زبانیں بولنا جانتے تھے جس میں کاٹھیاواڑی جو اس کی مادری زبان تھی، گجراتی، راجستھانی، مارواڑی، ہندی، پنجابی، روتکی، اردو، ڈاکنی اور سندھی شامل ہیں۔ اس نے اپنی زندگی میں بڑے دکھ، غربت اور مایوسیوں کا سامنا کیا مگر بڑی محنت اور جفاکشی کے بعد بھی وہ اپنا ذاتی مکان نہیں بنا سکے جس کا احساس اسے ساری زندگی گھن کی طرح کھاتا رہا۔
یعقوب ذکریا 250 سے زیادہ فلموں، ٹی وی ڈراموں اور دو ہزار سے زیادہ اسٹیج ڈراموں اور ریڈیو ڈراموں میں کام کرچکے تھے حالانکہ اس کا معاشی مسئلہ اسے اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ جا کر اپنے فن کے شوق کی تکمیل کریں پھر بھی وقت نکال کر اس نے نہ صرف فن کی خدمت کی بلکہ اس کے لیے کئی ناقابل یقین قربانیاں دیں۔
اپنے فنی کریئر کی ابتدا اس نے ریڈیو پاکستان سے کی اور اس کے لیے اس نے ریڈیو پاکستان پر 1957 میں پانچ مرتبہ آڈیشن کے لیے گئے مگر اسے فیل کردیا گیا اور اس نے ہمت نہیں ہاری اور آخر کار چھٹی مرتبہ کامیاب ہوگئے اور 8 دسمبر 1958 پر اس کا اردو ڈرامہ بہادر نشر ہوا جس کے پروڈیوسر تھے احمد عبدالقیوم اس نے سندھی پروگراموں اور ڈراموں کے لیے بھی آڈیشن میں کامیابی حاصل کی ۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں اس نے اس وقت کے بڑے فنکاروں اور براڈ کاسٹروں کے ساتھ کام کیا جس میں اداکار محمد علی، ان کے بھائی ارشاد علی، حمایت علی شاعر، سنگر روبینہ قریشی، جیجی زرینہ بلوچ، عبدالحق ابڑو، سید صالح محمد شاہ، عبدالکریم بلوچ، مراد علی مرزا، منظور نقوی، نصیر مرزا وغیرہ شامل ہیں۔
جب غلام حیدر صدیقی انگلینڈ سے فلم ڈائریکشن اور کیمرہ ورک میں ڈپلوما کرنے کے بعد پاکستان آئے تو اس نے کئی سندھی فلمیں بنائیں ان میں سے ایک فلم گھونگھٹ لاھ کنوار بنائی جس میں یعقوب ذکریا کو چانس دیا جب پی ٹی وی پر عبدالکریم بلوچ پروڈیوسر بنے تو اس نے حیدرآباد کے کئی فنکاروں کو پی ٹی وی پر متعارف کروایا جس میں یعقوب ذکریا بھی تھے جسے انھوں نے مراد علی مرزا کے لکھے ہوئے سندھی ڈرامہ گنہگار میں ٹیکسی ڈرائیور کا رول دیا جس میں اس نے حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ وہ غریبوں اور مظلوم کا کردار بڑی مہارت سے ادا کرتے تھے کیونکہ اس کے چہرے سے اس کی غربت اور مفلسی ظاہر ہوتی تھی مگر اس کے باوجود وہ بڑا پراعتماد تھا اور کسی بھی کردار کو نبھاتے ہوئے نہیں گھبرایا۔
فن کو قربانی دینے کے حوالے سے یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جب پی ٹی وی کے پروڈیوسر اقبال انصاری لوک سندھی فنکارہ مائی بھاگی پر ایک اردو ڈرامہ سیریل کارواں بنا رہے تھے جس کے لیے ''سکھاں'' کے باپ کا کردار تھا جس کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کے باپ کے منہ میں دانت نہیں ہیں اور ایسا کوئی بھی فنکار نہیں تھا کہ وہ اپنے سارے دانت نکلوا دے مگر یعقوب نے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنے دانتوں کی قربانی دے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ ڈرامہ سیریل بڑی کامیاب ہوئی جس میں پہلے مین رول کے لیے روحی بانو کو کاسٹ کیا گیا مگر کسی وجہ سے وہ وقت دے نہیں پائی اور اس کی جگہ اس کی کزن ہما اکبر نے یہ کردار ادا کیا۔ سکھاں کا کردار مائی بھاگی کا تھا۔ اس ڈرامہ سیریل کو عبدالقادر جونیجو نے لکھا تھا اور اس کی ساری ریکارڈنگ تھر میں ہوئی تھی۔ اس ڈرامہ سیریل میں جو گانے مائی بھاگی کے تھے وہ ٹینا ثانی نے بڑے خوبصورت انداز میں گائے تھے۔
یعقوب کی ایک اور قربانی جسے دنیا آج تک یاد رکھتی ہے یہ تھی کہ ایک مرتبہ حیدرآباد شہر میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کے لیے ایک ٹیبلو نما ڈرامہ پرچھائیاں دکھایا جا رہا تھا جس کے لیے دو مہینے سے یعقوب سمیت سارے فنکار ریہرسل کرتے رہے اور جس دن یہ ڈرامہ پیش ہونے والا تھا کہ اسے گھر سے فون آیا کہ اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اگر وہ یہ ڈرامہ چھوڑ کے چلے جاتے تو وہ ڈرامہ نہیں ہوتا کیونکہ یعقوب کا اس میں مین کردار تھا اور دوسرا یہ کہ جو رقم حاصل ہوئی تھی وہ ساری واپس چلی جاتی جس سے ٹی بی کے مریضوں کو ملنے والی ادویات اور دوسرے خرچے نہیں مل پاتے لہٰذا وہ دل پر پتھر رکھ کے اپنی بیٹی کی تدفین میں نہیں جاسکے جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں اور باقی رشتے داروں نے اس کو برادری اور گھر سے نکال دیا اور وہ کئی عرصہ فٹ پاتھ، ریلوے اسٹیشن اور پارکس میں رہ کر وقت گزارتا تھا۔
پی ٹی وی ڈراموں میں اس کی کئی یادگار ڈرامہ سیریل ہیں جس میں ایک سندھی ڈرامہ سیریل ''رانی جی کہانی'' جسے ہارون رند نے پیش کیا تھا اور عبدالقادر جونیجو نے لکھا تھا جسے بعد میں اردو زبان میں دیواریں کے نام سے پیش کیا گیا جس میں اس نے ایک پولیس کے سپاہی کا کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا ڈرامہ سیریل ''جنگل'' تھا جس نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی اس میں بھی اس نے ایک باپ کا رول ادا کیا تھا۔
اس کے علاوہ دیگر ڈراموں نوری، عورت کہانی، جانگلوس، باادب باملاحظہ، زندان نجات، فٹ پاتھ، ادھورو انسان، ساگر کے آنسو، کونج وغیرہ بہت سارے نام شامل ہیں۔ سندھی فلموں میں محبوب مٹھا، مٹھڑاشال ملن، محب شیدی، گھونگھٹ لاھ کنوار اور اردو فلموں میں استادوں کے استاد، خطرناک حسینہ شامل ہیں جب کہ اس نے ہالی وڈ کی ایک انگریزی فلم میں بھی کام کیا تھا جس میں بالی وڈ کی اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھی کردار ادا کیا تھا جو یعقوب کے پرفارمنس سے بڑی متاثر ہوئیں اور اسے ہندوستان میں بننے والی فلم چٹان میں ایک اچھا کردار کی پیشکش کی جو وہ اپنے حالات کی وجہ سے قبول نہیں کرسکے۔
بلاشبہ اس دنیا میں غریب فنکاروں کو نہ تو جیتے جی نہ مرنے کے بعد کوئی پوچھتا ہے جو بڑی ناانصافی ہے۔ وہ جب میرے پاس سندھی چینل پر آتے تھے تو مجھے اس کی ہر بات میں فن نظر آتا تھا، بڑے ملنسار، خوددار، محنتی اور بااخلاق انسان تھے۔ ایک مرتبہ باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ میں حیران ہوں کہ ہمارے ملک کے بڑے اچھے ادیب امر جلیل نے اسے ملتے ہوئے اس کے ہاتھ اور ماتھے کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ملک میں تجھ جیسے فنکار ہیں۔ اس بات پر یعقوب کی آنکھوں سے خوشی میں آنسو نکل آئے کہ کوئی تو اتنا بڑا آدمی ہے جو اس کی اور اس کے فن کی عزت اور قدر تھا۔
اس کا ساتھ زندگی نے بھی اس طرح چھوڑا کہ سن کر اس کے چاہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے اشک روک نہیں سکے۔ جس دن اسے دل کا دورہ ہوا تو وہ دن عیدالاضحی کا تھا اور اسے جب سول اسپتال حیدرآباد لے گئے تو وہاں پر عید کی چھٹی کی وجہ سے ڈاکٹر اور دوسرا عملہ بہت کم تھا اور وہ کافی دیر تک ایسے ہی پڑا رہا۔ 9 دسمبر 2008 کو اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔
میں حکومت سندھ اور حکومت پاکستان سے اپیل کرتا ہوں جس میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کہ وہ اس لاوارث غریب فنکار کے لیے بعد از موت پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعلان کریں اور اس کے خاندان کی مالی مدد بھی کریں جس کا اجر انھیں اللہ تعالیٰ دے گا۔