مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ کی یاد میں
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا رحمتہ اللہ علیہ کے نقش ِ قدم پر چلنے والوں کو توفیق ِ کامل اور جذبہ صادق عطا فرمائے۔
جون کے مہینے کا آغاز نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک عظیم سانحہ سے عبارت ہے جب ہم نابغہ روزگار حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ صاحب ، شیخ العرب وعجم قدس سرہ کی رحلت کے صدمے سے دوچار ہوئے تھے۔
مسلسل طویل علالت کے بعد 2 جون 2013ء بروز اتوار بمطابق 22 رجب 1434 ھ عصر کے بعد ان کی حالت نازک ہوگئی اور غروب ِ آفتاب کے بعد جب پیر 23رجب کی شب کا آغاز ہوا تو ان کی پاک روح اپنے قفس عنصری سے پرواز کر کے خالقِ حقیقی سے جاملی ۔ موت العالمِ ،موت العالَم !
اِس حقیر و فقیر اور بندہ ناچیز کو جب ان کے پیارے خلیفہ اور اپنے داماد سید غضنفر علی رضوی کے توسط سے حضرت والا کے دیدارِ پرُ انوار کی سعادت نصیب ہوئی تو اس وقت آپ فالج کے حملے کے بعد بستر علالت پر خانقاہ ِ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچی کے کمرہِ مخصوص میں آرام فرما رہے تھے ۔ نہایت پاکیزہ اور پُر نور زندگی کے تقریباََ تیرہ سال آپ نے اسی حالت میں گزارے لیکن تادم آخر صبر ِایوبی کا شاہکار اورراضی بہ رضا کی جیتی جاگتی تصویر بنے رہے۔ کیا مجال جو کبھی صبر کا پیمانہ ذرا سا بھی چھلکا ہو یا پائے استقامت میں لمحہ بھر کے لیے بھی لغزش آئی ہو۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا حضرت والا قدس سرہ کا طرہ امتیازتھا ۔ آپ کی پوری حیاتِ باصفات اسی وصف سے مزیّن تھی ۔
زندگی ایک سفر ہے ۔ اس سفر میں دوطرح کے لوگ شامل ہیں ۔ ایک وہ جو اس سفر کو اپنے اوپر حاوی کرلیتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس سفر پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہ دوسرے والے لوگ ہی اصل میں کامیاب لوگ ہیں ۔ ان لوگوں کی پوری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہی گزرتی ہیں اور انھیں دنیا داری میں الجھے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ۔ یہ غازی اور پُر اسرار بندے اللہ تعالیٰ کے دین مبین کی تبلیغ کے علاوہ ذکر الٰہی سے بھی سرشاررہتے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اپنے نفس کو کچل دینا اور خون ِ تمنا کر کے فریبِ دنیا سے بچنا ہی عاقبت سنوار تے اور اپنے رب کو راضی رکھنے کا واحد راستہ ہے ۔
چنانچہ زندگی بھر حضرت والاخود بھی اس پُر خار راستے پر نہایت ثابت قدمی سے گامزن رہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین فرماتے رہے ۔ ان کے کلا م میں بھی جا بجا اسی پر زور ہے :
جس نے مرشد سے لیا خون ِ تمنا کا سبق
اس کے دل میں ہمہ دم جلوہ ء جاناں پایا
خونِ ارماں سے دل کو رنگیں کر
میر ؔ رکھا ہے کیا نظاروں میں
جب ملا درد خونِ حسرت سے
کیا کہوں اس کا ذوقِ ایمانی
جس جگہ گرتا ہے خون آرزو
لے نہ لے بوسہ کہیں خود آسماں
حضرت حکیم صاحبؒ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا کہ انھیں اپنے عہد کے تین مشائخ عظام کی طویل خدمت اور محبت میسر آئی جس نے انھیں پارس بنا دیا کہ اگر اس سے مٹی بھی چھو جائے تو سونا بن جائے۔ اول حضرت مولانا محمد احمد ؒصاحب پر تاب گڑھی، دوئم حضرت مولانا شاہ عبدالغنی ؒ صاحب پھول پوری اور سوئم حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ؒ صاحب۔ ان تینوں اصحاب کا شمار میکدہ تھانوی ؒ کے سرکردہ بادہ خواروں میں ہوتا ہے۔ اپنے ان تینوں بزرگوں کی صحبت صالح کی جانب آپ نے درج ذیل شعر میں نہایت خوب صورت اشارہ فرمایا ہے : ۔
کسی اہل دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخترؔ
اُسے آگیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا
شاہ صاحب ؒ نے ساتویں جماعت تک ابتدائی تعلیم اُس زمانے کے دستور کے مطابق حاصل کی اور اسی کے بعد اپنے والد بزرگوار کے اصرار پر طبیہ کالج الہ آباد سے باقاعدہ طب کی تعلیم حاصل فرمائی ۔ چونکہ آپ کا طبعی رجحان شروع ہی سے اسلامی علوم کی جانب تھا چنانچہ آپ نے فارسی زبان بھی تعلیم کے دوران ہی سیکھ لی تھی اور بہت جلد اس پر دسترس بھی حاصل کرلی ۔ علمائے حق اور بزرگانِ دین کے مواعظ میں شرکت کا ذوق و شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا اور دنیا داری سے بے رغبتی اور خلوت پسندی آپ کے خمیر میں شامل تھی جس کا اظہار اس شعر سے ظاہر ہے:
مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا
ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا
حضرت حکیم صاحب ؒقدس سرہ کی ذاتِ گرامی سالکین ِ طریقت کے لیے سر چشمہ فیض تھی جس نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کا رخ تبدیل کر دیا اور اور ان کے تاریک دلوں کو نور حق سے منور کر دیا ۔ اقبال نے ٹھیک ہی کہا ہے :
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
درد ِ دل کی دولت ِ بے حساب و بے پایا ں آپ کو خزانہ خداوند سے عطا ہوئی تھی جسے آپ ؒ نے دریادلی کے ساتھ لوگوں میں آخری دم تک تقسیم فرمایا۔ اپنے شیخ ثانی حضرت شاہ ابرار الحق ؒ صاحب قدس سرہ کے حکم کے مطابق حضرت والا نے خانقاہ ِ امداد یہ ا شرفیہ پہلے ناظم آباد اور پھر گلشن اقبال میں قائم کی جو دنیا بھر کے سالکین طریقت کے لیے مرکز ِ ثقلِ بن گئی ۔ حضرت حکیم صاحب ؒ قدس سرہ کا در سِ مثنوی اس قدر مقبول ہوا کہ اس کی خوشبو چار دانگ ِ عالم میں پھیل گئی اور بعد میں اس کی اشاعت '' معارف ِ مثنوی '' کے عنوان سے ہوئی ۔ اس کے بعدآپ ؒ نے خود مثنوی تصنیف فرمائی۔ آپ کی بہت ساری کتابوں کے تراجم عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی 23 زبانوں بشمول چینی ، روسی زبانوں میں شایع ہوکر مقبولیت و پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔
جس طرح امیر خسروؒ پر حضرت نظام الدین ؒ اولیاء کا رنگ چڑھا ہوا تھا اسی طرح حضرت حکیم صاحبؒ بھی سر تا پا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اسی نسبت سے انھوں نے اپنے مرکزِ فیض کا نام ـ''اشرف المدارس '' رکھا ۔ حکیم صاحب ؒ کی مجالس کسی زاہد ِ خشک کی مجالس نہیں ہوتی تھیں۔ ان پُر لطف مجالس میں اعلیٰ درجہ کی شاعری کا تڑکا لگا ہوا ہوتا تھا ۔ ان مجالس ِ بے بدل میں شعرو سخن کی آمیزش کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ مزاح المومنین کی چاشنی بھی ہوتی تھی۔ خود حضرت والاؒ کی منفرد بلند پایہ شاعری کی روح پرورخوشبو ان مجالس کو معطر کردیتی تھی۔ ڈھاکا ، بنگلہ دیش میں مقیم حضرت حکیم صاحب ؒ کے اجل خلیفہ حضرت شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکا تہم کی روح پرور مجالس نہ صرف حضرت والاؒ کی یاد کو تازہ کر دیتی ہیں بلکہ سننے والوں کی روح کو بھی ترو تازہ کر دیتی ہیں ۔
اگر چہ حضرت حکیم اختر ؒ صاحب قدس سرہ آج ہمارے سروں پر سایہ فگن نہیں ہیں لیکن انھوں نے جو باقیات اور اپنے تربیت یافتہ افراد و ثمرات چھوڑے ہیں وہ ان کا انمول ورثہ ہیں :
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شُد بہ عشق
ثبت است بر جریدہء عالم دوامِ ما
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا رحمتہ اللہ علیہ کے نقش ِ قدم پر چلنے والوں کو توفیق ِ کامل اور جذبہ صادق عطا فرمائے اور دنیا داری و ظاہر داری سے باز اور محفوظ رکھے ۔ آمین
مسلسل طویل علالت کے بعد 2 جون 2013ء بروز اتوار بمطابق 22 رجب 1434 ھ عصر کے بعد ان کی حالت نازک ہوگئی اور غروب ِ آفتاب کے بعد جب پیر 23رجب کی شب کا آغاز ہوا تو ان کی پاک روح اپنے قفس عنصری سے پرواز کر کے خالقِ حقیقی سے جاملی ۔ موت العالمِ ،موت العالَم !
اِس حقیر و فقیر اور بندہ ناچیز کو جب ان کے پیارے خلیفہ اور اپنے داماد سید غضنفر علی رضوی کے توسط سے حضرت والا کے دیدارِ پرُ انوار کی سعادت نصیب ہوئی تو اس وقت آپ فالج کے حملے کے بعد بستر علالت پر خانقاہ ِ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچی کے کمرہِ مخصوص میں آرام فرما رہے تھے ۔ نہایت پاکیزہ اور پُر نور زندگی کے تقریباََ تیرہ سال آپ نے اسی حالت میں گزارے لیکن تادم آخر صبر ِایوبی کا شاہکار اورراضی بہ رضا کی جیتی جاگتی تصویر بنے رہے۔ کیا مجال جو کبھی صبر کا پیمانہ ذرا سا بھی چھلکا ہو یا پائے استقامت میں لمحہ بھر کے لیے بھی لغزش آئی ہو۔ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا حضرت والا قدس سرہ کا طرہ امتیازتھا ۔ آپ کی پوری حیاتِ باصفات اسی وصف سے مزیّن تھی ۔
زندگی ایک سفر ہے ۔ اس سفر میں دوطرح کے لوگ شامل ہیں ۔ ایک وہ جو اس سفر کو اپنے اوپر حاوی کرلیتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس سفر پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہ دوسرے والے لوگ ہی اصل میں کامیاب لوگ ہیں ۔ ان لوگوں کی پوری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہی گزرتی ہیں اور انھیں دنیا داری میں الجھے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے ۔ یہ غازی اور پُر اسرار بندے اللہ تعالیٰ کے دین مبین کی تبلیغ کے علاوہ ذکر الٰہی سے بھی سرشاررہتے ہیں۔ یہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اپنے نفس کو کچل دینا اور خون ِ تمنا کر کے فریبِ دنیا سے بچنا ہی عاقبت سنوار تے اور اپنے رب کو راضی رکھنے کا واحد راستہ ہے ۔
چنانچہ زندگی بھر حضرت والاخود بھی اس پُر خار راستے پر نہایت ثابت قدمی سے گامزن رہے اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین فرماتے رہے ۔ ان کے کلا م میں بھی جا بجا اسی پر زور ہے :
جس نے مرشد سے لیا خون ِ تمنا کا سبق
اس کے دل میں ہمہ دم جلوہ ء جاناں پایا
خونِ ارماں سے دل کو رنگیں کر
میر ؔ رکھا ہے کیا نظاروں میں
جب ملا درد خونِ حسرت سے
کیا کہوں اس کا ذوقِ ایمانی
جس جگہ گرتا ہے خون آرزو
لے نہ لے بوسہ کہیں خود آسماں
حضرت حکیم صاحبؒ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا کہ انھیں اپنے عہد کے تین مشائخ عظام کی طویل خدمت اور محبت میسر آئی جس نے انھیں پارس بنا دیا کہ اگر اس سے مٹی بھی چھو جائے تو سونا بن جائے۔ اول حضرت مولانا محمد احمد ؒصاحب پر تاب گڑھی، دوئم حضرت مولانا شاہ عبدالغنی ؒ صاحب پھول پوری اور سوئم حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ؒ صاحب۔ ان تینوں اصحاب کا شمار میکدہ تھانوی ؒ کے سرکردہ بادہ خواروں میں ہوتا ہے۔ اپنے ان تینوں بزرگوں کی صحبت صالح کی جانب آپ نے درج ذیل شعر میں نہایت خوب صورت اشارہ فرمایا ہے : ۔
کسی اہل دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخترؔ
اُسے آگیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا
شاہ صاحب ؒ نے ساتویں جماعت تک ابتدائی تعلیم اُس زمانے کے دستور کے مطابق حاصل کی اور اسی کے بعد اپنے والد بزرگوار کے اصرار پر طبیہ کالج الہ آباد سے باقاعدہ طب کی تعلیم حاصل فرمائی ۔ چونکہ آپ کا طبعی رجحان شروع ہی سے اسلامی علوم کی جانب تھا چنانچہ آپ نے فارسی زبان بھی تعلیم کے دوران ہی سیکھ لی تھی اور بہت جلد اس پر دسترس بھی حاصل کرلی ۔ علمائے حق اور بزرگانِ دین کے مواعظ میں شرکت کا ذوق و شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا اور دنیا داری سے بے رغبتی اور خلوت پسندی آپ کے خمیر میں شامل تھی جس کا اظہار اس شعر سے ظاہر ہے:
مری زندگی کا حاصل مری زیست کا سہارا
ترے عاشقوں میں جینا ترے عاشقوں میں مرنا
حضرت حکیم صاحب ؒقدس سرہ کی ذاتِ گرامی سالکین ِ طریقت کے لیے سر چشمہ فیض تھی جس نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کا رخ تبدیل کر دیا اور اور ان کے تاریک دلوں کو نور حق سے منور کر دیا ۔ اقبال نے ٹھیک ہی کہا ہے :
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
درد ِ دل کی دولت ِ بے حساب و بے پایا ں آپ کو خزانہ خداوند سے عطا ہوئی تھی جسے آپ ؒ نے دریادلی کے ساتھ لوگوں میں آخری دم تک تقسیم فرمایا۔ اپنے شیخ ثانی حضرت شاہ ابرار الحق ؒ صاحب قدس سرہ کے حکم کے مطابق حضرت والا نے خانقاہ ِ امداد یہ ا شرفیہ پہلے ناظم آباد اور پھر گلشن اقبال میں قائم کی جو دنیا بھر کے سالکین طریقت کے لیے مرکز ِ ثقلِ بن گئی ۔ حضرت حکیم صاحب ؒ قدس سرہ کا در سِ مثنوی اس قدر مقبول ہوا کہ اس کی خوشبو چار دانگ ِ عالم میں پھیل گئی اور بعد میں اس کی اشاعت '' معارف ِ مثنوی '' کے عنوان سے ہوئی ۔ اس کے بعدآپ ؒ نے خود مثنوی تصنیف فرمائی۔ آپ کی بہت ساری کتابوں کے تراجم عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی 23 زبانوں بشمول چینی ، روسی زبانوں میں شایع ہوکر مقبولیت و پزیرائی حاصل کر چکے ہیں۔
جس طرح امیر خسروؒ پر حضرت نظام الدین ؒ اولیاء کا رنگ چڑھا ہوا تھا اسی طرح حضرت حکیم صاحبؒ بھی سر تا پا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اسی نسبت سے انھوں نے اپنے مرکزِ فیض کا نام ـ''اشرف المدارس '' رکھا ۔ حکیم صاحب ؒ کی مجالس کسی زاہد ِ خشک کی مجالس نہیں ہوتی تھیں۔ ان پُر لطف مجالس میں اعلیٰ درجہ کی شاعری کا تڑکا لگا ہوا ہوتا تھا ۔ ان مجالس ِ بے بدل میں شعرو سخن کی آمیزش کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ مزاح المومنین کی چاشنی بھی ہوتی تھی۔ خود حضرت والاؒ کی منفرد بلند پایہ شاعری کی روح پرورخوشبو ان مجالس کو معطر کردیتی تھی۔ ڈھاکا ، بنگلہ دیش میں مقیم حضرت حکیم صاحب ؒ کے اجل خلیفہ حضرت شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکا تہم کی روح پرور مجالس نہ صرف حضرت والاؒ کی یاد کو تازہ کر دیتی ہیں بلکہ سننے والوں کی روح کو بھی ترو تازہ کر دیتی ہیں ۔
اگر چہ حضرت حکیم اختر ؒ صاحب قدس سرہ آج ہمارے سروں پر سایہ فگن نہیں ہیں لیکن انھوں نے جو باقیات اور اپنے تربیت یافتہ افراد و ثمرات چھوڑے ہیں وہ ان کا انمول ورثہ ہیں :
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شُد بہ عشق
ثبت است بر جریدہء عالم دوامِ ما
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا رحمتہ اللہ علیہ کے نقش ِ قدم پر چلنے والوں کو توفیق ِ کامل اور جذبہ صادق عطا فرمائے اور دنیا داری و ظاہر داری سے باز اور محفوظ رکھے ۔ آمین