وہم وگمان سے ماورا دنیا
اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ بعض ماہرین کی رائے کیا ہے
پوری دنیا مہینوں خوف سے سہمی اپنے گھروں میں قید رہی۔ اب آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن ختم ہورہا ہے۔ قواعد و ضوابط میں نرمی کی جارہی ہے اور لوگوں نے گھروں سے نکلنا شروع کردیا ہے۔ حالات ٹھیک نہیں ہوئے ہیں، کورونا وائرس سے بچاؤ کی اب تک کوئی دوا یا ویکسین بھی تیار نہیں ہوئی ہے، شاید اس کام میں 6 ماہ یا ایک سال بھی لگ جائے لیکن ایک بات یہ طے ہے کہ انسانوں کو کافی عرصے تک اس وائرس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہوگی اورخوف کو لاشعور میں ڈال کر زندگی کا ایک نیا طرز اختیار کرنا ہوگا۔
ماضی کی ایک دو نہیں بلکہ کئی عادتوں اور طور طریقوں کوبھی تبدیل کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا یقینا بہت مشکل ہے کیونکہ ہزاروں برس کی عادتیں اچانک تبدیل نہیں کی جاسکتیں لیکن اب ایسا کرناسب کی ضرورت اور مجبوری بن گئی ہے، ذرا سی بے احتیاطی جان لیوا ہوسکتی ہے بالخصوص 10 سال سے کم عمر بچوں اور 55 سال سے زیادہ عمر کے لوگ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وبا کے بعد ہماری زندگی میں کیا تبدیلیاں ناگزیر ہوجائیں گی۔
پچھلے چار ماہ کے تجربے نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ پہلے ہم چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے براہ راست رابطے میں آیا جائے، اب ترجیح یہ ہوتی ہے کہ لوگوں اور پرہجوم جگہوں سے بچا جائے۔ پہلے اگر کسی کام کے بارے میں آجر سے یہ کہا جاتا تھا کہ گھر پر بیٹھ کر یہ کام کیا جاسکتا ہے تو جواب ملتا تھا کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اب کسی سے کہا جائے کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوکر یہ کام کردوں گا تو جواب عموماً یہی ملے گا کہ بھلا تشریف لانے کی کیاضرورت ہے، آپ یہ کام گھرسے بھی تو کرسکتے ہیں۔ کبھی ساتھ اور قربت سے تحفظ کا احساس پیدا ہوتا تھا، اب دور رہ کر انسان خود کو محفوظ تصور کرنے لگیں گے۔
اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ بعض ماہرین کی رائے کیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر پیٹر۔ ٹی کول مین کا خیال ہے کہ کورونا کے حملے کے بعد اب قوموں کی نفسیات میں تبدیلی رونما ہوگی۔ ان کا خیال ہے امریکا جیسا ملک جو 50 سال سے جس سیاسی اور ثقافتی محاذ آرائی میں پھنسا ہوا ہے، وہ اب اس سے نکل آئے گا۔ یہ وائرس لوگوں کو متحد کردے گا کیوں کہ یہ ایک ایسا بیرونی خطرہ ہے جو ہرنسلی، لسانی، ثقافتی اور سیاسی شناخت کو یکساں طور پرمتاثر کررہا ہے۔
لہٰذا لوگ اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اگر ہم آپس میں لڑتے رہے تو یہ یا اس کے بعد آنے والا کوئی نیا وائرس ہم کو اجتماعی طورپر فنا کردے گا۔ گویا یہ ایک ایسا مشترکہ دشمن ہے جو تمام تلخیاں اور محاذ آرائیاں ختم کرکے لوگوں کو متحد کردے گا۔ امریکا کے نیول وار کالج کے پروفیسر ٹام نکولس کا نقطہ نظر ہے کہ ہم زندگی کے معاملات میں بہت مگن ہوگئے تھے اور سنجیدہ باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ اب لوگ ماہرین کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اب لوگوں کی نظر میں ڈاکٹر اہم ہوگئے ہیں۔
اس وبا کے دوران حکومتوں کی کارکردگی دیکھ کر لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ حکومت کرنا ایک سنجیدہ عمل ہے اور اس کے لیے جذباتی نہیں بلکہ سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماجیات کے پروفیسر ایرک کلن برگ کا تجزیہ ہے کہ اس وبا نے منڈیوں پر قائم سماج اور انتہا درجے کی انفرادیت پسندی پرکاری ضرب لگائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معیشت اور منڈی پر حاوی طبقات اور ان کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں نے اس تباہ کن وبا کے دور میں عام آدمی کے مفادات کا کم خیال رکھا ہے جس سے لوگوں کو بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ اب حکومتوں کو اپنا انداز بدلنا ہوگا اور صحت عامہ اورعام لوگوں کو اشیا کی فراہمی پر کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
لوگ اب یہ دیکھا کریں گے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس کیا کوئی ایسا منصوبہ موجود ہے جس سے وہ کسی بھی ناگہانی مصیبت کابہتر اندازمیںسامنا کرسکیں اور لوگوں کو مرنے سے بچاسکیں۔ اسی طرح ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ لوگوں میں خوف کا احساس جاں گزیں رہتا ہے لہٰذا وہ سکون پانے کے لیے بڑی تعداد میں مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
اب ان پر کوروناکا خوف غالب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں تمام مذاہب کی بڑی بڑی عبادت گاہیں بند کردی گئی ہیں۔ اس بات کا پورا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رویہ ترک کردیں گے ، مذہبی بنیادوں پر محاذ آرائی میں کمی ہوگی اور لوگ مذاہب کی تفہیم کے حوالے سے بھی نیا انداز اختیار کریں گے۔ ایک تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ اس وبا نے لوگوں کو اس امر پر متحد کردیا ہے کہ وہ حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ ہیلتھ کیئر کے نظام کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اسے بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات بروئے کام لائے جائیں۔ روز ویلیٹ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر اسفھ اسٹرلنگ نے بڑا اہم تجزیہ کیا ہے۔
ان کاکہناہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دنیا میں کئی وبائیں آچکی ہیں اور حکومتوں کو اس بوجھ کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس دوران یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دنیا میں منڈی کی معیشت پر قائم نظام کے تحت دواؤں اور ویکسین کی تحقیق اور تیاری کا نظام بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نجی فارما سیوٹیکل کمپنیاں کسی بھی ویکسین اور ادویات کو اس وقت تک تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی ہیں جب تک اس میں ان کو یقینی منافع نظر نہیں آتا۔ اس وبا کے دوران بھی یہ مظہر کھل کر سامنے آیا ہے کہ مصیبت پڑنے پر حکومتوں اور دیگر ذرائع سے کافی سرمایہ فراہم کرنے کے باوجود کورونا وائرس کی ویکسین آنے میں سال سے اٹھارہ مہینے لگ جائیں گے۔
منڈی کی معیشت میں کوئی ادارہ یا کاروباری کمپنی عوام اور صارف کے مفاد میں سرمایہ کاری نہیں کرتی بلکہ وہ ایسا اس وقت کرتی ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ سرمایہ کاری سے اسے یقینی منافع حاصل ہوگا۔ اس وائرس نے یہ سفاک حقیقت آشکار کردی ہے کہ عوام کو منڈیوں کے ان بے رحم طاقتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جنھیں انسانی زندگی کی کم اور اپنے منافع کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملک ہوں یا غریب ملک ہر جگہ منافع کے حصول کو پہلی ترجیح دیتی جاتی ہے اور عوام کی زندگیوں کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔
لہٰذا اب حکومتوں کے سامنے صرف دو راستے ہی باقی بچے ہیں وہ ادویات اورصحت سے متعلق نجی کاروباری کمپنیوں کے مفادات کو پیش نظر رکھیں یا عوام کو لاکھوں کی تعداد میں مرنے،بیمار ہونے کے لیے چھوڑ دیں اور معیشت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ آیندہ آنے والے دنوں میں حکومتوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی۔ حکومتوںکو خود ایک بڑی ادویاتی یا فارما کمپنی کی طرح کام کرنا ہوگا۔ منافع کی فکر سے آزاد ہوکر انھیں جان بچانے والی ادویات اور ویکسین کی تیاری اور تحقیق میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گویا حکومتیں خود فارماکمپنیاں بن جائیں گی۔
امریکا اور یورپ سمیت کئی ملکوں کی حکومتوں کو کئی کھرب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ وہ سرکاری شعبے میں ویکسین اور ادویات کی تحقیق اور جلد تیاری کے لیے منافع کی لالچ کیے بغیر چند ارب ڈالر خرچ کرسکتی ہیں۔ انھوں نے ایسا نہ کیا تو ووٹر انھیں سیاست کے میدان سے نکال باہر کریں گے۔
کورونا کی وبا جب بھی ختم ہو یہ امر طے ہے کہ پوری دنیا کے سات ارب سے زیادہ لوگ جس ہولناک تجربے سے گزرے ہیں اس نے انھیں پرانی سوچ ترک کرکے نئی سوچ اور طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ کورونا کے بعد دنیا میں سیاست، معیشت، معاشرت، اقدار، رہن سہن، عادت و اطوار، جذباتی اور نفسیاتی کیفیات سب تبدیل ہوجائیں گی۔ اس نئی دنیامیں ہر چیز بدلی ہوئی ہوگی۔
ایک ایسی دنیا جو چار ماہ پہلے تک ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
ماضی کی ایک دو نہیں بلکہ کئی عادتوں اور طور طریقوں کوبھی تبدیل کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا یقینا بہت مشکل ہے کیونکہ ہزاروں برس کی عادتیں اچانک تبدیل نہیں کی جاسکتیں لیکن اب ایسا کرناسب کی ضرورت اور مجبوری بن گئی ہے، ذرا سی بے احتیاطی جان لیوا ہوسکتی ہے بالخصوص 10 سال سے کم عمر بچوں اور 55 سال سے زیادہ عمر کے لوگ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وبا کے بعد ہماری زندگی میں کیا تبدیلیاں ناگزیر ہوجائیں گی۔
پچھلے چار ماہ کے تجربے نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ پہلے ہم چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے براہ راست رابطے میں آیا جائے، اب ترجیح یہ ہوتی ہے کہ لوگوں اور پرہجوم جگہوں سے بچا جائے۔ پہلے اگر کسی کام کے بارے میں آجر سے یہ کہا جاتا تھا کہ گھر پر بیٹھ کر یہ کام کیا جاسکتا ہے تو جواب ملتا تھا کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اب کسی سے کہا جائے کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوکر یہ کام کردوں گا تو جواب عموماً یہی ملے گا کہ بھلا تشریف لانے کی کیاضرورت ہے، آپ یہ کام گھرسے بھی تو کرسکتے ہیں۔ کبھی ساتھ اور قربت سے تحفظ کا احساس پیدا ہوتا تھا، اب دور رہ کر انسان خود کو محفوظ تصور کرنے لگیں گے۔
اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ بعض ماہرین کی رائے کیا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے پروفیسر پیٹر۔ ٹی کول مین کا خیال ہے کہ کورونا کے حملے کے بعد اب قوموں کی نفسیات میں تبدیلی رونما ہوگی۔ ان کا خیال ہے امریکا جیسا ملک جو 50 سال سے جس سیاسی اور ثقافتی محاذ آرائی میں پھنسا ہوا ہے، وہ اب اس سے نکل آئے گا۔ یہ وائرس لوگوں کو متحد کردے گا کیوں کہ یہ ایک ایسا بیرونی خطرہ ہے جو ہرنسلی، لسانی، ثقافتی اور سیاسی شناخت کو یکساں طور پرمتاثر کررہا ہے۔
لہٰذا لوگ اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اگر ہم آپس میں لڑتے رہے تو یہ یا اس کے بعد آنے والا کوئی نیا وائرس ہم کو اجتماعی طورپر فنا کردے گا۔ گویا یہ ایک ایسا مشترکہ دشمن ہے جو تمام تلخیاں اور محاذ آرائیاں ختم کرکے لوگوں کو متحد کردے گا۔ امریکا کے نیول وار کالج کے پروفیسر ٹام نکولس کا نقطہ نظر ہے کہ ہم زندگی کے معاملات میں بہت مگن ہوگئے تھے اور سنجیدہ باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ اب لوگ ماہرین کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔ اب لوگوں کی نظر میں ڈاکٹر اہم ہوگئے ہیں۔
اس وبا کے دوران حکومتوں کی کارکردگی دیکھ کر لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ حکومت کرنا ایک سنجیدہ عمل ہے اور اس کے لیے جذباتی نہیں بلکہ سنجیدہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماجیات کے پروفیسر ایرک کلن برگ کا تجزیہ ہے کہ اس وبا نے منڈیوں پر قائم سماج اور انتہا درجے کی انفرادیت پسندی پرکاری ضرب لگائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ معیشت اور منڈی پر حاوی طبقات اور ان کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں نے اس تباہ کن وبا کے دور میں عام آدمی کے مفادات کا کم خیال رکھا ہے جس سے لوگوں کو بھاری جانی اور مالی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ اب حکومتوں کو اپنا انداز بدلنا ہوگا اور صحت عامہ اورعام لوگوں کو اشیا کی فراہمی پر کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
لوگ اب یہ دیکھا کریں گے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس کیا کوئی ایسا منصوبہ موجود ہے جس سے وہ کسی بھی ناگہانی مصیبت کابہتر اندازمیںسامنا کرسکیں اور لوگوں کو مرنے سے بچاسکیں۔ اسی طرح ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ لوگوں میں خوف کا احساس جاں گزیں رہتا ہے لہٰذا وہ سکون پانے کے لیے بڑی تعداد میں مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔
اب ان پر کوروناکا خوف غالب ہے جس کی وجہ سے دنیا میں تمام مذاہب کی بڑی بڑی عبادت گاہیں بند کردی گئی ہیں۔ اس بات کا پورا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رویہ ترک کردیں گے ، مذہبی بنیادوں پر محاذ آرائی میں کمی ہوگی اور لوگ مذاہب کی تفہیم کے حوالے سے بھی نیا انداز اختیار کریں گے۔ ایک تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ اس وبا نے لوگوں کو اس امر پر متحد کردیا ہے کہ وہ حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ ہیلتھ کیئر کے نظام کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اسے بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات بروئے کام لائے جائیں۔ روز ویلیٹ انسٹی ٹیوٹ کے نائب صدر اسفھ اسٹرلنگ نے بڑا اہم تجزیہ کیا ہے۔
ان کاکہناہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دنیا میں کئی وبائیں آچکی ہیں اور حکومتوں کو اس بوجھ کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس دوران یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دنیا میں منڈی کی معیشت پر قائم نظام کے تحت دواؤں اور ویکسین کی تحقیق اور تیاری کا نظام بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نجی فارما سیوٹیکل کمپنیاں کسی بھی ویکسین اور ادویات کو اس وقت تک تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی ہیں جب تک اس میں ان کو یقینی منافع نظر نہیں آتا۔ اس وبا کے دوران بھی یہ مظہر کھل کر سامنے آیا ہے کہ مصیبت پڑنے پر حکومتوں اور دیگر ذرائع سے کافی سرمایہ فراہم کرنے کے باوجود کورونا وائرس کی ویکسین آنے میں سال سے اٹھارہ مہینے لگ جائیں گے۔
منڈی کی معیشت میں کوئی ادارہ یا کاروباری کمپنی عوام اور صارف کے مفاد میں سرمایہ کاری نہیں کرتی بلکہ وہ ایسا اس وقت کرتی ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ سرمایہ کاری سے اسے یقینی منافع حاصل ہوگا۔ اس وائرس نے یہ سفاک حقیقت آشکار کردی ہے کہ عوام کو منڈیوں کے ان بے رحم طاقتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جنھیں انسانی زندگی کی کم اور اپنے منافع کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملک ہوں یا غریب ملک ہر جگہ منافع کے حصول کو پہلی ترجیح دیتی جاتی ہے اور عوام کی زندگیوں کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی۔
لہٰذا اب حکومتوں کے سامنے صرف دو راستے ہی باقی بچے ہیں وہ ادویات اورصحت سے متعلق نجی کاروباری کمپنیوں کے مفادات کو پیش نظر رکھیں یا عوام کو لاکھوں کی تعداد میں مرنے،بیمار ہونے کے لیے چھوڑ دیں اور معیشت کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ آیندہ آنے والے دنوں میں حکومتوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہوگی۔ حکومتوںکو خود ایک بڑی ادویاتی یا فارما کمپنی کی طرح کام کرنا ہوگا۔ منافع کی فکر سے آزاد ہوکر انھیں جان بچانے والی ادویات اور ویکسین کی تیاری اور تحقیق میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گویا حکومتیں خود فارماکمپنیاں بن جائیں گی۔
امریکا اور یورپ سمیت کئی ملکوں کی حکومتوں کو کئی کھرب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ وہ سرکاری شعبے میں ویکسین اور ادویات کی تحقیق اور جلد تیاری کے لیے منافع کی لالچ کیے بغیر چند ارب ڈالر خرچ کرسکتی ہیں۔ انھوں نے ایسا نہ کیا تو ووٹر انھیں سیاست کے میدان سے نکال باہر کریں گے۔
کورونا کی وبا جب بھی ختم ہو یہ امر طے ہے کہ پوری دنیا کے سات ارب سے زیادہ لوگ جس ہولناک تجربے سے گزرے ہیں اس نے انھیں پرانی سوچ ترک کرکے نئی سوچ اور طرز زندگی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ کورونا کے بعد دنیا میں سیاست، معیشت، معاشرت، اقدار، رہن سہن، عادت و اطوار، جذباتی اور نفسیاتی کیفیات سب تبدیل ہوجائیں گی۔ اس نئی دنیامیں ہر چیز بدلی ہوئی ہوگی۔
ایک ایسی دنیا جو چار ماہ پہلے تک ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔