نئے سپہ سالار کو خوش آمدید

ہماری مغربی سرحد پر ملک کی سلامتی کے لیے نہ صرف پرانے خطرات موجود ہیں بلکہ نئے خطرات کے پیدا ہونے کے اندیشے بھی۔۔۔

S_afarooqi@yahoo.com

عزیز ہم وطنوں کو نیا سپہ سالار مبارک! خوش آمدید جنرل راحیل شریف! اس حسن انتخاب کے بعد ان تمام قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا جو ایک طویل عرصے سے جاری تھیں۔ معاملہ یہ تھا کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہر تجزیہ نگار اپنے اپنے دلائل اور منطق پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں مصروف تھا۔ سوال یہ تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے اس معاملے میں اتنی تاخیر کیوں کی جارہی تھی؟ اس سوال کا جواب اب کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔ دراصل وزیراعظم نواز شریف کا ماضی کا تجربہ بڑا تلخ تھا اور ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں تھی۔ سیانوں کے بقول دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ وزیراعظم کو ایک ایسا سپہ سالار درکار تھا جو تمام پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا حامل ہونے کے علاوہ قطعی بااعتماد یعنی ''شریف'' بھی ہو۔ کیا خوب حسن اتفاق ہے کہ شریف کو شریف مل گیا۔

ہماری دعا ہے کہ ہمارے نئے سپہ سالار نہ صرف وزیراعظم بلکہ ملک و قوم کی توقعات پر پورے اتریں۔ نئے سپہ سالار کا انتخاب کرکے میاں صاحب نے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس فیصلے پر وزیراعظم کے بعض قریبی حلقوں کو بھی حیرت ہوئی ہو جن سے صلاح و مشورے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا۔ مگر وزیراعظم نے اس اہم ترین فیصلہ سازی میں بزرگوں کی نصیحت ''سنو سب کی لیکن کرو اپنی'' پر عمل کرکے نہ صرف انتہائی دانش مندی کا ثبوت دیا ہے بلکہ اپنی سیاسی بلوغت کا ثبوت بھی پیش کردیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومت وقت ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم بھی اپنی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر کسی قسم کے ایڈونچرازم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ وطن عزیز میں جمہوریت کی گاڑی بڑی مشکل کے بعد دوبارہ پٹڑی پر چڑھی ہے، جسے اب ہر گز پٹڑی سے اترنا نہیں چاہیے۔ اس کا سب سے بڑا کریڈٹ ہمارے سابق سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جاتا ہے جنھوں نے اپنے پیش رو کی روش سے گریز کرنے میں کمال ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد پر فوقیت اور ترجیح دیتے ہوئے جمہوریت کے پرچم کو بلند رکھا۔ جنرل کیانی کا یہ وہ عظیم کارنامہ ہے کہ جس پر انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے، کیونکہ ہوس اقتدار بڑی بری بلا ہے جس سے پیچھا چھڑانا سب سے کٹھن کام ہے۔

قوی امید ہے کہ جنرل کیانی نے جو مثال قائم کی ہے، جنرل شریف بھی اس پر اسی ثابت قدمی اور خلوص نیت کے ساتھ عمل پیرا ہوکر دوسری مثال قائم کریں گے۔ جنرل شریف کے بارے میں بھی عام تاثر یہی ہے کہ وہ اسم بامسمیٰ ثابت ہوں گے اور اپنے فرائض منصبی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور جمہوریت کے استحکام کے لیے ادا کریں گے، انشاء اﷲ!


جنرل کیانی کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ وہ انتہائی متحمل مزاج شخصیت کے مالک اور ٹھنڈے مزاج کے حامل ہیں۔ وہ جو بھی قدم اٹھاتے تھے خوب سوچ سمجھ کر اٹھاتے تھے۔ شنید ہے کہ نئے سپہ سالار میں بھی یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ بھی مزاجاً بے حد متحمل ہیں اور ان کا پیشہ ورانہ ٹریک ریکارڈ بھی اس حوالے سے قطعی بے داغ اور لائق تحسین و ستائش ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی روش کو قدم بہ قدم اسی ثابت قدمی اور بردباری کے ساتھ اختیار کریں گے۔

افواج پاکستان کی علم برداری کا فریضہ جنرل شریف نے ایسے کٹھن اور نازک حالات میں سنبھالا ہے جب ملک و قوم کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان کے لیے نیا منصب کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ ایک کانٹوں کا تاج سر پر سجانے کے مترادف ہے۔ انھوں نے اس منصب کو سنبھال کر ایک وادی پرخار میں قدم رکھا ہے۔ بیرونی محاذ پر ہمارا ازلی حریف مشرقی سرحدوں پر نہ صرف موجود ہے بلکہ متحرک ہے اور کنٹرول لائن پر آئے دن فائرنگ کرکے نت نئی اشتعال انگیزی اور ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی شورش میں بھی درپردہ اس کا ہاتھ عرصہ دراز سے موجود ہے جس سے پوری پاکستانی قوم اور سیاسی و عسکری قیادت بخوبی آگاہ ہے۔ دوسری جانب ہمارے برادر ملک افغانستان کے موجودہ حکمران ہیں جو وقفے وقفے سے ہمارے لیے طرح طرح کی مشکلات و مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور جن کا بیرونی قوتوں کے ساتھ برسوں پرانا گٹھ جوڑ کوئی چھپی ہوئی حقیقت نہیں ہے۔

ہماری مغربی سرحد پر ملک کی سلامتی کے لیے نہ صرف پرانے خطرات موجود ہیں بلکہ نئے خطرات کے پیدا ہونے کے اندیشے بھی لاحق ہیں۔ ادھر طالبان کے نئے سربراہ مولوی فضل اﷲ جو سوات میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد فرار ہوکر افغانستان کے صوبے کنڑ میں چھپے بیٹھے ہیں، پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات سے انکار کرکے نت نئی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ادھر بلوچستان میں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بھی انتہائی مخدوش ہے اور اعلیٰ ترین عدالتوں میں لاپتہ افراد کے مقدمات بھی درد سر بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ملک کے تجارتی اور کاروباری دارالخلافہ کراچی کے حالات بھی بدستور تشویشناک ہیں اور حکومت اور عوام کے لیے مسلسل پریشانی و مشکلات کا باعث ہیں۔ ایک اندیشہ یہ بھی لاحق ہے کہ 2014 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وطن عزیز کے لیے بعض نئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایک نیا اندیشہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پڑوسی برادر ملک ایران کے ساتھ امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے حالیہ جنیوا معاہدے کے نتیجے میں ہمارے جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی نئی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

ملک و قوم کے لیے یہ امر انتہائی قابل اطمینان ہے کہ پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل راحیل شریف ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی حب الوطنی کسی تعارف اور ثبوت کی محتاج نہیں ہے اور جن کی شجاعت اور بہادری مسلمہ ثبوت ہے۔ دوسری جانب پیشہ ورانہ مہارت کے اعتبار سے بھی وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ ان کا پورا عسکری کیریئر بہترین کارکردگی سے عبارت ہے۔ وہ پاک فوج کے مختلف عہدوں پر قابل قدر خدمات انجام دینے کے بعد 15 ویں سربراہ کے منصب اعلیٰ پر فائز ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ان کا انتخاب خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر ہوا ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ انھوں نے کسی سفارش کے بغیر جنرل راحیل شریف کو ان کے نئے عہدے پر ترقی دی ہے۔ جنرل راحیل شریف ٹاپ پروفیشنل ہیں اور اسی بنا پر انھیں نیا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اس فیصلے میں سابق سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی مشاورت کی تھی۔ ہماری دعا ہے کہ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ ملک و قوم کے حق میں مبارک ثابت ہو۔
Load Next Story