365B اغوا برائے زیادتی کا قانون…

پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس میں کسی بالغ لڑکی لڑکے کا اپنی مرضی سے، گھر سے باہر جاکر شادی کرنا...

NEW DELHI:
قانون اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو درست رکھا جاسکے۔ اس لیے قانون کی عملداری، قانون کی رٹ اور قانون کے ہاتھ لمبے سے مماثلت دی جاتی ہے۔ معاشرے میں جنسی انحطاط کے اسباب و سدباب کا احاطہ کیے بغیر جب جنسی جرائم کے حوالے سے قانون سازی کی جاتی ہے تو فطری طور پر اس بات کو حرف آخر سمجھ لیا جاتا ہے کہ صنف نازک چونکہ کمزور اور ناتواں ہے، اس لیے اس کے حقوق صنف مخالف پر مقدم رکھے جائیں۔ جنسی جرائم کے حوالے سے پاکستان میں چوری چھپے حرکات کو معاشرتی اقدار کی بنا پر بہت کم ہی منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں جب صنف نازک کے ساتھ کوئی زیادتی سامنے آتی ہے تو قدرتی طور پر ہمدردیوں کے تمام رخ اس جانب موڑ دیے جاتے ہیں۔

2006ء میں حقوق نسواں کے حوالے سے بنائے گئے قوانین میں خواتین کو تحفظ کے نام پر لامحدود اختیارات دیے گئے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے، بہ رضا زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو اس کے راستے میں کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔ اگر اس عمل پر مداخلت ہو تو الٹا شکایت کنندہ گرفتار ہوسکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے قانون سازی کرتے وقت ایک اہم معاشرتی مسئلے پر انگلی رکھنے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ انسانی معاشرہ غلطیوں سے مبرا نہیں ہے، لیکن قانون کی نظر میں سب کو یکساں دیکھنے کی روش کا کم رجحان بہت سی معاشرتی خرابیوں کا سبب بن رہا ہے۔

365 کے تحت کارروائی میں جب "B" کا اضافہ کردیا جاتا ہے تو پھر اسے یوں پڑھا جاتا ہے کہ ''اغوا برائے زیادتی''۔ 365 میں "A"، اغوا برائے تاوان کے لیے نامزد کی جاتی ہے۔

پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس میں کسی بالغ لڑکی لڑکے کا اپنی مرضی سے، گھر سے باہر جاکر شادی کرنا جرم قرار پاتا ہو۔ تاہم کوئی بھی لڑکا، لڑکی اگر خاندان کی مرضی کے بغیر ازدواجی رشتے میں جڑنا چاہتے ہیں تو انھیں مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ جنسی بے راہ روی کے تحت بلا تخصیص طبقاتی تفریق کے عموماً ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جب بالغ لڑکا اور لڑکی، اپنے خاندان سے بغاوت کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرکے کسی دوسرے علاقے میں قانونی طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں یا اس کے بغیر باہمی رضامندی سے رہتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں جب لڑکی کے گھر والے، اپنی متاع حیات کو گھر میں نہیں پاتے ہیں تو معاشرتی رسوائی کے خوف سے خاموش رہنا پسند کرتے ہیں یا پھر حقیقت کو تسلیم کیے بغیر لڑکی کی گمشدگی کے بجائے کسی معصوم شخص پر اغوا کا الزام عاید کرکے ایف آئی آر درج کروا دیتے ہیں۔ چونکہ اغوا کی نوعیت کا تعین ضروری ہوتا ہے اس لیے قانون میں گنجائش نہ ہونے کے سبب لڑکی کے ورثا، زیادتی (زنا بالجبر) کا الزام عاید کر دیتے ہیں۔ یہ ثابت کیے بغیر کہ ایسا واقعہ رونما ہوا بھی ہے یا نہیں۔


پولیس اسی الزام کے تحت ورثا کی جانب سے مختلف افراد کو بھی ذیلی سیکشن 34 کے تحت شامل کرتی چلی جاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکی کے اغوا برائے زیادتی کے لیے 365/B کا یکساں قانون ورثا کے کہنے پر درج ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک سے زاید افراد کا یکساں جرم میں ملوث ہونا۔ عمومی طور پر پاکستان کی تعزیرات میں لڑکا اور لڑکی کے باہمی رضامندی سے گھر سے بھاگنا یا لڑکے کی جانب سے ورغلانا اور باہمی رغبت سے لڑکی کا چلے جانا، کوئی جرم نہیں کہلاتا اور پرویز مشرف کے دور حکومت کے قانون میں حقوق نسواں کے نام پر انھیں تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے قابل زدگردنی کے لیے اغوا برائے زیادتی کا مقدمہ درج کرادیا جاتا ہے۔ چونکہ اس قسم کے واقعات میں زوجین کی پوشیدگی تادیر قائم نہیں رہتی اس لیے پولیس رشتے داروں کی مدد سے لڑکی کو باآسانی بازیاب کرالیتی ہے اور زیادہ تر ایسے کیسوں میں دیکھا گیا کہ بالغ لڑکی نے اپنی رضا مندی کے ساتھ کورٹ جاکر بالغ لڑکے سے کورٹ میں نکاح کیا ہوتا ہے۔ تاہم چونکہ مقدمہ اغوا برائے زیادتی کا بنتا ہے اس لیے جوڑے کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

قانونی سقم یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ لڑکی کو اس کے بیان کے بعد اس کی مرضی کے مطابق دارالامان یا شوہر کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اگر گھر والوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے تو وہ رضا و رغبت سے جانے والے جوڑے میں لڑکا، جیل میں بھیج دیا جاتا ہے جب کہ لڑکی آزاد۔ میڈیکل طور پر زنا باالرضا اور زنا بالجبر کو آسانی سے ثابت نہیں کیا جاسکتا لہٰذا لڑکی کے بیان کو فوقیت دی جاتی ہے۔ چونکہ ورثا نے معاشرتی رسوائی سے بچنے کے لیے 365/B کا سہارا لیا ہوتا ہے اس لیے وہ لڑکی کے بجائے لڑکے سے انتقام لینے کے لیے مقدمے کو طویل تر قرار دلوا دیتے ہیں۔ قانونی طور پر لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کے لیے 376 کی دفعہ اور لڑکے کے لیے 377 کی دفعہ عاید کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ اگر واقعہ زنا بالجبر کا وقوع ہورہا ہو تو پھر اغوا کے بغیر زیادتی کا واقعہ رپورٹ اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ لڑکی اور لڑکے کے غائب ہونے کا واقعہ پیش نہیں آتا۔

لڑکی اور لڑکے کے دونوں جانب سے یکساں پوشیدہ ہونے کے واقعے کے بعد زیر عتاب صرف لڑکا بنتا ہے اور سست عدالتی نظام و طریقہ کار کی وجہ سے برسوں اس کا مقدمہ عدالتوں میں چلتا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ 365/B کا اطلاق صرف مرد پر ہی کیا جاتا ہے۔ جیل میں متعدد ایسے قیدی موجود ہیں جن کے مقدمات برسوں سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور مدعیہ کی جانب سے 164 کے بیان سے انحراف کے بعد تبدیلی بیان کو عدالت تسلیم نہیں کرتی اور اسے دباؤ کا نتیجہ سمجھتی ہے ۔ جب کہ یہی جواز 164 کے بیان پر بھی لاگو ہوسکتا ہے کہ معاشرتی دباؤ کے تحت عورت نے جذبات یا ورثا کے دباؤ کے تحت غلط بیان دیا ہو۔ تاہم 365/B کے متعدد واقعات میں برسوں مقدمات چلنے کے بعد اکثر و بیشتر مقدمات مرد کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس عمل سے اس کے خاندان کو معاشرے میں انتہائی شرمندگی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

میرے سامنے ایسے واقعات و حالات بھی سامنے آئے ہیں کہ معاشرے کے باعزت افراد کو صرف پیسوں کے حصول کی خاطر نشانہ بنایا گیا، 365/B کو بلیک میلنگ اور قصاص و دیت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بھلا کون سا قانون یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اگر ایک جسم فروش، کسی شادی شدہ شخص پر الزام دھرے کہ اس نے اسے اس کی مرضی کے بغیر اغوا کرکے زیادتی کی ہے تو کیا اسے ثابت کرنا آسان ہوگا یا مشکل؟ کسی بھی صنف نازک کے ساتھ زیادتی بذات خود انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اور اس کی شرم و حیا و تقدس کی پامالی کے مجرم کو کسی طور پر معافی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جو جوڑے باہمی رضامندی سے شادی کرلیتے ہیں تو انھیں قانون کی جانب سے 365/B کے عفریت یا پھر پس ماندہ علاقوں میں ونی، کاروکاری یا سوارہ جیسی بدنام زمانہ روایتوں کے تحت قابل سزا کیوں بنایا جاتا ہے۔ ونی، کاروکاری یا سوارہ میں بھی تو یہی عمل دہرایا جاتا ہے کہ ورثا اپنی شرمندگی کا بدلہ جان کے بدلے سے لیتے ہیں۔

365/B کی زد میں آنے والے ان افراد کا کیا مداوا ہوگا جو فیصلے کے انتظار اور بے قصور ثابت ہونے تک شرم و ذلت کے اندھے کنوئیں میں گرکر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں اور ساری زندگی منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ آزادی نسواں کے بڑے علمبرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھیں ایوانوں میں 365/B کی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اغوا برائے زیادتی اور مرد و عورت کا اپنی مرضی سے شادی کرلینے کے حوالے سے قوانین سازی کے لیے عملی کردار کی ضرورت ہے۔ آئین ساز اداروں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آزادی نسواں کی آڑ میں، تنہا مرد کو تو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ کیونکہ قانون کی نظر میں تو سب برابر ہیں۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے۔
Load Next Story