شوگرکے مریض کورونا کا آسان شکار کیوں بنتے ہیں
عالمی وبا سے محفوظ رہنے کے لئے ذیابیطس کے مریضوں کو کیا کرناچاہئے؟
''جھوٹی بھی ہو تسلی تو جیتا ہی رہوں میں'' (مرزا سوداؔ)۔
جسمِ انسانی میں تسلی بخشنے والی چیز قوتِ مدافعت ہے، مشاہدہ ہے کہ کسی صحت مند شخص کو شبہ ہو جائے کہ وہ بیمار ہے تو وہ دن بدن کمزور ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس کسی بیمار شخص کو معلوم نہ ہو کہ وہ بیمار ہے تو وہ مضبوط نظر آتا ہے۔ آج کل سرطان ، دل اور ذیابیطس کے مریضوںکو جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ بیمار ہیں ، تازہ دم رہتے ہیں، اور پتہ چلنے کہ بعد ایک دم کمزور ہو جاتے ہیں۔
خاص طور پر ذیابیطس کے لیے کہا جاتا ہے کہ عمر بھردوائیں کھانی ہیں، پھر بھی موتیا ، دل اور گردے کے امراض لاحق ہونے ہیں۔اس لیے وہ مایوس رہتے ہیں کہ نہ جانے کس وقت کیا جسمانی آفت لاحق ہو۔ یہ مایوسی ہی ان کی قوتِ مدافعت کو کمزور کردیتی ہے لہذا وبائی امراض مثلاً کورونا وائرس کا حملہ بہ آسانی ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق شوگر (ذیابیطس) میںتیزابیت خون میں بڑھ جاتی ہے، اس لیے ان کے تلوے، ہتھیلیاں بھی جلنے لگتی ہیں، یہی حال پھیپھڑوں کا ہوتا ہے، شوگر کے مبتلا افراد کا نزلہ بھی اس لیے دیر سے ٹھیک ہوتا ہے کہ پھیپھڑے تیزابیت کی وجہ سے لاغر ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان لاغر پھیپھڑوں پر دورِ حاضر کی وباء کورونا وائرس بھی ان پرحملہ آور ہوجاتا ہے۔
شوگر کا قوتِ مدافعت پر اثر
پاکستان میں 11.9فیصد مرد اور 19.9فیصد خواتین شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ نیز یہ تعداد لاپرواہی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ان کی قوتیںکمزور ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سے متاثر بھی ہیں۔ دراصل شوگر اعصابی نظام کوکمزور کرتی ہے اور سر ، ٹانگوں ، انگلیوںمیں خون کی مقدار اس مرض میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہارمونزکا توازن خراب ہوجاتا ہے۔جب بھی ہارمونز کا توازن خراب ہوگا، قوتِ مدافعت ضرور متاثر ہوتی ہے۔جسم کے قدرتی''اینابولک ہارمونز''کی مقدارشوگرمیںنہایت کم ہوجاتی ہے،یوں ان افراد میں پست ہمتی رہتی ہے۔ خون کی کمی، ہارمونز کا توازن بگڑ نا، پست ہمتی یہ سب امورقوت ِمدافعت کو بہت کمزور کر دیتے ہیں۔ یوں جراثیم اور وائرس کے حملے سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، اور شدید عوارض میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ جلدی گرفتار ہوتے ہیں۔
شوگر کے مریض قوتِ مدافعت بحال کیسے رکھیں؟
وہ غذائیں جو اعضائے رئیسہ دل ، دماغ، جگر، خصیتین کی قوت کی ضامن ہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ انسانی زندگی کا دارومدار حرارتِ غریزیہ پر ہے، جب یہ حرارت بجھ جاتی ہے، ساتھ ہی انسان مر جاتاہے، بیماری سے یہی حرارت کمزور ہوجاتی ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ' جو زیادہ عرصے بخار میں مبتلا رہے گا، جلد مر جائے گا ' (رازی) ۔
شوگر بھی اس حرارت کو سردکرتی ہے، یہ بلغمی ( سردتر) مرض ہے۔ جن کے اجسام میں خون کی مقدار ٹھیک ہوتی ہے، ان میں حرارتِ غریزیہ ( وہ حرارت ہے جو قدرت نے پیدائش کے ساتھ دی ہوتی ہے) بحال رہتی ہے، اور تا دیر زندہ رہ لیتے ہیں،' ورزش جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے' (رازی) ۔ لہذا سرد ادویہ کو معتدل کرنے کے لیے ہربلسٹ گرم ادویہ کا سہارا لیتے ہیں۔ پہچان یوں ہے کہ اکثر گرم علاقوں میں افزائش شدہ بوٹیاں سرد طبیعت کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ جتنے ادویہ ہارمونز پر عمل کرتی ہیں گرم (تر یا خشک ) ضرور ہوتی ہیں۔ لہذا درج ذیل ادویہ دودھ کے ساتھ استعمال کریں: جنسنگ(سرخ) ، گوکھروخورد، بادام ، اخروٹ، سفوف ناریل ہموزن سفوف تیار کریں آدھا چھوٹا چمچ لیں، یہ ادویہ دماغ اوردل کی قوت ، ہارمونزکا تواز ن درست کرنے، شریانوں میں چربی تحلیل کرنے، رگوں کی لچک بحال کرنے کی ضامن ہیں۔
شوگر کے لیے اصول ِعلاج
ماڈرن ہربلزم میں جڑی بوٹیوں کے افعال پر توجہ دی جاتی ہے۔ مزاج کا خاص دھیان نہیں رکھتے کیونکہ بیرون ممالک میںبہت سی ایسی بوٹیاں ہیں جن کے افعال بہت مفید ہیں، مگر مزاج کا تعین نہیں ہو سکتا مثلاََ پلمونیریا (پھیپھڑوں کو بالکل صاف کرتی ہے)، آئی برائٹ ( آنکھوں کے تمام امراض کو ختم کرتی ہے)، مکّا کی جڑ ( زنانہ امراض میں نہایت مفید ہے)وغیرہ۔ شوگر کے لیے پہلے لبلبے کے بیٹا خلیات کی مقداربڑھائی جاتی ہے، تاکہ انسولین خوب زیادہ بنے اس کام کے لیے کلونجی، بیری کے پتے، جائفل وغیرہ زیادہ مفید ہیں، پھر خلیات کے انسولین سے متاثر ہونے کی قوت (انسولین سین سیٹویٹی) درست کی جاتی ہے، اس کے لیے لہسن ، ہلدی،ادرک وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے پھر ہارمونز کا توازن درست کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ماڈرن ہربلزم میںیہی طریقہ علاج مروج ہے۔ طبِ قدیم میں کڑوی ادویہ کریلے کے بیج، گڑ مار بوٹی اور جامن کے بیج مستعمل ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق کریلے سے ایلوپیتھک شوگر کی کلاس 'بائی گوانائیڈ' نکالی ہیں مگر یہ گردے کو نقصان دیتی ہیں۔ طب قدیم کے نزدیک یہ تمام ادویہ گرم و خشک تاثیر رکھتی ہیں مگر ماڈرن ہربلزم کے مطابق جب جسم میں گرمی زیادہ ہوتی ہے تو انسان کا دل پانی یا ٹھنڈی اشیاء کی طرف مائل ہوتا ہے اور یہ نظام دماغ میں' ہائیپوتھیلامس' قابو کرتا ہے۔ جسم میں گرمی، سردی، خشکی، تری کے کنٹرول کے اس نظام کو 'ہیموسٹیسس' کہتے ہیں۔ مقدارِ خوراک کا تعین مریض کی عمر، بی۔ایم۔ آئی کے مطابق کرتے ہیں۔
شوگر کے لیے مستعمل ایلوپیتھک ادویہ:
میٹ فارمن، سیٹی گلپٹین سے انسولین کی مقدار بڑھائی جاتی ہیں جبکہ 'پائیوگلائی ٹازون ' ، روسی گلائی ٹازون سے خلیات کے انسولین قبول کرنے کی صلاحیت بڑھائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ان ادویہ کو اگر دھیان سے استعمال نہ کیا جائے تو دل کا دورہ بھی ہو سکتا ہے۔
جسمِ انسانی میں تسلی بخشنے والی چیز قوتِ مدافعت ہے، مشاہدہ ہے کہ کسی صحت مند شخص کو شبہ ہو جائے کہ وہ بیمار ہے تو وہ دن بدن کمزور ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس کسی بیمار شخص کو معلوم نہ ہو کہ وہ بیمار ہے تو وہ مضبوط نظر آتا ہے۔ آج کل سرطان ، دل اور ذیابیطس کے مریضوںکو جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ بیمار ہیں ، تازہ دم رہتے ہیں، اور پتہ چلنے کہ بعد ایک دم کمزور ہو جاتے ہیں۔
خاص طور پر ذیابیطس کے لیے کہا جاتا ہے کہ عمر بھردوائیں کھانی ہیں، پھر بھی موتیا ، دل اور گردے کے امراض لاحق ہونے ہیں۔اس لیے وہ مایوس رہتے ہیں کہ نہ جانے کس وقت کیا جسمانی آفت لاحق ہو۔ یہ مایوسی ہی ان کی قوتِ مدافعت کو کمزور کردیتی ہے لہذا وبائی امراض مثلاً کورونا وائرس کا حملہ بہ آسانی ہوسکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق شوگر (ذیابیطس) میںتیزابیت خون میں بڑھ جاتی ہے، اس لیے ان کے تلوے، ہتھیلیاں بھی جلنے لگتی ہیں، یہی حال پھیپھڑوں کا ہوتا ہے، شوگر کے مبتلا افراد کا نزلہ بھی اس لیے دیر سے ٹھیک ہوتا ہے کہ پھیپھڑے تیزابیت کی وجہ سے لاغر ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان لاغر پھیپھڑوں پر دورِ حاضر کی وباء کورونا وائرس بھی ان پرحملہ آور ہوجاتا ہے۔
شوگر کا قوتِ مدافعت پر اثر
پاکستان میں 11.9فیصد مرد اور 19.9فیصد خواتین شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ نیز یہ تعداد لاپرواہی کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ ان کی قوتیںکمزور ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سے متاثر بھی ہیں۔ دراصل شوگر اعصابی نظام کوکمزور کرتی ہے اور سر ، ٹانگوں ، انگلیوںمیں خون کی مقدار اس مرض میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہارمونزکا توازن خراب ہوجاتا ہے۔جب بھی ہارمونز کا توازن خراب ہوگا، قوتِ مدافعت ضرور متاثر ہوتی ہے۔جسم کے قدرتی''اینابولک ہارمونز''کی مقدارشوگرمیںنہایت کم ہوجاتی ہے،یوں ان افراد میں پست ہمتی رہتی ہے۔ خون کی کمی، ہارمونز کا توازن بگڑ نا، پست ہمتی یہ سب امورقوت ِمدافعت کو بہت کمزور کر دیتے ہیں۔ یوں جراثیم اور وائرس کے حملے سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں، اور شدید عوارض میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ جلدی گرفتار ہوتے ہیں۔
شوگر کے مریض قوتِ مدافعت بحال کیسے رکھیں؟
وہ غذائیں جو اعضائے رئیسہ دل ، دماغ، جگر، خصیتین کی قوت کی ضامن ہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ انسانی زندگی کا دارومدار حرارتِ غریزیہ پر ہے، جب یہ حرارت بجھ جاتی ہے، ساتھ ہی انسان مر جاتاہے، بیماری سے یہی حرارت کمزور ہوجاتی ہے، اس لیے کہتے ہیں کہ' جو زیادہ عرصے بخار میں مبتلا رہے گا، جلد مر جائے گا ' (رازی) ۔
شوگر بھی اس حرارت کو سردکرتی ہے، یہ بلغمی ( سردتر) مرض ہے۔ جن کے اجسام میں خون کی مقدار ٹھیک ہوتی ہے، ان میں حرارتِ غریزیہ ( وہ حرارت ہے جو قدرت نے پیدائش کے ساتھ دی ہوتی ہے) بحال رہتی ہے، اور تا دیر زندہ رہ لیتے ہیں،' ورزش جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے' (رازی) ۔ لہذا سرد ادویہ کو معتدل کرنے کے لیے ہربلسٹ گرم ادویہ کا سہارا لیتے ہیں۔ پہچان یوں ہے کہ اکثر گرم علاقوں میں افزائش شدہ بوٹیاں سرد طبیعت کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ جتنے ادویہ ہارمونز پر عمل کرتی ہیں گرم (تر یا خشک ) ضرور ہوتی ہیں۔ لہذا درج ذیل ادویہ دودھ کے ساتھ استعمال کریں: جنسنگ(سرخ) ، گوکھروخورد، بادام ، اخروٹ، سفوف ناریل ہموزن سفوف تیار کریں آدھا چھوٹا چمچ لیں، یہ ادویہ دماغ اوردل کی قوت ، ہارمونزکا تواز ن درست کرنے، شریانوں میں چربی تحلیل کرنے، رگوں کی لچک بحال کرنے کی ضامن ہیں۔
شوگر کے لیے اصول ِعلاج
ماڈرن ہربلزم میں جڑی بوٹیوں کے افعال پر توجہ دی جاتی ہے۔ مزاج کا خاص دھیان نہیں رکھتے کیونکہ بیرون ممالک میںبہت سی ایسی بوٹیاں ہیں جن کے افعال بہت مفید ہیں، مگر مزاج کا تعین نہیں ہو سکتا مثلاََ پلمونیریا (پھیپھڑوں کو بالکل صاف کرتی ہے)، آئی برائٹ ( آنکھوں کے تمام امراض کو ختم کرتی ہے)، مکّا کی جڑ ( زنانہ امراض میں نہایت مفید ہے)وغیرہ۔ شوگر کے لیے پہلے لبلبے کے بیٹا خلیات کی مقداربڑھائی جاتی ہے، تاکہ انسولین خوب زیادہ بنے اس کام کے لیے کلونجی، بیری کے پتے، جائفل وغیرہ زیادہ مفید ہیں، پھر خلیات کے انسولین سے متاثر ہونے کی قوت (انسولین سین سیٹویٹی) درست کی جاتی ہے، اس کے لیے لہسن ، ہلدی،ادرک وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے پھر ہارمونز کا توازن درست کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ماڈرن ہربلزم میںیہی طریقہ علاج مروج ہے۔ طبِ قدیم میں کڑوی ادویہ کریلے کے بیج، گڑ مار بوٹی اور جامن کے بیج مستعمل ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق کریلے سے ایلوپیتھک شوگر کی کلاس 'بائی گوانائیڈ' نکالی ہیں مگر یہ گردے کو نقصان دیتی ہیں۔ طب قدیم کے نزدیک یہ تمام ادویہ گرم و خشک تاثیر رکھتی ہیں مگر ماڈرن ہربلزم کے مطابق جب جسم میں گرمی زیادہ ہوتی ہے تو انسان کا دل پانی یا ٹھنڈی اشیاء کی طرف مائل ہوتا ہے اور یہ نظام دماغ میں' ہائیپوتھیلامس' قابو کرتا ہے۔ جسم میں گرمی، سردی، خشکی، تری کے کنٹرول کے اس نظام کو 'ہیموسٹیسس' کہتے ہیں۔ مقدارِ خوراک کا تعین مریض کی عمر، بی۔ایم۔ آئی کے مطابق کرتے ہیں۔
شوگر کے لیے مستعمل ایلوپیتھک ادویہ:
میٹ فارمن، سیٹی گلپٹین سے انسولین کی مقدار بڑھائی جاتی ہیں جبکہ 'پائیوگلائی ٹازون ' ، روسی گلائی ٹازون سے خلیات کے انسولین قبول کرنے کی صلاحیت بڑھائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ ان ادویہ کو اگر دھیان سے استعمال نہ کیا جائے تو دل کا دورہ بھی ہو سکتا ہے۔