نواز لیگ کے گرد گھیرا مزید تنگ ہونے والا ہے
حکومت راز داری سے جو فیصلے کرتی ہے‘ وہ اپوزیشن تک پہنچ کر زبان زدعام ہو جاتے ہیں۔
شہباز شریف اور نیب نے گزشتہ روز کبڈی کا سنسنی خیز میچ کھیلا ، اس کا پہلا ہاف برابری پر ختم ہوا،دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے اقبال کے شاہینوں کی طرحجھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر پھر جھپٹنے کا لاجواب پدرشن کیا۔اب میچ جیتنے کے لیے دونوں ٹیموں کو دوسرے اور فیصلہ کن ہاف میں ایڑھی چوٹی کا زور لگاناپڑے گا۔میں تو ٹھہرا ایک تماشائی، جو دیکھا، وہ لکھ دیا لیکن چند ایسے صحافی بھی ہیں،جنھیں میچ شروع ہونے سے پہلے کھلاڑیوں اور نتائج کا پتہ چل جاتا ہے۔
خالد قیوم کا شمار بھی ایسے ہی باخبرصحافیوں میں ہوتا ہے۔ اس نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہی اس میچ کے بارے میں بتایا تھا بلکہ لکھ کر دے دیا تھا،میں نے یہ باتیں ہنسی میں اڑا دیں لیکن شہباز شریف اور نیب کے مابین دھینگا مشتی کے مناظر دیکھ کر مجھے اس کی باتیں یاد آگئیں۔ مجھے موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ باتیں حسب حال لگیں۔خالد قیوم کی اجازت سے یہ قارئین کی خدمت میں حاضرہیں ۔
''عمران خان کی حکومت مسلم لیگ (ن) کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کی پالیسی کے تحت کم از کم چار مزید اہم رہنماوں کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ان رہنماؤں میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف شامل ہیں۔ان رہنماوں کی نیب کے ذریعے گرفتاری کا امکان ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کا خیال یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن )کے ان رہنمائوں کو گرفتار کر لیا جائے تو حکومت پر کورونا وائرس، شوگرآٹا سکینڈل اور آئی پی پیز سکینڈل کے حوالے سے دبائو ختم ہوجائے گا۔ چونکہ مسلم لیگ(ن) کے یہی وہ رہنما ہیں جو عمران خان اور ان کی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور کرپشن کے سکینڈلز پر عوام اور میڈیا کو مسلسل آگاہ کر رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کا یہ بھی خیال ہے کہ ان لیگی رہنماوں کو گرفتار کر کے ایک تو وہ اپنے کرپشن کے بیانیے کو زندہ رکھیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصا شہباز شریف کو نشانے پر رکھیں گے اور ان پر کرپشن کے الزامات عائد کریں گے تاکہ مسلم لیگ(ن) کرپشن کے پروپیگنڈہ کے بوجھ تلے دب کر خاموش ہوجائے۔اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کو وفاق اور پنجاب کی سطح پر جس بحران اور مشکلات کا سامنا ہے اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ، پھر سندھ میں پیپلز پارٹی سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔
مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے لیگی رہنماوں کی گرفتاری کے حوالے سے حکومتی منصوبے کی تصدیق کی ہے۔ رانا ثناء نے ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران متوقع گرفتاریوں کی تصدیق کی۔ رانا ثناء اللہ نے اس ملاقات میں کئی انکشافات کیے اور سیاسی معاملات پر اپنی ذاتی رائے اور پارٹی پالیسی پر بات کی۔
انھوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنی چاہیے کیونکہ اگر عمران خاں کو قبل از وقت آئینی طریقے سے بھی وزارت اعظمیٰ سے الگ کیا گیا تو تب بھی وہ اپنے آپ کو سیاسی شہید بنانے سے باز نہیں آئیں گے۔ وہ مسلسل یہی کہیں گے کہ انھیں سازش کر کے قبل از وقت الگ کر دیا گیا ورنہ انھوں نے معاشی اور دیگر بحرانوں پر قابو پا لیا تھا اور اگلے دو ڈھائی برسوں میں میری حکومت نے ملک کو ترقی کی طرف لے جانا تھا۔
اس صورتحال سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ عمران خان کو ان کی تمام ترناکامیوں اور جھوٹے وعدوں کے بوجھ کے ساتھ عام انتخابات تک لے جایا جائے۔ ویسے بھی اب ان کی حکومت کی آئینی مدت آدھی باقی رہ گئی ہے۔ دسمبر تک عمران خان کی حکومت تشکیل پائے ڈھائی سال ہوجائیں گے، کسی بھی حکومت کے آخری برس میں الیکشن کی پلاننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس دوران بیوروکریسی بھی سست ہوجاتی ہے اور اگلی حکومت کے بارے میں سوچنا شروع کرتی ہے۔ اس لیے عمران خان کے پاس اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچا ہے۔
اس ڈیڑھ برس میں خان صاحب ملک کی معیشت کو کسی طور پر بھی بحران سے نہیں نکال سکیں گے۔ کیونکہ ان کی غلط اور نا عاقبت اندیشانہ پالیسیوں نے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان سیاسی محاذ پر مسلم لیگ(ن) کو گرفتاریوں کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ پالیسی بھی ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہورہی ہے کیونکہ نیب نے شہباز شریف اور ان کے خاندان سمیت مسلم لیگ(ن) کے دیگر رہنمائوں پر جیتنے بھی مقدمات قائم کیے ہیں، ان میں کسی ایک میں بھی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔ اس سے بڑی عمران خان کی ناکامی اور کوئی نہیں ہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی اور حکومت کے اندر بھی کرپشن کے نام پر جن بڑی شخصیات کو ہدف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر انھیں پارٹی کے اندر ہی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تناظر میں جہانگیر ترین ، خسرو بختیار اور چوہدری برادران کی گرفتاریاں تقریبا ناممکن ہوگئی ہیں۔اب عمران خاں اپنی پوزیشن کو بیلنس کرنے کے لیے اپنی ہی پارٹی کے قدرے کمزور سیاسی پس منظر کے حامل سیاستدانوں کو گرفتار کرائیں گے۔ ا س کی ابتداء غلام سرور خان پر کرپشن کے الزامات سے ہوگئی ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کی گرفتاری کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ادھر سے بھی شدید رد عمل کا خدشہ ہے۔ کرپشن کے بیانیے کو برقرار رکھنے اور احتساب کا غیرجانبدارانہ تاثر قائم رکھنے کے لیے بیلنسنگ ایکٹ بھی ضروری ہے، اس لے اب تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو علیم خان اور سبطین خان بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک نیب کا معاملہ ہے تو اس میں وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا اہم کردار ہے۔
ٹی ٹیز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ٹی ٹیز کاروباری دنیا کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ تمام کاروباری لوگ ٹی ٹیز کے ذریعے ہی ٹیکس مینجمنٹ کرتے ہیں اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ شہباز شریف ، سلمان شہباز اور حمزہ شہباز پر ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم کی منتقلی کا الزام ہے تو اس میں قانونی پہلو یہ ہے کہ ٹی ٹی بنانا کوئی جرم نہیں ہے۔اب نیب کو اگر کرپشن ثابت کرنی ہے تو پھر نیب کو عدالت کے روبروٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت فراہم کرنے پڑیں گے۔بغیر ثبوت عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی اور ایسا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہے''۔
یہ روداد پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ حکومت راز داری سے جو فیصلے کرتی ہے ' وہ اپوزیشن تک پہنچ کر زبان زدعام ہو جاتے ہیں'اسی طرح اپوزیشن کے خفیہ فیصلے ایوان اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے' اس کے بارے میںحقائق جاننے کے لیے تومرحوم مولانا کوثر نیازی کی کتاب ''اور لائن کٹ گئی'' یا پھر مرحوم الطاف گوہر کی کتابیں پڑھ لیں ۔
خالد قیوم کا شمار بھی ایسے ہی باخبرصحافیوں میں ہوتا ہے۔ اس نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہی اس میچ کے بارے میں بتایا تھا بلکہ لکھ کر دے دیا تھا،میں نے یہ باتیں ہنسی میں اڑا دیں لیکن شہباز شریف اور نیب کے مابین دھینگا مشتی کے مناظر دیکھ کر مجھے اس کی باتیں یاد آگئیں۔ مجھے موجودہ سیاسی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے یہ باتیں حسب حال لگیں۔خالد قیوم کی اجازت سے یہ قارئین کی خدمت میں حاضرہیں ۔
''عمران خان کی حکومت مسلم لیگ (ن) کے گرد گھیرا مزید تنگ کرنے کی پالیسی کے تحت کم از کم چار مزید اہم رہنماوں کو گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ان رہنماؤں میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف شامل ہیں۔ان رہنماوں کی نیب کے ذریعے گرفتاری کا امکان ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کا خیال یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن )کے ان رہنمائوں کو گرفتار کر لیا جائے تو حکومت پر کورونا وائرس، شوگرآٹا سکینڈل اور آئی پی پیز سکینڈل کے حوالے سے دبائو ختم ہوجائے گا۔ چونکہ مسلم لیگ(ن) کے یہی وہ رہنما ہیں جو عمران خان اور ان کی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور کرپشن کے سکینڈلز پر عوام اور میڈیا کو مسلسل آگاہ کر رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کی ٹیم کا یہ بھی خیال ہے کہ ان لیگی رہنماوں کو گرفتار کر کے ایک تو وہ اپنے کرپشن کے بیانیے کو زندہ رکھیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصا شہباز شریف کو نشانے پر رکھیں گے اور ان پر کرپشن کے الزامات عائد کریں گے تاکہ مسلم لیگ(ن) کرپشن کے پروپیگنڈہ کے بوجھ تلے دب کر خاموش ہوجائے۔اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کو وفاق اور پنجاب کی سطح پر جس بحران اور مشکلات کا سامنا ہے اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ، پھر سندھ میں پیپلز پارٹی سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔
مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے لیگی رہنماوں کی گرفتاری کے حوالے سے حکومتی منصوبے کی تصدیق کی ہے۔ رانا ثناء نے ایک غیر رسمی ملاقات کے دوران متوقع گرفتاریوں کی تصدیق کی۔ رانا ثناء اللہ نے اس ملاقات میں کئی انکشافات کیے اور سیاسی معاملات پر اپنی ذاتی رائے اور پارٹی پالیسی پر بات کی۔
انھوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کو پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنی چاہیے کیونکہ اگر عمران خاں کو قبل از وقت آئینی طریقے سے بھی وزارت اعظمیٰ سے الگ کیا گیا تو تب بھی وہ اپنے آپ کو سیاسی شہید بنانے سے باز نہیں آئیں گے۔ وہ مسلسل یہی کہیں گے کہ انھیں سازش کر کے قبل از وقت الگ کر دیا گیا ورنہ انھوں نے معاشی اور دیگر بحرانوں پر قابو پا لیا تھا اور اگلے دو ڈھائی برسوں میں میری حکومت نے ملک کو ترقی کی طرف لے جانا تھا۔
اس صورتحال سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ عمران خان کو ان کی تمام ترناکامیوں اور جھوٹے وعدوں کے بوجھ کے ساتھ عام انتخابات تک لے جایا جائے۔ ویسے بھی اب ان کی حکومت کی آئینی مدت آدھی باقی رہ گئی ہے۔ دسمبر تک عمران خان کی حکومت تشکیل پائے ڈھائی سال ہوجائیں گے، کسی بھی حکومت کے آخری برس میں الیکشن کی پلاننگ شروع ہوجاتی ہے۔ اس دوران بیوروکریسی بھی سست ہوجاتی ہے اور اگلی حکومت کے بارے میں سوچنا شروع کرتی ہے۔ اس لیے عمران خان کے پاس اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے صرف ڈیڑھ سال بچا ہے۔
اس ڈیڑھ برس میں خان صاحب ملک کی معیشت کو کسی طور پر بھی بحران سے نہیں نکال سکیں گے۔ کیونکہ ان کی غلط اور نا عاقبت اندیشانہ پالیسیوں نے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان سیاسی محاذ پر مسلم لیگ(ن) کو گرفتاریوں کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ پالیسی بھی ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہورہی ہے کیونکہ نیب نے شہباز شریف اور ان کے خاندان سمیت مسلم لیگ(ن) کے دیگر رہنمائوں پر جیتنے بھی مقدمات قائم کیے ہیں، ان میں کسی ایک میں بھی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔ اس سے بڑی عمران خان کی ناکامی اور کوئی نہیں ہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی اور حکومت کے اندر بھی کرپشن کے نام پر جن بڑی شخصیات کو ہدف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس پر انھیں پارٹی کے اندر ہی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تناظر میں جہانگیر ترین ، خسرو بختیار اور چوہدری برادران کی گرفتاریاں تقریبا ناممکن ہوگئی ہیں۔اب عمران خاں اپنی پوزیشن کو بیلنس کرنے کے لیے اپنی ہی پارٹی کے قدرے کمزور سیاسی پس منظر کے حامل سیاستدانوں کو گرفتار کرائیں گے۔ ا س کی ابتداء غلام سرور خان پر کرپشن کے الزامات سے ہوگئی ہے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کی گرفتاری کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ادھر سے بھی شدید رد عمل کا خدشہ ہے۔ کرپشن کے بیانیے کو برقرار رکھنے اور احتساب کا غیرجانبدارانہ تاثر قائم رکھنے کے لیے بیلنسنگ ایکٹ بھی ضروری ہے، اس لے اب تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو علیم خان اور سبطین خان بنایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک نیب کا معاملہ ہے تو اس میں وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا اہم کردار ہے۔
ٹی ٹیز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ٹی ٹیز کاروباری دنیا کے لیے اجنبی نہیں ہے۔ تمام کاروباری لوگ ٹی ٹیز کے ذریعے ہی ٹیکس مینجمنٹ کرتے ہیں اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ شہباز شریف ، سلمان شہباز اور حمزہ شہباز پر ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم کی منتقلی کا الزام ہے تو اس میں قانونی پہلو یہ ہے کہ ٹی ٹی بنانا کوئی جرم نہیں ہے۔اب نیب کو اگر کرپشن ثابت کرنی ہے تو پھر نیب کو عدالت کے روبروٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت فراہم کرنے پڑیں گے۔بغیر ثبوت عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکتی اور ایسا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہے''۔
یہ روداد پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ حکومت راز داری سے جو فیصلے کرتی ہے ' وہ اپوزیشن تک پہنچ کر زبان زدعام ہو جاتے ہیں'اسی طرح اپوزیشن کے خفیہ فیصلے ایوان اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے' اس کے بارے میںحقائق جاننے کے لیے تومرحوم مولانا کوثر نیازی کی کتاب ''اور لائن کٹ گئی'' یا پھر مرحوم الطاف گوہر کی کتابیں پڑھ لیں ۔