آزاد جموں کشمیر کا ایک حیرت انگیز علاقہ

جہاں اسکول نہ ہونے کے باوجود شرح خواندگی 100 فیصد ہے

''پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا۔''

یہ الفاظ ایک ایسی شخصیت کے ہیں جن کے علاقے میں سکول نہ ہونے کے باوجود شرح خواندگی100 فیصد ہے اور تقریباً ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے ہرگھر میں اوسطاً ایک سے زائد ایم فل ڈگری کے حامل ا فراد موجود ہیں۔آزاد جموں کشمیر تعمیر وترقی کے اعتبار سے پسماندہ ضرور ہے تاہم تعلیمی اعتبار سے پاکستان میں پہلے درجے پر ہے۔

اس کے پسماندہ ترین ضلع ''حویلی''میں ایک ایسا گاؤں موجود ہے جو تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے دنیا کے تعلیم یافتہ علاقوں پر سبقت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔اس گاؤں کو ''جبی سیداں'' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بے پناہ خوبصورتی کے حامل ضلع حویلی جسے 'فارورڈ کہوٹہ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ایسا علاقہ ہے جہاں زندگی خوف کے سائے میں پروان چڑھتی ہے۔ یہ سرحدی علاقہ ہے تین اطراف سے خونی لکیر (ایل او سی) میں گھرا ہوا ہے جس کے باعث آئے روز تین اطراف سے بمباری ہوتی رہتی ہے۔

سیز فائر لائن کی کشیدہ صورت حال اور جدید سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب یہاں بسنے والوں کو آئے روز دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اس ضلع میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو ایک اعتبار سے پاکستان کا مثالی گاؤں ہے، پاکستان میں ایسے گاؤں گنے چنے ہی ہیں۔ دل چسپ اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں میں کوئی ہائی سکول ہے نہ ہی مڈل سکول۔ لڑکوں اور لڑکیوںکے لیے کسی زمانے میں ایک، ایک پرائمری سکول ہوتا تھا لیکن یہ دونوں سرکاری سکول بھی عملاً بند ہو چکے ہیں۔

(اس علاقے میںہائی سکول تقریباً پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں جس کا نام 'سولی' ہے میں موجود ہے)۔ اس سب کے باوجود اس گاؤں کا بچہ بچہ نہ صرف زیور ِتعلیم سے آراستہ ہے بلکہ گاؤں کے ہزاروں افراد تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہیں اورآزاد جموں و کشمیر کے اعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ اس گاؤں کو پاکستان بھر میں دو اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ ایک تو یہاں کا تعلیمی تناسب 100فی صد ہے، دوسرا، یہاں جرائم کی شرح صفر ہے۔ ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں میںمساجد کو گاؤں کی خواندگی میں مرکزی مقام حاصل ہے۔

گاؤں میں چھ مساجد اور ایک مدرسہ موجودہے۔ ایک جامعہ مسجد ہے جو ضلع بھر کی اولین جامعہ مساجد میں سے ہے۔اکلوتے مدرسے سے سینکڑوں قاری، حفاظ فارغ التحصیل ہیںجو ضلع بھر کی مساجد اور تعلیمی اداروں سے منسلک ہوکر قرآن کی روشنی سے عوام الناس کو بہرہ مند کر رہے ہیں۔ یہاں بسنے والے خواتین و حضرات اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ کھیتی باڑی سے بھی منسلک ہیں۔

گریڈ 19اور 20کے افسران بھی گھر کے کام کاج خود کرتے ہیں۔ پھل دار درختوں اور سبزیوں کی افرائش کے علاوہ اپنے اپنے گھروں میں کم عمر بچوںکو ناظرہ قرآن بھی خود ہی پڑھاتے ہیں۔ اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو گاؤں کے لوگوں سے مل کر اپنائیت کا احساس ہوا۔ یہاں کی خواتین بھی ان میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ہر گھر میں ایم اے، بی ایڈ ، ایم فل اور ایم ایس سی کے مشکل مضامین کی ڈگری ہولڈر خواتین بھی مل جائیں گی۔ مرد و خواتین کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے اور زیادہ تر شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس گاؤں میں تمام گھرانوں کا تعلق سادات خاندان کے بخاری سلسلے سے ہے۔ سادات کے اس خاندان کی ایک شاخ مقبوضہ کشمیر میں سری نگر اور کریڑی کے مقام پر بھی آباد ہے۔ وہاں بھی یہ خاندان تعلیمی، صحافتی اور سیاسی میدان میں نمایاں نظر آتا ہے۔جبی سیداں اور ملحقہ علاقے کی محرومیوں کا ذکر کریں تو آدھے سے زیادہ گاؤں کو پختہ سڑک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ چار کلومیٹر لمبی پختہ سٹرک گاؤں کو دو اطراف سے باہم ملاتے ہوئی دائرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سڑک کا آدھا حصہ جو تقریباً دو کلومیٹر بنتا ہے، مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیرکیا۔

اس گاؤں کے 84 سالہ بزرگ سید زین العابدین بخاری (جویہاں کے معمر افراد میں شامل ہیں اور محکمہ تعلیم سے انیسویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر ممتاز حسین راٹھور سمیت آزاد کشمیر کے بعض اعلیٰ ترین بیوروکریٹ ان کے تلامذہ میں سے ہیں۔ ان کے گھر میں پانچ افراد نے مختلف شعبہ جات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی) نے بتایا کہ گاؤں میں تعلیمی رجحان کا تعلق ہمارے آبا ؤ اجداد کے فارسی اور عربی سے شغف کے باعث بھی ہے۔ گاؤں کی ملازمت پیشہ آبادی میں سے اکثریت کا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے۔ علم و ادب سے صدیوں پرانا تعلق یہاں کہ آبادی کو ممتاز کرتا ہے۔


اوائل عمری ہی سے لوگ ننگے پاؤں پیدل سفر کرتے تھے، تاہم اب ہر چیز میں جدت نے کافی کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔عہدِ جدید میں چھوٹے چھوٹے گاؤں میں وسائل اور ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان شہروں کا رخ کررہے ہیں تاہم اس سب کے باوجود ان کا تعلق گاؤں سے جڑا رہتا ہے۔اس گاؤں کے علمی میدان میں آگے بڑھنے کا راز بھی یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب بطور قوم ہمیں رسمی تعلیم سے نکل کر فنی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے ساتھ تعلق جوڑے رکھنا حقیقی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔

٭ اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے سید علی رضا بخاری آزادجموںکشمیر کے وزیر مذہبی امور ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے یہاں کے لوگ تعلیم کیلئے پونچھ شہر جاتے تھے۔ پونچھ کا وہ شہر آج بھارت کے زیر قبضہ ہے یہاں سے کافی دور تھا ، سفر مشکل ہوتا تھا، وسائل کی بھی کمی ہوتی تھی لیکن گاؤں کی بڑی آبادی نے وہاں جا کر اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پھراپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم دی۔ یہ بات ایک نسل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے بعد کی نسلوں کو بھی تعلیم دلائی۔ اس تسلسل سے آج یہاں کا تعلیمی تناسب سو فیصد ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آج جبی سیداں کے لوگ دوسری جگہوں پر جاکر آباد ہوتے ہیں تو وہاں بھی اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور علم پھیلا رہے ہیں۔ علی رضا بخاری کا کہنا ہے کہ جہاں تک تعمیر و ترقی اور وسائل کا سوال ہے تو میری خواہش ہے کہ پورے ضلع میں پختہ سڑکیں ہر گاؤں تک پہنچیں اور عوام الناس کو سفر کی آسان سہولیات میسر ہوں لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہونے کے اجتماعی طور پر مجرم ضلع حویلی کے تمام عوامی نمائندے ہیں۔ ہم سب خود کو تعمیر و ترقی کے ہیرو کہتے ہیں لیکن ہم نے اپنے علاقے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں مل کر علاقے کی بہتری کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔

٭۔چیئرمین آ زاد جموں و کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ عابد حسین بخاری کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ہمارے آبا کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہیں، علم سے محبت اور اس کی اہمیت سے آگاہی کا جذبہ ہمیں وراثت میں ملا۔ ہمارے اساتذہ میں کئی نابغہ روزگار افراد نے عشروں سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ دراصل ہمارے اساتذہ کا اہم ترین کردار نئی نسل میں شعور پیدا کرنا تھا۔اب تو علمی و ادبی ترقی کا زمانہ ہے اور تعلیمی میدان میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن ایک عرصہ پہلے ایسا نہیں تھا۔اس دور میں ضلع بھر میں علمی ماحول پیدا کرنے میں ہمارے گاؤں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا۔

٭ سید ریاض حیدر بخاری آزاد کشمیر کے محکمہ پولیس میں اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (AIG)ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے آبا ؤ اجداد کا رجحان تعلیم اور ادب کی طرف زیادہ رجحان رہا۔ اس وجہ سے تعلیم سے رغبت ہماری نسلوں کو وراثت میں ملی۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرکاری نوکری کا حصول ضروری سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا متبادل کوئی نہیں تھا۔ اس لئے بھی لوگ تعلیم سے وابستہ رہے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ پونچھ شہر اپنے دور میں علم و ادب کا گہوارا تھا، وہیں سے چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ بزاز اور کرشن چندر جیسے ادیب سامنے آئے۔

وہاں سرکاری اور غیر سرکاری سکول بھی تھے۔ ہمارے آبا ؤ اجداد تعلیم کیلئے وہاں جاتے تھے۔ یوں ایک کلچر بنا کہ اور انہوں نے اپنی نسلوں کو بلا امتیاز تعلیم دلائی۔ پھر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تعلیم کے حصول میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی رہی جس سے اس چیز کو زیادہ مہمیز ملی اور لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔ علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتوں کے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ذرائع مواصلات انتہائی کمزور ہیں، تعلیمی معیار نیچے جا رہا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان علاقوں سے ہجرت کرنا شروع کر دی ہے۔ حکومت کو عوام میں اعتبار پیدا کرنا چاہیے اور وہاں سے ہجرت کی وجوہات کو دیکھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ دیہی علاقوں کو کیسے سہولیات دی جائیں۔

٭ سیداعجاز حیدر مختلف چینلز میں بطور اینکر پرسن منسلک رہ چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا۔

اس کے ساتھ جبی سیداں کے لوگ سیاست سے دور رہے اور سرکاری نوکریوں کے حصول پر توجہ رہی، نوکریوں کے حصول کیلئے تعلیم ضروری تھی، اس لئے بھی تعلیم کو فوقیت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگ شاعری بھی کرتے تھے ، ادب سے خاصا لگاؤ تھا جس کے باعث پڑھنے لکھنے کا رجحان بڑھتا گیا۔

٭ ڈاکٹر مسعود بخاری عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز' میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کامیابی ایک مکمل پیکج ہوتی ہے، اس کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے۔ جو سیکھتا ہے وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو سیکھنا چھوڑ دیتا ہے وہ کامیابی کی منزلوں سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی کامیابی مستقل اور دائمی نہیں ہوتی۔ انسان جہاں رک جاتا ہے، ہمت ہار دیتا ہے وہاں سے اس کے زوال کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔
Load Next Story