نادیدہ جرثومے نے سب کے نقاب اُلٹ دیے
پوری دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کرے!
جدید ایجادات نے جیون کو آسان بنا دیا ہے! دیکھیے ناں کتنی سہولتیں اور آسانیاں ہیں ان ایجادات کے سبب۔ ایک رابطے کی دنیا ہی کو دیکھ لیجیے، پہلے خط لکھیے، اس کے لیے بھی کاغذ قلم لیجیے، کسی گوشۂ عافیت میں بیٹھیے، اپنے خیالات کو یک جا کیجیے، پھر الفاظ کا انتخاب کیجیے اور پھر صفحۂ قرطاس پر رقم کیجیے۔
اس میں بھی جب اسے پڑھیے تو لگتا تھا کہ نہیں ابھی بات بنی نہیں ہے، جو ہم کہنا چاہ رہے تھے وہ تو کہہ ہی نہیں پائے، لیجیے وہ کاغذ پرزے کیا اور پھر کسی اور دن نئے سرے سے اس کام کا اہتمام کیا اور اگر وہ من چاہا ہوگیا تو اسے لفافے میں کیا بند اور حوالے کردیا ڈاک کے اور پھر بنے مجسّم انتظار اور اس کے ساتھ ہی ''نہ جانے'' کا خدشہ بھی کہ پتا نہیں جسے ارسال کیا اسے ملے گا بھی کہ نہیں، اور اگر ملے گا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس کا جواب کب دیں گے اور دیں گے بھی نہیں، روز ڈاکیے کا انتظار اور اس سے کوئی خوش خبری سننے کا اشتیاق اور اگر وہ خاموش رہے تو مجبوراً اس سے دریافت کرنا کہ جی ہمارا کوئی خط پتر تو نہیں آیا ناں! نہ جانے کتنے ہی خدشات سانپ کی طرح پھنکارتے آس پاس ناچتے رہتے اور پھر مایوسی گھیر لیا کرتی۔
لیکن صاحبو! ایسے میں جب ڈاک بابو کو آپ دیکھتے تو دریافت ہی نہیں کرتے تھے اور وہ چہک کر کہتا اجی کہاں چلے! لیجیے آپ کا خط آیا ہے تو یک دم موسم بدل جاتا اور شدید حبس میں بھی جسم و جاں میں روح رواں میں ٹھنڈ پڑ جاتی، دل کی کلی کھل اٹھتی اور واہ جی واہ ہر سمت موسم بہار ہوجاتا۔ یہ سب تو جناب اندر کی سبھائیں ہیں ناں جی۔ اور اب دیکھیں کتنا آسان ہوگیا رابطہ ناں، قلم نہ روشنائی، کاغذ نہ لفافہ، بس دستی فون سے دھڑا دھڑ اپنے دل کی بات کیے جائیے، ہنسیے اور ہنسائیے، لڑیے اور تعلق کو قطع کرلیجیے یہ کہتے ہوئے کہ تُو نہیں تو کوئی اور سہی اور یہ گنگناتے ہوئے کہ ایک ڈھونڈو ملتے ہیں ہزاروں حُسن والے کم نہیں۔ اسے کہتے ہیں ترقی۔
ہم جیسے غبی، بے علم و عمل فقیروں کو تو بابا لوگ نے بتایا بھی، سکھایا بھی کہ یہ جو تعلق ہے ناں تو جی! یہ ایسا ہے کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام اور اگر کسی سے لڑ جائے پیچ تو جناب خیال رکھنا کہ یہ کوئی اشتہار نہیں کہ جس کی ہر جا تشہیر کی جائے۔
بل کہ یہ کہا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھو زلف کا کنڈل کھلنا نہیں چاہیے اور آنکھ کا کاجل بہنا نہیں چاہیے اور اگر لوگ سولی پر بھی چڑھا دیں تو بھید پیار کا کھلنا نہیں چاہیے کہ یہی ہے شرط اول جناب۔ لیکن چھوڑیے فقیر بھی کیا پرانی بات لے بیٹھا جب محلے ایک خاندان ہوتا تھا اور اس میں خواتین کو حسب مراتب دادی اماں، بُوّا، تائی، چاچی، آپا، باجی، خالہ، اور مردوں کو بھیّا، چاچا، تایا، خالو، بھائی کہا جاتا تھا اور پھر ہوئی ترقی اور سب کچھ آنٹی اور انکل میں سمٹ گیا۔ چلو یہ بھی کوئی ان ہونی نہیں کہ سفر جاری رہتا ہے اور منظر بدلتے رہتے ہیں۔ رہے نام اﷲ کا!
تو صاحبو! اس بات کو یہیں سکوت دیتے ہیں کہ اگر یہ پھیل گئی تو سمجھیے بات ہے رسوائی کی اور پھر یہ کوئی قصۂ مختصر بھی نہیں کہ اسے ورق کو جلدی الٹ گئے تم، میں کوئی قصۂ مختصر نہیں ہوں، اس بارے بات میں تو کئی دفتر چاہییں ناں اور ہم ہیں کہ فرصت زندگی بہت کم ہے، عجلت میں رواں ہیں سب اور کوئی کہیں سے پکارتا ہے
جو جاگتا نظر آتا ہے وہ بھی نیند میں ہے
جو سو رہا ہے، ابھی اور جاگ سکتا تھا
چلتے پھر کبھی چھیڑیں گے اس ساز کو بھی گر سانس کی ڈور سلامت رہی تو۔ تو آتے ہیں جیون کتھا پر کہ بابا جی فرماتے تھے کہ لمبی چوڑی نہیں جناب بس لمحۂ موجود ہے زندگی۔ بس یہ پل جو دست رس میں ہے جناب۔ فقیر کو بتایا گیا کہ زندگی ماہ و سال کا نام نہیں ہے۔ زندگی پل کا نام ہے، وہ پل جسے آپ زندگی کہہ سکیں، نہ بھلا پانے والا پل۔ ایسا پل جو آپ کو سرشار کردے، وہ پل جسے آپ حاصل زندگی کہہ سکیں، ایسا پل جو آپ محفوظ کرلیں اور جب چاہیں اسے اپنی پوری توانائی اور پورے احساسات کے ساتھ زندہ رکھ سکیں، ایسے پل جو آپ کے نصیب میں ہوں، بس وہی ہوتے ہیں امر اور وہی ہوتے ہیں جینا۔ وہی ہے زندگی جسے آپ جینا کہتے ہیں۔ جسے زندگی کہتے ہیں وہ تو بس سانسوں کی آمد و رفت ہے اور کچھ نہیں۔
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
اگر آپ کے پاس ایسے پل ہیں اور بہت ہیں تو بس یہ ہے زندگی۔۔۔ اور ایسی زندگی جس میں طمانیت ہے، سرشاری ہے، بے خودی ہے، ایثار ہے، اخلاص ہے، محبت ہے، قربانی ہے۔ خود کو تج دینا ہے زندگی، جنون خیز، جس میں اپنی خبر نہیں ملتی۔ ایسا مجنوں نہیں جو صرف اپنے لیے ہی رو رہا ہو۔ وہ تو بس ایک چھوٹا سا گڑھا ہے پانی کا۔ زندگی دریا ہے، جھیل ہے، بہتا دھارا ہے، جیسے موج میں سمندر ہوتا ہے۔ ایسا جنون توفیق پر ہے، جیسے چاہے نواز دے، جوہڑ سے آب شار کردے، ٹھنڈی میٹھی جھیل بنادے، ہنستا کھیلتا دریا بنادے، جس سے سب مستفید ہوں، سب کے لیے کشادہ دل، روشن جبیں، کھلے بازو، چشمِ ما روشن دلِ ماشاد۔ لیکن یہاں تو عجیب مسئلہ ہے، کوئی جانتا کب ہے جنوں کیسا ہوتا ہے، کیا ہوتا ہے۔ نہیں جانتے، بس چند ایک ملتے ہیں۔
دراصل کیا ہے جنوں' جانتا نہیں کوئی
جنوں کے نام پر ہوتے ہیں واقعات بہت
شجر ہوتے ہیں ایسے لوگ، جن کی چھاؤں میں سب ہی آرام کرتے ہیں۔ چرند بھی، پرند بھی، تھکا ہارا مسافر بھی۔ اس کی چھاؤں سب کے لیے ہے، اس کا پھل سب کے لیے ہے۔ کتنا دیالو ہوتا ہے ناں درخت! کبھی کسی درخت کو دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ناں، غور سے دیکھو۔۔۔۔ کتنی عاجزی سے، انکساری سے کھڑا ہوتا ہے۔ مہمان نواز، خود دھوپ میں جل رہا ہے اور مسافروں سے کہہ رہا ہے آؤ میری چھاؤں میں آؤ، ذرا سی دیر سستا لو پھر چلے جانا، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا، بس یہی بہت ہے کہ تم رب کی مخلوق ہو اور مجھے تمہاری خدمت کا موقع مل رہا ہے۔
مجھ پر بہت کرم نوازی ہوگی، آؤ مجھے سرشار کردو، میرا جیون امر کردو، تمہیں کیا پیش کروں! بس کیا کریں اس کی آواز آپ نہیں سنتے۔ اگر آپ کو اس کی زبان سمجھ میں آتی تب آپ حیران رہ جاتے۔۔۔۔ کیا سہانا نغمہ ہے۔ ہوا چل رہی ہو اور وہ جھوم رہا ہو تب دیکھا کریں اسے، تب سنا کریں اس کی بات۔ سرشاری کا نغمہ سرا۔ کبھی نہیں دیکھا میں نے، مجھے یقین ہے آپ نے بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی درخت نے آپ کو سایہ دینے سے انکار کردیا ہو۔ نہیں وہ ایسا ہوتا ہی نہیں ہے۔
ہم ہیں اشرف المخلوقات۔ اشرف ہیں ہم، اسی لیے تو ہم ہوس میں مبتلا ہیں۔۔۔۔ بس سب کچھ میرا ہے، میں کیوں دوں! گھر میرا ہے، دکان میری ہے، زمین میری ہے، چیزیں میری ہیں۔۔۔ اور جمع کرو۔۔۔ بس چیزیں ہی چیزیں، سامان ہی سامان۔ لوٹ کھسوٹ کرو، جائز ناجائز کون پوچھتا ہے! بس ہوس، لالچ، خودغرضی، عیاری، مکاری، منافقت اور نہ جانے کیا کیا۔ قبضہ گروپ بنا ہوا ہے انسان۔ جتھا بردار۔ دھونس، دھمکی سب کچھ روا ہے انسان پر۔ ہر شے پر قابض۔ وہ تو بس نہیں چلتا ورنہ ہوا پر قابض ہو جائے، موسم کو گھیر لے اور اس سے بھی صرف خود فائدہ اٹھائے۔ ہاں انسان ایسا ہی ہے۔
سارا جیون آوارگی میں بیت گیا۔ کھیت، کھلیان، دریا، سمندر، ندی، نالے، بہتے دھارے، پری جھیلیں، میٹھا چشمہ، گھنا جنگل، تپتا صحرا، کالی رات اور روشن دن، آندھی طوفان، برستا بادل، مرگھٹ و قبرستان، اندھے غار اور بھاگتے دوڑتے شہر اور طرح طرح کے لوگ۔۔۔۔ رب نے دکھایا سب کچھ، کبھی نہیں دیکھا، رب کی قسم کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ندی نے پانی پینے سے منع کیا ہو، دریا نے نہانے سے روکا ہو، بادل نے برسنے سے انکار کردیا ہو، درخت پھل دینے سے منکر ہو گیا ہو۔ نہ جانے کہاں کہاں آوارہ گرد گیا، سب کو چشمِ ما روشن پایا۔ ہاں رب کے بندوں کو بھی۔ ایسے بھی ہوتے ہیں بندگان ربِ رحیم۔
کیا ہوگیا، یہ کیسا نظارہ دیکھ لیا، یہ ترقی ترقی کو بس ایک جرثومے نے چکنا چُور کردیا۔ بس ایک ان دیکھے جرثومے نے، کہاں ہَوا ہوگئی وہ ترقی، سائنسی ترقی اور نہ جانے کون کون سی ترقی، اپنے سے بھی بے گانے جو پوری دنیا میں بگھ ٹٹ دوڑ رہے تھے یہ اچانک سب کے سب کیسے رک گئے، آسماں ہوائی جہازوں سے اور اسٹیشن ٹرینوں سے خالی کیسے ہوگئے، سمندر کے سینے پر لاکھوں ٹن وزنی آہنی بحری بیڑے کہاں ساکت ہوگئے، یہ اسٹاک ایکسچیج کی چیختی دھاڑتی دنیا کو سکتہ کیسے ہوگیا۔ یہ دنیا کے سب باسی پناہ پناہ دُور دُور کہتے ہوئے اک دوجے سے خوف کیوں کھانے لگے۔
سارے سائنس دان خود سمجھ نہیں پارہے کہ کیا کریں، کہاں جائیں، کیسے ایک چھوٹے سے جرثومے کو نکیل ڈالیں، بھاگتی دوڑتی دنیا یک دم ہوگئی ساکت اور شور اٹھا جسے جہاں جگہ ملے چھپ جاؤ اور لاک ڈاؤن کا بھوت وحشیانہ قہقہے لگاتا ہوا ساری دنیا کے سر پر سوار ہوکر پکارتا رہا آؤ ترقی روک لو مجھے گر دم ہے تو! پوری دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں! بس جسے جو سوجھ رہا ہے وہ کیے جارہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا جناب! لیکن سنیے جی! اس نادیدہ جرثومے نے اتنا تو کیا کہ سب کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب الٹ دیے۔ وہ جو بنے پھرتے تھے انسان دوست ان سب کو کردیا بے نقاب۔ اس جرثومے نے تو بندۂ نفس اور بندۂ رب کو سب کے سامنے لاکھڑا کیا جناب۔
فقیر کو بتایا گیا ہے کہ یہ جو کارِمسیحائی ہے ناں! یہ کوئی ایسا ویسا کام نہیں اور نہ ہی یہ ہر کس و ناکس کے بس کا ہے، مسیحا مایوسی کا پیامبر نہیں ہوتا، ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بندۂ رب ہوتا ہے، وہ تو رازدار ہوتا ہے، وہ تو امید ہوتا ہے، وہ تو روشنی ہوتا ہے، وہ تو دردمند و ہم درد و مونس و غم خوار ہوتا ہے، وہ تو مرتے ہوئے میں بھی جیون جوت جگاتا ہے، وہ تو روگ سے لڑتا سکھاتا ہے، وہ تو مینار حوصلہ ہوتا ہے، وہ تو ہروقت و ہر پل روگی کے روگ کو سوگ میں نہیں اس کے مرہم میں بدلتا ہے، وہ تو ایک ایسا بندۂ رب ہوتا ہے جس کا ہر پل عبادت ہے، وہ تو چاہے اندر سے لاکھ تشویش میں مبتلا ہو دوسرے کو امید، امید، روشی اور روشنی کا درس دیتا ہے۔
جی یہ بات بالکل درست ہے صد فی صد بجا کہ وہ اپنے مریض کو احتیاط سکھاتا اور بتاتا ہے، وہ اسے مرض کو آخری سانس تک لڑنا اور اسے فتح مند دیکھنا چاہتا ہے، وہ کسی بھی مریض کو کبھی کسی شے سے ڈراتا نہیں، خوف میں نہیں مبتلا کرتا، وہ تو مرض کے سامنے مریض کی ڈھال بن کر کھڑا ہوتا ہے، بس امید ہے مسیحا تو، روشنی ہے مسیحا تو، مسیحائی کارِعبادت ہے جی! جن مسیحاؤں نے ایسا کیا وہ سرخ رُو رہیں گے، وہ سر بلند رہیں گے اور خدا نہ خواستہ کسی مسیحا نے ایسا نہیں کیا تو بس کیا کہیے کہ کہنے کو رہا کیا ہے کہ جب مریض کا اپنے مسیحا پر اعتماد ہی ختم ہوجائے تو بس رہ جاتا ہے ایک خلا اور ایسا کہ شاید ہی کبھی بھر سکے۔ مسیحا کو تو مسیحا ہونا چاہیے ناں دردمند و مجسم خلوص نہ کہ وہ کسی دوا ساز ادارے کا تجارتی منشی بن جائے یا کسی بھی عمال حکومت کا بھونپُو۔
ایک دن بھٹ شاہ کے شاہ سائیں لطیف کے دربار میں فقیر نے صدا لگائی: شاہ سائیں! آپ نے ایک دن کہا تھا اپنے رب سے ''تُو کہتا ہے یہ سب میرے بندے ہیں، اور میں جب ان سے پوچھتا ہوں کہ تم کس کے بندے ہو، تب یہ کہتے ہیں فلاں خان کا بندہ ہوں، فلاں نواب کا ہوں، فلاں وڈیرے کا ہوں۔ میں بہت پریشان ہوں میرے رب۔ کبھی اتر آ، میرا مسئلہ حل کردے، اپنے بندوں پر نشان لگا دے، ہمیں بتا دے کون سا ہے تیرا بندہ۔'' یہی کہا تھا ناں شاہ سائیں آپ نے!
میں نے اس دن شاہ سائیں کو بہت غصے میں اپنے ٹیلے سے نیچے اترتے دیکھ تھا۔ اپنی خیر مناؤ وادی مہران والو! خدا کے لیے شاہ سائیں کا نام لینا چھوڑ دو۔ ہم مارے گئے، ہم بندۂ ہوس بن گئے۔ شاہ سائیں کو تو پہلے جواب دے لو، رب کو تو دینا ہی ہوگا۔
فقیر کی بکواس تو جاری رہے گی، آپ اپنا سکون کیوں برباد کرتے ہیں! پل گزر گیا، ہم امتحان میں ناکام ہوگئے، لٹ گیا، برباد ہو گیا میرے شاہ سائیں کا پیارا سندھ، امر سندھ۔ اتنا بھی نہیں جانتے تم: ''کتوں کے بھونکنے سے گداگروں کا رزق کم نہیں ہوتا۔''
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔
بادل مری امید کا بارش نہ لاسکا
صحرا مرے خیال کا جنگل نہ ہوسکا
میں رہ کے سندھ میں بھی' نہ بن پایا شاہ لطیف
میں ہفت خوان ہو کے بھی سچل نہ ہوسکا
پوری دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں! بس جسے جو سوجھ رہا ہے وہ کیے جارہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا جناب! لیکن سنیے جی! اس نادیدہ جرثومے نے اتنا تو کیا کہ سب کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب الٹ دیے۔ وہ جو بنے پھرتے تھے انسان دوست ان سب کو کردیا بے نقاب۔ اس جرثومے نے تو بندۂ نفس اور بندۂ رب کو سب کے سامنے لاکھڑا کیا جناب۔
اس میں بھی جب اسے پڑھیے تو لگتا تھا کہ نہیں ابھی بات بنی نہیں ہے، جو ہم کہنا چاہ رہے تھے وہ تو کہہ ہی نہیں پائے، لیجیے وہ کاغذ پرزے کیا اور پھر کسی اور دن نئے سرے سے اس کام کا اہتمام کیا اور اگر وہ من چاہا ہوگیا تو اسے لفافے میں کیا بند اور حوالے کردیا ڈاک کے اور پھر بنے مجسّم انتظار اور اس کے ساتھ ہی ''نہ جانے'' کا خدشہ بھی کہ پتا نہیں جسے ارسال کیا اسے ملے گا بھی کہ نہیں، اور اگر ملے گا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس کا جواب کب دیں گے اور دیں گے بھی نہیں، روز ڈاکیے کا انتظار اور اس سے کوئی خوش خبری سننے کا اشتیاق اور اگر وہ خاموش رہے تو مجبوراً اس سے دریافت کرنا کہ جی ہمارا کوئی خط پتر تو نہیں آیا ناں! نہ جانے کتنے ہی خدشات سانپ کی طرح پھنکارتے آس پاس ناچتے رہتے اور پھر مایوسی گھیر لیا کرتی۔
لیکن صاحبو! ایسے میں جب ڈاک بابو کو آپ دیکھتے تو دریافت ہی نہیں کرتے تھے اور وہ چہک کر کہتا اجی کہاں چلے! لیجیے آپ کا خط آیا ہے تو یک دم موسم بدل جاتا اور شدید حبس میں بھی جسم و جاں میں روح رواں میں ٹھنڈ پڑ جاتی، دل کی کلی کھل اٹھتی اور واہ جی واہ ہر سمت موسم بہار ہوجاتا۔ یہ سب تو جناب اندر کی سبھائیں ہیں ناں جی۔ اور اب دیکھیں کتنا آسان ہوگیا رابطہ ناں، قلم نہ روشنائی، کاغذ نہ لفافہ، بس دستی فون سے دھڑا دھڑ اپنے دل کی بات کیے جائیے، ہنسیے اور ہنسائیے، لڑیے اور تعلق کو قطع کرلیجیے یہ کہتے ہوئے کہ تُو نہیں تو کوئی اور سہی اور یہ گنگناتے ہوئے کہ ایک ڈھونڈو ملتے ہیں ہزاروں حُسن والے کم نہیں۔ اسے کہتے ہیں ترقی۔
ہم جیسے غبی، بے علم و عمل فقیروں کو تو بابا لوگ نے بتایا بھی، سکھایا بھی کہ یہ جو تعلق ہے ناں تو جی! یہ ایسا ہے کہ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام اور اگر کسی سے لڑ جائے پیچ تو جناب خیال رکھنا کہ یہ کوئی اشتہار نہیں کہ جس کی ہر جا تشہیر کی جائے۔
بل کہ یہ کہا گیا اور بتایا گیا کہ دیکھو زلف کا کنڈل کھلنا نہیں چاہیے اور آنکھ کا کاجل بہنا نہیں چاہیے اور اگر لوگ سولی پر بھی چڑھا دیں تو بھید پیار کا کھلنا نہیں چاہیے کہ یہی ہے شرط اول جناب۔ لیکن چھوڑیے فقیر بھی کیا پرانی بات لے بیٹھا جب محلے ایک خاندان ہوتا تھا اور اس میں خواتین کو حسب مراتب دادی اماں، بُوّا، تائی، چاچی، آپا، باجی، خالہ، اور مردوں کو بھیّا، چاچا، تایا، خالو، بھائی کہا جاتا تھا اور پھر ہوئی ترقی اور سب کچھ آنٹی اور انکل میں سمٹ گیا۔ چلو یہ بھی کوئی ان ہونی نہیں کہ سفر جاری رہتا ہے اور منظر بدلتے رہتے ہیں۔ رہے نام اﷲ کا!
تو صاحبو! اس بات کو یہیں سکوت دیتے ہیں کہ اگر یہ پھیل گئی تو سمجھیے بات ہے رسوائی کی اور پھر یہ کوئی قصۂ مختصر بھی نہیں کہ اسے ورق کو جلدی الٹ گئے تم، میں کوئی قصۂ مختصر نہیں ہوں، اس بارے بات میں تو کئی دفتر چاہییں ناں اور ہم ہیں کہ فرصت زندگی بہت کم ہے، عجلت میں رواں ہیں سب اور کوئی کہیں سے پکارتا ہے
جو جاگتا نظر آتا ہے وہ بھی نیند میں ہے
جو سو رہا ہے، ابھی اور جاگ سکتا تھا
چلتے پھر کبھی چھیڑیں گے اس ساز کو بھی گر سانس کی ڈور سلامت رہی تو۔ تو آتے ہیں جیون کتھا پر کہ بابا جی فرماتے تھے کہ لمبی چوڑی نہیں جناب بس لمحۂ موجود ہے زندگی۔ بس یہ پل جو دست رس میں ہے جناب۔ فقیر کو بتایا گیا کہ زندگی ماہ و سال کا نام نہیں ہے۔ زندگی پل کا نام ہے، وہ پل جسے آپ زندگی کہہ سکیں، نہ بھلا پانے والا پل۔ ایسا پل جو آپ کو سرشار کردے، وہ پل جسے آپ حاصل زندگی کہہ سکیں، ایسا پل جو آپ محفوظ کرلیں اور جب چاہیں اسے اپنی پوری توانائی اور پورے احساسات کے ساتھ زندہ رکھ سکیں، ایسے پل جو آپ کے نصیب میں ہوں، بس وہی ہوتے ہیں امر اور وہی ہوتے ہیں جینا۔ وہی ہے زندگی جسے آپ جینا کہتے ہیں۔ جسے زندگی کہتے ہیں وہ تو بس سانسوں کی آمد و رفت ہے اور کچھ نہیں۔
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
اگر آپ کے پاس ایسے پل ہیں اور بہت ہیں تو بس یہ ہے زندگی۔۔۔ اور ایسی زندگی جس میں طمانیت ہے، سرشاری ہے، بے خودی ہے، ایثار ہے، اخلاص ہے، محبت ہے، قربانی ہے۔ خود کو تج دینا ہے زندگی، جنون خیز، جس میں اپنی خبر نہیں ملتی۔ ایسا مجنوں نہیں جو صرف اپنے لیے ہی رو رہا ہو۔ وہ تو بس ایک چھوٹا سا گڑھا ہے پانی کا۔ زندگی دریا ہے، جھیل ہے، بہتا دھارا ہے، جیسے موج میں سمندر ہوتا ہے۔ ایسا جنون توفیق پر ہے، جیسے چاہے نواز دے، جوہڑ سے آب شار کردے، ٹھنڈی میٹھی جھیل بنادے، ہنستا کھیلتا دریا بنادے، جس سے سب مستفید ہوں، سب کے لیے کشادہ دل، روشن جبیں، کھلے بازو، چشمِ ما روشن دلِ ماشاد۔ لیکن یہاں تو عجیب مسئلہ ہے، کوئی جانتا کب ہے جنوں کیسا ہوتا ہے، کیا ہوتا ہے۔ نہیں جانتے، بس چند ایک ملتے ہیں۔
دراصل کیا ہے جنوں' جانتا نہیں کوئی
جنوں کے نام پر ہوتے ہیں واقعات بہت
شجر ہوتے ہیں ایسے لوگ، جن کی چھاؤں میں سب ہی آرام کرتے ہیں۔ چرند بھی، پرند بھی، تھکا ہارا مسافر بھی۔ اس کی چھاؤں سب کے لیے ہے، اس کا پھل سب کے لیے ہے۔ کتنا دیالو ہوتا ہے ناں درخت! کبھی کسی درخت کو دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ناں، غور سے دیکھو۔۔۔۔ کتنی عاجزی سے، انکساری سے کھڑا ہوتا ہے۔ مہمان نواز، خود دھوپ میں جل رہا ہے اور مسافروں سے کہہ رہا ہے آؤ میری چھاؤں میں آؤ، ذرا سی دیر سستا لو پھر چلے جانا، مجھے تم سے کچھ نہیں لینا، بس یہی بہت ہے کہ تم رب کی مخلوق ہو اور مجھے تمہاری خدمت کا موقع مل رہا ہے۔
مجھ پر بہت کرم نوازی ہوگی، آؤ مجھے سرشار کردو، میرا جیون امر کردو، تمہیں کیا پیش کروں! بس کیا کریں اس کی آواز آپ نہیں سنتے۔ اگر آپ کو اس کی زبان سمجھ میں آتی تب آپ حیران رہ جاتے۔۔۔۔ کیا سہانا نغمہ ہے۔ ہوا چل رہی ہو اور وہ جھوم رہا ہو تب دیکھا کریں اسے، تب سنا کریں اس کی بات۔ سرشاری کا نغمہ سرا۔ کبھی نہیں دیکھا میں نے، مجھے یقین ہے آپ نے بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی درخت نے آپ کو سایہ دینے سے انکار کردیا ہو۔ نہیں وہ ایسا ہوتا ہی نہیں ہے۔
ہم ہیں اشرف المخلوقات۔ اشرف ہیں ہم، اسی لیے تو ہم ہوس میں مبتلا ہیں۔۔۔۔ بس سب کچھ میرا ہے، میں کیوں دوں! گھر میرا ہے، دکان میری ہے، زمین میری ہے، چیزیں میری ہیں۔۔۔ اور جمع کرو۔۔۔ بس چیزیں ہی چیزیں، سامان ہی سامان۔ لوٹ کھسوٹ کرو، جائز ناجائز کون پوچھتا ہے! بس ہوس، لالچ، خودغرضی، عیاری، مکاری، منافقت اور نہ جانے کیا کیا۔ قبضہ گروپ بنا ہوا ہے انسان۔ جتھا بردار۔ دھونس، دھمکی سب کچھ روا ہے انسان پر۔ ہر شے پر قابض۔ وہ تو بس نہیں چلتا ورنہ ہوا پر قابض ہو جائے، موسم کو گھیر لے اور اس سے بھی صرف خود فائدہ اٹھائے۔ ہاں انسان ایسا ہی ہے۔
سارا جیون آوارگی میں بیت گیا۔ کھیت، کھلیان، دریا، سمندر، ندی، نالے، بہتے دھارے، پری جھیلیں، میٹھا چشمہ، گھنا جنگل، تپتا صحرا، کالی رات اور روشن دن، آندھی طوفان، برستا بادل، مرگھٹ و قبرستان، اندھے غار اور بھاگتے دوڑتے شہر اور طرح طرح کے لوگ۔۔۔۔ رب نے دکھایا سب کچھ، کبھی نہیں دیکھا، رب کی قسم کبھی نہیں دیکھا کہ کسی ندی نے پانی پینے سے منع کیا ہو، دریا نے نہانے سے روکا ہو، بادل نے برسنے سے انکار کردیا ہو، درخت پھل دینے سے منکر ہو گیا ہو۔ نہ جانے کہاں کہاں آوارہ گرد گیا، سب کو چشمِ ما روشن پایا۔ ہاں رب کے بندوں کو بھی۔ ایسے بھی ہوتے ہیں بندگان ربِ رحیم۔
کیا ہوگیا، یہ کیسا نظارہ دیکھ لیا، یہ ترقی ترقی کو بس ایک جرثومے نے چکنا چُور کردیا۔ بس ایک ان دیکھے جرثومے نے، کہاں ہَوا ہوگئی وہ ترقی، سائنسی ترقی اور نہ جانے کون کون سی ترقی، اپنے سے بھی بے گانے جو پوری دنیا میں بگھ ٹٹ دوڑ رہے تھے یہ اچانک سب کے سب کیسے رک گئے، آسماں ہوائی جہازوں سے اور اسٹیشن ٹرینوں سے خالی کیسے ہوگئے، سمندر کے سینے پر لاکھوں ٹن وزنی آہنی بحری بیڑے کہاں ساکت ہوگئے، یہ اسٹاک ایکسچیج کی چیختی دھاڑتی دنیا کو سکتہ کیسے ہوگیا۔ یہ دنیا کے سب باسی پناہ پناہ دُور دُور کہتے ہوئے اک دوجے سے خوف کیوں کھانے لگے۔
سارے سائنس دان خود سمجھ نہیں پارہے کہ کیا کریں، کہاں جائیں، کیسے ایک چھوٹے سے جرثومے کو نکیل ڈالیں، بھاگتی دوڑتی دنیا یک دم ہوگئی ساکت اور شور اٹھا جسے جہاں جگہ ملے چھپ جاؤ اور لاک ڈاؤن کا بھوت وحشیانہ قہقہے لگاتا ہوا ساری دنیا کے سر پر سوار ہوکر پکارتا رہا آؤ ترقی روک لو مجھے گر دم ہے تو! پوری دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں! بس جسے جو سوجھ رہا ہے وہ کیے جارہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا جناب! لیکن سنیے جی! اس نادیدہ جرثومے نے اتنا تو کیا کہ سب کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب الٹ دیے۔ وہ جو بنے پھرتے تھے انسان دوست ان سب کو کردیا بے نقاب۔ اس جرثومے نے تو بندۂ نفس اور بندۂ رب کو سب کے سامنے لاکھڑا کیا جناب۔
فقیر کو بتایا گیا ہے کہ یہ جو کارِمسیحائی ہے ناں! یہ کوئی ایسا ویسا کام نہیں اور نہ ہی یہ ہر کس و ناکس کے بس کا ہے، مسیحا مایوسی کا پیامبر نہیں ہوتا، ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ بندۂ رب ہوتا ہے، وہ تو رازدار ہوتا ہے، وہ تو امید ہوتا ہے، وہ تو روشنی ہوتا ہے، وہ تو دردمند و ہم درد و مونس و غم خوار ہوتا ہے، وہ تو مرتے ہوئے میں بھی جیون جوت جگاتا ہے، وہ تو روگ سے لڑتا سکھاتا ہے، وہ تو مینار حوصلہ ہوتا ہے، وہ تو ہروقت و ہر پل روگی کے روگ کو سوگ میں نہیں اس کے مرہم میں بدلتا ہے، وہ تو ایک ایسا بندۂ رب ہوتا ہے جس کا ہر پل عبادت ہے، وہ تو چاہے اندر سے لاکھ تشویش میں مبتلا ہو دوسرے کو امید، امید، روشی اور روشنی کا درس دیتا ہے۔
جی یہ بات بالکل درست ہے صد فی صد بجا کہ وہ اپنے مریض کو احتیاط سکھاتا اور بتاتا ہے، وہ اسے مرض کو آخری سانس تک لڑنا اور اسے فتح مند دیکھنا چاہتا ہے، وہ کسی بھی مریض کو کبھی کسی شے سے ڈراتا نہیں، خوف میں نہیں مبتلا کرتا، وہ تو مرض کے سامنے مریض کی ڈھال بن کر کھڑا ہوتا ہے، بس امید ہے مسیحا تو، روشنی ہے مسیحا تو، مسیحائی کارِعبادت ہے جی! جن مسیحاؤں نے ایسا کیا وہ سرخ رُو رہیں گے، وہ سر بلند رہیں گے اور خدا نہ خواستہ کسی مسیحا نے ایسا نہیں کیا تو بس کیا کہیے کہ کہنے کو رہا کیا ہے کہ جب مریض کا اپنے مسیحا پر اعتماد ہی ختم ہوجائے تو بس رہ جاتا ہے ایک خلا اور ایسا کہ شاید ہی کبھی بھر سکے۔ مسیحا کو تو مسیحا ہونا چاہیے ناں دردمند و مجسم خلوص نہ کہ وہ کسی دوا ساز ادارے کا تجارتی منشی بن جائے یا کسی بھی عمال حکومت کا بھونپُو۔
ایک دن بھٹ شاہ کے شاہ سائیں لطیف کے دربار میں فقیر نے صدا لگائی: شاہ سائیں! آپ نے ایک دن کہا تھا اپنے رب سے ''تُو کہتا ہے یہ سب میرے بندے ہیں، اور میں جب ان سے پوچھتا ہوں کہ تم کس کے بندے ہو، تب یہ کہتے ہیں فلاں خان کا بندہ ہوں، فلاں نواب کا ہوں، فلاں وڈیرے کا ہوں۔ میں بہت پریشان ہوں میرے رب۔ کبھی اتر آ، میرا مسئلہ حل کردے، اپنے بندوں پر نشان لگا دے، ہمیں بتا دے کون سا ہے تیرا بندہ۔'' یہی کہا تھا ناں شاہ سائیں آپ نے!
میں نے اس دن شاہ سائیں کو بہت غصے میں اپنے ٹیلے سے نیچے اترتے دیکھ تھا۔ اپنی خیر مناؤ وادی مہران والو! خدا کے لیے شاہ سائیں کا نام لینا چھوڑ دو۔ ہم مارے گئے، ہم بندۂ ہوس بن گئے۔ شاہ سائیں کو تو پہلے جواب دے لو، رب کو تو دینا ہی ہوگا۔
فقیر کی بکواس تو جاری رہے گی، آپ اپنا سکون کیوں برباد کرتے ہیں! پل گزر گیا، ہم امتحان میں ناکام ہوگئے، لٹ گیا، برباد ہو گیا میرے شاہ سائیں کا پیارا سندھ، امر سندھ۔ اتنا بھی نہیں جانتے تم: ''کتوں کے بھونکنے سے گداگروں کا رزق کم نہیں ہوتا۔''
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔
بادل مری امید کا بارش نہ لاسکا
صحرا مرے خیال کا جنگل نہ ہوسکا
میں رہ کے سندھ میں بھی' نہ بن پایا شاہ لطیف
میں ہفت خوان ہو کے بھی سچل نہ ہوسکا
پوری دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں! بس جسے جو سوجھ رہا ہے وہ کیے جارہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا جناب! لیکن سنیے جی! اس نادیدہ جرثومے نے اتنا تو کیا کہ سب کے چہرے پر پڑے ہوئے نقاب الٹ دیے۔ وہ جو بنے پھرتے تھے انسان دوست ان سب کو کردیا بے نقاب۔ اس جرثومے نے تو بندۂ نفس اور بندۂ رب کو سب کے سامنے لاکھڑا کیا جناب۔