چلتی گاڑی میں سیلفی لیتے ہوئے گولی چلنے سے ڈرائیور جاں بحق
مگر واقعہ رونما ہونے پر حقیقت سب پر آشکار ہو گئی
اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ صرف تعلیم ہی انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کا ذریعہ ہے، اسی لئے ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاداعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معاشرے کا قابل فخر انسان بن سکے لیکن والدین کی بہترین پرورش کے ساتھ سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی منفی سوچ کو ختم کر کے ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو ابھاریں اور انہیں تراش کر نگینہ کا روپ دیں، لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا اور طلباء جرائم کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ہی واقعہ یونیوسٹی آف گجرات کے طلباء کی جانب سے رونما ہوا، جس میں ایک پولیس کانسٹیبل کی جان چلی گئی۔
تھانہ اے ڈویژن گجرات میں تعینات26 سالہ کانسٹیبل حسن شہزاد 5 مارچ 2020ء کو محکمانہ رخصت کے باعث معمول کے مطابق رینٹ پر اپنی گاڑی پر روزی کمانے کی خاطرایک لڑکے اور دو لڑکیوں پر مشتمل سواریوں کو لے کر لاہور چلا گیا لیکن اچانک اگلے روز 6 مارچ کو بیوووالی کے قریب تھانہ صدر گجرات کو اس کی نعش ملی، مقتول کو سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
تفتیش پر معلوم ہوا کہ مقتول کو گاڑی سمیت اس کے دوست محمد ولید نے ایک روز قبل سواریوں کو لاہو رجانے کیلئے بک کروایا تھا، جس پر پولیس نے فوری طور پرمسافر محمد ولید کے باپ محمد احسن اور بھائی کو حراست میں لیا تو انہوں نے محمد ولید کو پولیس کے حوالے کر دیا، جہاں ولید نے بغیر کسی تاخیر کے لمحوں میں ہی سچ اُگل دیا کہ وہ یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ زوالوجی کی سکینڈ سمیسٹرمیں زیر تعلیم اپنی20سالہ دوست ریئسہ کے ساتھ ایک روز ہ سیر وتفریح کیلئے لاہور گیا تھا اور اس کے ساتھ ریئسہ کی کلاس فیلو19سالہ لائبہ بھی تھی۔
ابتدائی حقیقت علم ہونے پر تھانہ صدر گجرات کے ایس ایچ او توقیر رانجھا نے فوری طور پر پولیس نوجوان کے قتل کیس کے حوالے سے یونیورسٹی آف گجرات کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل کو آگاہ کر کے ملزمان حوالے کرنے کا کہہ تو انہوں نے دونوں طالبات کی یونیورسٹی سے آنے اور جانے بارے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ہاسٹل میں ان کی موجودگی سے بھی انکار کر دیا جس پر پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے طالبات کے یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں موجودگی ظاہر ہونے پر چھاپہ مار کردونوں طالبات ریئسہ اور لائبہ کو گرفتار کر کے جامعہ کی سیکورٹی سمیت تمام انتظامات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
گرفتار ہونیوالی طالبہ ریئسہ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ 26سالہ حسن شہزاد کو اسی نے گولی ماری ہے، ملزم محمد ولید سے اُس کی دوستی چھ ماہ قبل پراجیکٹ تیاری کے دوران ہوئی، ولید سے ملاقات کے لئے اس نے ہاسٹل وارڈن سے گھر جانے کا بہانا بنایا اور لاہور چلے گئے۔
جہاں سے واپسی کے دوران وہ گاؤں بیوووالی کے قریب پہنچ کر گاڑی میں ہی پڑے اپنے برقعے پہن کر یونیورسٹی جانے کیلئے صبح 7بجے کے قریب تیار ہو رہی تھیں کہ اُس کی دوست لائبہ نے ڈرائیونگ سیٹ کیساتھ کنسول بکس میں پڑے پرُفیوم کو لگانے کے دوران مقتول کانسٹیبل حسن شہزادکا پسٹل اُٹھا لیا اور اپنے موبائل پر سیلفی بنانی شروع کردی جس کے بعد لائبہ سے پسٹل لے کر ریئسہ نے بھی سیلفی بنانے کیلئے پسٹل ہاتھ میں تھامہ ہی تھا کہ اچانک گولی چل گئی جو ڈرائیونگ کرنیوالے حسن شہزاد کو سر میں جا لگی۔
اس دوران عقب سیٹ پر ہی ہمارے ساتھ بیٹھے دوست ولید نے فورا گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچ کر گاڑی کو حادثہ سے سے تو بچالیا مگر حسن شہزاد موقع پر ہی دم توڑ گیا، جس پرفورا پسٹل وہیں پھینک کر اُس نے ولید کو ریسیکو 1122کو کال کرنے کو کہا مگر ولید نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور گاڑی سے اُتر کر وہ تینوں مسافر بس پر سوار ہو کر گجرات آ گئے، ہم ابھی گھر والوں کو سارا واقعہ بتانا ہی چاہ رہی تھیں کہ اس سے قبل ہی پولیس نے آکر ہمیں پکڑ لیا۔
گھر سے تعلیم حاصل کر نے کے لئے ہاسٹل میں مقیم منڈی بہاوالدین کے30 چک شادیوال ملکوال کی رہائشی طالبہ رئیسہ کا کہنا ہے کہ ولید ہمیں یونیورسٹی کا طالبعلم بتاتا رہا مگر واردات کے بعد اب علم ہوا کہ وہ ایک سال پہلے ہی یونیورسٹی کو خیر آبادکہہ کر آسٹریلیا جانے کیلئے تیار ی کر رہا تھا مگر وہ اب وہ جیل پہنچ گیا، ہم دونوں پہلے بھی ایک مرتبہ لاہور جا چکے ہیں، جس میں اس کا ہمسفر ولید اوراس کا بااعتماد مقتول ڈرائیور شامل تھے، مگر وزیرآباد کے علاقہ اوجلہ کی رہائشی لائبہ اُس سفر میں شامل نہیں تھی، اس مرتبہ لائبہ نے بھی اپنے لاہور کے دوست علی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھی ساتھ چلی گئی۔
مگر واقعہ رونما ہونے پر حقیقت سب پر آشکار ہو گئی۔ یوںگھر سے دوردوسرے اضلاع میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے والی ان طالبات کو اپنے والدین کا بھروسہ توڑنے اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی سزا تو مل گئی لیکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم 70فیصد طالبات میں سے بیشتر ہاسٹل میں مقیم طالبات کے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل بارے میں شدید خوف زدہ اور پریشان ہیں۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے پر وائس چانسلر نے فارغ التحصیل ہونیوالے لاتعداد طلبہ وطالبات کے کارڈ منسوخ کر کے جامعہ میں ان کا داخلہ بند کر دیا جنہیں اسی بات پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے فرائض سے نظریں چرا کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنیوالے ذمہ داروں کیخلاف مزید ایکشن بھی لینا ہوگا۔
اس وقوعہ میں پولیس نے جہاں واردات کے فورا بعد ملزمان گرفتا رکر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا وہیں پولیس نے ایک ماہ بعد ہی وقوعہ کو بدل کر اسے اپنی مرضی کا رنگ بھی دیدیا حالانکہ واقعہ میں گرفتار تینوں ملزمان کی جانب سے میڈیا کے سامنے حقائق سے پردہ اُٹھانے اور طالبہ ریئسہ کے گولی چلانے کے برملا اعتراف جرم کے بعد مقدمہ کے تفتیشی وایس ایچ او تھانہ صد ر گجرات توقیر رانجھا ، ڈی ایس پی صدر ریاض گجر نے تمام تر حالات و اقعات من و عن اپنے آفیسران کے سامنے رکھ دئیے تھے مگر اچانک ایک ماہ بعد ہی پولیس کے اعلیٰ آفیسران نے تفتیش کا رخ خود ہی بدل کر دونوں طالبات رئیسہ اور لائبہ کو بے گناہ قرار دے کر ولید کو ہی اکیلا واردات کا مرکزی ملزم بنا ڈالا کہ پسٹل بھی اسی کے ہاتھ میں تھا اور گولی بھی اسی نے چلائی تھی۔ جس پر ملزم ولید کا کہنا ہے کہ مقتول حسن شہزاد کا بھائی پولیس ملازم ہے اور اب اس واقعہ کو پولیس دیرینہ چپقلش کا رنگ دے رہی ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔
تھانہ اے ڈویژن گجرات میں تعینات26 سالہ کانسٹیبل حسن شہزاد 5 مارچ 2020ء کو محکمانہ رخصت کے باعث معمول کے مطابق رینٹ پر اپنی گاڑی پر روزی کمانے کی خاطرایک لڑکے اور دو لڑکیوں پر مشتمل سواریوں کو لے کر لاہور چلا گیا لیکن اچانک اگلے روز 6 مارچ کو بیوووالی کے قریب تھانہ صدر گجرات کو اس کی نعش ملی، مقتول کو سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
تفتیش پر معلوم ہوا کہ مقتول کو گاڑی سمیت اس کے دوست محمد ولید نے ایک روز قبل سواریوں کو لاہو رجانے کیلئے بک کروایا تھا، جس پر پولیس نے فوری طور پرمسافر محمد ولید کے باپ محمد احسن اور بھائی کو حراست میں لیا تو انہوں نے محمد ولید کو پولیس کے حوالے کر دیا، جہاں ولید نے بغیر کسی تاخیر کے لمحوں میں ہی سچ اُگل دیا کہ وہ یونیورسٹی آف گجرات کے شعبہ زوالوجی کی سکینڈ سمیسٹرمیں زیر تعلیم اپنی20سالہ دوست ریئسہ کے ساتھ ایک روز ہ سیر وتفریح کیلئے لاہور گیا تھا اور اس کے ساتھ ریئسہ کی کلاس فیلو19سالہ لائبہ بھی تھی۔
ابتدائی حقیقت علم ہونے پر تھانہ صدر گجرات کے ایس ایچ او توقیر رانجھا نے فوری طور پر پولیس نوجوان کے قتل کیس کے حوالے سے یونیورسٹی آف گجرات کے رجسٹرار ڈاکٹر طاہر عقیل کو آگاہ کر کے ملزمان حوالے کرنے کا کہہ تو انہوں نے دونوں طالبات کی یونیورسٹی سے آنے اور جانے بارے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ہاسٹل میں ان کی موجودگی سے بھی انکار کر دیا جس پر پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے طالبات کے یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں موجودگی ظاہر ہونے پر چھاپہ مار کردونوں طالبات ریئسہ اور لائبہ کو گرفتار کر کے جامعہ کی سیکورٹی سمیت تمام انتظامات پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
گرفتار ہونیوالی طالبہ ریئسہ نے اعتراف جرم کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ 26سالہ حسن شہزاد کو اسی نے گولی ماری ہے، ملزم محمد ولید سے اُس کی دوستی چھ ماہ قبل پراجیکٹ تیاری کے دوران ہوئی، ولید سے ملاقات کے لئے اس نے ہاسٹل وارڈن سے گھر جانے کا بہانا بنایا اور لاہور چلے گئے۔
جہاں سے واپسی کے دوران وہ گاؤں بیوووالی کے قریب پہنچ کر گاڑی میں ہی پڑے اپنے برقعے پہن کر یونیورسٹی جانے کیلئے صبح 7بجے کے قریب تیار ہو رہی تھیں کہ اُس کی دوست لائبہ نے ڈرائیونگ سیٹ کیساتھ کنسول بکس میں پڑے پرُفیوم کو لگانے کے دوران مقتول کانسٹیبل حسن شہزادکا پسٹل اُٹھا لیا اور اپنے موبائل پر سیلفی بنانی شروع کردی جس کے بعد لائبہ سے پسٹل لے کر ریئسہ نے بھی سیلفی بنانے کیلئے پسٹل ہاتھ میں تھامہ ہی تھا کہ اچانک گولی چل گئی جو ڈرائیونگ کرنیوالے حسن شہزاد کو سر میں جا لگی۔
اس دوران عقب سیٹ پر ہی ہمارے ساتھ بیٹھے دوست ولید نے فورا گاڑی کی ہینڈ بریک کھینچ کر گاڑی کو حادثہ سے سے تو بچالیا مگر حسن شہزاد موقع پر ہی دم توڑ گیا، جس پرفورا پسٹل وہیں پھینک کر اُس نے ولید کو ریسیکو 1122کو کال کرنے کو کہا مگر ولید نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور گاڑی سے اُتر کر وہ تینوں مسافر بس پر سوار ہو کر گجرات آ گئے، ہم ابھی گھر والوں کو سارا واقعہ بتانا ہی چاہ رہی تھیں کہ اس سے قبل ہی پولیس نے آکر ہمیں پکڑ لیا۔
گھر سے تعلیم حاصل کر نے کے لئے ہاسٹل میں مقیم منڈی بہاوالدین کے30 چک شادیوال ملکوال کی رہائشی طالبہ رئیسہ کا کہنا ہے کہ ولید ہمیں یونیورسٹی کا طالبعلم بتاتا رہا مگر واردات کے بعد اب علم ہوا کہ وہ ایک سال پہلے ہی یونیورسٹی کو خیر آبادکہہ کر آسٹریلیا جانے کیلئے تیار ی کر رہا تھا مگر وہ اب وہ جیل پہنچ گیا، ہم دونوں پہلے بھی ایک مرتبہ لاہور جا چکے ہیں، جس میں اس کا ہمسفر ولید اوراس کا بااعتماد مقتول ڈرائیور شامل تھے، مگر وزیرآباد کے علاقہ اوجلہ کی رہائشی لائبہ اُس سفر میں شامل نہیں تھی، اس مرتبہ لائبہ نے بھی اپنے لاہور کے دوست علی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھی ساتھ چلی گئی۔
مگر واقعہ رونما ہونے پر حقیقت سب پر آشکار ہو گئی۔ یوںگھر سے دوردوسرے اضلاع میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے آنے والی ان طالبات کو اپنے والدین کا بھروسہ توڑنے اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی سزا تو مل گئی لیکن یونیورسٹی میں زیر تعلیم 70فیصد طالبات میں سے بیشتر ہاسٹل میں مقیم طالبات کے والدین اپنی بیٹیوں کے مستقبل بارے میں شدید خوف زدہ اور پریشان ہیں۔
حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے پر وائس چانسلر نے فارغ التحصیل ہونیوالے لاتعداد طلبہ وطالبات کے کارڈ منسوخ کر کے جامعہ میں ان کا داخلہ بند کر دیا جنہیں اسی بات پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے فرائض سے نظریں چرا کر کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنیوالے ذمہ داروں کیخلاف مزید ایکشن بھی لینا ہوگا۔
اس وقوعہ میں پولیس نے جہاں واردات کے فورا بعد ملزمان گرفتا رکر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا وہیں پولیس نے ایک ماہ بعد ہی وقوعہ کو بدل کر اسے اپنی مرضی کا رنگ بھی دیدیا حالانکہ واقعہ میں گرفتار تینوں ملزمان کی جانب سے میڈیا کے سامنے حقائق سے پردہ اُٹھانے اور طالبہ ریئسہ کے گولی چلانے کے برملا اعتراف جرم کے بعد مقدمہ کے تفتیشی وایس ایچ او تھانہ صد ر گجرات توقیر رانجھا ، ڈی ایس پی صدر ریاض گجر نے تمام تر حالات و اقعات من و عن اپنے آفیسران کے سامنے رکھ دئیے تھے مگر اچانک ایک ماہ بعد ہی پولیس کے اعلیٰ آفیسران نے تفتیش کا رخ خود ہی بدل کر دونوں طالبات رئیسہ اور لائبہ کو بے گناہ قرار دے کر ولید کو ہی اکیلا واردات کا مرکزی ملزم بنا ڈالا کہ پسٹل بھی اسی کے ہاتھ میں تھا اور گولی بھی اسی نے چلائی تھی۔ جس پر ملزم ولید کا کہنا ہے کہ مقتول حسن شہزاد کا بھائی پولیس ملازم ہے اور اب اس واقعہ کو پولیس دیرینہ چپقلش کا رنگ دے رہی ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔