ٹڈی دل کا شدید حملہ فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے موثر کنٹرول آپریشنز ضروری ہیں

حکومت، کسان نمائندوں اور زرعی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

حکومت، کسان نمائندوں اور زرعی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ملک کو اس وقت ٹڈی دل کی صورت میں ایک اور بڑے چیلنج کے سامنا ہے۔ حکومت نے ٹڈی دل کو کنٹرول کرنے کیلئے قومی ایمرجنسی لگا کر کام کا آغاز کیا۔ ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ملک کے مختلف اضلاع میں پھل، سبزیوں، کپاس و دیگر فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

این ڈی ایم اے کے مطابق ٹڈی دل پاکستان کے باون اضلاع میں موجود ہے ۔ بلوچستان 31، خیبر پختونخوا 10، سندھ 7 اور پنجاب کے 4 اضلاع ٹڈی دل سے متاثر ہو چکے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق ٹڈی دل کے تدارک کیلئے 1128 ٹیمیں لوکسٹ کنڑول آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس کو ٹڈی دل سے نمٹنے کی ذمہ داری بھی دے دی ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے قائم قومی مرکز (این ایل سی سی) راولپنڈی کا دورہ کیااور این ایل سی سی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں قومی کوششوں میں ہم آہنگی قابل تحسین ہے، افواج پاکستان ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے سول انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کرے گی اور تمام دستیاب وسائل کو برووئے کار لایا جائے گا۔

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ''ٹڈی دل کا حملہ اور حکومتی اقدامات'' کے موضوع پر'' ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، کسان نمائندوں اور زرعی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر انجم علی بٹر (ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت پنجاب )

ٹڈی دل کے حوالے سے 2018 ء میں عالمی اداروں کی وارننگ آئی تھی اور پاکستان اس وقت سے ہی الرٹ ہے۔ جنوری 2019ء میں جب ٹڈی دل بلوچستان آئے تو کوشش کی گئی کہ انہیںوہاں ہی روک لیا جائے کیونکہ ٹڈی دل سے جنگ ریگستان میں ہی لڑی جاتی ہے، اگر یہ فصلوں میں آجائے تو پھرگوریلا وار ہوتی ہے۔ بارشوں و دیگر محرکات کی وجہ سے ٹڈی دل بلوچستان سے سندھ چلے گئے اور پھر وہاں سے جون2019ء میں پنجاب آگئے۔ جون سے پہلے ہی پنجاب کے زرعی افسران نے سندھ میں ٹڈی دل کے خاتمے کے حوالے سے تربیت حاصل کر لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پنجاب میں پہلے ہی فیز میں ٹڈی دل پر قابو پالیا گیا۔ٹڈی دل کے حوالے سے پاکستان کا 3 لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ غیر محفوظ ہے جس میں 60 فیصد بلوچستان، 25 فیصد سندھ اور 15 فیصد علاقہ پنجاب کا ہے۔ پنجاب میں چولستان سب سے غیر محفوظ ہے۔ وہاں 185 واٹر پونڈز ہیں۔ ہم نے وہاں کے تمام نمبرداروں کو اٹھا کیا، لائیو سٹاک، زراعت ویگر متعلقہ محکموں کے افسران کو متحرک کیا اور دسمبر 2019ء تک ٹڈی دل کو چولستان کے اندر ہی تلف کردیا گیا۔ ٹڈی دل افغانستان ، ایران اور بھارت میں بھی موجود ہے اور ان ممالک کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی ہر ہفتے بارڈر میٹنگ کی جاتی ہے۔ 2 دسمبر 2019ء میں ٹڈی دل دوبارہ سامنے آیااور جنوری میں چیلنج بن گیا جس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ اس وقت 3000 افراد اس پر کام کر رہے ہیں جن میں سے 400 فوجی ہیں۔ ہمارے پاس 1400 چھوٹی سپرے مشینیں جبکہ 400 گاڑیوں والی سپرے مشینیں موجود ہیں اور ہم دن رات سپرے کر رہے ہیں کیونکہ چیلنج بڑا ہے اور ہر حال میں جلد از جلد اس کا خاتمہ کرنا ہے۔ ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے اب تک 75 ہزار لیٹر دوا استعمال کی جاچکی ہے جبکہ 50 ہزار لیٹر کا مزید آرڈر دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بروقت اقدامات اور کوششوں کی وجہ سے گزشتہ سال کی نسبت اس سال فصلیں زیادہ ہوئیں۔ اب بھی حکومت کی کوشش ہے کہ نقصان کو کم سے کم کیا جائے اور اس حوالے سے متاثرہ فصلوں کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔ایک ٹڈی دل سینکڑوں انڈے دیتا ہے۔ ایک مربع کلومیٹر میں 4 سے 8 کروڑ ٹڈی دل ہوتے ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔ حکومت تو اپنا کام کر رہی ہے تاہم مقامی سطح پر زمینداروں کو بھی اس سے لڑنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہم نے گزشتہ برس کسانوں کے ساتھ مل کر یہ لڑائی لڑی تھی لہٰذا اب بھی مقامی سطح پر کمیٹیاں بنا رہیں ہیں جن میں کسان او رضاکار بھی شامل ہوں گے۔


ڈاکٹر جلال عارف (پروفیسر و سابق سربراہ شعبہ انٹومولوجی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)

27 سال بعد ٹڈی دل دوبارہ پاکستان آیا ہے۔ٹڈی دل 1952ء، 1962ء،70 ء اور 90ء کی دہائی اور پھر جنوری 2019ء اور 2020ء میں سامنے آیا ہے۔ٹڈی دل سے دنیا کے 3 خطوں میں 30 ممالک متاثر ہیں۔مغربی خطے میں ایتھوپیا، سومالیہ ،سوڈان جبکہ وسطی خطے میں مصر، یمن و دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح مشرقی خطے میں ایران، پاکستان، سعودی عرب، افغانستان، بھارت و دیگر شامل ہیں۔ یہ پاکستان کا کیڑہ نہیں ہے بلکہ یہ افریقہ سے چلتا ہے اور دیگر ممالک سے ہوتا ہوا یہاں آتا ہے اور اسی روٹ واپس جاتا ہے۔ ٹڈی دل 2019ء میں جب پاکستان آیا تو یہاں مون سون تھا لہٰذا اسے موسم مناسب مل گیااور اس نے یہاں انڈے دے دیے۔ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے وزارت تحفظ خوارک کی سفارش پر ایمرجنسی لگاکر 20 ارب سے زائد رقم مختص کی۔ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا جس کے تحت جنوری 2019ء سے لے کر جون، جون سے دسمبر اور پھر جنوری 2020ء سے جون تک اس کو تلف کرنے کیلئے کام کیا اور ابھی بھی جاری ہے۔ ٹڈی دل ایران سے بلوچستان میں داخل ہوا جہاں اس کے خاتمے کیلئے سپرے کیا گیا اور پھر وہاں سے یہ پنجاب میں داخل ہوگیا۔ پنجاب میں روجھان، راجن پور، دیپالپور اور پپلی پہاڑ میں اس کا حملہ شدید تھا۔پپلی پہاڑ 7ہزار ایکڑ کا جنگل ہے جہاں اس نے بہت زیادہ انڈے دیے اور اس کی افزائش ہوئی۔ اگر حکومت پپلی پہاڑ ، راجن پور، بھکر اور اٹھارہ ہزاری میں آپریشن نہ کرتی تو ملک میں قحط سالی ہوجاتی۔ حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمے کے حوالے سے بے شمار کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں قحط نہیں پڑا بلکہ گندم اور چنے کی فصل پہلے سے زیادہ ہوئی ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اشرف کی سربراہی میں ٹڈی دل کی روک تھام کیلئے سپرے مشین تیار کی گئی ہے جو 60 فٹ تک سپرے کرے گی۔ وائس چانسلر نے یونیورسٹی میں پاکستان کا پہلا ٹڈی دل ریسرچ اینڈ دویلپمنٹ سیل بھی قائم کیا ہے جو ٹڈی دل کی روک تھام، مینجمنٹ، مانیٹرنگ، محفوظ ادویات، پیسٹی سائڈز، بائیو پیسٹی سائڈز و دیگر حوالے سے کام کر رہا ہے۔ یہ سیل زمینداروں اور حکومتی اداروں کو پیسٹی سائڈز اور محفوظ بائیو پیسٹی سائڈز کے متعلق رہنمائی دے گا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، این ڈی ایم اے، MNSFA، DPP و دیگر زرعی اداروں کو ٹڈی دل کی روک تھام کیلئے ایڈوائزری خدمات بھی فراہم کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے 90فائنل ایئر سٹوڈنٹس گزشتہ برس سے ہی محکمہ زراعت میں انٹرن شپ کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹڈی دل کے ساتھ لڑائی جہاد ہے لہٰذا حکومت، یونیورسٹیوں، طلبہ، کسان سمیت سب کو مل کر جہاد کرنا ہوگا۔ پیسٹی سائڈز بنانے والی کمپنیاں 80 ارب روپے کا کاروبار کرتے ہیں لہٰذا اس مشکل گھڑی میں انہیں بھی آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔

نزاکت بھٹی (زرعی ماہر)

ڈاکٹرز کے بعد اگر کوئی طبقہ قوم کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے تو وہ کسان ہے۔ کسانوں نے کورونا وائرس کی مشکل صورتحال میں بھی فوڈ چین میں تعطل آنے نہیں دیالہٰذا یہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ گندم کی کٹائی سے پہلے شدید بارشوں سے بڑے پیمانے پر گندم کی فصل متاثر ہوئی۔ اس کا سروے کیا جاچکا ہے مگر نقصان کے ازالے کیلئے تاحال کچھ نہیں کیا گیا۔ ٹڈی دل کا حملہ دوسری آفت ہے۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت (FAO) نے جنوری 2019ء میں پاکستان سمیت 14 ممالک کو وارننگ جاری کی تھی کہ ٹڈی دل کا بہت بڑا حملہ ہوسکتا ہے لہٰذا اس حوالے سے قبل از وقت انتظامات کریں، اس کی روک تھام اور کسانوں کو نقصان نے بچانے کیلئے بروقت اقدامات کریں۔ FAO کی بار بار تنبیہ یہ تھی کہ جن ممالک کو خبردار کیا گیا ہے وہ مل کر اجتماعی حکمت عملی اختیار کریں کیونکہ اس آفت کو کسی ایک ملک یا خطے کے لوگ ختم نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے ہم لاپرواہی میں بہت آگے ہیں اور جب تک پانی سر سے گزر نہیں جاتا تب تک ہم کوئی اقدامات نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ FAO کی ہدایت کی روشنی میں اجتماعی حکمت عملی نہیں بنی اور نہ ہی اس طرح سے اقدامات کیے گئے جن سے ٹڈی دل پر قابو پایا جاتا اور اس کے نقصانات سے بچا جاسکتا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے 62 اضلاع اس کی زد میں آچکے ہیں اور ایک کروڑ 13 لاکھ ایکڑرقبہ متاثر ہوچکا ہے جن میںسبزیاں، پھل، جانوروں کا چارہ اور کپاس کی فصل برباد ہوئی ہے۔FAO نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کو ٹڈی دل سے 600 ارب روپے کا نقصان ہوسکتا ہے مگر اپنی حالیہ رپورٹ میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا گیا کہ 1 ہزار ارب روپے تک نقصان ہوسکتا ہے۔ حکومت ٹڈی دل کے تدارک کیلئے گزشتہ چند دنوں سے سپرے کر رہی ہے مگر وسائل ناکافی ہیں۔ حکومت کے پاس اس حوالے سے 2 جہاز تھے جن میں سے ایک جہاز 2 ماہ پہلے گر کر تباہ ہوگیا جس کا پائلٹ اور انجینئر دونوں جاں بحق ہوگئے۔ اس کے بعد ایک جہاز بچا جس سے کام چلایا جارہا تھا۔ عبوری امداد کے طور پر FAOنے2 ایئر کرافٹ اور چین نے 2 ڈرون دیئے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنا جہاز اور وزیراعلیٰ سندھ نے ہیلی کاپٹر اور جہاز دیے جن سے کام چلایا جارہا ہے۔ ٹڈی دل کو تلف کرنے کیلئے جتنی بڑی مقدار میں کیمیکلز اور پیسٹی سائڈز کی ضرورت ہے، وہ حکومت کے پاس نہیں جس کا فوری بدوبست کرنا ہوگا کیونکہ خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جولائی میں بارشوں کے بعدٹڈی دل کے بڑے حملے کا اندیشہ ہے لہٰذا مقامی انڈسٹری و چین سے امداد لے کر ٹڈی دل کا تدارک کیا جائے۔ حکومت کے اقدامات غیر تسلی بخش ہیں۔ کسان پورا سال محنت اوراپنی تمام جمع پونجی خرچ کرکے ملک کی زرعی ضروریات پوری کرتا ہے مگر ٹڈی دل، بارشوںو سیلاب جیسی آفات ان کا نقصان کرتی ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فصلوں کا نقصان صرف کسانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہوتا ہے۔ نقصان کی صورت میں ہمیشہ سروے کیا جاتا ہے مگر ازالہ نہیں کیا جاتا۔ زرعی انشورنس کا بارہا اعلان ہوا مگر چھوٹے اور متوسط درجے کا کسان اس پالیسی کی رقم ادا نہیں کرسکتا۔ میری تجویز ہے کہ حکومت زرعی انشورنس پالیسی میں ان کسانوں کا پریمیم خود ادا کرے۔ گزشتہ سال کے اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبے کی شرح نمو کا ہدف 3.8 فیصد تھا جو کم ہوکر 0.8 فیصد رہ گیا ہے۔ افسوس ہے کہ اس شعبے کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جب تک جی ڈی پی میں شیئرکے مطابق اس شعبے پر وسائل خرچ نہیں کیے جائیں گے تب تک زراعت ترقی نہیں کرسکتی۔

چودھری اختر فاروق میؤ (رہنما کسان بورڈ پاکستان)

پاکستان زرعی ملک ہے اور یہی ہماری طاقت ہے ۔ پاکستان کی افواج اور کسان مل کر اس ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر افسوس ہے کہ زراعت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگرخدانخواستہ ہماری زراعت ختم ہوگئی تو ہمیں دنیا کے سامنے جھکنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں ماہرین، اساتذہ، سائنسدان، محقق سب موجود ہیں مگر ریسرچ پر خرچ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے آج بھی زرعی شعبہ بہت پیچھے ہے۔ہمیں زراعت کو اولین ترجیح قرار دینا ہوگا۔ دشمن پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اب روایتی جنگوں کا دور نہیں ہے، ٹڈی دل کا حملہ خوراک کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی سازش ہے تاکہ وہ ممالک ہمیں ادویات اور ٹیکنالوجی بیچ سکیں، ہمیں سازش کو سمجھتے ہوئے الرٹ رہنا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے ٹڈی دل کے خدشہ کے پیش نظر جنوری میں ہی ایمرجنسی لگا کر فنڈز جاری کردیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ فنڈز کہاں ہیں؟ ابھی تک کیا کام کیا گیا؟ٹڈی دل کے خاتمے کے حوالے میری تجویز ہے کہ ملک میں 30 سے 40 زون بنائیں جائیں اور پیسٹی سائڈز بنانے والی کمپنیوں کو دے کر ان میں مقابلے کی فضا پیدا کی جائے تو ملک بھر سے ٹڈی دل کا خاتمہ ہوسکتاہے۔ ٹڈی دل پروٹین سے بھرپور ہے، اس سے مرغی اور مچھلی کی خوراک بنتی ہے لہٰذا اس کاروبار کو فروغ دیا جاسکتا ۔ وزیراعظم نے ٹڈی دل کے حوالے سے 40 ارب روپے رکھے ہیں، میری رائے ہے کہ اگر فی ٹڈی دل ایک روپیہ معاوضہ رکھ دیا جائے تو لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا اور ٹڈی دل کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔
Load Next Story