وزیراعظم عمران خان کے بیان سے متعلق گمراہ کن بھارتی پراپیگنڈہ مسترد

بھارتی بیان کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، ترجمان دفترخارجہ

بھارتی بیان کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، ترجمان دفترخارجہ

پاکستان نے وزیراعظم کے بیان سے متعلق بھارتی پراپیگنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے بیان کو مکمل طور پرتوڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے بھارتی وزارت خارجہ کے گمراہ کن بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حقائق کے برخلاف اور مخصوص مقاصد کے لئے کیے جانے والے بھارتی گھٹیا بیانیے کو مسترد کرتے ہیں، بھارت نے وزیراعظم پاکستان کے بیان کو مکمل طور پر توڑمروڑ کر پیش کیا جو انتہائی قابل مذمت حرکت ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی پابندیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹ کو غلط طور پر پیش کررہا ہے، وہ اپنے پاکستان مخالف پراپیگنڈا کو فروغ دینے کے لئے ایسا کررہا ہے، لیکن وہ عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔


عائشہ فاروقی نے کہا کہ بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، بھارت مسلسل کشمیری عوام کے خلاف جرائم روا رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے خلاف بھی دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بھارتی اعلی حکام اکثر پاکستان کے عدم استحکام کے شکار حصوں کے بارے میں بڑھاچڑھاکر تبصرے بھی کرتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق عالمی شراکت داروں نے افغانستان میں امن عمل کے لئے سہولت کار کے پاکستانی کردار کو تسلیم کیا ہے، افغان امن عمل کے آغاز سے پاکستان نے خطے میں بدخواہوں اور تباہ کاروں کے کردار کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ مخالفین افغانستان میں امن نہیں آنے دیں گے، لیکن تمام سازشوں کے باوجود پاکستان مکمل سیاسی کامیابی کے لئے افغانستان کی سپورٹ جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ بھارتی وزارت خارجہ نے گزشتہ سال جولائی میں عمران خان کے واشنگٹن میں یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے کہ پاکستان میں اب بھی 30 سے 40 ہزار عسکریت پسند موجود ہیں جو کشمیر اور افغانستان میں جنگ لڑچکے ہیں۔ بھارت نے یہ معاملہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے تناظر میں اٹھایا کہ افغانستان میں 6500 پاکستانی عسکریت پسند موجود ہیں۔
Load Next Story