جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف عالمگیراحتجاج جاری غلاموں کے تاجر کا مجسمہ گرادیا گیا
امریکا میں پولیس کے لیے مختص کی جانے والی رقوم میں کٹوتی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
HONG KONG:
پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہونے والے عالمگیر احتجاج جاری ہے جب کہ امریکا میں پولیس کے لیے مختص فنڈ میں کٹوتی کی مہم بھی شروع ہوچکی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق برطانیہ آسٹریلیا، جرمنی، سپین اور فرانس میں نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔جارج فلائیڈ کے قتل سے جنم لینی والی احتجاجی لہر نے نسلی تعصب اور نفرت انگیزی کے خلاف ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے۔
امریکا میں مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والا سیاہ فام نوجوان پولیس حراست میں ہلاک ہوگیا۔ امریکا کے مختلف شہروں میں جارج فلائیڈ کے سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کیخلاف ریلیاں نکالی گئیں۔۔ ریلیاں منتشر کرانے کی کوشش کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ۔امریکا میں مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والا سیاہ فام نوجوان پولیس حراست میں ہلاک ہوگیا۔نیو یارک، شکاگو، فلاڈلفیا اور بفلو میں کرفیو اٹھا لیا گیا۔ واشنگٹن سے نیشنل گارڈز بھی واپس بھیج دیے گئے۔
''محکمۂ پولیس ختم؟''
امریکی ریاست منیسوٹا کے جس شہر مینیایپلس میں جارج فلائیڈ کا قتل ہوا اس کی ضلعی کونسل نے مظاہروں کے دباو کے بعد پولیس کا محکمہ ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے دوسری جانب نیو یارک کے مئیر نے پولیس فنڈز میں کمی کا اعلان کردیا۔
جارج فلائیڈ کے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ک بعد امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں محکمۂ پولیس کے لیے مختص رقوم میں کٹوتی کے مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی ادارے کے اربن انسٹی ٹیوٹ کے 2017 میں جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ریاستی اور مقامی حکومتیں پولیسنگ پر 115 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتی ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کی متعدد ریاستوں محکمہ پولیس کے اہل کاروں کی تعداد اور آبادی کے مابین توازن نہیں پایا جاتا۔
غلاموں کے تاجر کا مجسمہ گرادیا گیا
برطانیہ کے شہر برسٹل میں نسلی منافرت کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ گرا دیا اور اس کی گردن پر سوار ہوگے۔ واضح رہے کہ کولسٹن سترہویں صدی کا مال دار تاجر تھا۔ وہ اس وقت سیاہ فاموں کو غلام بنا کر ان کی تجارت کرنے والی برطانیہ کی واحد رائل افریقن کمپنی کے کلیدی افراد میں شامل تھا۔ برسٹل میں اس کمپنی کا مرکزی دفتر قائم تھا۔ اس کمپنی نے زرعی شعبے میں مشقت لینے کے لیے ہزاروں سیاہ فام باشندوں کی بردہ فروشی کی۔
پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہونے والے عالمگیر احتجاج جاری ہے جب کہ امریکا میں پولیس کے لیے مختص فنڈ میں کٹوتی کی مہم بھی شروع ہوچکی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق برطانیہ آسٹریلیا، جرمنی، سپین اور فرانس میں نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔جارج فلائیڈ کے قتل سے جنم لینی والی احتجاجی لہر نے نسلی تعصب اور نفرت انگیزی کے خلاف ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی ہے۔
امریکا میں مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والا سیاہ فام نوجوان پولیس حراست میں ہلاک ہوگیا۔ امریکا کے مختلف شہروں میں جارج فلائیڈ کے سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کیخلاف ریلیاں نکالی گئیں۔۔ ریلیاں منتشر کرانے کی کوشش کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ۔امریکا میں مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والا سیاہ فام نوجوان پولیس حراست میں ہلاک ہوگیا۔نیو یارک، شکاگو، فلاڈلفیا اور بفلو میں کرفیو اٹھا لیا گیا۔ واشنگٹن سے نیشنل گارڈز بھی واپس بھیج دیے گئے۔
''محکمۂ پولیس ختم؟''
امریکی ریاست منیسوٹا کے جس شہر مینیایپلس میں جارج فلائیڈ کا قتل ہوا اس کی ضلعی کونسل نے مظاہروں کے دباو کے بعد پولیس کا محکمہ ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے دوسری جانب نیو یارک کے مئیر نے پولیس فنڈز میں کمی کا اعلان کردیا۔
جارج فلائیڈ کے پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ک بعد امریکا کی مختلف ریاستوں اور شہروں میں محکمۂ پولیس کے لیے مختص رقوم میں کٹوتی کے مطالبے سامنے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی ادارے کے اربن انسٹی ٹیوٹ کے 2017 میں جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ریاستی اور مقامی حکومتیں پولیسنگ پر 115 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتی ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کی متعدد ریاستوں محکمہ پولیس کے اہل کاروں کی تعداد اور آبادی کے مابین توازن نہیں پایا جاتا۔
غلاموں کے تاجر کا مجسمہ گرادیا گیا
برطانیہ کے شہر برسٹل میں نسلی منافرت کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ گرا دیا اور اس کی گردن پر سوار ہوگے۔ واضح رہے کہ کولسٹن سترہویں صدی کا مال دار تاجر تھا۔ وہ اس وقت سیاہ فاموں کو غلام بنا کر ان کی تجارت کرنے والی برطانیہ کی واحد رائل افریقن کمپنی کے کلیدی افراد میں شامل تھا۔ برسٹل میں اس کمپنی کا مرکزی دفتر قائم تھا۔ اس کمپنی نے زرعی شعبے میں مشقت لینے کے لیے ہزاروں سیاہ فام باشندوں کی بردہ فروشی کی۔