کرکٹ ایوارڈز پاکستان نے نامزدگیوں کے طریقہ کارپرہی سوال اٹھا دیا
آئی سی سی چیف ڈیورچرڈسن کی جانب سے سعید اجمل کو شارٹ لسٹ میں شامل کرنے سے انکار دوسرا خط تحریر کرنے کی وجہ بنا
پاکستان نے آئی سی سی کو ایک اور خط داغتے ہوئے ایوارڈز کی نامزدگیوں کے طریقہ کار پر ہی سوال اٹھا دیا۔
اس کی وجہ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ڈیو رچرڈسن کی جانب سے سعید اجمل کو شارٹ لسٹ میں شامل کرنے سے انکار بنا، انھوں نے پی سی بی کے ابتدائی خط کے جواب میں تحریر کیاکہ غیر جانبدار ووٹنگ پینل کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کر سکتے، پاکستان اب رواں ماہ چیف ایگزیکٹیو کمیٹی میٹنگ میں احتجاج ریکارڈ کرانے پر غور کر رہا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق آئی سی سی ٹیسٹ پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ کیلیے جاری شدہ ابتدائی فہرست میں پاکستان کے سعید اجمل بھی شامل تھے تاہم شارٹ لسٹ کا جب اعلان ہوا تو ان کا نام خارج کر دیا گیا،4 اگست 2011 سے 6 اگست 2012 کے ووٹنگ پیریڈ میں انھوں نے 72 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔
اس میں انگلینڈ کیخلاف 24 وکٹوں کی کارکردگی بھی شامل رہی،وہ تیسری پوزیشن حاصل کر کے ٹاپ رینک اسپنر بنے،انھیں کونسل نے سال کی بہترین ٹیسٹ ٹیم میں بھی رکھا ہے،اس کے باوجود بہترین پلیئر کا ایوارڈ پانے کیلیے ہاشم آملا،ویرنون فلینڈر، کمار سنگاکارا اور مائیکل کلارک کی فہرست میں جگہ نہ بنا سکے۔
پی سی بی نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو خط ارسال کیا تھا جس کا گذشتہ روز جواب بھی موصول ہو گیا، ذرائع کے مطابق چیف ایگزیکٹیو ڈیورچرڈسن نے تحریر کیا کہ ایوارڈز کی شارٹ لسٹ سابق کرکٹرز، آفیشلز اور صحافیوں پر مشتمل 30 رکنی غیرجانبدار پینل نے ترتیب دی اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ذرائع کے مطابق اس جواب نے پی سی بی کا غصہ مزید بڑھا دیا اور فوراً ہی ایک اور خط تحریر کر کے ایوارڈز کی نامزدگیوں کے طریقہ کار پر ہی سوال اٹھا دیا، بورڈ کا کہنا ہے کہ جب دیگر شعبوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کا انتخاب کیا گیا تو زیادہ وکٹیں لینے والے بولر سعید اجمل کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟
ووٹنگ کے عرصے میں پاکستانی اسپنر نے 72 جبکہ جنوبی افریقی پیسر فلینڈر نے صرف 56 وکٹیں لیں پھر وہ کیسے شارٹ لسٹ ہو گئے؟ ذرائع نے مزید بتایا کہ اگر آئی سی سی نے پاکستان کے تحفظات دور نہ کیے تو یہ معاملہ 14 اور 15 ستمبر کو کولمبو میں شیڈول چیف ایگزیکٹیوز میٹنگ میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
البتہ چونکہ اس کے اختتامی دن ہی تقریب ہونی ہے اس لیے کوئی فائدہ نہیں ہو گا تاہم پی سی بی کا احتجاج ضرور ریکارڈ ہو جائے گا۔ دریں اثنا آئی سی سی نے پاکستان کو تو ٹکا سا جواب دے دیا البتہ2010 میں اسپنر گریم سوان کو شارٹ لسٹ نہ کرنے پر جب انگلینڈ نے احتجاج کیا تو غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا نام شامل کر لیا گیا تھا، جنوبی افریقہ بھی ماضی میں اپنے پلیئرز کو نظرانداز کیے جانے پر کونسل سے ناراض رہا ہے،2009 میں تو اس نے اپنے ہی شہر جوہانسبرگ میں منعقدہ تقریب کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
اس کی وجہ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ڈیو رچرڈسن کی جانب سے سعید اجمل کو شارٹ لسٹ میں شامل کرنے سے انکار بنا، انھوں نے پی سی بی کے ابتدائی خط کے جواب میں تحریر کیاکہ غیر جانبدار ووٹنگ پینل کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کر سکتے، پاکستان اب رواں ماہ چیف ایگزیکٹیو کمیٹی میٹنگ میں احتجاج ریکارڈ کرانے پر غور کر رہا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق آئی سی سی ٹیسٹ پلیئر آف دی ایئر ایوارڈ کیلیے جاری شدہ ابتدائی فہرست میں پاکستان کے سعید اجمل بھی شامل تھے تاہم شارٹ لسٹ کا جب اعلان ہوا تو ان کا نام خارج کر دیا گیا،4 اگست 2011 سے 6 اگست 2012 کے ووٹنگ پیریڈ میں انھوں نے 72 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔
اس میں انگلینڈ کیخلاف 24 وکٹوں کی کارکردگی بھی شامل رہی،وہ تیسری پوزیشن حاصل کر کے ٹاپ رینک اسپنر بنے،انھیں کونسل نے سال کی بہترین ٹیسٹ ٹیم میں بھی رکھا ہے،اس کے باوجود بہترین پلیئر کا ایوارڈ پانے کیلیے ہاشم آملا،ویرنون فلینڈر، کمار سنگاکارا اور مائیکل کلارک کی فہرست میں جگہ نہ بنا سکے۔
پی سی بی نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو خط ارسال کیا تھا جس کا گذشتہ روز جواب بھی موصول ہو گیا، ذرائع کے مطابق چیف ایگزیکٹیو ڈیورچرڈسن نے تحریر کیا کہ ایوارڈز کی شارٹ لسٹ سابق کرکٹرز، آفیشلز اور صحافیوں پر مشتمل 30 رکنی غیرجانبدار پینل نے ترتیب دی اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ذرائع کے مطابق اس جواب نے پی سی بی کا غصہ مزید بڑھا دیا اور فوراً ہی ایک اور خط تحریر کر کے ایوارڈز کی نامزدگیوں کے طریقہ کار پر ہی سوال اٹھا دیا، بورڈ کا کہنا ہے کہ جب دیگر شعبوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمینوں کا انتخاب کیا گیا تو زیادہ وکٹیں لینے والے بولر سعید اجمل کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟
ووٹنگ کے عرصے میں پاکستانی اسپنر نے 72 جبکہ جنوبی افریقی پیسر فلینڈر نے صرف 56 وکٹیں لیں پھر وہ کیسے شارٹ لسٹ ہو گئے؟ ذرائع نے مزید بتایا کہ اگر آئی سی سی نے پاکستان کے تحفظات دور نہ کیے تو یہ معاملہ 14 اور 15 ستمبر کو کولمبو میں شیڈول چیف ایگزیکٹیوز میٹنگ میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
البتہ چونکہ اس کے اختتامی دن ہی تقریب ہونی ہے اس لیے کوئی فائدہ نہیں ہو گا تاہم پی سی بی کا احتجاج ضرور ریکارڈ ہو جائے گا۔ دریں اثنا آئی سی سی نے پاکستان کو تو ٹکا سا جواب دے دیا البتہ2010 میں اسپنر گریم سوان کو شارٹ لسٹ نہ کرنے پر جب انگلینڈ نے احتجاج کیا تو غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا نام شامل کر لیا گیا تھا، جنوبی افریقہ بھی ماضی میں اپنے پلیئرز کو نظرانداز کیے جانے پر کونسل سے ناراض رہا ہے،2009 میں تو اس نے اپنے ہی شہر جوہانسبرگ میں منعقدہ تقریب کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔