مرنا کیوں ہوا دشوار
اسی وقت ماہرین اسے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے تھے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
کورونا پوری دنیا میں موت بانٹ رہا ہے اور ہم اس کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑے ہیں، حکومت سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے نہ ہی عوام الناس۔نیوزی لینڈ نے سات ہفتوں کا سخت لاک ڈاون کرکے اس وباء سے نجات حاصل کرلی اور ہم ابھی تک ڈھنگ کے ایس او پیز بھی نہ بنا سکے جن سے عوام مطمئن ہوں اور وباء کے پھیلاو کو روکا جاسکے۔
حکومت کی ناقص حکمت عملی اور عوام کے غیر ذمے دارانہ رویے کے باعث پاکستان ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے اورآئے روز کورونا کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جارہا ہے، ہم کسی اور کام میں تو یورپی ممالک سے آگے نہیں بڑھ سکے البتہ کورونا کیسز کی تعداد میں جس رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں، لگتا ہے یورپ سمیت ساری دنیا کو ہم ہی پیچھے چھوڑیں گے۔ عید الفطر سے قبل ہی عوام نے جس طرح لاک ڈاون کی دھجیاں اڑانا شروع کردی تھیں بعد ازاں پھر حکومت کی جانب سے کاروبار چار دن کھولنے کی مشروط اجازت کو جس طرح غیر مشروط سجھتے ہوئے سماجی فاصلوں کی پابندیوں کو پامال کیا گیا۔
اسی وقت ماہرین اسے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے تھے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں عید الفطر کی تعطیلات کے بعد پاکستان میں کورونا کے نئے کیسزاور اس وباء سے مرنے والوں کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہی، اوپر سے ہمارے وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ جولائی اور اگست زیادہ خطرناک ہیں۔ اس وقت روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 45سو نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، تیس مئی سے تادم تحریر ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب ہلاکتوں کی تعداد پچاس یا اس سے کم رہی ہوں، بعض ایسے دن بھی گزرے جب ہندسہ سو سے بھی آگے نکل گیا۔ یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہورہی ہے ایک المیہ یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ نئے کیسزاور مرنے والوں کی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسپتال تک پہنچتے ہی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ خوف و ہراس ہے جو انتظامی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پھیلا۔
جب بھی کوئی ایسی وباء پوری دنیا یا دنیا کے کچھ حصوں پر حملہ آور ہوتی ہے تو عالمی سطح پر اس سے بچاو کے لیے پروٹوکولز بنتے ہیں، وہ پروٹوکولز عالمی سطح پر ضرور بنتے ہیں لیکن ہر ملک اپنے حالات اور مسائل کو مد نظر رکھ کر ان پروٹوکولز میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کا مجاز ہوتاہے۔
جب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے پروٹوکولز بنائے اسی وقت ہماری حکومت کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ ان پروٹوکولز کا جائزہ اپنے مذہب ، سماج اور ثقافت کے طے کردہ ضابطوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا جاتاخاص طور پر کورونا سے جاں بحق ہونے والے انسانوں کی میت کی تجہیز و تکفین کے بارے میں ایس او پیز کے حوالے سے لیکن حکومت نے یہاں جس غفلت کا مظاہرہ کیا، اس سے پورے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا اور کورونا کیسز میں خاموش اضافہ ہوا۔
حکومت کی ذمے داری تھی شروع میں ہی میت کی تجہیز و تکفین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس او پیز بنا لیے جاتے جن میں اس بات کا خیال رکھا جاتاکہ کسی مسلمان کی موت پر اس کی نماز جنازہ اور تجہیز وتکفین اس کا شرعی حق ہے، میت کو غسل دینا، اسے کفن پہنانا، نماز جنازہ اور تدفین میں عزیز و اقارب کی شرکت بھی لازم ہے۔ بہت سے ماہرین شروع دن سے یہ بات کہہ رہے تھے کہ مردہ جسم سے کورونا وائرس کسی انسان کو نہیں لگتا، ڈبلیو ایچ او بھی اس بات کو تسلیم کرچکا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کے باعث میتوں کی بیحرمتی کے واقعات سامنے آئے،بعض جگہوں پرمیتیں چھیننے اور لواحقین کو تجہیز و تکفین سے جبراً دور رکھنے کی اطلاعات ملیں۔
میرے جیسا بندہ جسے سائنس و میڈیکل سائنس کی ابجد کا بھی نہیں پتا، پہلے دن سے کہہ رہا تھا کہ ایک زندہ شخص باہر جائے، اس کے لیے ایس او پیز تیار کیے جاتے ہیں کہ وہ سماجی فاصلہ اختیار کرے، باہر جائے تو اپنے ہاتھوں کی حفاظت کرے انھیں غیر ضروری اشیاء کو چھونے سے بچائے، منہ پر ماسک لگائے، گھر واپس آئے تو ہاتھ دھوئے یا غسل کرے اور اپنے کپڑے تبدیل کرے، یہ سب کچھ ایک زندہ جسم کے لیے ہیں لیکن جو جسم مر گیا، اب وہ سانس لیتا ہے نہ حرکت کرکے کسی شے کو چھو سکتا ہے، مرنے کے بعد اسے شرعی طور پر غسل دیا جاچکا ہے، اس کے جسم کو سینی ٹائز بھی کردیا گیا ہے، جس کے بعد پلاسٹک میں لپیٹ کر کفن پہنادیا گیا اورایک تابوت میں بند کردیا گیا، اب اس مردہ جسم سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتاہے، کسی کو اس سے کیسے وائرس لگ سکتا ہے؟۔ یہاں حکومت کے غیرذمے دارانہ رویے نے بہت سی پیچیدگیاں اور شکوک وشبہات کو جنم دیا۔
اب بھی وقت ہے حکومت اپنی اس غلطی کو سدھارے، میت کے لیے جو ایس او پیز بنارکھے ہیں ان پر نظر ثانی کرے۔ یہ تو ممکن ہے جنازے میں شریک کورونا کے مریض سے کسی دوسرے شخص کو یہ وباء لگ جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک مردہ جسم کسی صحت مند جسم کو کورونا کا شکار بنا دے۔ اس لیے حکومت فوری طور پر اس حساس مسئلے پر ماہرین طب اور علماء کرام کو آن بورڈ لے اور نئے سرے سے ایس او پیز بنائے۔ نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھلے زیادہ ہو لیکن انھیں ایس او پیز کا پابند بنایا جائے۔ میت کو غسل دینے سے لے کر لحدمیں اتارنے تک کے ہر عمل میں لواحقین کو شامل رکھا جائے۔ اس وقت جن ایس او پیز کے تحت تجہیز وتکفین ہورہی ہے اس سے ناصرف میت کی بے حرمتی ہورہی ہے بلکہ لواحقین ساری زندگی کے لیے دوہرے صدمے سے دوچار ہورہے ہیں۔
لوگ اس عمل سے شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب کورونا متاثرین کی بڑی تعداد اول تو اپنی بیماری کے بارے میں اہل خانہ کو بھی بتانے سے کترا رہے ہیں، اگر بتا بھی دیں تو وہ اسپتالوں میں آنے کو تیار نہیں، کیونکہ وہاں بھی کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی قرنطینہ سینٹر میں ڈال دیا جاتاہے،جسے کورونا نہیں بھی ہوتا وہ بھی وہاں سے کورونا لے کر آتا ہے، اگر خدانخواستہ کسی کی قرنطینہ میں ہی موت واقع ہوجائے تو میت کی بے حرمتی الگ۔ اس لیے لوگ اسپتالوں میں علاج کے بجائے گھروں میں مرنا پسند کررہے ہیں۔
یہ صورتحال حکومتی اقدامات پر بد اعتمادی کا مظہر ہے۔ آخر میں ان مسیحاوں کا ذکر نہ ہوتو یہ نا انصافی ہوگی جو لوگوں کو کورونا جیسی مہلک وباء سے بچانے کے لیے اپنی زندگیوں کو داو پر لگائے ہوئے ہیں، کئی مسیحا اپنے فرائض کی ادائیگی میں جان تک قربان کرچکے ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ انھیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں، بدقسمتی سے ابھی تک کی صورتحال مایوس کن ہے، بے شمار تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں اسپتالوں کے وزٹ پر آنے والے سیاسی رہنماوں کے چہروں پر اعلی کوالٹی کا این 95ماسک ہوتا ہے اور ڈاکٹروں کے پاس سادہ سا میڈیکیٹڈ ماسک بھی نہیں۔ اس طرح کے رویے سے طبی عملے کا حکومت سے اعتماد اٹھ گیاہے۔ حکومت اگر کورونا کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو ان مسائل کا فوری حل تلاش کرے ورنہ بقول وزیر اعظم جولائی اور اگست زیادہ خطرناک ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں صحیح فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اس وباء سے مکمل نجات مل سکے۔
حکومت کی ناقص حکمت عملی اور عوام کے غیر ذمے دارانہ رویے کے باعث پاکستان ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے اورآئے روز کورونا کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جارہا ہے، ہم کسی اور کام میں تو یورپی ممالک سے آگے نہیں بڑھ سکے البتہ کورونا کیسز کی تعداد میں جس رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں، لگتا ہے یورپ سمیت ساری دنیا کو ہم ہی پیچھے چھوڑیں گے۔ عید الفطر سے قبل ہی عوام نے جس طرح لاک ڈاون کی دھجیاں اڑانا شروع کردی تھیں بعد ازاں پھر حکومت کی جانب سے کاروبار چار دن کھولنے کی مشروط اجازت کو جس طرح غیر مشروط سجھتے ہوئے سماجی فاصلوں کی پابندیوں کو پامال کیا گیا۔
اسی وقت ماہرین اسے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے تھے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں عید الفطر کی تعطیلات کے بعد پاکستان میں کورونا کے نئے کیسزاور اس وباء سے مرنے والوں کی تعداد تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہی، اوپر سے ہمارے وزیر اعظم کا فرمان ہے کہ جولائی اور اگست زیادہ خطرناک ہیں۔ اس وقت روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 45سو نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، تیس مئی سے تادم تحریر ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب ہلاکتوں کی تعداد پچاس یا اس سے کم رہی ہوں، بعض ایسے دن بھی گزرے جب ہندسہ سو سے بھی آگے نکل گیا۔ یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہورہی ہے ایک المیہ یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ نئے کیسزاور مرنے والوں کی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسپتال تک پہنچتے ہی نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ خوف و ہراس ہے جو انتظامی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پھیلا۔
جب بھی کوئی ایسی وباء پوری دنیا یا دنیا کے کچھ حصوں پر حملہ آور ہوتی ہے تو عالمی سطح پر اس سے بچاو کے لیے پروٹوکولز بنتے ہیں، وہ پروٹوکولز عالمی سطح پر ضرور بنتے ہیں لیکن ہر ملک اپنے حالات اور مسائل کو مد نظر رکھ کر ان پروٹوکولز میں ترمیم یا تبدیلی کرنے کا مجاز ہوتاہے۔
جب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے پروٹوکولز بنائے اسی وقت ہماری حکومت کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ ان پروٹوکولز کا جائزہ اپنے مذہب ، سماج اور ثقافت کے طے کردہ ضابطوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا جاتاخاص طور پر کورونا سے جاں بحق ہونے والے انسانوں کی میت کی تجہیز و تکفین کے بارے میں ایس او پیز کے حوالے سے لیکن حکومت نے یہاں جس غفلت کا مظاہرہ کیا، اس سے پورے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا اور کورونا کیسز میں خاموش اضافہ ہوا۔
حکومت کی ذمے داری تھی شروع میں ہی میت کی تجہیز و تکفین کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس او پیز بنا لیے جاتے جن میں اس بات کا خیال رکھا جاتاکہ کسی مسلمان کی موت پر اس کی نماز جنازہ اور تجہیز وتکفین اس کا شرعی حق ہے، میت کو غسل دینا، اسے کفن پہنانا، نماز جنازہ اور تدفین میں عزیز و اقارب کی شرکت بھی لازم ہے۔ بہت سے ماہرین شروع دن سے یہ بات کہہ رہے تھے کہ مردہ جسم سے کورونا وائرس کسی انسان کو نہیں لگتا، ڈبلیو ایچ او بھی اس بات کو تسلیم کرچکا ہے۔ اس کے باوجود ہم نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کے باعث میتوں کی بیحرمتی کے واقعات سامنے آئے،بعض جگہوں پرمیتیں چھیننے اور لواحقین کو تجہیز و تکفین سے جبراً دور رکھنے کی اطلاعات ملیں۔
میرے جیسا بندہ جسے سائنس و میڈیکل سائنس کی ابجد کا بھی نہیں پتا، پہلے دن سے کہہ رہا تھا کہ ایک زندہ شخص باہر جائے، اس کے لیے ایس او پیز تیار کیے جاتے ہیں کہ وہ سماجی فاصلہ اختیار کرے، باہر جائے تو اپنے ہاتھوں کی حفاظت کرے انھیں غیر ضروری اشیاء کو چھونے سے بچائے، منہ پر ماسک لگائے، گھر واپس آئے تو ہاتھ دھوئے یا غسل کرے اور اپنے کپڑے تبدیل کرے، یہ سب کچھ ایک زندہ جسم کے لیے ہیں لیکن جو جسم مر گیا، اب وہ سانس لیتا ہے نہ حرکت کرکے کسی شے کو چھو سکتا ہے، مرنے کے بعد اسے شرعی طور پر غسل دیا جاچکا ہے، اس کے جسم کو سینی ٹائز بھی کردیا گیا ہے، جس کے بعد پلاسٹک میں لپیٹ کر کفن پہنادیا گیا اورایک تابوت میں بند کردیا گیا، اب اس مردہ جسم سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتاہے، کسی کو اس سے کیسے وائرس لگ سکتا ہے؟۔ یہاں حکومت کے غیرذمے دارانہ رویے نے بہت سی پیچیدگیاں اور شکوک وشبہات کو جنم دیا۔
اب بھی وقت ہے حکومت اپنی اس غلطی کو سدھارے، میت کے لیے جو ایس او پیز بنارکھے ہیں ان پر نظر ثانی کرے۔ یہ تو ممکن ہے جنازے میں شریک کورونا کے مریض سے کسی دوسرے شخص کو یہ وباء لگ جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایک مردہ جسم کسی صحت مند جسم کو کورونا کا شکار بنا دے۔ اس لیے حکومت فوری طور پر اس حساس مسئلے پر ماہرین طب اور علماء کرام کو آن بورڈ لے اور نئے سرے سے ایس او پیز بنائے۔ نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بھلے زیادہ ہو لیکن انھیں ایس او پیز کا پابند بنایا جائے۔ میت کو غسل دینے سے لے کر لحدمیں اتارنے تک کے ہر عمل میں لواحقین کو شامل رکھا جائے۔ اس وقت جن ایس او پیز کے تحت تجہیز وتکفین ہورہی ہے اس سے ناصرف میت کی بے حرمتی ہورہی ہے بلکہ لواحقین ساری زندگی کے لیے دوہرے صدمے سے دوچار ہورہے ہیں۔
لوگ اس عمل سے شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب کورونا متاثرین کی بڑی تعداد اول تو اپنی بیماری کے بارے میں اہل خانہ کو بھی بتانے سے کترا رہے ہیں، اگر بتا بھی دیں تو وہ اسپتالوں میں آنے کو تیار نہیں، کیونکہ وہاں بھی کورونا ٹیسٹ کا رزلٹ آنے سے پہلے ہی قرنطینہ سینٹر میں ڈال دیا جاتاہے،جسے کورونا نہیں بھی ہوتا وہ بھی وہاں سے کورونا لے کر آتا ہے، اگر خدانخواستہ کسی کی قرنطینہ میں ہی موت واقع ہوجائے تو میت کی بے حرمتی الگ۔ اس لیے لوگ اسپتالوں میں علاج کے بجائے گھروں میں مرنا پسند کررہے ہیں۔
یہ صورتحال حکومتی اقدامات پر بد اعتمادی کا مظہر ہے۔ آخر میں ان مسیحاوں کا ذکر نہ ہوتو یہ نا انصافی ہوگی جو لوگوں کو کورونا جیسی مہلک وباء سے بچانے کے لیے اپنی زندگیوں کو داو پر لگائے ہوئے ہیں، کئی مسیحا اپنے فرائض کی ادائیگی میں جان تک قربان کرچکے ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ انھیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جائیں، بدقسمتی سے ابھی تک کی صورتحال مایوس کن ہے، بے شمار تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں اسپتالوں کے وزٹ پر آنے والے سیاسی رہنماوں کے چہروں پر اعلی کوالٹی کا این 95ماسک ہوتا ہے اور ڈاکٹروں کے پاس سادہ سا میڈیکیٹڈ ماسک بھی نہیں۔ اس طرح کے رویے سے طبی عملے کا حکومت سے اعتماد اٹھ گیاہے۔ حکومت اگر کورونا کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو ان مسائل کا فوری حل تلاش کرے ورنہ بقول وزیر اعظم جولائی اور اگست زیادہ خطرناک ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں صحیح فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اس وباء سے مکمل نجات مل سکے۔