شہرِ خموشاں کا زندہ باسی
چھت نہ ملی تو براٹسلیو نے قبر ہی کو ٹھکانا بنالیا
آپ کو قبرستان میں سے رات کے وقت گزرنا پڑے تو یقینی طور پر شہر خموشاں کی حدود میں سے گزرتے ہوئے آپ خوف کی لپیٹ میں رہیں گے، اگر اس دوران کوئی آہٹ بھی سنائی دے جائے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجائے گا۔
اور اگر کہیں قبرستان میں شب بسری کرنی پڑجائے تو آپ کے اوسان ہی خطا ہوجائیں گے، چہ جائے کہ آپ سے قبر کے اندر رات گزارنے کے لیے کہا جائے۔ تاہم گورکنوں کے علاوہ بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں قبرستان کا مہیب سناٹا کسی خوف میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ وہ اس پُرہول خاموشی کے عادی ہوچکے ہیں۔ سربیا کا 43 سالہ Bratislav Stojanovic تو رہتا ہی قبر کے اندر ہے۔ جی ہاں! اس بے گھر آدمی کو جب کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملی تو اس نے قبر ہی کو اپنا ٹھکانا بنالیا۔
براٹسلیو پچھلے پندرہ سال سے سربیائی شہر Nis کے قبرستان میں مُردوں کا پڑوسی بنا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مُردوں کی ہمسائیگی سے زیادہ بھوک اور زندہ رہنے کا خوف اسے پریشان کرتا ہے۔
براٹسلیو کو کبھی مستقل ملازمت نہیں ملی۔ اس نے محنت مزدوری کے علاوہ مختلف نوکریاں کیں مگر کوئی بھی نوکری زیادہ عرصے تک نہ چلی سکی۔ آمدنی اس کی برائے نام تھی، اس لیے وہ قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ ان دنوں اس کے پاس اپنا گھر تھا۔ جب قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نہ بن پائی اور قرض خواہ پریشان کرنے لگے تو اسے ادھار چکانے کے لیے گھرکی فروخت جیسا کڑا فیصلہ کرنا پڑا۔ چھت سے محرومی کے بعد وہ دربدر ہوگیا۔ چند برس تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد اسے قبرستان میں ایک پرانی قبر کی صورت میں جائے پناہ نظر آئی اور پھر براٹسلیو نے اسے اپنا مستقل ٹھکانا بنالیا۔
براٹسلیو نے اس جگہ کو ممکنہ حد تک آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اب اسے یہاں گھر جیسا آرام ملتا ہے۔ براٹسلیو کا کہنا ہے کہ باہر کی شدید سردی کے مقابلے میں یہ جگہ خشک اور گرم ہے۔ براٹسلیو کے مطابق یہ جگہ کوئی محل تو نہیں مگر سڑک سے ہزار درجے بہتر ہے۔
وہ اعتراف کرتاہے کہ ابتدا میں قبرستان میں رہنا بہت مشکل تھا۔ اسے شہر خموشاں کے مکینوں سے خوف محسوس ہوتا تھا، بالخصوص رات میں اس کے لیے سونا محال ہوجاتا تھا اور ہوا کی سرسراہٹ اور شبینہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی حرکت سے ہونے والی آہٹیں بھی اسے خوف زدہ کردیتی تھیں، مگر اب وہ اس ماحول کا عادی ہوگیا ہے اور بس اسے پیٹ بھرنے کی فکر رہتی ہے۔
وہ کچرے میں سے بچی کھچی اشیاء تلاش کرکے پیٹ بھرتا ہے۔ وہیں سے اسے موم بتیاں بھی دست یاب ہوجاتی ہیں جو اس کی ' قبر' کو روشن اور گرم رکھتی ہیں۔ براٹسلیو بہت خوش ہے کہ بالآخر اسے رہائش کے لیے ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں اسے کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا، یہاں تک کہ پولیس بھی نہیں۔ تاہم وہ اب بھی قبر کا ڈھکنا یا صلیب ہٹا کر پہلے احتیاطاً ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر باہر نکلتا ہے، کسی حملہ آور کے خوف سے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ کوئی ' مُردے کو زندہ' ہوتے ہوئے دیکھ کر جان سے نہ چلا جائے۔
اور اگر کہیں قبرستان میں شب بسری کرنی پڑجائے تو آپ کے اوسان ہی خطا ہوجائیں گے، چہ جائے کہ آپ سے قبر کے اندر رات گزارنے کے لیے کہا جائے۔ تاہم گورکنوں کے علاوہ بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں قبرستان کا مہیب سناٹا کسی خوف میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ وہ اس پُرہول خاموشی کے عادی ہوچکے ہیں۔ سربیا کا 43 سالہ Bratislav Stojanovic تو رہتا ہی قبر کے اندر ہے۔ جی ہاں! اس بے گھر آدمی کو جب کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملی تو اس نے قبر ہی کو اپنا ٹھکانا بنالیا۔
براٹسلیو پچھلے پندرہ سال سے سربیائی شہر Nis کے قبرستان میں مُردوں کا پڑوسی بنا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مُردوں کی ہمسائیگی سے زیادہ بھوک اور زندہ رہنے کا خوف اسے پریشان کرتا ہے۔
براٹسلیو کو کبھی مستقل ملازمت نہیں ملی۔ اس نے محنت مزدوری کے علاوہ مختلف نوکریاں کیں مگر کوئی بھی نوکری زیادہ عرصے تک نہ چلی سکی۔ آمدنی اس کی برائے نام تھی، اس لیے وہ قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا گیا۔ ان دنوں اس کے پاس اپنا گھر تھا۔ جب قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت نہ بن پائی اور قرض خواہ پریشان کرنے لگے تو اسے ادھار چکانے کے لیے گھرکی فروخت جیسا کڑا فیصلہ کرنا پڑا۔ چھت سے محرومی کے بعد وہ دربدر ہوگیا۔ چند برس تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد اسے قبرستان میں ایک پرانی قبر کی صورت میں جائے پناہ نظر آئی اور پھر براٹسلیو نے اسے اپنا مستقل ٹھکانا بنالیا۔
براٹسلیو نے اس جگہ کو ممکنہ حد تک آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ اب اسے یہاں گھر جیسا آرام ملتا ہے۔ براٹسلیو کا کہنا ہے کہ باہر کی شدید سردی کے مقابلے میں یہ جگہ خشک اور گرم ہے۔ براٹسلیو کے مطابق یہ جگہ کوئی محل تو نہیں مگر سڑک سے ہزار درجے بہتر ہے۔
وہ اعتراف کرتاہے کہ ابتدا میں قبرستان میں رہنا بہت مشکل تھا۔ اسے شہر خموشاں کے مکینوں سے خوف محسوس ہوتا تھا، بالخصوص رات میں اس کے لیے سونا محال ہوجاتا تھا اور ہوا کی سرسراہٹ اور شبینہ جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی حرکت سے ہونے والی آہٹیں بھی اسے خوف زدہ کردیتی تھیں، مگر اب وہ اس ماحول کا عادی ہوگیا ہے اور بس اسے پیٹ بھرنے کی فکر رہتی ہے۔
وہ کچرے میں سے بچی کھچی اشیاء تلاش کرکے پیٹ بھرتا ہے۔ وہیں سے اسے موم بتیاں بھی دست یاب ہوجاتی ہیں جو اس کی ' قبر' کو روشن اور گرم رکھتی ہیں۔ براٹسلیو بہت خوش ہے کہ بالآخر اسے رہائش کے لیے ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں اسے کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا، یہاں تک کہ پولیس بھی نہیں۔ تاہم وہ اب بھی قبر کا ڈھکنا یا صلیب ہٹا کر پہلے احتیاطاً ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر باہر نکلتا ہے، کسی حملہ آور کے خوف سے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ کوئی ' مُردے کو زندہ' ہوتے ہوئے دیکھ کر جان سے نہ چلا جائے۔