ہر طرف بے اعتباری و غیر ذمے داری
ملک کو زرمبادلہ بھیجنے والوں کے ساتھ حکومتی اداروں کا سلوک ناروا ہے جس کی وجہ سے ملک واپس نہ آنے پر سوچ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کراچی کے ارکان سندھ اسمبلی اور عہدیداروں نے الزام لگایا ہے کہ کورونا کے سلسلے میں سندھ حکومت غلط اعدادوشمار پیش کرکے خوف وہراس پیدا کر رہی ہے۔
کراچی کے بعض تجارتی اور عوامی حلقوں میں بھی یہ باتیں کی جا رہی ہیں کہ ملک کے معاشی حب کراچی کے ساتھ سندھ حکومت سیاسی دشمنی کا سلوک کر رہی ہے اور اپنے فیصلوں سے کراچی کو نقصان پہنچا کر شہریوں سے پی پی کو ووٹ نہ دینے کا بدلہ لیا جا رہا ہے اورکراچی کو مفلوج رکھ کر ملک کو معاشی نقصان پہنچا کر وفاقی حکومت کو بھی مالی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، جس سے کراچی اور وفاق متاثر ہو رہا ہے اورکاروباری بندش اسی وجہ سے برقرار رکھی جا رہی ہے۔
یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ کورونا کا خوف بڑھانے کے لیے بے گناہ مریضوں کو کورونا کے کھاتے میں ڈالا رہا ہے اور ڈاکٹروں کے ذریعے کورونا مریضوں کی ہلاکتیں زیادہ بتائی جا رہی ہیں اور ایسا کراچی ہی نہیں اندرون سندھ بھی کرایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف سندھ حکومت کا موقف ہے کہ کورونا کے سلسلے میں سندھ حکومت نے وفاق کے برعکس اپنی ذمے داری سب سے پہلے محسوس کی اور کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سب سے پہلے جو لاک ڈاؤن کرایا، اس کی تقلید بعد میں دوسرے صوبوں کو بھی کرنا پڑی جو سندھ حکومت کی بہترین حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے جس کی تعریف عالمی سطح اور میڈیا نے بھی کی ہے اور ایسا نہ کیا جاتا توکورونا سے سندھ زیادہ متاثر ہوتا۔
پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے بقول سندھ حکومت نے کراچی کو اٹلی اور اسپین بننے سے بچا لیا ہے۔ سندھ حکومت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کے اقدامات سے حکومت پر عوامی، سیاسی اور کاروباری حلقوں کا بھی دباؤ رہا اور سندھ حکومت کو مالی نقصان ہوا اور ٹیکس وصولی بھی متاثر ہوئی مگر سندھ حکومت کو عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ناخوشگوار مگر ضروری فیصلے کرنے پڑے جس پر وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے سندھ سے تعاون کے بجائے اپنی مخالفانہ سیاست جاری رکھی اور حکومت سندھ پر بے جا الزام تراشی جاری رکھی ہوئی ہے اور حقائق کے برعکس سندھ حکومت پر تنقید جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا کی اہم ترین عالمی وبا پر وفاق بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہا اور وزیر اعظم شروع سے ہی لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے اور کورونا سے ہلاکتوں پر بے روزگاری اور بھوک سے پیدا ہونے والی ہلاکتوں کو ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ سمجھتے تھے مگر پھر انھیں پنجاب و خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتوں اور بلوچستان میں اپنی حامی حکومت کے فیصلوں کی تائید کرنا پڑی۔
کورونا پر وفاقی اور سندھ حکومت کی باہمی بے اعتباری مزید بڑھ گئی ہے دونوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں جس کی سزاکاروباری حلقے اور عوام برداشت کر رہے ہیں۔ وفاق کی پی ٹی آئی حکومت کوجون میں کورونا بڑھنے کا خدشہ ہے مگر وہ شارٹ لاک ڈاؤن اور پی پی کی سندھ حکومت ڈاکٹروں کی تائید میں مزید سخت لاک ڈاؤن چاہتی تھیں اور دونوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خوف نے کچھ اتفاق پر مجبور تو کردیا ہے مگر دونوں ایک دوسرے کی ناکامی اور اپنے اپنے اقدامات کی کامیابی چاہتی ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا نے تو اپنی وفاقی حکومت کی حمایت پر مجبور ہیں مگر سندھ اور بلوچستان حکومت وفاق پر مکمل اعتبار پر تیار نہیں اور وفاق کے برعکس فیصلے کرتی رہتی ہیں۔ عوام بھی سندھ حکومت کی طرح سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کو آگے آکر کورونا کے خلاف قیادت کرنا چاہیے تھی۔ اپوزیشن بھی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں کام کرنا چاہتی تھی مگر وزیر اعظم کو یہ بھی قبول نہ تھا۔ وزیر اعظم اس سلسلے میں اپوزیشن سے دور رہنا چاہتے تھے، ملنا تو دورکی بات انھوں نے سندھ اور آزاد کشمیر میں اپنی مخالف پارٹیوں کی حکومتوں کے باعث کورونا کے سلسلے میں وہاں کا دورہ کرنا بھی ضروری نہ سمجھا یہ ان کی بے اعتباری کا واضح ثبوت ہے۔
ملک میں عوام کی منتخب حکومتوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں تو عوام بھی ان حکومتوں کی کارکردگی، باتوں اور کاموں پر اعتبار کیوں کریں؟کورونا کے پھیلاؤ کے تمام حکومتوں کے ایک جیسے خدشات مگر الگ الگ اقدامات پر عوام بھی بے یقینی اور بے اعتباری کا شکار ہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والی بعض پوسٹوں نے بھی عوام کی بے اعتباری کو بڑھا دیا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا حقیقت کم اور عالمی ڈرامہ زیادہ ہے جو امریکا، اسرائیل اور ان کے حامیوں کی طرف سے دنیا میں خوف بڑھانے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔
ملک میں بھی بعض متاثرہ لوگوں نے خود پر گزرے حقائق پیش کیے ہیں کہ کس طرح ان کے مریضوں کو کورونا نہ ہونے کے باوجود وینٹی لیٹر پر رکھ کر ان سے دائمی طور پر جدا کیا گیا اور خود ہی شکل دکھائے بغیر ان کے پیارے آخری دیدار کرائے بغیر دفنا دیے گئے۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکومتوں اور ڈاکٹروں کے اقدامات پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس پر لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا اور حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کی ہے کہ انھیں حکومتی سطح پر لوٹا جا رہا ہے۔
ملک کو زرمبادلہ بھیجنے والوں کے ساتھ حکومتی اداروں کا سلوک ناروا ہے جس کی وجہ سے ملک واپس نہ آنے پر سوچ رہے ہیں اور وہ وطن میں مرنے کے بجائے بیرون ملک رہنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں اور وہ باہر رہنا ہی بہتر تصور کر رہے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا پر حکومتیں ہی نہیں، سرکاری ادارے اور عوام بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور عالمی وبا میں عوام کو لوٹنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ وفاقی حکومت کا سارا زورکورونا کے بجائے فنڈز وصولی پر ہے۔ مسیحاؤں کو حفاظتی سامان نہیں دیا جا رہا۔ حکومتوں کے غیرحقیقی فیصلے متاثرین کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ عوام اپنے ملک میں ہلاکتوں پر یقین نہیں کرتے اور منفی پروپیگنڈوں نے لوگوں کو کنفیوژ کر رکھا ہے اور وہ حقائق جان نہیں پا رہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ کس بات پر اعتبار کریں کس پہ نہ کریں۔ حکومتوں کے ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے ورنہ غیر یقینی مزید بڑھے گی۔
کراچی کے بعض تجارتی اور عوامی حلقوں میں بھی یہ باتیں کی جا رہی ہیں کہ ملک کے معاشی حب کراچی کے ساتھ سندھ حکومت سیاسی دشمنی کا سلوک کر رہی ہے اور اپنے فیصلوں سے کراچی کو نقصان پہنچا کر شہریوں سے پی پی کو ووٹ نہ دینے کا بدلہ لیا جا رہا ہے اورکراچی کو مفلوج رکھ کر ملک کو معاشی نقصان پہنچا کر وفاقی حکومت کو بھی مالی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے، جس سے کراچی اور وفاق متاثر ہو رہا ہے اورکاروباری بندش اسی وجہ سے برقرار رکھی جا رہی ہے۔
یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ کورونا کا خوف بڑھانے کے لیے بے گناہ مریضوں کو کورونا کے کھاتے میں ڈالا رہا ہے اور ڈاکٹروں کے ذریعے کورونا مریضوں کی ہلاکتیں زیادہ بتائی جا رہی ہیں اور ایسا کراچی ہی نہیں اندرون سندھ بھی کرایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف سندھ حکومت کا موقف ہے کہ کورونا کے سلسلے میں سندھ حکومت نے وفاق کے برعکس اپنی ذمے داری سب سے پہلے محسوس کی اور کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سب سے پہلے جو لاک ڈاؤن کرایا، اس کی تقلید بعد میں دوسرے صوبوں کو بھی کرنا پڑی جو سندھ حکومت کی بہترین حکمت عملی کا واضح ثبوت ہے جس کی تعریف عالمی سطح اور میڈیا نے بھی کی ہے اور ایسا نہ کیا جاتا توکورونا سے سندھ زیادہ متاثر ہوتا۔
پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے بقول سندھ حکومت نے کراچی کو اٹلی اور اسپین بننے سے بچا لیا ہے۔ سندھ حکومت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کے اقدامات سے حکومت پر عوامی، سیاسی اور کاروباری حلقوں کا بھی دباؤ رہا اور سندھ حکومت کو مالی نقصان ہوا اور ٹیکس وصولی بھی متاثر ہوئی مگر سندھ حکومت کو عوام کے اجتماعی مفاد کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ناخوشگوار مگر ضروری فیصلے کرنے پڑے جس پر وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے سندھ سے تعاون کے بجائے اپنی مخالفانہ سیاست جاری رکھی اور حکومت سندھ پر بے جا الزام تراشی جاری رکھی ہوئی ہے اور حقائق کے برعکس سندھ حکومت پر تنقید جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا کی اہم ترین عالمی وبا پر وفاق بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہا اور وزیر اعظم شروع سے ہی لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے اور کورونا سے ہلاکتوں پر بے روزگاری اور بھوک سے پیدا ہونے والی ہلاکتوں کو ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ سمجھتے تھے مگر پھر انھیں پنجاب و خیبر پختون خوا میں اپنی حکومتوں اور بلوچستان میں اپنی حامی حکومت کے فیصلوں کی تائید کرنا پڑی۔
کورونا پر وفاقی اور سندھ حکومت کی باہمی بے اعتباری مزید بڑھ گئی ہے دونوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں جس کی سزاکاروباری حلقے اور عوام برداشت کر رہے ہیں۔ وفاق کی پی ٹی آئی حکومت کوجون میں کورونا بڑھنے کا خدشہ ہے مگر وہ شارٹ لاک ڈاؤن اور پی پی کی سندھ حکومت ڈاکٹروں کی تائید میں مزید سخت لاک ڈاؤن چاہتی تھیں اور دونوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خوف نے کچھ اتفاق پر مجبور تو کردیا ہے مگر دونوں ایک دوسرے کی ناکامی اور اپنے اپنے اقدامات کی کامیابی چاہتی ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا نے تو اپنی وفاقی حکومت کی حمایت پر مجبور ہیں مگر سندھ اور بلوچستان حکومت وفاق پر مکمل اعتبار پر تیار نہیں اور وفاق کے برعکس فیصلے کرتی رہتی ہیں۔ عوام بھی سندھ حکومت کی طرح سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کو آگے آکر کورونا کے خلاف قیادت کرنا چاہیے تھی۔ اپوزیشن بھی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں کام کرنا چاہتی تھی مگر وزیر اعظم کو یہ بھی قبول نہ تھا۔ وزیر اعظم اس سلسلے میں اپوزیشن سے دور رہنا چاہتے تھے، ملنا تو دورکی بات انھوں نے سندھ اور آزاد کشمیر میں اپنی مخالف پارٹیوں کی حکومتوں کے باعث کورونا کے سلسلے میں وہاں کا دورہ کرنا بھی ضروری نہ سمجھا یہ ان کی بے اعتباری کا واضح ثبوت ہے۔
ملک میں عوام کی منتخب حکومتوں کو ایک دوسرے پر اعتبار نہیں تو عوام بھی ان حکومتوں کی کارکردگی، باتوں اور کاموں پر اعتبار کیوں کریں؟کورونا کے پھیلاؤ کے تمام حکومتوں کے ایک جیسے خدشات مگر الگ الگ اقدامات پر عوام بھی بے یقینی اور بے اعتباری کا شکار ہیں اور سوشل میڈیا پر آنے والی بعض پوسٹوں نے بھی عوام کی بے اعتباری کو بڑھا دیا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا حقیقت کم اور عالمی ڈرامہ زیادہ ہے جو امریکا، اسرائیل اور ان کے حامیوں کی طرف سے دنیا میں خوف بڑھانے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔
ملک میں بھی بعض متاثرہ لوگوں نے خود پر گزرے حقائق پیش کیے ہیں کہ کس طرح ان کے مریضوں کو کورونا نہ ہونے کے باوجود وینٹی لیٹر پر رکھ کر ان سے دائمی طور پر جدا کیا گیا اور خود ہی شکل دکھائے بغیر ان کے پیارے آخری دیدار کرائے بغیر دفنا دیے گئے۔ اس سلسلے میں متعلقہ حکومتوں اور ڈاکٹروں کے اقدامات پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس پر لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا اور حکومتی اقدامات پر سخت تنقید کی ہے کہ انھیں حکومتی سطح پر لوٹا جا رہا ہے۔
ملک کو زرمبادلہ بھیجنے والوں کے ساتھ حکومتی اداروں کا سلوک ناروا ہے جس کی وجہ سے ملک واپس نہ آنے پر سوچ رہے ہیں اور وہ وطن میں مرنے کے بجائے بیرون ملک رہنے پر مجبور کیے جا رہے ہیں اور وہ باہر رہنا ہی بہتر تصور کر رہے ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا پر حکومتیں ہی نہیں، سرکاری ادارے اور عوام بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور عالمی وبا میں عوام کو لوٹنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ وفاقی حکومت کا سارا زورکورونا کے بجائے فنڈز وصولی پر ہے۔ مسیحاؤں کو حفاظتی سامان نہیں دیا جا رہا۔ حکومتوں کے غیرحقیقی فیصلے متاثرین کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ عوام اپنے ملک میں ہلاکتوں پر یقین نہیں کرتے اور منفی پروپیگنڈوں نے لوگوں کو کنفیوژ کر رکھا ہے اور وہ حقائق جان نہیں پا رہے۔ لوگ پریشان ہیں کہ کس بات پر اعتبار کریں کس پہ نہ کریں۔ حکومتوں کے ساتھ عوام کو بھی اپنی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے ورنہ غیر یقینی مزید بڑھے گی۔