کورونا اورجڑی بوٹیاں
حکومت کے علم میں یہ بات ہوگی کہ علاج سے مایوس عوام کس طرح جڑی بوٹیوں میں پھنسے ہوئے ہیں
حکومت پاکستان کے سامنے ایسے گمبھیر مسائل کھڑے ہیں کہ جنھیں حل کرنا آسان نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کورونا کا ہے۔ کورونا ایک ایسا خطرناک مرض ہے کہ جو شخص اس سے متاثر ہوجاتا ہے، اس کے خاندان والے اور احباب، اس کی زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی بلا صرف پاکستان ہی پر مسلط نہیں بلکہ ساری دنیا اس تباہ کن وبا کی زد میں ہے، اس کی تباہ کاریوں کے سامنے عوام کینسر تک کو بھول گئے ہیں۔
دنیا کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ شعبہ صحت کے ماہرین نے علاج کے شعبے میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کیں لیکن مسلسل اور انتھک کوششوں کے باوجود اس وبا پر قابو پانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اس کی ہلاکت خیزیوں کا عالم یہ ہے کہ اب تک دنیا میں لاکھوں انسان ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سارے طبی ماہرین کورونا کی ویکسین تیارکرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سے اس ابتری کا ذکر ضروری ہے کہ عوام ہر وہ ''دوا '' استعمال کر رہے ہیں جو نیم حکیموں کی تجویزکردہ ہوتی ہے ، اگرچہ عوام کی ہر طرف سے مایوسی کی انتہا ہے لیکن حکومت اس حوالے سے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کررہی ہے کچھ تو وہ نیم حکیم ٹائپ کے احمق ہیں جو کسی چیزکو اکسیر بتا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔کچھ عمر رسیدہ مرد اور خواتین ہیں جو مختلف جڑی بوٹیوں کوکورونا کی دوا کے نام پر ضرورت مندوں کو فراہم کر رہے ہیں یا اس اکسیری جڑی بوٹیوں کے نام اور ان دکانوں کے پتے لکھ رہے ہیں جہاں یہ جڑی بوٹیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ہر طرف سے مایوس لوگ یہ جڑی بوٹیاں استعمال کر رہے ہیں جن کے فائدے نقصان کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حکومت کے علم میں یہ بات ہوگی کہ علاج سے مایوس عوام کس طرح جڑی بوٹیوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ان جڑی بوٹیوں کے فائدے نقصان کا عام ضرورت مندوں کو علم نہیں ہوتا سو مایوسی کے عالم میں یہ جڑی بوٹیاں اپنے کوروناکے مریضوں کو استعمال کراتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان جڑی بوٹیوں کے استعمال سے مریضوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اورکورونا کے مریضوں میں استعمال کرائی جانے والی ان جڑی بوٹیوں کو تحقیق کے لیے ماہر حکما کے حوالے کرے اگر کوئی جڑی بوٹی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے تو اس کی مکمل تحقیق کے بعد اسے استعمال کرنے کی اجازت دے لیکن اس کے ممکنہ مضر اثرات کے حوالے سے عوام کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ دے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کا محکمہ صحت اس جڑی بوٹی علاج سے واقف ہے یا نہیں، اگر نہیں ہے تو اس حوالے سے عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ بتائے کہ کسی ماہر اور مستند حکیم سے اس حوالے سے مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ یونانی ادویات اور طریقہ علاج صدیوں پرانا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتوں نے اس حوالے سے مکمل تحقیق کرکے فائدہ مند ادویات اور نقصان رساں ادویات کی کوئی باضابطہ نشان دہی نہیں کی، جو لازمی کی جانی چاہیے تھی۔
کورونا کے مرض کی ابھی تک کوئی دوا (ویکسین) دریافت نہیں ہوسکی لیکن اس حوالے سے یہ ادھورے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک میں ویکسین تیاری کے مرحلے میں ہے اور بعض خبروں میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کرایا جا رہا ہے کورونا کی تحقیق کا کوئی مرکز ہونا چاہیے اور اس حوالے سے عوام کو پوری معلومات مہیا کی جانی چاہئیں کہ کہاں ،کہاں تحقیق ہو رہی ہے اور تحقیق میں اب تک کتنی کامیابی کتنی ناکامی ہوئی ہے اور اس حوالے سے مستقبل کی کیا منصوبہ بندی ہے۔ اس طرح اس شعبے کے ماہرین کی کوششوں اور نتائج سے عوام واقف ہوسکتے ہیں اور یہ تاثر زائل ہوسکتا ہے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہے یہ تاثر عوام میں سخت مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
یہاں پر اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی فیملی کا واحد سہارا رہے ہیں جن کے بعد ایسے مرحوموں کے متعلقین کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے روڈ ایکسیڈنٹ وغیرہ میں جان سے جانے والوں کے لواحقین کی مالی مدد کرکے انھیں معاشی مشکلات سے بچایا جاتا ہے، یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے۔
کورونا سے موت کے شکار ہونے والوں میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنی فیملی کے واحد کفیل رہے ہیں ،ان کے گزر جانے کے بعد ان کے لواحقین سخت معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کورونا کے شہیدوں کے لواحقین کی بھرپور مدد کرے اگر مرحوموں کے بعد ان کے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں تو ایسے بچوں کی ایسی قدرکی جائے کہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
یونانی اور ہومیو پیتھک علاج بھی ایک موثر علاج ہے لیکن اس کی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ یہ دونوں طریقہ علاج کسمپرسی کا شکار ہیں۔کورونا ایک نئی بیماری ہے ، طبی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے کورونا کی بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے علاج دریافت کرنے کی کوشش کی جائے۔
دنیا کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ شعبہ صحت کے ماہرین نے علاج کے شعبے میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کیں لیکن مسلسل اور انتھک کوششوں کے باوجود اس وبا پر قابو پانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اس کی ہلاکت خیزیوں کا عالم یہ ہے کہ اب تک دنیا میں لاکھوں انسان ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اب اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سارے طبی ماہرین کورونا کی ویکسین تیارکرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سے اس ابتری کا ذکر ضروری ہے کہ عوام ہر وہ ''دوا '' استعمال کر رہے ہیں جو نیم حکیموں کی تجویزکردہ ہوتی ہے ، اگرچہ عوام کی ہر طرف سے مایوسی کی انتہا ہے لیکن حکومت اس حوالے سے انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کررہی ہے کچھ تو وہ نیم حکیم ٹائپ کے احمق ہیں جو کسی چیزکو اکسیر بتا کر عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔کچھ عمر رسیدہ مرد اور خواتین ہیں جو مختلف جڑی بوٹیوں کوکورونا کی دوا کے نام پر ضرورت مندوں کو فراہم کر رہے ہیں یا اس اکسیری جڑی بوٹیوں کے نام اور ان دکانوں کے پتے لکھ رہے ہیں جہاں یہ جڑی بوٹیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ہر طرف سے مایوس لوگ یہ جڑی بوٹیاں استعمال کر رہے ہیں جن کے فائدے نقصان کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حکومت کے علم میں یہ بات ہوگی کہ علاج سے مایوس عوام کس طرح جڑی بوٹیوں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ان جڑی بوٹیوں کے فائدے نقصان کا عام ضرورت مندوں کو علم نہیں ہوتا سو مایوسی کے عالم میں یہ جڑی بوٹیاں اپنے کوروناکے مریضوں کو استعمال کراتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان جڑی بوٹیوں کے استعمال سے مریضوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس حوالے سے تحقیقات کرے اورکورونا کے مریضوں میں استعمال کرائی جانے والی ان جڑی بوٹیوں کو تحقیق کے لیے ماہر حکما کے حوالے کرے اگر کوئی جڑی بوٹی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے تو اس کی مکمل تحقیق کے بعد اسے استعمال کرنے کی اجازت دے لیکن اس کے ممکنہ مضر اثرات کے حوالے سے عوام کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ دے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کا محکمہ صحت اس جڑی بوٹی علاج سے واقف ہے یا نہیں، اگر نہیں ہے تو اس حوالے سے عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ بتائے کہ کسی ماہر اور مستند حکیم سے اس حوالے سے مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ یونانی ادویات اور طریقہ علاج صدیوں پرانا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومتوں نے اس حوالے سے مکمل تحقیق کرکے فائدہ مند ادویات اور نقصان رساں ادویات کی کوئی باضابطہ نشان دہی نہیں کی، جو لازمی کی جانی چاہیے تھی۔
کورونا کے مرض کی ابھی تک کوئی دوا (ویکسین) دریافت نہیں ہوسکی لیکن اس حوالے سے یہ ادھورے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک میں ویکسین تیاری کے مرحلے میں ہے اور بعض خبروں میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کرایا جا رہا ہے کورونا کی تحقیق کا کوئی مرکز ہونا چاہیے اور اس حوالے سے عوام کو پوری معلومات مہیا کی جانی چاہئیں کہ کہاں ،کہاں تحقیق ہو رہی ہے اور تحقیق میں اب تک کتنی کامیابی کتنی ناکامی ہوئی ہے اور اس حوالے سے مستقبل کی کیا منصوبہ بندی ہے۔ اس طرح اس شعبے کے ماہرین کی کوششوں اور نتائج سے عوام واقف ہوسکتے ہیں اور یہ تاثر زائل ہوسکتا ہے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہے یہ تاثر عوام میں سخت مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
یہاں پر اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں میں بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنی فیملی کا واحد سہارا رہے ہیں جن کے بعد ایسے مرحوموں کے متعلقین کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے روڈ ایکسیڈنٹ وغیرہ میں جان سے جانے والوں کے لواحقین کی مالی مدد کرکے انھیں معاشی مشکلات سے بچایا جاتا ہے، یہ ایک قابل تعریف اقدام ہے۔
کورونا سے موت کے شکار ہونے والوں میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اپنی فیملی کے واحد کفیل رہے ہیں ،ان کے گزر جانے کے بعد ان کے لواحقین سخت معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ کورونا کے شہیدوں کے لواحقین کی بھرپور مدد کرے اگر مرحوموں کے بعد ان کے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں تو ایسے بچوں کی ایسی قدرکی جائے کہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
یونانی اور ہومیو پیتھک علاج بھی ایک موثر علاج ہے لیکن اس کی حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ یہ دونوں طریقہ علاج کسمپرسی کا شکار ہیں۔کورونا ایک نئی بیماری ہے ، طبی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرکے کورونا کی بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے علاج دریافت کرنے کی کوشش کی جائے۔