حساس لوگ
حد سے زیادہ سوچنا انھیں زندگی کی مشکلوں سے دوچار کردیتا ہے
انسان اللہ تعالیٰ کی بہترین اور منفرد تخلیق ہے۔ انسانی زندگی اور ذہن کو سمجھنا انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔
انسان چونکہ مختلف جذبات و احساسات سے دوچار رہتا ہے تو انسانی زندگی کو احساسات سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ احساسات کی نوعیت وقت، حالات اور واقعات سے نتھی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت سے بھی جدا نہیں ہوتی۔ ابن آدم ہویا بنت آدم احساسات و جذبات دونوں میں ہی برابر پائے جاتے ہیں۔
ان کی شدت البتہ ہر جگہ کم یا زیادہ ہوسکتی ہے مگر بنیاد وہی ایک ہی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر جذبات و احساسات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ یا انہیں بنانے کا آخر کار محرک ہی کیا تھا؟ تو غور کرنے پر کوئی بھی صاحب عقل یہ جان سکتا ہے کہ انسانی جسم بنا احساس کے جذبات کے بالکل ایک گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہے۔ یہاں جانور سے تشبیہ نہ دینے کی ایک ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ جذبات تو جانوروں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ پھر ایک بات اور سامنے آتی ہے کہ رشتوں کی بنیاد میں ایک اہم حصہ جذبات کا ہے۔
خون کے رشتوں میں جو کشش اور لگاؤ موجود ہوتا ہے اس کی ایک بڑی مثال وہ احساس وہ جذبہ وہ ایثار ہوتا ہے جس میں اپنی خوشی سے زیادہ اہمیت دوسروں کی خوشی کو دی جاتی ہے۔ جہاں درد ایک فرد کے سینے میں ہو تو پورا کنبہ تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ گویا احساسات کے بنا انسان ادھورا ناممکن ہے۔ یوں جیسے احساس سے عاری ہو تو وہ جاتے ہیں بس غم، احساس کرنا اور حساسیت رکھنا جہاں ایک اچھی علامت تصور کی جاتی ہے ونہی حساس لوگوں کے لیے مشکلات کا سدباب بھی ضروری ہے۔
٭ حساس لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
عمومی طور پر حساس لوگوں کی پہچان بہت واضح انداز میں ممکن نہیںہوتی۔ دراصل حساس لوگ حد سے زیادہ جوشیلے، پریشانی کا شکار اور تھکان زدہ ہوتے ہیں۔ حساس لوگوں کے ذہن میں جب کوئی نیا خیال پنپتا ہے تو وہ بے حد جوشیلے ہوجاتے ہیں۔ لیکن نتائج توقعات کے برعکس پاکر وہ بے چینی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب ایسا ہونے کی بڑی وجہ دراصل ان کا حد سے زیادہ جذباتی پن اور تصوراتی دنیا کا شیدائی ہونا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حساس لوگ اپنی بنائی خوابوں کی دنیا میں رہنے کے اور اسی کے اصولوں کے مطابق چلنے کی اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ وہ حقیقت کا سامنا نہیں کرپاتے۔ حقیقت اور خیال دو الگ الگ دنیا ہیں جن کا سنجوگ شاید ہی ہوسکے۔
اگر نفسیات کی رو سے حساس لوگوں کی پہچان کی جائے تو ایسے افراد میں ایک خصوصیت ہوتی ہے جسے سنسری پروسیسنگ سنسٹیوٹی ایس پی ایس کہتے ہیں۔ اس خاص قسم کی خصوصیت کو دریافت کرنے والے کلینیکل سیکالوجسٹ الین ارون نے جب ایسے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا جو کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے الگ دکھائی دیتے ہیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ایس پی ایس نہ رکھنے والوں کی نسبت وہ افراد اپنے ماحول میں ہونے والے حالات و واقعات حتیٰ کے مہین تبدیلیوں کو بڑی باریکی سے جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایسے افراد کو دوسروں کی نسبت اونچی آوازیں، تیز روشنیاں، جبروتشدد سے بھرپور مناظر، تنہائی اور تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو حد سے زیادہ حساس افراد کا جب کسی سخت جان محرک سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ خود پرحد سے زیادہ بوجھ لاد لیتے ہیں جو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے نیک شگون نہیں ہوتا۔
٭حساس ہونا بری بات نہیں
حساس افراد اپنے ماحول میں بدلاؤ اور تبدیلی کو کم ہی برداشت کرتے ہیں۔ وہ ذائقوں، فن، موسیقی، خوشبوؤں، رویوں اور موسموں میں تبدیلی کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور ایسے بدلاؤ کو خاص پسند نہیں کرتے چہ جائے کہ وہ بدلاؤ خوشگوار ہو۔ اسی کے ساتھ حساس افراد بہت درد مند ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے کے لیے خود کواس کی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے کے احساسات کی کس قدر پرواہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اچھے سامع ہوتے ہیں، دوسروں کی خواہشات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں، لوگوں کے جھوٹ سے آگاہ ہوجاتے ہیں، دوسروں کے دکھ درد میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ لوگ ان کی بات کو اہمیت دیتے اور نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔
٭یہ تو عام ہے!
سنسری پروسیسنگ سنسٹیوٹی کی خصوصیت سے تو آپ آگاہ ہیں مگر عموماً لوگ اسے غلط انداز میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی دریافت نوخیز ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے یہ خصوصیت موجود نہ تھی۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کی پندرہ سے بیس فیصد آبادی میں ایس پی ایس موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خصوصیت ناصرف انسانوں میں موجود ہے بلکہ حیوانوں کی سو سے زائد انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔
٭ حساسیت نقصان دہ بھی ہے
گوکہ حساس ہونا ایک اچھی بات ہے کہ آپ دوسروں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں، اسے بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برے کو برا ہی سمجھتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ حد سے زیادہ حساسیت کا شکار افراد کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ جی ہاں، بات بات پر کڑھنا، ہر واقعے کودل سے لگا لینا اور کئی کئی دنوں ایک ہی بات کو مسلسل سوچتے رہنا کوئی اچھی بات نہیں۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔
اچھے برے حالات و واقعات انسان کی زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں لیکن انہیں دل سے لگالینا اور ایک موڑ کو آخری کنارہ سمجھ لینا سراسر بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ خود پر بلاوجہ کا بوجھ لادلینا اور ہر وقت کرب میں مبتلا رہنا انسان کو دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔
ماحول میں وہی گزر بسر کرسکتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں جیسنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حساس لوگ تیز خوشبوں، موسموں کے تغیر و تبدل، تیز آوازوں سے اس قدر خائف ہوتے ہیں کہ ان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ اپنے اندر کی اس شدت کو کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہاں کم اس لیے کہا گیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب ختم ہوسکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ فطری چیزوں کو کم یا زیادہ کرنے کے لیے محنت کی جاسکتی ہے، انہیں ختم کردینا ممکن نہیں ہوتا۔
٭آگاہی ضروری ہے
حددرجہ حساسیت سے چھٹکارہ پانے کے لیے خود آگاہی بے حد ضروری ہے۔ کوئی لاکھ بتانے کی کوشش کرے مگر جب تک انسان خود تسلیم نہ کرلے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے سے کچھ بدل پائے۔ اگر کسی کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ حد درجہ حساسیت کا شکار ہے جو اس کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہے تو وہ کبھی اپنی اس عادت کو ترک نہ کرسکے گا۔ ماہرین کے خیال میں یہ اندازہ لگانا بے حد ضروری ہے کہ کیا آپ حساسیت کے اس درجے پر ہیں جہاں ماحول میں رہنا دوبھر ہوچکا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کو مدد ملے گی۔ پھر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حساس لوگ ضرورتوں سے زیادہ خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ضرورتوں کو خواہشوں کے ترازو میں رکھ کر تولنے سے زندگی بے وزن ہوجاتی ہے۔ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے سے بے کار کی الجھنوں سے نجات ملتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت خاموشی میں گزار دیں۔ کبھی گھومنے نکلیں اور قدرت کی صناعی کی تعریف کریں، ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کی فکر کرتے ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھاریں۔ حساس لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اپنی حد درجہ حساسیت سے چھٹکارا پانے کا بہترین انداز اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا درست استعمال ہے۔
لکھنا، پڑھنا، موسیقی سننا، فنون لطیفہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ خود کو بنانا سنوارنا، آپکے موڈ میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنی اس صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنی زندگی خوشگوار بنائیں۔ کوشش کریں کے مثبت لوگوں میں اٹھیں، بیٹھیں۔ حساس لوگ تنقید برداشت نہیں کرپاتے۔ تو ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کو زندگی کا مثبت پہلو دیکھنے میں مدد کریں۔ وہ لوگ جو آپ کی ذاتیات میں دخل اندازی نہ کریں اور آپ کی شخصی آزادی کا احترام کریں ان سے تعلق یقینا کسی نعمت سے کم نہیں۔
انسان چونکہ مختلف جذبات و احساسات سے دوچار رہتا ہے تو انسانی زندگی کو احساسات سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ احساسات کی نوعیت وقت، حالات اور واقعات سے نتھی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت سے بھی جدا نہیں ہوتی۔ ابن آدم ہویا بنت آدم احساسات و جذبات دونوں میں ہی برابر پائے جاتے ہیں۔
ان کی شدت البتہ ہر جگہ کم یا زیادہ ہوسکتی ہے مگر بنیاد وہی ایک ہی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر جذبات و احساسات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ یا انہیں بنانے کا آخر کار محرک ہی کیا تھا؟ تو غور کرنے پر کوئی بھی صاحب عقل یہ جان سکتا ہے کہ انسانی جسم بنا احساس کے جذبات کے بالکل ایک گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہے۔ یہاں جانور سے تشبیہ نہ دینے کی ایک ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ جذبات تو جانوروں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ پھر ایک بات اور سامنے آتی ہے کہ رشتوں کی بنیاد میں ایک اہم حصہ جذبات کا ہے۔
خون کے رشتوں میں جو کشش اور لگاؤ موجود ہوتا ہے اس کی ایک بڑی مثال وہ احساس وہ جذبہ وہ ایثار ہوتا ہے جس میں اپنی خوشی سے زیادہ اہمیت دوسروں کی خوشی کو دی جاتی ہے۔ جہاں درد ایک فرد کے سینے میں ہو تو پورا کنبہ تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ گویا احساسات کے بنا انسان ادھورا ناممکن ہے۔ یوں جیسے احساس سے عاری ہو تو وہ جاتے ہیں بس غم، احساس کرنا اور حساسیت رکھنا جہاں ایک اچھی علامت تصور کی جاتی ہے ونہی حساس لوگوں کے لیے مشکلات کا سدباب بھی ضروری ہے۔
٭ حساس لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
عمومی طور پر حساس لوگوں کی پہچان بہت واضح انداز میں ممکن نہیںہوتی۔ دراصل حساس لوگ حد سے زیادہ جوشیلے، پریشانی کا شکار اور تھکان زدہ ہوتے ہیں۔ حساس لوگوں کے ذہن میں جب کوئی نیا خیال پنپتا ہے تو وہ بے حد جوشیلے ہوجاتے ہیں۔ لیکن نتائج توقعات کے برعکس پاکر وہ بے چینی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اب ایسا ہونے کی بڑی وجہ دراصل ان کا حد سے زیادہ جذباتی پن اور تصوراتی دنیا کا شیدائی ہونا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حساس لوگ اپنی بنائی خوابوں کی دنیا میں رہنے کے اور اسی کے اصولوں کے مطابق چلنے کی اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ وہ حقیقت کا سامنا نہیں کرپاتے۔ حقیقت اور خیال دو الگ الگ دنیا ہیں جن کا سنجوگ شاید ہی ہوسکے۔
اگر نفسیات کی رو سے حساس لوگوں کی پہچان کی جائے تو ایسے افراد میں ایک خصوصیت ہوتی ہے جسے سنسری پروسیسنگ سنسٹیوٹی ایس پی ایس کہتے ہیں۔ اس خاص قسم کی خصوصیت کو دریافت کرنے والے کلینیکل سیکالوجسٹ الین ارون نے جب ایسے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا جو کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے الگ دکھائی دیتے ہیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ایس پی ایس نہ رکھنے والوں کی نسبت وہ افراد اپنے ماحول میں ہونے والے حالات و واقعات حتیٰ کے مہین تبدیلیوں کو بڑی باریکی سے جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایسے افراد کو دوسروں کی نسبت اونچی آوازیں، تیز روشنیاں، جبروتشدد سے بھرپور مناظر، تنہائی اور تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو حد سے زیادہ حساس افراد کا جب کسی سخت جان محرک سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ خود پرحد سے زیادہ بوجھ لاد لیتے ہیں جو ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے نیک شگون نہیں ہوتا۔
٭حساس ہونا بری بات نہیں
حساس افراد اپنے ماحول میں بدلاؤ اور تبدیلی کو کم ہی برداشت کرتے ہیں۔ وہ ذائقوں، فن، موسیقی، خوشبوؤں، رویوں اور موسموں میں تبدیلی کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور ایسے بدلاؤ کو خاص پسند نہیں کرتے چہ جائے کہ وہ بدلاؤ خوشگوار ہو۔ اسی کے ساتھ حساس افراد بہت درد مند ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے کے لیے خود کواس کی جگہ رکھ کر سوچتے ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے کے احساسات کی کس قدر پرواہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اچھے سامع ہوتے ہیں، دوسروں کی خواہشات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں، لوگوں کے جھوٹ سے آگاہ ہوجاتے ہیں، دوسروں کے دکھ درد میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ لوگ ان کی بات کو اہمیت دیتے اور نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔
٭یہ تو عام ہے!
سنسری پروسیسنگ سنسٹیوٹی کی خصوصیت سے تو آپ آگاہ ہیں مگر عموماً لوگ اسے غلط انداز میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی دریافت نوخیز ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے یہ خصوصیت موجود نہ تھی۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کی پندرہ سے بیس فیصد آبادی میں ایس پی ایس موجود ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خصوصیت ناصرف انسانوں میں موجود ہے بلکہ حیوانوں کی سو سے زائد انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔
٭ حساسیت نقصان دہ بھی ہے
گوکہ حساس ہونا ایک اچھی بات ہے کہ آپ دوسروں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں، اسے بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برے کو برا ہی سمجھتے ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ حد سے زیادہ حساسیت کا شکار افراد کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ جی ہاں، بات بات پر کڑھنا، ہر واقعے کودل سے لگا لینا اور کئی کئی دنوں ایک ہی بات کو مسلسل سوچتے رہنا کوئی اچھی بات نہیں۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔
اچھے برے حالات و واقعات انسان کی زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں لیکن انہیں دل سے لگالینا اور ایک موڑ کو آخری کنارہ سمجھ لینا سراسر بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ خود پر بلاوجہ کا بوجھ لادلینا اور ہر وقت کرب میں مبتلا رہنا انسان کو دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بنا دیتا ہے۔
ماحول میں وہی گزر بسر کرسکتا ہے جو ہر طرح کے حالات میں جیسنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حساس لوگ تیز خوشبوں، موسموں کے تغیر و تبدل، تیز آوازوں سے اس قدر خائف ہوتے ہیں کہ ان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ اپنے اندر کی اس شدت کو کم کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہاں کم اس لیے کہا گیا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب ختم ہوسکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ فطری چیزوں کو کم یا زیادہ کرنے کے لیے محنت کی جاسکتی ہے، انہیں ختم کردینا ممکن نہیں ہوتا۔
٭آگاہی ضروری ہے
حددرجہ حساسیت سے چھٹکارہ پانے کے لیے خود آگاہی بے حد ضروری ہے۔ کوئی لاکھ بتانے کی کوشش کرے مگر جب تک انسان خود تسلیم نہ کرلے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے سے کچھ بدل پائے۔ اگر کسی کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ حد درجہ حساسیت کا شکار ہے جو اس کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہے تو وہ کبھی اپنی اس عادت کو ترک نہ کرسکے گا۔ ماہرین کے خیال میں یہ اندازہ لگانا بے حد ضروری ہے کہ کیا آپ حساسیت کے اس درجے پر ہیں جہاں ماحول میں رہنا دوبھر ہوچکا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کو مدد ملے گی۔ پھر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حساس لوگ ضرورتوں سے زیادہ خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں۔
ضرورتوں کو خواہشوں کے ترازو میں رکھ کر تولنے سے زندگی بے وزن ہوجاتی ہے۔ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے سے بے کار کی الجھنوں سے نجات ملتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت خاموشی میں گزار دیں۔ کبھی گھومنے نکلیں اور قدرت کی صناعی کی تعریف کریں، ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کی فکر کرتے ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھاریں۔ حساس لوگ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ اپنی حد درجہ حساسیت سے چھٹکارا پانے کا بہترین انداز اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا درست استعمال ہے۔
لکھنا، پڑھنا، موسیقی سننا، فنون لطیفہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ خود کو بنانا سنوارنا، آپکے موڈ میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنی اس صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنی زندگی خوشگوار بنائیں۔ کوشش کریں کے مثبت لوگوں میں اٹھیں، بیٹھیں۔ حساس لوگ تنقید برداشت نہیں کرپاتے۔ تو ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کو زندگی کا مثبت پہلو دیکھنے میں مدد کریں۔ وہ لوگ جو آپ کی ذاتیات میں دخل اندازی نہ کریں اور آپ کی شخصی آزادی کا احترام کریں ان سے تعلق یقینا کسی نعمت سے کم نہیں۔