کراچی کا ادبی میلہ

یہ بات کافی حد تک سچ ہے کہ تخلیقی کام کرنے والے لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، سوچوں کے جنگل میں قیدی بن جاتے ہیں۔

nasim.anjum27@gmail.com

ہر سال کی طرح اس سال بھی آرٹس کونسل کے منتظمین نے چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا اعزاز حاصل کرلیا اور صدر آرٹس کونسل احمد شاہ کی کاوشیں اور محنتیں رنگ لائیں۔ یقیناً اس قدر بڑے پیمانے پر ملکوں ملکوں کے شعراء، ادباء اور ناقدین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بقول احمد شاہ کہ ساتھیوں نے جو انھیں اعتماد بخشا اس کی وجہ سے انھیں دنیا کا کوئی کام مشکل نہیں لگتا، بے شک ہمت مرداں مدد خدا، ہمت و جرأت اور اپنے پختہ ارادوں کی بدولت دنیا کا ہر شخص ہر کام انجام دے سکتا ہے، سو آرٹس کونسل کے صدر و اراکین نے اس بیڑے کو پار کرلیا اور نومبر 2013 کو یہ معرکہ بھی اردو زبان اور اس کی مختلف اصناف سخن کی قدر دانی کے حوالے سے یہ معرکہ انجام دے ڈالا۔ آرٹس کونسل میں ادبی میلہ 28 نومبر تا یکم دسمبر تک لگا رہا اور ہمارا خیال یہ ہے کہ ہر شخص نے کسی نہ کسی شکل میں استفادہ ضرور کیا ہوگا کہ علم و آگہی کی پیاس کبھی نہیں بجھتی ہے، ہمیشہ تشنگی کا احساس کارفرما رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ علم، فہم و دانش کے دریائوں کا پانی پینے کا طالب علم متمنی رہتا ہے، قدم بقدم آگے بڑھنے کی بھی یہی دلیل ہے۔

آرٹس کونسل کے منتظمین کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ کئی دنوں پر مشتمل مختلف اجلاس میں کتابوں کی رونمائی کا بھی فریضہ انجام دیتے ہیں، مشاعرہ بھی کیا جاتا ہے جس میں ذوق و شوق سے شعراء کرام شرکت کرتے ہیں۔ ''اعتراف کمال'' کے طور پر کسی ایک خاص شخصیت کی ادبی، شعری سرگرمیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے، اس کے فن کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ ایک اچھی روایت ہے کہ زندگی میں ہی اس کی صلاحیتوں اور لیاقت کے گن ببانگ دہل گائے جائیں اور اسے جانا اور مانا جائے، یہی زندہ قوموں کی ریت ہوا کرتی ہے، ورنہ بعد از مرگ اس کی تحریروں کو سراہا یا اس کی خوبیوں کو اجاگر اور اسے ایوارڈز سے نوازا جائے اس طریقہ کار سے مرنے والے کو بھلا کیا خوشی اور راحت نصیب ہوگی۔

اس بار مستنصر حسین تارڑ کے کمالات اور ادبی سرگرمیوں کا اعتراف کیا گیا۔ صدارت عبداﷲ حسین کی تھی جوکہ ناول نگاری خصوصاً ناول ''اداس نسلیں'' کے حوالے سے اپنی مخصوص شہرت اور شناخت رکھتے ہیں۔ ''راکھ'' تارڑ صاحب کا مقبول ناول ہے، اسے بھی بے حد سراہا گیا۔ ضیاء الحسن نے کہا کہ تارڑ صاحب کے ناول نصاب میں شامل ہیں۔ تارڑ صاحب نے ناول نگاری کے بارے میں فرمایا کہ ناول نگاری ایک محنت طلب کام ہے، اس کے لکھنے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے، اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ''راکھ'' کو عبداﷲ حسین نے بڑا ناول قرار دیا۔ یہ بڑی بات ہے اور میرے دوسرے ناولوں کی بہ نسبت ''خس و خاشاک زمانے''، ''راکھ'' اور ''بہائو'' پر بہت زیادہ لکھا گیا، انھوں نے اپنے ناولوں کے بارے میں یہ بات بھی بتائی کہ میرے ناولوں میں دریا موجود ہیں، راوی، چناب، جہلم اور ستلج کا ذکر ملتا ہے، لڑائی اور جنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ''جنگ'' پاگل لوگوں کی Activity ہے اور رائٹر ایب نارمل ہوتے ہیں اور میں بھی ایب نارمل ہوں۔ میرے پاس ایسے ہی لوگ آتے ہیں، تارڑ صاحب کی بات دل کو لگتی ہے۔

یہ بات کافی حد تک سچ ہے کہ تخلیقی کام کرنے والے لوگ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں، سوچوں کے جنگل میں قیدی بن جاتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی ان پر ذمے داریوں کا بھاری بوجھ ہوتا ہے جس کے تلے ان کا اطمینان اور سکون دب جاتا ہے اور وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے تحت وہ چھوٹی موٹی غلطیاں کرتے ہیں۔ نسیان کا مرض بھی حاوی ہوجاتا ہے۔ بھولنے کی عادت تو دوسرے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ لکھنے والے چونکہ دہری ذمے داریاں سنبھالتے ہیں، ایک طرف من کی سلگتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں تو دوسری طرف دنیاوی امور ان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ہر کسی کے ساتھ ایسا معاملہ ہرگز نہیں۔ بہت سے لکھنے والے حضرات اپنا ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ کامیاب بھی ہیں اور کچھ ناکام بھی کہ تخلیقی کرب اور افکار و خیالات کا بہائو بہت سے دکھوں اور مسائل کی نذر کردیتا ہے، بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔


ہر سال کی طرح اس سال بھی ''بیاد رفتگاں'' کا اجلاس منعقد ہوا، نظامت ڈاکٹر جمال نقوی کی تھی۔ جمال نقوی کی نظامت کی یہ خوبی قابل تعریف ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں مقرر کا تعارف کراتے ہیں، ڈاکٹر فرمان فتح پوری تنقید و تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اور بڑا نام ہے، ویسے بھی وہ بڑے انسان تھے، بے حد منکسرالمزاج، نرم خو اور بہت اچھے مقرر و تنقید نگار۔ ڈاکٹر ظفر اقبال نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمیت و قابلیت اور افکار عالیہ کا اپنی تقریر میں احاطہ کرنے کی کوشش کی لیکن مختصر سے وقت میں یہ ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہاکہ انھوں نے تحقیق کی طرف بہت سے لوگوں کو راغب کیا۔ وہ سچے اور مخلص انسان تھے، انھوں نے مولوی عبدالحق کی روایت کو آگے بڑھایا۔

کتابوں کی رسم اجرا میں جو کہ جمعۃ المبارک کے دن پانچویں اجلاس میں تھی، اخلاق احمد کی کتاب ''ابھی کچھ دیر باقی ہے'' اور اے خیام کا ناول ''سراب منزل'' پر گفتگو ہوئی۔ نظامت کے فرائض پروفیسر اوج کمال نے انجام دیے۔ اخلاق احمد کے افسانوں پر وسعت اﷲ خان نے دلچسپ انداز میں بات کی۔ سامعین محظوظ ہوئے، اخلاق احمد کا افسانہ ''بھائی جان یا بھائی صاحب'' اور دوسرے کئی افسانے میرے بھی مطالعے میں رہے ہیں۔ ''سراب منزل'' پر مضمون پڑھنے والے صبا اکرام تھے۔ انھوں نے بتایاکہ یہ ناول مڈل کلاس کے طبقے کے گرد گھومتا ہے اور فرحان اس کا مرکزی کردار ہے جو دولت مند بننے کے لیے غیر قانونی طور پر ہالینڈ جاتا ہے۔ اوج کمال نے تقریب کے اختتام پر کہا اے خیام سینئر افسانہ نویس و ناول نگار ہیں، انھیں ہم آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں۔ بروز اتوار پہلے اجلاس میں افسانہ ''اک صدی کا سفر'' جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے کہ اس پروگرام میں مختلف قلمکاروں نے افسانوی ادب کے بارے میں روشنی ڈالی۔ علی حیدر ملک نے ''علامتی افسانہ اکیسویں صدی میں'' موضوع کے حوالے سے بات کی۔ بیانیہ اور علامتی افسانوں اور ان کے رجحانات کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی اور علامتی افسانوں کی ابتدا کے بارے میں کہاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی وجہ سے علامتی افسانے تخلیق کیے جانے لگے، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں بھی علامتی افسانے لکھے گئے لیکن وہاں تو مارشل لاء نہیں لگا تھا۔

زاہدہ حنا کی زیادہ تر تحریریں خواہ وہ کالم ہوں، مضامین یا افسانے ہوں یا ناول ان میں تاریخ کا رنگ نمایاں ہوتا ہے، تحریر کے کسی نہ کسی جھروکے سے تاریخ جھانکتی بلکہ بولتی ہوئی نظر آتی ہے، ''بیسویں صدی میں افسانے کے اہم سنگ میل'' ان کے مقالے کا عنوان تھا۔ مختصر ترین ہونے کے باوجود ان کا مضمون مدلل تھا، انھوں نے جلیانوالہ باغ اور ''انگارے'' جو کہ ترقی پسند مصنفین کے افسانوں کا مجموعہ ہے، کا بھی ذکر کیا۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے موجودہ منظرنامے میں افسانے کا رجحان کم ہونے کا احساس دلایا اور ایک معلوماتی مضمون پیش کیا۔ مجموعی طورپر آرٹس کونسل میں ہونے والا سالانہ میلہ کامیاب رہا۔

ہمیشہ کی طرح کچھ حضرات ناخوش بھی تھے لیکن اب کیا کیا جائے کہ تمام لوگوں کی قدر دانی، عزت افزائی اور ان کی خوشیوں کا خیال رکھنا ذرا ناممکن سا نظر آتا ہے۔ حکومت سندھ کی اعلیٰ شخصیات نے افتتاحی اور اختتامی اجلاس میں شرکت کرکے مکمل طورپر اس کانفرنس کو اہم بنادیا۔
Load Next Story