ایف آئی اے کے بعد پی ٹی اے کی بھی سنتھیارچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مخالفت
سنتھیا رچی کے وکیل نے بے نظیر بھٹو سے متعلق عدالت میں پیش کیے گئے ٹویٹ کو جعلی قرار دے دیا
HYDERABAD:
ایف آئی اے کے بعد پی ٹی اے نے بھی بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس پر امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مخالفت کردی ہے۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس پر مقدمہ اندراج کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ کہ وہ صرف انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں درج دفعات کے تحت مقدمہ درج کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے قانون واضح ہے کہ متاثرہ شخص یا وہ کم عمر ہو تو اس کا گارڈین درخواست دے سکتا ہے۔
پی ٹی اے کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس متنازع ویب سائٹس کی بلاکنگ یا ریمووول کے اختیارات ہیں، مقدمہ اندراج کی درخواست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بنتا۔
دوران سماعت فاضل جج نے استفسار کیا کہ جن کے بارے میں بات ہوئی انہیں کوئی مسئلہ نہیں؟ کیا ان کے ورثا موجود ہیں؟ ، درخواست گزار پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر شکیل عباسی کے وکیل ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے امریکی بلاگر کے ٹویٹ کی کاپی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹویٹ سے پیپلز پارٹی کا ہر کارکن متاثرہ فریق ہے۔ یہ سائبر ٹیررازم کا معاملہ ہے۔ مقدمہ درج کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی بلاگر کے وکیل ناصر عظیم خان نے کہا عدالت میں پیش کیا گیا ٹویٹ اوریجنل نہیں، اگر ٹویٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ سائبر کرائم کا نہیں بلکہ بدنام کرنے پر ہتک عزت کا مقدمہ بنتا ہے۔ یہ سارا معاملہ 2011 میں ریپ اور جنسی ہراسانی سے شروع ہوتا ہے، رحمان ملک نے ان کی موکلہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور یوسف رضا گیلانی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا اور اس متعلق 2011 میں ہی واشنگٹن کو انفارم کر دیا گیا تھا۔ اس لئے مقدمہ اندراج کی درخواست خارج کی جائے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو 15 جون کو سنایا جائے گا۔
ایف آئی اے کے بعد پی ٹی اے نے بھی بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس پر امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مخالفت کردی ہے۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جہانگیر اعوان نے امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی کے خلاف بے نظیر بھٹو سے متعلق ٹوئٹس پر مقدمہ اندراج کی درخواست پر سماعت کی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ کہ وہ صرف انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں درج دفعات کے تحت مقدمہ درج کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے قانون واضح ہے کہ متاثرہ شخص یا وہ کم عمر ہو تو اس کا گارڈین درخواست دے سکتا ہے۔
پی ٹی اے کے نمائندے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس متنازع ویب سائٹس کی بلاکنگ یا ریمووول کے اختیارات ہیں، مقدمہ اندراج کی درخواست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بنتا۔
دوران سماعت فاضل جج نے استفسار کیا کہ جن کے بارے میں بات ہوئی انہیں کوئی مسئلہ نہیں؟ کیا ان کے ورثا موجود ہیں؟ ، درخواست گزار پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر شکیل عباسی کے وکیل ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ نے امریکی بلاگر کے ٹویٹ کی کاپی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹویٹ سے پیپلز پارٹی کا ہر کارکن متاثرہ فریق ہے۔ یہ سائبر ٹیررازم کا معاملہ ہے۔ مقدمہ درج کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی بلاگر کے وکیل ناصر عظیم خان نے کہا عدالت میں پیش کیا گیا ٹویٹ اوریجنل نہیں، اگر ٹویٹ کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ سائبر کرائم کا نہیں بلکہ بدنام کرنے پر ہتک عزت کا مقدمہ بنتا ہے۔ یہ سارا معاملہ 2011 میں ریپ اور جنسی ہراسانی سے شروع ہوتا ہے، رحمان ملک نے ان کی موکلہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور یوسف رضا گیلانی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا اور اس متعلق 2011 میں ہی واشنگٹن کو انفارم کر دیا گیا تھا۔ اس لئے مقدمہ اندراج کی درخواست خارج کی جائے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو 15 جون کو سنایا جائے گا۔